بنی اسرائیل
ہوئے اسحٰق کے فرزند
اسرائیل پیغمبر
اسرائیل پیغمبر
ملے فرزند انہیں بارہ
بفضلِ حضرت داور
بفضلِ حضرت داور
ان ہی میں حضرت یوسف نے
مرسل کا لقب پایا
مرسل کا لقب پایا
خدا نے ان کو اہلِ مصر پر مبعوث فرمایا
یہ ایسے تذکرے ہیں جو
زبانوں پر فسانہ ہیں
زبانوں پر فسانہ ہیں
برادر حضرت یوسف کے مشہور
زمانہ ہیں 21
زمانہ ہیں 21
یہودی قوم کا آغاز انہیں
بارہ سے ہوتا ہے
بارہ سے ہوتا ہے
یہودہ اِن کا جد ،
اسحٰق پیغمبر کا پوتا ہے
اسحٰق پیغمبر کا پوتا ہے
مگر شیطاں نے ان پر بھی
دامِ شرک پھیلایا
دامِ شرک پھیلایا
تو انبوہِ کثیر اس قوم کا حق سے پلٹ آیا
یہ قوم اپنے کو خاصانِ خدا کی قوم کہتی تھی
مگر کرتوت ایسے تھے بہت
معتوب رہتی تھی
معتوب رہتی تھی
ہوئے اس قوم میں اکثر
جلیل الشان پیغمبر
جلیل الشان پیغمبر
چلانا چاہتے تھے جو اسے
حق و صداقت پر
حق و صداقت پر
یہودی جانے بوجھے راہِ حق کو بھول جاتے تھے
وہ اپنے رہنماؤں پر ہمیشہ
ظلم ڈھاتے تھے
ظلم ڈھاتے تھے
کیا تھا مصر میں فرعون
نے دعویٰ خدائی کا
نے دعویٰ خدائی کا
یہودی قوم دم بھرتی تھی
اس سے آشنائی کا
اس سے آشنائی کا
عتاب آخر کیا شاہنشہوں
کے شاہ نے ان پر
کے شاہ نے ان پر
مسلط کر دیا فرعون کو
اللہ نے ان پر
اللہ نے ان پر
کہ یہ بھی اِ ک طریقہ
تھا انہیں رستے پہ لانے کا
تھا انہیں رستے پہ لانے کا
انہیں ٹھوکر لگا کر
خوابِ غفلت سے جگانے کا
خوابِ غفلت سے جگانے کا
بہت پستی دکھائی آخر اِ
س افتاد نے ان کو
س افتاد نے ان کو
لگائیں ٹھوکریں فرعون کی
بیداد نے ان کو
بیداد نے ان کو
مگر فرعون کے ظلم و ستم
جب بڑھ گئے حد سے
جب بڑھ گئے حد سے
لگے عبرت پکڑنے لوگ اِ ن
کی حالتِ بد سے
کی حالتِ بد سے
خدائے پاک نے موسیٰکو
ان میں کر دیا پیدا
ان میں کر دیا پیدا
جو بچپن ہی سے آزادی و
حریت پہ تھے شیدا
حریت پہ تھے شیدا
ظہورِ نورِ حق
موسیٰ کو سینا پر نظر آیا
موسیٰ کو سینا پر نظر آیا
خدا نے جانبِ فرعون
انہیں مبعوث فرمایا
انہیں مبعوث فرمایا
یدِ بیضا کے ساتھ اِس خطہ ظلمت میں در آئے
یہودی قوم کو آزاد کر کے
مصر سے لائے 22
مصر سے لائے 22
جگایا قوم کی تقدیر کو
آوازِ موسیٰ نے
آوازِ موسیٰ نے
کیا فرعون کو غرقابِ نیل اعجازِ موسیٰ نے
23
23
عصائے موسوی نے پتھروں
کو آب کر ڈالا 24
کو آب کر ڈالا 24
بیابانوں کو ان کے واسطے
شاداب کر ڈالا
شاداب کر ڈالا
یہی وہ قوم ہے جس کے لئے
نعمت کے مینہ برسے
نعمت کے مینہ برسے
کہ اترے من و سلویٰ اِ ن کی خاطر آسماں پر سے 25
مگر جب آزمائش آ پڑی یہ
قوم گھبرائی
قوم گھبرائی
رہی باطل کی طالب اور
راہِ حق سے کترائی
راہِ حق سے کترائی
کہا موسیٰ نے "
اٹھ اے قوم باطل کی مقابل ہو
اٹھ اے قوم باطل کی مقابل ہو
تری عزت بڑھے جگ میں
ترا ایمان کامل ہو
ترا ایمان کامل ہو
تو بولی قوم اے موسیٰ
ہمیں آرام کرنے دے
ہمیں آرام کرنے دے
خدا کی نعمتیں ملتی ہیں
اِ ن سے پیٹ بھرنے دے
اِ ن سے پیٹ بھرنے دے
خدا کو ساتھ لے جا اور
باطل سے لڑائی کر
باطل سے لڑائی کر
ہمارے واسطے خود جا کے قسمت
آزمائی کر
آزمائی کر
ہمیں کیوں ساتھ لے جاتا
ہے دنیا سے اجڑنے کو
ہے دنیا سے اجڑنے کو
خدا اور اُس کا پیغمبر
بہت کافی ہے لڑنے 26
بہت کافی ہے لڑنے 26
ڈرایا بارہا موسیٰ نے ان
کو قہر باری سے 27
کو قہر باری سے 27
مگر اس قوم کو مطلب رہا
مطلب برآری سے
مطلب برآری سے
کبھی رفعت پر آئی بھی
تو سوجھی اس کو پستی کی
کہ چھوڑی حق پرستی اور
گوسالہ پرستی کی
گوسالہ پرستی کی
رکھی دنیا میں راہ و
رسم حرص خام سی اس نے
رسم حرص خام سی اس نے
دکھائی سرکشی تورات کے احکام
سے اس نے
سے اس نے
دلائی حضرت داؤد نے اس
قوم کو شاہی
قوم کو شاہی
مگر اس نے نہ چھوڑی کم
نگاہی اور گمراہی
نگاہی اور گمراہی
زبور اس قوم کو بخشی گئی
لیکن نہ یہ مانی
لیکن نہ یہ مانی
یہ اپنی حمد کرتی تھی
بجائے حمد ربانی
بجائے حمد ربانی
بڑی شوکت ملی اس قوم کو
عہد سلیماں 28 میں
عہد سلیماں 28 میں
عظیم الشان ہیکل ہو گئی
تعمیر کنعاں میں
تعمیر کنعاں میں
مگر یہ قوم اکثر راہ پر
آ کر پلٹتی تھی
آ کر پلٹتی تھی
نہ دینداری میں بڑھتی
تھی، نہ بے دینی سے ہٹتی تھی
تھی، نہ بے دینی سے ہٹتی تھی
اسے ایوب و زکریا و یحیی
نے بھی سمجھایا
نے بھی سمجھایا
چلن اس قوم کا لیکن نہ
راہ راست پر آیا
راہ راست پر آیا
ہو منزل گمرہی جن کی وہ
کیونکر راہ پر آئیں
کیونکر راہ پر آئیں
ملیں اس قوم سے پیغمبروں
کو سخت ایذائیں
کو سخت ایذائیں
یہ جھٹلاتی رہی ہر اک
نصیحت کرنے والے کو
نصیحت کرنے والے کو
یہ اندھی تھی، اندھیرا
جانتی تھی ہر اجالے کو
جانتی تھی ہر اجالے کو
مسیح ابن مریم نے بہت
اس کو ہدایت کی
اس کو ہدایت کی
مگر یہ آخری دم تک رہی
منکر رسالت کی
منکر رسالت کی
یہ جھٹلاتی رہی انجیل کی
سچی منادی کو
سچی منادی کو
یہ سولی پر چڑھانے لے گئی
اس پاک ہادی کو
اس پاک ہادی کو
خلیل اللہ سے جو وعدہ کیا
تھا حق تعالیٰ نے
تھا حق تعالیٰ نے
وہ پورا کر دیا ہر طور
سے اس ذات والا نے
سے اس ذات والا نے
وطن بخشا گیا اس کو
نمونہ باغ جنت کا
نمونہ باغ جنت کا
مگر اس قوم میں جذبہ نہ
تھا اس کی حفاظت کا
تھا اس کی حفاظت کا
ملی اسحٰق کی اولاد کو
شان حکومت بھی
شان حکومت بھی
متاع دنیوی بھی اور
روحانی رسالت بھی
روحانی رسالت بھی
مگر اس قوم نے ٹھکرا دیا
ہر ایک نعمت کو
ہر ایک نعمت کو
یہ بھڑکاتی رہی ہر دور
میں اللہ کی غیرت کو
میں اللہ کی غیرت کو
نتیجہ یہ ہوا کفران
نعمت کی سزا پائی
نعمت کی سزا پائی
عمل جیسے کیے ویسی در حق سے جزا پائی 29
خدا سے سرکشی کی سر جھکایا
پائے دشمن پر
پائے دشمن پر
رہا اغیار کا پنجہ مسلط
اس کی گردن پر
اس کی گردن پر
سبھی اہل ستم کرتے رہے اس
پر ستم رانی 30
پر ستم رانی 30
فنیقی ، بابلی، مصری،
اسیری اور رومانی
اسیری اور رومانی
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
کہ جس نے اپنے ہاتھوں
اپنی خو خصلت نہیں بدلی
اپنی خو خصلت نہیں بدلی
ہوئے اسحٰق کے فرزند اسرائیل پیغمبر
Reviewed by WafaSoft
on
August 26, 2019
Rating:


No comments: