tag:blogger.com,1999:blog-32022190710448992262024-03-05T21:53:34.384-08:00jahanenaatWafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.comBlogger1540125tag:blogger.com,1999:blog-3202219071044899226.post-90316786258098628812019-10-06T12:56:00.000-07:002020-03-27T03:55:49.623-07:00ڈاکٹر شکیل اعظمی کی نعتیہ شاعری<h1>ڈاکٹر شکیل اعظمی کی نعتیہ شاعری</h1><br/><h2>ظفرالاسلام<br/>شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی</h2><br/>Mb.9336239933<br/>Email.zafar.ghosi@gmail.com<br/>لفظ ’’ نعت‘‘ عرف عام میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف اور ثنا کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ صحابۂ کرام حضوسے بے پناہ محبت کرتے تھے ۔ آپ کی شان میں ہمہ وقت درود و سلام کا گلدستہ پیش کرتے تھے۔ عربی زبان میں سب سے پہلے نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرنے والے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ہیں۔ علامہ بو صیری علیہ الرحمہ کا قصیدہ بردہ شریف جوعربی میں ہے نعت ہی کے زمرے میں آتا ہے۔ ساتویں صدی ہجری میں لکھے گئے اس قصیدہ کو آج بھی اہل ذوق وجد کے انداز میںپڑھتے ہیں۔ اس کو آج دنیا کے تمام اسلامی ممالک بالخصوص مصر، شام، ترکی کے علاوہ ہندو پاک میں بھی شوق سے پڑھا جاتا ہے۔آج دنیا کی تقریباً تمام زبانوں میں نعت لکھی اور پڑھی جاتی ہے۔ ہندوستان میںاولاً فارسی زبان میں ایک بڑی تعداد میں نعت لکھی گئی۔ شیخ فریدالدین عطار، امیر خسرو دہلوی، مولانا جامی، عرفی، قدسی جیسے تمام مشہور و معروف شعرا نے عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں نعت نبی پیش کیں۔<br/>اردو زبان میں نعت نگاری کی ابتدا اس کے آغاز کے ساتھ ہی وجود میں آجاتی ہے۔ لیکن اولاً کس شاعر نے سب سے پہلے نعت پیش کی ہم یہ وثوق سے نہیں کہہ سکتے۔ اس کے اولین نمونے ہمیں مثنویوں میں نظر آتے ہیں۔ شاعر مثنوی کی ابتدا میں حمد کے بعد نعت کے چند اشعار لکھتا تھا۔اردو کے کس شاعر نے محض نعت کو اپنا موضوع سخن بنایا اس کے متعلق ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:<br/>(اردو میں نعت نگاری) ’’اس سعادت مندی کا اولین سہرا مولانا غلام امام شہید ( م ۱۲۹۳ھ) کے سر ہے۔ اس کے بعد کافی مرادآبادی ، لطف علی لطف بریلوی، محسن کاکوروی، اور ابرار عالم صابری فتح پوری نے اس روایت کو آگے بڑھایا۔’’پھر امام عشق و ارادت اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ ورضوان نے نہ صرف اس جز و ایمان صنف (نعت) کو اپنے سینے سے لگایا بلکہ اسے معراج کمال تک پہنچایا۔‘‘ (’’مقدمہ‘‘ سیل نور، از ، نثار کریمی، ۲۰۰۷ ص ۱۵)<br/>یقینا نعت نگاری ایک مشکل فن ہے اس کا اعتراف معتبر عالم دین نے کیا ہے۔ امام احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:<br/>’’ حقیقتاً نعت لکھنا بہت مشکل کام ہے۔ اس میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے۔ اگر شاعر بڑھتا ہے تو الوہیت میں پہنچ جاتا ہے اور کبھی گرتا ہے توتنقیص ہوتی ہے۔ حمد آسان ہے اس میں راستہ صاف ہے جتنا چاہے بڑھ سکتا ہے لیکن نعت شریف میں سخت حد بندی ہے۔‘‘ ( تہنیت النسا تہنیت، ایم۔آر پبلیکیشر،۲۰۰۹ ص۱۲)<br/>مفتی مجیب اشرف رضوی لکھتے ہیں:<br/>’’حقیقت یہ ہے کہ فن نعت گوئی بہت مشکل فن ہے، اتنا مشکل کہ کچھ لوگ اس کی راہ کی دشواریوں کو دیکھ کر گھبرا گئے اور صنف شاعری سے ہی خارج کر دیا۔ ایسا کرنا ان کی پست ہمتی، کم مائیگی اور ذہنی مجبوری تھی۔‘‘ (گل قدس، برکات اکیڈمی، ۲۰۱۰، ص ۲۲)<br/>یقینا نعت لکھنا ایک مشکل فن ہے۔ اس فن میں دیگر اصناف کے مقابلے کہیں زیادہ احتیاط و احترام کی ضرورت ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ کم پڑھے لکھے شعرا نے بھی فن نعت گوئی میں طبع آزمائی کی ہے ان میں بعض کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ مگرحقیقت میں عمدہ نعت لکھنے کے لیے ضروری ہے کہ شاعر کا مطالعہ وسیع اور نظر گہری ہو۔ اس کی تعلیم قرآن و حدیث کی روشنی میں ہوئی ہو۔جبھی وہ نعت گوئی کے حق کو پوری طرح سے ادا کر سکتا ہے۔ چوںکہ یہ تمام خصوصیات شکیل اعظمی میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ وہ عالم بھی ہیں، ادیب بھی ہیں، شاعر بھی ہیں اور نعت کے فن اور اس کی عظمت کو خوب سمجھتے ہیں۔<br/>ڈاکٹر شکیل اعظمی کی پیدائش ۱۲؍ ستمبر ۱۹۴۲ ء کو محلہ کریم الدین پور بگہی، پوسٹ گھوسی ضلع اعظم گڑھ ( موجودہ ضلع مئو) یوپی میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ شمس العلوم گھوسی میں ہوئی۔ بعدہ جامعہ اشرفیہ مبا رک پور ضلع اعظم گڑھ سے درس نظامی کی سند حاصل کی۔ فراغت کے بعد علم طب کی طرف راغب ہوئے اور یونانی میڈیکل کالج الہ آباد سے ۱۹۶۴ء میں ایف.ایم.بی.ایس کی تعلیم اول پوزیشن کے ساتھ مکمل کی۔ ابتدائی زمانے سے ہی شاعری کا شوق تھا۔ ۱۹۶۱ء میں پہلی نظم لکھ کر اس شوق کو مزید توانائی بخشی جو ہنوز جاری ہے۔ پہلی غزل ماہنامہ ’’بیسویں صدی‘‘ میں ۱۹۷۱ء میں شائع ہوئی۔ زندگی کی تمام تر مصروفیات کے باوجود آپ کا شعری سفرتقریباً۵۷ برس مکمل کر چکا ہے۔ اب تک چار کتابیں ’’ گل قدس ، حرف ثنا، آشوب آگہی اور شعور نظر‘‘ شائع ہو چکی ہیں۔<br/>اردو آج ہندوپاک کی مقبول ترین زبان ہے۔ اس میں نعت کی روایت دو سو سال سے بھی تجاوز کر چکی ہے اور بے شمار شعرا نے فن نعت گوئی میں طبع آزمائی کی ہے۔ اس بھیڑ میں شکیل اعظمی نے اپنی ایک منفرد شناخت قائم کی ہے۔ شاعری کی ابتدا غزل سے ہوئی مگر جلد ہی نعت کی طرف قلبی رجحان ہو گیا۔ خودلکھتے ہیں:<br/>’’ پھر بتقاضائے ذوق ایمانی غزل اور نظم نگاری کا سلسلہ کم ہوتا گیا، اور نعت گوئی کا ذوق بڑھتا گیا، اور اب تو میں نے اپنے کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ثنا اور نعت گوئی کو اپنا وظیفۂ حیات اور نعت پاک کی صورت میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور خراج عقیدت و محبت پیش کرنا اپنا شعار زندگی بنا لیا ہے۔‘‘ (گل قدس، ص ۸)<br/>لکھتے ہی رہیے نعت رسول خدا شکیلؔ<br/>آپ اپنا کوئی وقت نہ برباد کیجئے<br/>شکیل اعظمی کا نعتیہ مجموعہ ’’گل قدس‘‘ کے نام سے ۲۰۱۰ء میں برکات اکیڈمی سے شائع ہوا۔ یہ مجموعہ ۱۴۵ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کی ابتدا حمدباری تعالیٰ ’’ مجھ کو غم سے رہائی دے مولا‘‘ سے ہوتی ہے۔ اس میں کل ۵۸ نعت شامل کی گئی ہیں۔ کتاب کا انتساب اپنے والدین اور حافظ ملت شاہ عبد العزیز محدث مرادابادی، بانی الجامعۃالاشرفیہ مبارکپور اعظم گڑھ کے نام ہے۔ عرض حال کے عنوان سے مصنف نے اپنی شاعری کی ابتدا اور گھر کے علمی وادبی ماحول کا ذکر کیا ہے۔ جس نے ان کو شاعری کی جانب متوجہ کیا۔ انھیں اس بات کا احساس بھی ہے کہ وہ نعت کا حق پوری طرح ادا تو نہیں کر پائیں گے۔لیکن دل کی تسکین کے لیے اس مشغلہ کو اپنا ئے ہوئے ہیں۔ ایک شعر میں کہتے ہیں:<br/>نعت نبی کا حق تو نہ ہوگا ادا شکیلؔ<br/>اپنے قلم کا فرض ادا کر رہا ہوں میں<br/>شکیل اعظمی ایک بزرگ عالم دین، بہترین مصنف، اعلیٰ پایہ کے شاعر اور حاذق طبیب ہیں۔ ان عظمتوںکا اعتراف عہد حاضر کے کئی ادیبوں اور شاعروں نے کیا ہے۔ بیکل اتساہی آپ کی خوبیوں کا اعتراف ان الفاظ میں کرتے ہیں:<br/>تمہارے روپ کے ہیں رنگ کتنے<br/>جو دیکھے اس کو حیرانی لگے ہے<br/>(گل قدس، ص ۲۰)<br/>نعتیہ شاعری محض لفظوں کی تراش خراش، ردیف اور قافیہ کے استعمال کا نام نہیںہے ۔ بلکہ چند لوازمات اور تقاضوں کی پابندی باشعور نعت گو شعرا کے لیے از حد ضروری ہے ۔ ان میں سب سے اولین شرط سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچا عشق ہے۔ اسی مضمون کو شکیل اعظمی نے پیش کیا ہے:<br/>عشق کا سچا جذبہ ہو تو کیف و اثر ہو شعروں میں<br/>ورنہ نعت کا ہر اک مصرع لفظوں کا انبار لگے<br/>عاجزی و انکساری صحابۂ کرام اور بزرگان دین کا شیوہ رہا ہے۔ شکیل اعظمی کے کلام میں عاجزی اور انکساری کا جذبہ بدجۂ اتم پایا جاتاہے۔ وہ اللہ کے حضور والہانہ انداز میں اپنے مسائل و پریشانیوں کے خاتمہ کی دعا کرتے ہیں۔ کیوںکہ وہ ایک عالم باعمل ہیں اور اللہ کی رحمت سے پر امید ہیں:<br/>میرے اللہ مسائل مرے آساں کر دے<br/>ان بھڑکتے ہوئے شعلوں کو گلستاں کر دے<br/>نعت کا موضوع ہی رسول پاک سے محبت، ان کی تعریف و توصیف بیان کرنا ہے۔ نبی کا امتی روضۂ رسول صلی اللہ وسلم کی زیارت کو اپنے لیے معراج حیات سمجھتا ہے۔ سچا عاشق رسول گنبد خضریٰ، در رسول اور مدینے کی گلیوں سے بھی بے پناہ محبت کا اظہار کرتا ہے۔ وہاں کی حاضری کے لیے ہرساعت بے قرارہتا ہے۔ گنبد خضریٰ کے سائے میں پہنچ کر ہی اس کو قرار نصیب ہوتا ہے۔ ان کے نعتیہ کلام میں انھیں جذبات اور تڑپ کا احساس ہوتا ہے۔ اشعار ملاحظہ ہوں:<br/>در رسول پہ اے کاش حاضری ہوتی<br/>نصیب مجھ کو بھی معراج زندگی ہوتی<br/>میں ہوتا، گنبد خضرا کی چاندنی ہوتی<br/>تو ذکر پاک کی لذت کچھ اور ہی ہوتی<br/>اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے اگر محمد صلی اللہ وسلم کو پیدا کرنا میرا مقصد نہ ہوتا تو یہ زمین و آسمان، یہ چاند ستارے، سورج اور پہاڑ کو پیدا نہ کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار اس وقت سے کیا جا رہا تھا جب سے دنیا قائم ہوئی۔ جملہ انبیاء کرام نے آپ کی بعثت کی خبریں اپنے اپنے امتیوں کو دیں۔ رسول پاک جب دنیا میں تشریف لائے تو وہ صبح کا وقت تھا۔ اسی وجہ سے آج بھی صبح کے وقت رنگینی اور غنچے لالہ زار ہوا کرتے ہیں۔ ان اشعار سے اس کی ترجمانی ہوتی ہے۔<br/>منتظر جس کا ازل سے تھا جہان ہست و بود<br/>وہ خدا آگاہ سوئے بزم عام آہی گیا<br/><br/>کس کی آمد کی خوشی میں آج تک وقت سحر<br/>غنچہ کھلتا جائے ہے، سبزہ لہکتا جائے ہے<br/>نعت پاک میں درود و سلام پیش کرنا بھی نعت کے فن میں شامل ہے۔ اللہ رب العزت قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔ ’’ان اللہ و ملٰئکتہ یصلون علی النبی یا ایھا الذین اٰمنو صلو علیہ وسلمو تسلیما‘‘ ترجمہ (بیشک اللہ اور اس فرشتے درود بھیجتے ہیںاس غیب بتانے والے (نبی) پراے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو) (کنزالایمان ص ۶۱۷) شکیل اعظی نے اس روایت کو برقرار رکھا ہے۔ اشعار ملاحظہ ہوں:<br/>وہ سب سے بہتر وہ سب سے برتر درود ان پر سلام ان پر<br/>نہیں ہے خلقت میں کوئی ہمسر درود ان پر سلام ان پر<br/>کریں جو کونین پر حکومت جو باٹیں دونوں جہاں کو نعمت<br/>وہ باندھیں اپنے شکم پہ پتھر درود ان پر سلام ان پر<br/><br/>سرمایۂ دل ہے یاد نبی، سرمایۂ جاں ہے ذکر نبی<br/>پڑھتے رہو پیہم صلّ علیٰ، ہے سرور دیں کی بزم سجی<br/>شکیل اعظمی نے حیات رسول کے واقعات کو اپنی شاعری میں بڑی چابک دستی سے پیش کیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بے سایہ ہونا۔جس کا ذکر حدیث پاک میں بھی آیاہے۔ آپ دشمنوں کے بچوں سے بھی محبت سے پیش آتے تھے۔ ایک جنگ کا واقعہ ہے کہ جس میں چند بچے مارے گئے۔ اللہ کے رسول بہت زیادہ رنجیدہ ہوئے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول للہ وہ کفار کے بچے تھے۔ آپ نے فرمایا وہ بچے تو تھے۔ یوم فتح مکہ کو بھلا کون بھلا سکتا ہے۔ جب آپ نے اپنے کفار دشمنوں کو معافی کا پیمانہ دے دیا۔اشعار میں انھیں واقعات کی جانب اشارہ ہے:<br/>اسے بھی بخش دیا جس نے ظلم ڈھایا ہے<br/>اسے بھی پیار کیا جس نے دل دکھایا ہے<br/>وہ ایک نور مجسم کہ جس کا سایا نہیں<br/>تمام عالم امکاں پہ اس کا سایا ہے<br/>حمد ایک علاحدہ صنف ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف بیان کی جاتی ہے۔ لیکن نعتیہ کلام میں حمد کے اشعاربھی کثرت سے پایے جاتے ہیں۔ یہ شاعری کی قدیم طرز ہے۔ شکیل اعظمی نے بھی اس طرزسخن کو اختیار کرتے ہوئے اپنے نعتیہ کلام میں حمد کے اشعار پیش کیے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:<br/>قوم مسلم ہو چکی خوار و تباہ<br/>بخش دے یا رب اسے پھر عز وجاہ<br/>کر نہ دے مغلوب شیطانوں کا زور<br/>مانگتے ہیں اے خدا تیری پناہ<br/>دعا رَبِّ کائنات کے نزدیک بہت ہی پسندیدہ عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ بندوں کی دعا کو خود سنتا ہے۔ عاجزی و انکساری کے ساتھ دعا کرنا ، اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا، ان پر نادم و شرمندہ ہونا مومن کے لیے ایسا ہی ہے گویا اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔ دعا میں اگر اللہ کے محبوب کا وسیلہ تلاش کیا جائے تو یہ اور ہی پسندیدہ عمل ہے۔ شاعر نعت رسول میں اپنی تباہی و بربادی کا بیان، دشمنوں کے ظلم و ستم کا گلہ شکوہ کرتے ہوئے اللہ سے دعا کرتا ہے۔ ایسے ہی واقعات کو شکیل اعظمی نے بھی بیان کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:<br/>ہر اک جانب سے ہے یلغار پیہم یا رسول اللہ<br/>نہ ہوجائیں ہمارے حوصلے کم یا رسول اللہ<br/>کریں جو حکم پر تیرے عمل ہم یا رسول اللہ<br/>تو پھر ہوگا نہ دنیا کا کوئی غم یا رسول اللہ<br/>کرم کی اک نظر اب ضبط کی طاقت نہیں باقی<br/>ستم ڈھاتے ہیں دشمن ہم پہ ہر دم یا رسول اللہ<br/>نعت گوئی میںجہاں حضور کی سیرت و کردار، عادات و خصلات کا ذکر کیاجا تا ہے۔ وہیں جنگ و جدال کے واقعات کی تفصیل، معراجـ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان، معجزات کا ذکرمثلاً کنکریوں کا کلمہ پڑھنا، چاند کا دو ٹکڑے ہونا، سورج کا دوبارہ نمودار ہونا وغیرہ کا ذکر بھی اکثر شعرا کرتے ہیں۔ شکیل اعظمی نے بھی ان مضامین کو اپنی نعت میں سمیٹا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:<br/>بنا دے آج بھی شاخوں کو صورت شمشیر<br/>کہ ہم سے بر سر پیکار ہیں سناں والے<br/><br/>کبھی کلمہ پڑھنے لگے حجر کبھی سینہ چاک کرے قمر<br/>کبھی شمس بدلے رخ سفر یہ مرے نبی کا کمال ہے<br/>اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں حضور کو یٰس طٰہ ٰاور مدثر جیسے ناموں سے یاد کیا ہے اپنے محبوب کی مدح و ثنا فرمائی ہے۔ جس ذات پاک کی مدح اللہ نے کی ہو اس کی مدح سرائی بندوں سے کہاں ممکن ہے۔شاعر نے اسی جانب اشارہ کیا ہے۔<br/>حق تعالیٰ خود ہے جب مداح نام مصطفی<br/>پھر سمجھ پائے گا کیا کوئی مقام مصطفی<br/>کہہ دیا طٰہٰ کہیں یٰس و مدثر کہیں<br/>رب نے رکھا کتنا پیارا پیارا نام مصطفی<br/>حب رسالت اور نبی کریم صلی اللہ وسلم سے الفت و محبت کا جذبہ جس کے دل میں سما جاتا ہے۔ دنیا کی دیگر چیزیں اس کے لیے بے لطف و بے معنی ہو جاتی ہیں۔جو امتی آقا کی محبت کا جام نوش کر لیتا ہے وہ دنیا کی ہر شے سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ شکیل اعظمی کے دل میں رسول سے قلبی عشق ہے۔ مفتی مجیب اشرف رضوی ان کے متعلق لکھتے ہیں:<br/>’’آپ کے اندر عشق سرور کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کا نکھرا ہوا رنگ و آہنگ پایا جاتا ہے۔ آپ کے جذبۂ عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے بہت زیادہ اس وقت محسوس کیا جب موصوف نے ۱۹۹۸ میں فقیر کے ساتھ حرمین طیبین کی حاضری کی سعادت حاصل کی، مکہ مکرمہ بالخصوص مدینہ منورہ کی حاضری کے دوران قدم قدم پر آپ کی اس شیفتگی اور وارفتگی کا برملا اظہار ہوتا رہا۔‘‘ (گل قدس، برکات اکیڈمی،۲۰۱۰، ص ۲۲)<br/>کیوں کر نہ ہو وہ فکر دو عالم سے بے نیاز<br/>ہاتھوں میں جس کے حب رسالت کا جام ہے<br/><br/>پھر کبھی بیگانۂ ہوش و خرد ہوتا نہیں<br/>جو بھی صرف اک بار پی لیتا ہے جام مصطفی<br/>حضور کے حسن و جمال کا ذکر بارہا صحابۂ کرام نے احادیثِ مبارکہ میں کیا ہے۔آپ جیسا حسین وجمیل اللہ نے نہ کسی انسان کو اب تک پیدا کیانہ کوئی قیامت تک پیدا ہوگا۔ خود رب کعبہ نے آپ کے رخسار اور گیسو کی تعریف قرآن میں کی ہے۔ آپ کے گیسو کو والّیل اور چہرے کو التمش کہا ہے۔ شکیل اعظمی کے کلام میں بھی یہ مضامین ملتے ہیں۔ ملاحظہ ہوں:<br/>شفق کے رنگ میں شمس و قمر میں تاروں میں<br/>کہاں کہاں نہیں پہنچا تیرے جمال کا نور<br/>آپ اتنے جو اللہ کو پیارے نہیں ہوتے<br/>توصیف میں قرآن کے پارے نہیں ہوتے<br/>نعت پاک میں حضور کی سیرت نگاری ، ان کی تعریف و توصیف، ان کے کرامات و معجزات وغیرہ کا بیان اکثر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ حضور کے شہر مدینہ جانے کی تڑپ، اس کے دروددیوار سے الفت و محبت، اس کی خاک کو سرمہ بنانے کی خواہش، مدینہ میں موت آنے کی دعا جیسے موضوعات کو شعراپیش کرتے ہیں۔ ایک سچے عاشق رسول کی یہ دلی خوہش بھی ہوتی ہے کہ اسے بار بار دیدار مدینہ نصیب ہو۔ شکیلؔ اعظمی کی نعتیہ شاعری کے مطالعہ سے ہمیں ان کی مدینہ سے دلی وارفتگی، قلبی لگاؤ اور والہانہ الفت و محبت کا احساس ہوتا ہے۔ اس ضمن کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:<br/>خدا کرے کہ تمنا یہ دل کی پوری ہو<br/>مروں میں کوچۂ طیبہ میں زندگی کے لیے<br/><br/>ایک سچے عاشق رسول کو جب حج بیت اللہ اور مدینہ منورہ کی زیارت وسعادت نصیب ہوجائے۔ پھر اس کی خوشی و مسرت کا کیا کہنا۔ اس کیفیت کا اندازہ صرف وہ شخص لگا سکتا ہے جسے وہاں کی زیارت کا شرف حاصل ہو چکا ہو۔ چوںکہ شاعر کی نظر زیادہ گہری ہوتی ہے وہ ان مقامات کا زیادہ گہرائی سے مطالعہ کرتا ہے۔ پھر اس سرزمین کے ہر ہر گوشے ، اورہر ہر لمحہ کو اپنے کلام کا موضوع بناتا ہے۔ شکیل اعظمی نے سفر مدینہ منورہ و مکہ معظمہ کے واقعات اور حالات کو بڑی خوبصورتی سے ایک نعت میں سمویا ہے۔ مندرجہ ذیل نعت کو اگر ان کا سفر نامۂ حج کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس کے ہر ہر لفظ میںعشق کا جذبہ نظر آتا ہے۔ ملا حظہ ہو:<br/>ہے مدینہ دیار حسن و جمال<br/>اس کے لیل و نہار کیا کہنا<br/>اک گنہگار ہے گناہوں پر<br/>اس قدر شرمسار کیا کہنا<br/>سامنے جلوہ گاہ جاناں ہے<br/>اے دل بیقرار کیا کہنا<br/>شوق سے آنکھوں میں لگاتے ہیں<br/>ان کے در کا غبار کیا کہنا<br/>وہ تو سب دل کا حال جانتے ہیں<br/>ان سے پھر حال زار کیا کہنا<br/>گرد کعبہ طواف کرتے ہیں<br/>ہو کے دیوانہ وار کیا کہنا<br/><br/>سنگ اسود پہ چومتے ہیں ہم<br/>نقش لب ہائے یار کیا کہنا<br/>قبلہ رو ہو کے آب زمزم کا<br/>پینا یوں بار بار کیا کہنا<br/>حاجیوں کا منیٰ کی وادی میں<br/>جوش رمیٔ جمار کیا کہنا<br/>وقت رخصت دیار طیبہ سے<br/>آنکھیں ہیں اشکبار کیا کہنا<br/>سبز گنبد کو چشم حسرت سے<br/>دیکھنا بار بار کیا کہنا<br/>ایک دیوانہ ہو کے ان سے جدا<br/>روتا ہے زار زار کیا کہنا<br/>شہر یار حرم کے در پہ شکیلؔ<br/>جان و دل ہے نثار کیا کہنا<br/>حج بیت اللہ کی سعادت اور مدینہ منورہ کی زیارت کے بعدایک شاعرکی فکر میں مناسب تبدیلی نظر آتی ہے۔ اس کے انداز بیان میں وسعت آجاتی ہے۔ وہ شعر کہتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سارے مناظر اس کی آنکھوں کے سامنے گردش کر رہے ہیں۔ وہ کھلی ہوئی آنکھوں سے ان خوبصورت مناظر کا نظارہ کر رہا ہے۔ اس پاک سرزمین کا ادب و لحاظ ہر حاجی کے لیے اولین شرط ہے۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی عظمت کس قدر شاعر کے دل میں بسی ہوئی ہے۔ وہ شہر مدینہ کے ذرے اور خاک کو تعظیم کے قابل خیال کرتا ہے۔ شاعرکے احساس و جذبات ملاحظہ ہوں:<br/>کتنی آرزوں سے پہنچا ہوں مدینے میں<br/>دل کی دھڑکنیں رک جائیں کاش آج سینے میں<br/>گاہ خانۂ کعبہ گاہ روضۂ اقدس<br/>کاش یہ مناظر پھر رنگ بھر دے جینے میں<br/>ہے کرم شکیلؔ ان کا ان کی مہربانی ہے<br/>میں نے بھی گزارے ہیں لمحے کچھ مدینے میں<br/>شکیلؔ اعظمی ایک نعت میں عازمین حج سے خطاب کرتے ہوئے حاجیوں کو مبارک باد پیش کر تے ہیں۔ ارکان حج کو آداب شریعت کے لحاظ سے ادا کرنے کی دعا ئیں دیتے ہیں۔ وہ کہتے خانۂ کعبہ پر جب پہلی نظر پڑیگی توتم کانپ جاؤگے لہٰذا بنا پلکیں جھپکائے تم دعا کرنا۔ کیوں کہ جب پہلی نظر خانۂ کعبہ پر پڑتی ہے اس وقت کی گئی دعا قبول ہوتی ہے۔ اشعار ملاحظہ ہوں:<br/>حاجیو تم کو مبارک ہو سفر طیبہ کا<br/>رحمت حق کا رہے سر پہ تمہارے سایہ<br/>اور جب آئے نظر جلوۂ محبوب خدا<br/>لب پہ ہو صلّ علیٰ صلّ علیٰ صلّ علیٰ<br/>حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کی بڑی فکرتھی۔ آپ راتوں کو اٹھ کر اپنی امت کے لیے آنسو بہاتے اور امت کی شفاعت کے لیے اللہ سے دعا فرماتے تھے۔ ماں ایک ہستی ہے جو اپنی اولاد کو سب سے زیادہ محبت کرتی ہے۔ لیکن حضور اپنی امت کو ماں سے بھی زیادہ محبت کرتے تھے۔ آج ہمیں اپنی عاقبت کی کوئی فکر نہیں۔ گناہ پہ گناہ کیے جا رہے ہیں۔ اسی واقعہ کو شکیل اعظمی نے شعر کے قالب میں ڈھا لا ہے:<br/>بخشوانے کی خاطر اپنی پیاری امت کو<br/>مصطفی نے رو رو کر روز و شب گزارے ہیں<br/><br/>ہمیں تو فکر نہیں اپنی عاقبت کی مگر<br/>ہمارے واسطے آنسو بہا رہا ہے کوئی<br/>ڈاکٹر شکیل اعظمی کی نعتیہ شاعری کے مجموعی مطالعہ کے بعد ہم کہ سکتے ہیں کہ ان کے کلام میں مضامین کی کثرت ہے ۔ وہ نعت کو سچے جذبۂ و عقیدت کے تحت لکھتے ہیں۔ اپنی گفتگو سید محمد اشرف صاحب کے ایک اقتباس پر ختم کرتا ہوں:<br/>’’جذبوں کی حد تک ڈاکٹر شکیل صاحب کی شاعری کے تین زاویے ہیں: ۱۔ ممدوح سے والہانہ قلبی ربط -۲-شعار سنیت سے بھرپور لگاؤ- ۳-ملت اسلامیہ سے دردمندانہ احساسات۔ پوری شاعری میں ان تین طرز کے جذبوں کا بھرپور رچاؤ ملتا ہے جو شاعر کو شعریت کے ساتھ ساتھ سعادت کی سند بھی عطا کرتا ہے۔ (فلیپ، گل قدس)WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3202219071044899226.post-8131731815903770052019-10-06T12:54:00.000-07:002020-03-27T03:51:10.319-07:00نور کیا نورِ خدا ہے آپ کا مرتبہ سب سے جدا ہے آپ کاا<br/>نور کیا نورِ خدا ہے آپ کا<br/>مرتبہ سب سے جدا ہے آپ کا<br/>نام لیتے ہی ملا دل کو سکوں<br/>نام کیا صلّ علیٰ ہے آپ کا<br/>جس کو مل جائے مسیحائی کرے<br/>عشق کچھ ایسی دوا ہے آپ کا<br/>دشمنانِ دیں کے منشا کے خلاف<br/>بول بالا ہی رہا ہے آپ کا<br/>ہے سعادت نعت گوئی کی نصیب<br/>یہ کرم بھی بے بہا ہے آپ کا<br/>ذرّہ ذرّہ ماہِ کامل بن گیا<br/>کیا عجب بحرِ سخا ہے آپ کا<br/>وہ تو ٹھکراتا ہے تاج و تخت کو<br/>جو بھی دل سے ہوگیا ہے آپ کا<br/>وہ کہیں سے اور کیا مانگے بھلا<br/>جو کرم ہی مانگتا ہے آ پ کا<br/>اپنی رحمت سے نوازیں اب اِسے<br/>میرے آقا یہ ضیاءؔ ہے آپ کا<br/>سیّد ضیاء محی الدین گیلانی (ہڑپہ)WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3202219071044899226.post-45472723480553004192019-09-29T02:36:00.000-07:002020-03-27T03:55:47.802-07:00دیے جلانے کی اشکوں سے ابتدا کی ہے نقوشِ پائے محمد کی اقتدا کی ہےدیے جلانے کی اشکوں سے ابتدا کی ہے<br/>نقوشِ پائے محمد کی اقتدا کی ہے<br/>مرے بھی گھر کی منڈیروں پہ کہکشاں اُترے<br/>غبارِ شہرِ پیمبر سے التجا کی ہے<br/>تمام عمر گزاری ہے اُن کی گلیوں میں<br/>خدا کا شکر ہے، سرکار ک<a href="https://www.jashneeidemiladunnabi.wafasite.com/">ی ثنا ک</a>ی ہے<br/>قلم کو چاند ستاروں کا پیرہن آقا<br/>یہ التماس یقینا مری وفا کی ہے<br/>اُفق اُفق پہ ستارے سے جھلملاتے ہیں<br/>تمام روشنی اُن کے نقوشِ پا کی ہے<br/>وہ کیا ہے؟ جس پہ حکومت نہیں مدینے کی<br/>ہر ایک چیز زمانے میں مجتبیٰ کی ہے<br/>ثنائے مرسلِ آخر کا ورد جاری ہے<br/>شریک آج بھی رحمت مرے خدا کی ہے<br/>مکینِ گنبدِ خضرا کا ہے کرم بے حد<br/>قلم یہ رحمتِ یزداں بھی انتہا کی ہے<br/>مسافروں کو ڈبو دو کسی بھی ساحل پر<br/>رضا ہمارے سفینے کے ناخدا کی ہے<br/><br/>برہنہ سر کو چھپائے یہ کس جزیرے میں<br/>یہ شام آپ کی اُمت کے انخلا کی ہے<br/>اُٹھا رکھا ہے ہوا نے دیا غلامی کا<br/>حضور، حاضری یہ آپ کے گدا کی ہے<br/>ہوا ہے قصرِ رسالت کا بند دروازہ<br/>حدیث سارے رسولوں کے پیشوا کی ہے<br/>ہر ایک پیڑ پہ اُترے بہار کا موسم<br/>حجازِ عشقِ پیمبر میں یہ دعا کی ہے<br/>لباسِ عجز میں رہتی ہے اُن کی چوکھٹ پر<br/>عجیب ایک کہانی مری انا کی ہے<br/>ہر ایک لفظ سے ٹپکی ہیں خون کی بوندیں<br/>یہ داستان شہیدانِ کربلا کی ہے<br/>قدم قدم پہ اُجالے بکھرتے رہتے ہیں<br/>جو دل کشی ہے پیمبر کی ہر ادا کی ہے<br/>ریاضؔ، حشر میں ڈھونڈیں گے آپ کا خیمہ<br/>یہ بات ربّ محمد کے انبیا کی ہے<br/><br/>ہوا کو کرکے مقفل تجوریوں میں ریاضؔ<br/>امیرِ شہر نے توہینِ مصطفیٰ کی ہے<br/>ریاض حسین چودھری (سیال کوٹ)WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3202219071044899226.post-49438572357236724872019-09-29T02:34:00.000-07:002019-10-13T22:48:10.570-07:00ہو تم کو مبارک ہم نفسو! کعبے کا مدینے کا جاناہو تم کو مبارک ہم نفسو! کعبے کا مدینے کا جانا<br/>جائیں گے وہاں اک دن ہم بھی، قسمت میں ہے گر لکھا جانا<br/>افلاک کے پاک فرشتے بھی آتے ہیں ادب کے ساتھ جہاں<br/>جاتا ہے وہاں پر صرف وہی، جب چاہے خدا جس کا جانا<br/>’’بے عین عرب‘‘ جب اُن کو کہا، ’’بے میم احمد‘‘ بھی بتلایا<br/>پوچھے کوئی ان فرزانوں سے، پھر تم نے خدا کو کیا جانا<br/>قرآن میں ایسا کچھ بھی نہیں، نہ حدیث سے ثابت یہ مضمون<br/>اے نکتہ نوازو! پھر تم نے کیوں سچ ’’لولاک لما‘‘ جانا<br/>دو اس کو بشارت دوزخ کی، ہوجائے جو آقا سے باغی<br/>اس راہ پر آخر کیوں وہ چلا، جس راہ پر اس کو نہ تھا جانا<br/>جن راہوں سے اس دنیا کو ایمان ملا، آئین ملا<br/>تاریخ بھلائے گی کیسے، وہ آپ کا ثور و حرا جانا<br/>لمحوں میں دوعالم کو دیکھا، لمحوں میں پلٹ کر آبھی گئے<br/>تھا قدرتِ رب کا کرشمہ وہ ’’بالاے ہفت سما‘‘ جانا<br/>قرآن سے پوچھیں آ کے ذرا، آقا کے صحابہ کا رُتبہ<br/>جو لوگ انھیں کہتے ہیں بُرا، آقا نے جنھیں اچھا جانا<br/>ایمان کا دعویٰ سچ ہے اگر، یوں اُن کی بات کرو باور<br/>صدیق نے مانا آقا کا جس طرح شبِ اسرا جانا<br/>اللہ سے مانگا آقا نے خود ان کو خدمتِ دیں کے لیے<br/>اے خیرہ نگاہو! تم نے ابھی فاروق کا رُتبہ کیا جانا<br/><br/>دو بار بنے دامادِ نبی، کیا کم ہے یہ عزت عثماں کی<br/>خود اس کے ایماں میں ہے خلل، جس نے نہ انھیں سچا جانا<br/>ہرگز یہ نہیں ہے مدحِ علی، ہے اس میں سراسر شرکِ جلی<br/>کسی غیر خدا کو جس نے بھی مشکل میں عقدہ کشا جانا<br/>اے زائرِ طیبہ لوٹ کے جب تو آئے نبی کے روضے سے<br/>کیا دیکھا وہاں پر کیا پایا، کچھ آ کے ہمیں بھی سنا جانا<br/><br/>دکھلا دے رئیسِ حزیں کو بھی یارب! درِ پاک خیرِ بشر<br/>جبریلِ امیں کا جس در پر ترے حکم سے تھا آنا جانا<br/>رئیس احمد نعمانی (بھارت)WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3202219071044899226.post-69749772186600723022019-09-29T02:31:00.000-07:002019-10-13T22:48:10.365-07:00بلاوا عرش سے ہوا ہے جب مرے حضور کا تو سامنا ہو اہے نور سے نبی کے نور کابلاوا عرش سے ہوا ہے جب مرے حضور کا<br/>تو سامنا ہو اہے نور سے نبی کے نور کا<br/><br/>ہے کیف میرے ذہن میں درود آںحضور کا<br/>دماغ عرش پر ملا مجھے مرے سرور کا<br/><br/>اذاں ہوئی ہے جب ‘ ہمیں نبی قریب جاں ملے<br/>تصور اپنے ذہن میں کہاں ہے ان سے دور کا<br/><br/>نہیں ہے کچھ تو اک کھجور دیجیے روزہ دار کو<br/>مرے نبی کے پاس کیا ہے مرتبہ کھجور کا<br/><br/>حد سفر وہیں تلک رہی ہے جبرئیل کی<br/>سفر جہاں سے پیش رب ہوا مرے حضور کا<br/><br/>رسول سب خطائیں اپنی رب سے بخشوائیں گے<br/>اسی لیے ہے انتظار عرصۂ نشور کا<br/><br/>اے سبز گنبد نبی گواہ ہے عرش کا مکیں<br/>ملا ہے میری چشم دل کو نور کوہ طور کا<br/><br/>نبی کا کیا مقام ہے یہ جاننے کے واسطے<br/>اکھڑ کے رہ گیاہے دم شعور کے شعور کا<br/><br/>مجھے مئے طہور شاکر آپ خود پلائیں گے<br/>گواہ ہوگا رب دوجہاں مرے سرور کا<br/>شاکر اد یبی (بھیونڈی۔بھارت)WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3202219071044899226.post-62673949711186914802019-09-29T02:30:00.000-07:002019-10-13T22:48:10.163-07:00یہ کائنات تھی اُجڑے درخت کے مانند برس گیا کوئی ساون کے بخت کے مانندیہ کائنات تھی اُجڑے درخت کے مانند<br/>برس گیا کوئی ساون کے بخت کے مانند<br/><br/>نفس نفس تھا کٹھن زندگی کی راہوں کو<br/>قدم قدم کیا پھولوں کے تخت کے مانند<br/><br/>میں اس کی چھائوں میں محفوظ رہ گزر کی طرح<br/>وہ ریگ زار میں تنہا درخت کے مانند<br/><br/>نگاہ اُس کی مسافت میں راہ بر جیسے<br/>خیال اُس کامرے ساز و رخت کے مانند<br/><br/>اُسی ضیا سے منور ہوں آج تک ورنہ<br/>میں ایک شب تھا شب تِیرہ بخت کے مانند<br/>نعمان امام (ممبئی۔بھارت)WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3202219071044899226.post-61246460780440684142019-09-29T02:29:00.001-07:002019-10-13T22:48:09.993-07:00غمِ دوراں میں خوش رہنے کی یہ صورت نکالی ہے غمِ سرکار لے کر زندگی جنت
بنالی ہےغمِ دوراں میں خوش رہنے کی یہ صورت نکالی ہے<br/>غمِ سرکار لے کر زندگی جنت بنالی ہے<br/><br/>مے عشقِ نبی پی کر متاعِ ہوش پا لی ہے<br/>مری بادہ کشی کیفیؔ زمانے سے نرالی ہے<br/><br/>فنائے عشقِ احمد ہو کے معراجِ وفا پا لے<br/>کہ وجہ سرفرازی اہلِ دل کی پائمالی ہے<br/><br/>خدارا دولتِ دیدار سے بھر دیجیے دامن<br/>نگاہِ ملتجی کب سے زیارت کی سوالی ہے<br/><br/>تڑپ کر اُن کے غم میں شادماں رہتا ہوں مَیں کیفیؔ<br/>میری آشفتگی میرے لیے آسودہ حالی ہے<br/>حنیف کیفی (دہلی۔بھارت)WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3202219071044899226.post-14994637720490682682019-09-29T02:29:00.000-07:002019-10-13T22:48:09.824-07:00ساقیِ حوضِ کوثر پَہ لاکھوں سلام شافعِ روزِ محشر پَہ لاکھوں سلامساقیِ حوضِ کوثر پَہ لاکھوں سلام<br/>شافعِ روزِ محشر پَہ لاکھوں سلام<br/><br/>نازشِ خاک داں، فخرِ کون و مکاں<br/>مصطفیٰ نوری پیکر پَہ لاکھوں سلام<br/><br/>رحمتِ بے کراں رفعتِ آسماں<br/>ماہ تابِ منور پَہ لاکھوں سلام<br/><br/>گیسوئے عنبریں، زیبِ عرش بریں<br/>جسم و لب ، نورِ انور پَہ لاکھوں سلام<br/><br/>خاتم الانبیا، مرتضیٰ مجتبیٰ<br/>سب رسولوں کے سروَر پَہ لاکھوں سلام<br/><br/>بت کدے میں بھی ہونٹوں پَہ تکبیر ہے<br/>روح اللہ اکبر پَہ لاکھوں سلام<br/><br/>رُکیے زاہدؔ یہاں ہے رضا کی زمیں<br/>سچے عاشق سخن ور پَہ لاکھوں سلام<br/>صابر زاہد (دھولیہ۔بھارت)WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3202219071044899226.post-37464072506365331722019-09-29T02:28:00.001-07:002019-10-13T22:48:09.650-07:00شہرِ طیبہ کا کتنا حسیں رنگ ہے یہ زمیں دیکھ کر آسماں دنگ ہےشہرِ طیبہ کا کتنا حسیں رنگ ہے<br/>یہ زمیں دیکھ کر آسماں دنگ ہے<br/>جس کے سینے میں عشقِ محمد نہیں<br/>اس کا دل دِل نہیں سنگ ہے سنگ ہے<br/>تُل سکے جس میں توقیرِ شاہ حرم<br/>کائنات اُس ترازو کی پاسَنگ ہے<br/>اُن کا مرہونِ منّت ہوں شام و سحر<br/>ورنہ جینے کا مجھ کو کہاں ڈھنگ ہے<br/>وردِ صلِ علیٰ نے وہ بخشی جلا<br/>دل کی دُنیا سے کافور ہر زنگ ہے<br/>یا الٰہی مدینے کا مشتاق ہوں<br/>ہند میں تو مری زندگی تنگ ہے<br/>عاشقو! حُبِ دنیا سے منھ موڑ لو<br/>اتباعِ نبی نفس سے جنگ ہے<br/>سرورِ دیں کی فرقت میں ہوں بے قرار<br/>صبح بے نور ہے شام بے رنگ ہے<br/><br/>اُمتی ہوں میں اُمی لقب کا نعیم<br/>اُن کے غم سے مرا دل ہم آہنگ ہے<br/>نعیم ابن علیمؔ (دُھولیہ ۔بھارت)WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3202219071044899226.post-47082976016424555172019-09-29T02:28:00.000-07:002020-03-27T03:55:47.867-07:00پھر لے کے چلا مجھ کو وِجدان مدینے میں پھر ہوگی ہر اِک مشکل آسان مدینے میںپھر لے کے چلا مجھ کو وِجدان مدینے میں<br/>پھر ہوگی ہر اِک مشکل آسان مدینے میں<br/>یہ دیکھ کے ہوں مَیں بھی حیران مدینے میں<br/>ہوتی ہے غلاموں کی کیا شان مدینے میں<br/>دوری میںبھی رہتا ہوں سر شار حضوری سے<br/>ہے جسم تو کھنڈوا میں اور جان مدینے میں<br/>کرتے رہیں ہم پیہم ، کرتے رہیں ہم پیہم<br/>دن رات درودوں کی گردان مدینے میں<br/>سب چھوڑا چھڑاکر چل، چل تجھ کو ملے گا چل<br/>تسکین دل و جاں کا سامان مدینے میں<br/>کنبہ بھی مِرا آئے ، ہمراہ میرے آقا<br/>پورے ہوں سبھی دل کے ارمان مدینے میں<br/>اِک بار ہی نظّارہ، مل جائے نگاہوں کو<br/>جاتی ہے چلی جائے، پھر جان مدینے میں<br/>عمرے کی سعادت جو، حاصل ہو تو گزریںگے<br/>امسال ضرور اپنے رمضان مدینے میں<br/>اللہ نے چاہا تو، لکھیں گے حبابؔ ہم بھی<br/>اک نعتِ محمد کا، دیوان مدینے میں<br/>نکلے گا سلامی کا، نکلے گا سلامی کا<br/>نکلے گا سلامی کا، ارمان مدینے میں<br/>اے کاش کے موت آئے، سرکارکے قوموں میں<br/>اللہ کا ہوجائے، احسان مدینے میں<br/>ایمان سے کہتا ہوں، ایمان سے کہتا ہوں<br/>ایمان سے! ملتا ہے ایمان مدینے میں<br/>حسنین کے صدقے میں ، نعلین کے صدقے میں<br/>ہوجائے گی اپنی بھی پہچان مدینے میں<br/>احساسِ زیاں کیا ہے ، آ دیکھ یہاں کیا ہے<br/>پھرتا ہے چھپائے منھ، نقصان مدینے میں<br/><br/>اس گنبد خضری سے ملتا ہے حبابؔ ہم کو<br/>انوارِ تجلّی کا فیضان مدینے میں<br/>حبیب راحت حباب (کھنڈوہ ۔بھارت)WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3202219071044899226.post-88713721505207012602019-09-29T02:27:00.000-07:002020-03-27T03:55:49.524-07:00ترے قول کتنے حسین ہیں، ترا لہجہ کتنا متین ہے تری بات کا کروں ذکر کیا،
تری بات بات میں دین ہےترے قول کتنے حسین ہیں، ترا لہجہ کتنا متین ہے<br/>تری بات کا کروں ذکر کیا، تری بات بات میں دین ہے<br/><br/>توُ جمال و حسن کا بادشہ، ترے آگے کس پَہ ہو تبصرہ<br/>ترا کوئی ثانی نہیں یہاں، تو جہاں میں سب سے حسین ہے<br/><br/>توُ محاذِ جنگ پَہ ہے رواں، سبھی پیڑ پودوں کو ہے اماں<br/>ترا طرزِ جنگ الگ تھلگ توُ یہاں بھی سب سے ذہین ہے<br/><br/>پرِ جبرئیل کی بات ہو کہ خدائے یکتا کی ذات ہو<br/>ترے لب سے جو بھی ادا ہوا، ہمیں اس پَہ پورا یقین ہے<br/><br/>ہے جنم ملا مجھے بتکدوں کے جہاں میں میرے نبی مگر<br/>تری کوششوں کے طفیل میں، مرے پاس دینِ مبین ہے<br/><br/>ترے گوشہ ہائے حیات پر، لکھے کیا یہ عارفِ بے ہنر<br/>تو حکیم ہے، توُ متین ہے توُ مبین ہے توُ امین ہے<br/>عارف انصاری ( برہان پور۔بھارت)WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3202219071044899226.post-481185228890311422019-09-29T02:26:00.000-07:002020-03-27T03:55:47.968-07:00محبت آپ کی، بنیاد ایماں یارسول اللہ! لٹا دوں آپ پر اپنے دل و جاں یارسول
اللہ!محبت آپ کی، بنیاد ایماں یارسول اللہ!<br/>لٹا دوں آپ پر اپنے دل و جاں یارسول اللہ!<br/><br/>زیات جس نے کی اس کی شفاعت ہوگئی واجب<br/>مرے دل نے کہا سودا ہے ارزاں یارسول اللہ!<br/><br/>مگر کچھ سوچ کر میرے قدم لرزیدہ ہیں آقا!<br/>ہوں شرمندہ، پریشاں اور حیراں یارسول اللہ!<br/><br/>ہوا قرآن سے غافل، پھنسا ہوں فرقہ بندی میں٭۱<br/>میں کس منھ سے کہوں خود کو مسلماں یارسول اللہ!<br/><br/>کرم فرمایئے آقا! کرم فرمایئے آقا!<br/>دعا فرمایئے منزل ہو آساں یارسول اللہ!<br/><br/>سوائے آپ کے، کوئی نہیں تاریخ عالم میں<br/>برائے دشمناں بھی گل بداماں یارسول اللہ!<br/><br/>تمنا ہے کہ عقبیٰ میں رہوں آقا کے قدموں میں<br/>خدارا کیجیے پورا یہ ارماں یارسول اللہ!<br/><br/>دعائے مغفرت کر دیں، خطا کا بار سر پر ہے<br/>کرم فرمائے گا توّاب و رحماں یارسول اللہ!<br/><br/>’’اغثنی سیّدی! انظر بحالی، پھولؔ کے لب پر<br/>سنیں فریاد اس کی، ہے یہ گریاں یارسول اللہ!<br/><br/>٭۔ سورۃ الانعام، آیت نمبر۱۶۰<br/>تنویر پھول (امریکا)WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3202219071044899226.post-65450623255555698242019-09-29T02:25:00.000-07:002020-03-27T03:55:48.532-07:00مدحت شاہ کے معیار پہ ٹھہرے جا کر آنکھ حسان کے اشعار پہ ٹھہرے جا کرمدحت شاہ کے معیار پہ ٹھہرے جا کر<br/>آنکھ حسان کے اشعار پہ ٹھہرے جا کر<br/><br/>کیوں کسی اور کے دربار پہ ٹھہرے جا کر<br/>جو نظر روضۂ سرکار پہ ٹھہرے جا کر<br/><br/>دل کو خواہش ہے کہ گل گشت جہاں سے نکلے<br/>دشت طیبہ کے کسی خار پہ ٹھہرے جا کر<br/><br/>کر رہا ہوتا ہوں قرآں کی تلاوت تو خیال<br/>آپ ہی کے رُخِ انوار پہ ٹھہرے جا کر<br/><br/>اس کی معراج یہی ہے کہ جبینِ حکمت<br/>آستان شہِ ابرار پہ ٹھہرے جا کر<br/><br/>طائر روح کا مسکن ہے ریاضؔ احمد<br/>کیسے اغیار کے اشجار پہ ٹھہرے جا کر<br/>ریاض احمد شیخ (لاہور)WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3202219071044899226.post-1553028027244423702019-09-29T02:24:00.000-07:002020-03-27T03:55:46.487-07:00آج پھر شہرِ نبی کی اتنی یاد آئی کہ بس حاضری کے شوق نے لی ایسی انگڑائی کہ
بسآج پھر شہرِ نبی کی اتنی یاد آئی کہ بس<br/>حاضری کے شوق نے لی ایسی انگڑائی کہ بس<br/><br/>آپ کا اسم گرامی سن کے چوما تھا اِسے<br/>تب سے ہے ناخن میں میرے ایسی رعنائی کہ بس<br/><br/>جب بھی مشکل میں پکارا المدد یامصطفی<br/>مجھ کو حاصل ہوگئی ایسی توانائی کہ بس<br/><br/>دشمنانِ دیں کے لشکر ہوگئے پل میں فرار<br/>ذوالفقارِ حیدری اس طرح لہرائی کہ بس<br/><br/>لب کوئی کھولے نہ کھولے دل سے دے دے بس صدا<br/>آپ کے دربار میں ہے ایسی شنوائی کہ بس<br/><br/>جب معافی مانگنے پہنچا تیری سرکار میں<br/>اپنے جرموں سے مجھے ایسی حیا آئی کہ بس<br/><br/>دفعتاً پھر آنسوئوں کے ہوگئے چشمے رواں<br/>خوف سے یہ روح میری ایسی تھرائی کہ بس<br/><br/>روتے روتے جب میں اپنی جان سے جانے لگا<br/>یک بہ یک پھر اس طرف سے یہ صدا آئی کہ بس<br/><br/>مدحتِ احمد کہاں اور بے ہنر ارسلؔ کہاں<br/>نعت خود سرکار نے اس طرح لکھوائی کہ بس<br/>ارسلان احمد ارسل (لاہور)WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3202219071044899226.post-33796493361391109732019-09-29T02:23:00.000-07:002019-10-13T22:48:08.447-07:00کلام خاک سے کوئی نہ بحث نور سے ہے سحر نما ہے وہ نسبت جسے حضور سے ہےکلام خاک سے کوئی نہ بحث نور سے ہے<br/>سحر نما ہے وہ نسبت جسے حضور سے ہے<br/><br/>بلال ہو کہ اویس ارتکازِ رحمت میں<br/>محبت اُن کی برابر قریب و دُور سے ہے<br/><br/>ملا ہے اُن کی عقیدت کا بوریا جس پر<br/>دلِ غنی متمکن بڑے غرور سے ہے<br/><br/>ہماری چشمِ تصور میں اُن کی یادوں سے<br/>وہ روشنی ہے جو موسوم برقِ طور سے ہے<br/><br/>غمِ جہاں کے تھپیڑوں سے ہو کے بے پروا<br/>فضائے خلد میں جاں ذکرِ پُرسرور سے ہے<br/><br/>مصدق اُس کے ہیں انجیل اور قرآں بھی<br/>سند روانہ جو توریت اور زبور سے ہے<br/><br/>مرے لبوں پہ بظاہر ہے ذکرِ دشتِ حجاز<br/>مری مراد مگر حسن کے وفور سے ہے<br/><br/>سو کیسے شان کے شایاں ہو کوئی شعر شہابؔ<br/>مقام اُن کا ورا سرحدِ شعور سے ہے<br/>شہاب صفدر (راول پنڈی)WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3202219071044899226.post-69754302728807345052019-09-28T13:12:00.000-07:002020-03-27T03:55:48.831-07:00آیتوں کی جب تلاوت کیجیے آپ کی ہر دم زیارت کیجیےآیتوں کی جب تلاوت کیجیے<br/>آپ کی ہر دم زیارت کیجیے<br/>گر کیا مہجور اس قرآن کو٭۱<br/>پھر نہ آقا سے شکایت کیجیے<br/>جس کی الفت دین کی بنیاد ہے<br/>اُس نبی کی دل سے چاہت کیجیے<br/>اُن کے نامِ پاک پر مر جائیے<br/>موت کو فخرِ شہادت کیجیے<br/>اُستوار عہدِ اِطاعت کیجیے<br/>کامرانی کی وہ صورت کیجیے<br/>ابتدا اسلام کی کیسے ہوئی؟<br/>یاد غُربت کی مَسافت کیجیے<br/>اہلِ حق پر جو اُترتی ہے سَدا<br/>پھر وہی ہم پر سکینت کیجیے٭۲<br/>آپ اور اصحاب کا اُسوہ ہے یہ<br/>دشمنانِ دیں پہ شدّت کیجیے٭۳<br/>رحم ہو آپس میں گویا اِس طرح<br/>گر لڑے کوئی توحیرت کیجیے<br/>باہمی اُلفت رہے کچھ اس قدر<br/>غیرمانے وہ اخوت کیجیے<br/>مزرعِ اسلام کوپھر سینچ کر<br/>قلبِ کافر پر قیامت کیجیے<br/>ہاتھ ہے جن کا مرے اللہ کاہاتھ<br/>ایسے ہاتھوں پر ہی بیعت کیجیے٭۴<br/>فیصلہ کُن انقلاب آنے کو ہے<br/>پیش دعوے پر شہادت کیجیے<br/>اپنے ایماں اور اپنے دین کی<br/>بدنظر سے پھر حفاظت کیجیے<br/>حق پرستی کی سزا کیوں کر ملے؟<br/>آگے بڑھئیے اور جرأت کیجیے<br/>حق نے باطل کو مٹایا جس طرح<br/>پھر اُسے زندہ حقیقت کیجیے<br/><br/>جس کی حُرمت پر فدا یہ جان ہے<br/>اُس نبی کی دل سے عزت کیجیے٭۵<br/>ان کی ہستی پر جو سبقت کیجیے<br/>مُسترد ہے، گو عبادت کیجیے٭۶<br/>صوت پر ان کی ترفّع جُرم ہے<br/>نیکیوں کو یوں نہ غارت کیجیے٭۷<br/>رب کا بھی ارشاد ہے لاتجھروا<br/>کیوں عمل اپنا اکارت کیجیے٭۸<br/>ان کے رب نے کب پکارا نام سے؟<br/>آپ مت ایسی جسارت کیجیے٭۹<br/>جب بُلائیں آپ کو آقا حضور<br/>حاضری میں پھر نہ غفلت کیجیے٭۱۰<br/>جلوۂ صد رنگ ہو پیشِ نگاہ<br/>پھر عطا چشمِ بصیرت کیجیے<br/><br/>==========================<br/>حوالہ جات<br/>٭۱۔ الفرقان/۳۰<br/>٭۲۔ الفتح/۴<br/>٭۳۔ الفتح/۲۹<br/>٭۴۔ الفتح/۱۰<br/>٭۵۔ التوبہ/۱۲۰<br/>٭۶۔ الحجرات/۱<br/>٭۷۔ الحجرات/۲<br/>٭۸۔ الحجرات/۲<br/>٭۹۔ الاحزاب/۱، المائدہ/۴۱۔۶۷<br/>٭۱۰۔ النور/۶۳<br/><br/> <br/><br/>=================<br/><br/>محمد شکیل اوج (کراچی)WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3202219071044899226.post-56630433012425238442019-09-28T13:09:00.000-07:002020-03-27T03:53:25.683-07:00سرِ فاراں اے خوشا وہ صبح جس کو<h1>سرِ فاراں</h1><br/> <br/><br/>اے خوشا وہ صبح جس کو<br/>ساری صبحوں پر تفوق ہے نصیب<br/>کوہِ فاراں کی فلک پیما بلندی سے ہوئی تھی آشکار<br/>اور ہوا تھا جلوہ آرا<br/>آفتابِ آفتاب<br/>دامنِ جاں میں لیے وہ روشنی<br/>جو اُجالوں کی ازل سے<br/>تا ابد بنیاد ہے<br/>اے خوشا وہ صبح اک دن<br/>جو سرِ فاراں مجسم ہوگئی تھی<br/>اور جب گویا ہوئی تو<br/>حق نوائی کے جھڑے تھے<br/>پھول جن کی خوش بوئوں کے<br/>قافلے، اس روشنی کا لے کے پرچم چل پڑے تھے<br/>تاکہ قرنوں<br/>سے اندھیروں میں بھٹکتی<br/>آدمیّت کو نشانِ رہ ملے<br/>منزل ملے<br/>قیصر نجفی (کراچی)WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3202219071044899226.post-18585340978634555002019-09-28T13:08:00.000-07:002020-03-27T03:55:46.650-07:00نبی کی اُلفت بسا کے دل میں حیات اپنی گلاب کرلو جہانِ فانی میں رہ کے جینا
تم اپنا یوں لاجواب کرلونبی کی اُلفت بسا کے دل میں حیات اپنی گلاب کرلو<br/>جہانِ فانی میں رہ کے جینا تم اپنا یوں لاجواب کرلو<br/><br/>خدا کے ساتھ ان کے ذکر ہی سے ملے گی دولت سکونِ دل کی<br/>یہ مانتے ہو تو ذکرِ احمد کو زندگی کا نصاب کرلو<br/><br/>نبی کی رحمت کا نور اس میں سمو کے اے زائرانِ طیبہ<br/>زمینِ دل کے ہر ایک ذرّے کو ایک دم آفتاب کرلو<br/><br/>سنو اسے جو میں کہہ رہا ہوں جہانِ فانی میں غم کے مارو<br/>درود پڑھ کر عظیم آقا پہ چارۂ اضطراب کرلو<br/><br/>ہوائے شہرِ نبی سے آئے مہک عجب سی گلِ سکوں کی<br/>اسی مہک کے جلو میں سارے سکوں کے تم پورے خواب کرلو<br/><br/>صحابہ سارے تو ہیں ستارے کسی سے بھی لے کے رہنمائی<br/>نبی کے فرماں کی روشنی میں کچھ اپنا تم احتساب کرلو<br/><br/>مدینہ شہر نبی ہے جس میں عطائیں تقسیم ہو رہی ہیں<br/>انھی عطائوں سے آج روشن خوشی کا ہر ایک باب کرلو<br/><br/>کھلے ہوئے ہیں ہر ایک جانب بہت سے در رحمتوں کے ازہرؔ<br/>مدینے جا کر کرم کے موتی اکٹھے تم بے حساب کرلو<br/>منظور عباس ازہرؔ (کراچی)WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3202219071044899226.post-90646353742786320042019-09-28T13:07:00.001-07:002020-03-27T03:54:11.542-07:00جسے بھی آج تک جو کچھ ملا ہے عطا رب کی ہے، صدقہ آپ کا ہےجسے بھی آج تک جو کچھ ملا ہے<br/>عطا رب کی ہے، صدقہ آپ کا ہے<br/><br/>وہی محبوبِ ربّ دوسرا ہے<br/>جو محبوبِ خدا کو چاہتا ہے<br/><br/>نہیں مطلب جسے اُن سے، عدو ہے<br/>وہ اپنا ہے جو اُن کا ہوگیا ہے<br/><br/>جسے دھتکار دے سارا زمانہ<br/>محبت اُس سے شیوہ آپ کا ہے<br/><br/>جہانِ رنگ و بو کی آفرینش<br/>یہ صدقہ صاحبِ لولاک کا ہے<br/><br/>گواہی دے رہا ہے ذرّہ ذرّہ<br/>مہ و خورشید میں اُن کی ضیا ہے<br/><br/>جہاں ممکن نہیں پروازِ قدسی<br/>یقینا وہ مقامِ مصطفی ہے<br/><br/>مسلمانوں کی حالت کیوں ہے ابتر<br/>یہ ہم سے اُن کا اُسوہ پوچھتا ہے<br/><br/>نبی کا نورؔ میری زندگی پر<br/>اُجالوں کی طرح پھیلا ہوا ہے<br/>حافظ نور احمد قادری (اسلام آباد)WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3202219071044899226.post-70959248388405808782019-09-28T13:07:00.000-07:002019-10-13T22:48:07.493-07:00سبز گنبد سے کبھی بھی نہ جدا ہوں آنکھیں میرے سرکار مجھے ایسی عطا ہوں
آنکھیںسبز گنبد سے کبھی بھی نہ جدا ہوں آنکھیں<br/>میرے سرکار مجھے ایسی عطا ہوں آنکھیں<br/><br/>اپنی آنکھوں سے میں چوموںگا سنہری جالی<br/>اس سے پہلے کہ میں مر جائوں فنا ہوں آنکھیں<br/><br/>نزع کے وقت ملے اُن کی زیارت کا شرف<br/>لب ہوں خاموش مرے محوِ ثنا ہوں آنکھیں<br/><br/>سامنے روضۂ اقدس کے رہے میرا قیام<br/>لب سوالی ہوں مرے اور گدا ہوں آنکھیں<br/><br/>اپنی آنکھوں میں بسا لائوںگا منظر سارے<br/>اس لیے طیبہ کو لے کے میں چلا ہوں آنکھیں<br/><br/>یاد کرکے جو مدینہ نہ بہائیں آنسو<br/>ایسی آنکھوں سے تو بہتر ہے کہ نا ہوں آنکھیں<br/><br/>میرے سرکار کرم اتنا لحد میں کرنا<br/>سبز گنبد ہو مرے سامنے وا ہوں آنکھیں<br/><br/>ہو اگر گنبدِ خضریٰ کی زیارت ساجدؔ<br/>اشک بہتے رہیں اور نعت سرا ہوں آنکھیں<br/>محمد امین ساجد سعیدی (حاصل پور)WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3202219071044899226.post-45046387165454228072019-09-28T13:06:00.000-07:002020-03-27T03:55:47.737-07:00بنے ہیں آسماں، دنیا سجی آقا کے صدقے میں ملی ہم کو خدا کی آگہی آقا کے
صدقے میںبنے ہیں آسماں، دنیا سجی آقا کے صدقے میں<br/>ملی ہم کو خدا کی آگہی آقا کے صدقے میں<br/><br/>زمیں تا آسماں روشن ہوا نورِ شہِ دیں سے<br/>یہ رونق دیکھتے ہیں ہم سبھی آقا کے صدقے میں<br/><br/>زمانہ قعرِ ظلمت میں گھرا تھا آپ سے پہلے<br/>مگر ہر سمت ہے اب روشنی آقا کے صدقے میں<br/><br/>مدینہ ہے کہ ٹکڑا خلد کا ہم نے بھی دیکھا ہے<br/>ہمیں دنیا میں ہی جنت ملی آقا کے صدقے میں<br/><br/>نہ آتے آپ گر دنیا میں پھر ہم بھی کہاں ہوتے<br/>خدا نے دی ہے ہم کو زندگی آقا کے صدقے میں<br/><br/>شہِ دیں کی اطاعت ہی خدا کی بھی اطاعت ہے<br/>ملا قرآں سے پیغام جلی آقا کے صدقے میں<br/><br/>عبادت اصل میں کیا ہے، بتایا آپ نے ہم کو<br/>ہماری بندگی ہے بندگی آقا کے صدقے میں<br/><br/>خدا کا شکر ہے اے دِلؔ ہماری خوش نصیبی ہے<br/>کہ دولت دین کی ہم کو ملی آقا کے صدقے میں<br/>امان خاں دِل (نیویارک)WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3202219071044899226.post-73372595130593829182019-09-28T13:05:00.001-07:002019-10-13T22:48:07.117-07:00وفورِ شوق کا یہ بھی کرشمہ دیکھ لیتے ہیں ہم اکثر جاگتی آنکھوں سے طیبہ
دیکھ لیتے ہیںوفورِ شوق کا یہ بھی کرشمہ دیکھ لیتے ہیں<br/>ہم اکثر جاگتی آنکھوں سے طیبہ دیکھ لیتے ہیں<br/><br/>دکھا دیتے ہیں جلوہ پیارے آقا خواب میں آکر<br/>وہ اپنے ہجر میں جس کو تڑپتا دیکھ لیتے ہیں<br/><br/>جو اپنے دل کو اُن کے ذکر سے آباد رکھتا ہے<br/>ملائک اس بشر کے گھر کا رستہ دیکھ لیتے ہیں<br/><br/>مدینے کی زمیں پر رشک آتا ہے ہمیں بے حد<br/>خصوصاً اُن کا جب نقشِ کفِ پا دیکھ لیتے ہیں<br/><br/>فقط اس واسطے عزت ہماری ہے جہاں بھر میں<br/>ہمیں نظرِ کرم سے شاہِ والا دیکھ لیتے ہیں<br/><br/>ہمارے دل کا عالم نازؔ کیا ہوتا ہے کیا کہیے<br/>کسی کو جب مدینے پاک جاتا دیکھ لیتے ہیں<br/>عائشہ ناز شاہد علی (کراچی)WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3202219071044899226.post-36931639590798375622019-09-28T13:05:00.000-07:002020-03-27T03:51:10.241-07:00نور کیا نورِ خدا ہے آپ کا مرتبہ سب سے جدا ہے آپ کانور کیا نورِ خدا ہے آپ کا<br/><br/>مرتبہ سب سے جدا ہے آپ کا<br/><br/>نام لیتے ہی ملا دل کو سکوں<br/><br/>نام کیا صلّ علیٰ ہے آپ کا<br/><br/>جس کو مل جائے مسیحائی کرے<br/><br/>عشق کچھ ایسی دوا ہے آپ کا<br/><br/>دشمنانِ دیں کے منشا کے خلاف<br/><br/>بول بالا ہی رہا ہے آپ کا<br/><br/>ہے سعادت نعت گوئی کی نصیب<br/><br/>یہ کرم بھی بے بہا ہے آپ کا<br/><br/>ذرّہ ذرّہ ماہِ کامل بن گیا<br/><br/>کیا عجب بحرِ سخا ہے آپ کا<br/><br/>وہ تو ٹھکراتا ہے تاج و تخت کو<br/><br/>جو بھی دل سے ہوگیا ہے آپ کا<br/><br/>وہ کہیں سے اور کیا مانگے بھلا<br/><br/>جو کرم ہی مانگتا ہے آ پ کا<br/><br/>اپنی رحمت سے نوازیں اب اِسے<br/><br/>میرے آقا یہ ضیاءؔ ہے آپ کا<br/><br/>سیّد ضیاء محی الدین گیلانی (ہڑپہ)<br/><div></div>WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3202219071044899226.post-48250512795831278592019-09-27T02:50:00.000-07:002020-03-27T03:53:56.761-07:00جہانِ رنگ و بو ہے بس مرے سرکار کا صدقہ فواد و قلبِ تاباں ہے شہ ابرار کا
صدقہجہانِ رنگ و بو ہے بس مرے سرکار کا صدقہ<br/>فواد و قلبِ تاباں ہے شہ ابرار کا صدقہ<br/><br/>ہمہ عالم کی رعنائی، ہمہ عالم کی زیبائی<br/>خدا کے نور کا صدقہ، خدا کے یار کا صدقہ<br/><br/>خداوندا مرا سینہ منور کر ثنائوں سے<br/>مجھے صحت عطا کر عابدِ بیمار کا صدقہ<br/><br/>مسلمانوں کو عزت دے مسلمانوں کو قوت دے<br/>جلالت بخش ان کو سیّدِ مختار کا صدقہ<br/><br/>حریمِ جاں میں بس جائے ترے تذکار کی خوش بو<br/>تری توصیف ہو زیبِ زباں، اخیار کا صدقہ<br/><br/>مرے دل میں بھی کھل اُٹھے گلِ ایقان و آگاہی<br/>شہنشاہِ مدینہ، خلد کے سردار کا صدقہ<br/><br/>زباں مل جائے حمدوں کے لیے الکن سے احمدؔ کو<br/>امامُ الانبیا کی قوتِ گفتار کا صدقہ<br/>احمد محمود الزماں (اسلام آباد)WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3202219071044899226.post-65155740594137073132019-09-27T02:49:00.001-07:002020-03-27T03:52:00.012-07:00محمد مصطفی صلِّ علیٰ تشریف لاتے ہیں مبارک ہو حبیبِ کبریا تشریف لاتے ہیںمحمد مصطفی صلِّ علیٰ تشریف لاتے ہیں<br/>مبارک ہو حبیبِ کبریا تشریف لاتے ہیں<br/><br/>بشارت جس کی دی قرآں سے پہلے بھی صحیفوں نے<br/>وہ ابراہیم کی بن کر دعا تشریف لاتے ہیں<br/><br/>زمانے میں خدا کے آخری پیغامبر بن کر<br/>خدا کی ذات کے جلوہ نما تشریف لاتے ہیں<br/><br/>صدا مکّے سے اُٹھی دفعتاً اللہ واحد کی<br/>وہ بن کر سازِ وحدت کی صدا تشریف لاتے ہیں<br/><br/>خداوندانِ باطل کی خدائی ختم کرنے کو<br/>وہ حق بین و حقیقت آشنا تشریف لاتے ہیں<br/><br/>زمیں پر عرش والوں کے سلام آنے لگے پیہم<br/>سلام ان پر شہِ ارض و سما تشریف لاتے ہیں<br/><br/>کہیں مشکل کشا مشکل کشا جن کو وہی مونس<br/>وہی مونس وہی مشکل کشا تشریف لاتے ہیں<br/>خدا داد خاں مونس (اجمیر۔بھارت)WafaSofthttp://www.blogger.com/profile/12702219338435167316noreply@blogger.com0