سردار عبداللہ کی پاکیزگی
بدی کے جوش کو پایا جو یوں
ایمان کا طالب
ایمان کا طالب
جوان ہاشمی کی شرم پر
غصہ ہوا غالب
غصہ ہوا غالب
کراہت اور نفرت سے جھٹک
کر ہاتھ عورت کا
کر ہاتھ عورت کا
زباں سے اس طرح گویا
ہوا پتلا شرافت کا
ہوا پتلا شرافت کا
مجھے معلوم ہے کرتے نہیں
اشراف کام ایسا
اشراف کام ایسا
سمجھتا ہوں میں بد تر
موت سے فعل حرام ایسا
موت سے فعل حرام ایسا
اگر تو عقد کو کہتی تو
شاید مان جاتا میں
شاید مان جاتا میں
مطابق رسم قومی کے تجھے
بیوی بناتا میں
بیوی بناتا میں
مگر تو نے بے شرمی
دکھائی اور بہکایا!
دکھائی اور بہکایا!
شریف انساں پہ لازم ہے
بچانا دین و عزت کا
بچانا دین و عزت کا
متانت سے کہا جو کچھ
کہا جھڑکا نہ دی گالی
کہا جھڑکا نہ دی گالی
فقط جاتے ہوئے مردانہ
غصے کی نگہ ڈالی
غصے کی نگہ ڈالی
دکھائی مرد عالی ظرف نے
جب شوکت ایماں
جب شوکت ایماں
ہوئی شرمندہ عورت پست
ہو کر رہ گیا شیطاں
ہو کر رہ گیا شیطاں
غرض اس حادثے کے بعد
عبداللہ گھر پہنچا
عبداللہ گھر پہنچا
سلامت لے کے ایماں کو
پسر پیش پدر پہنچا
پسر پیش پدر پہنچا
جلال ہاشمی سے مشتعل
تھا چہرہ انور
تھا چہرہ انور
کہ تھا عورت کی گستاخی
کا صدمہ زخم تھا دل پر
کا صدمہ زخم تھا دل پر
پدر نے برہمی کا حال اس
سے پوچھنا چاہا
سے پوچھنا چاہا
پسر چپ تھا کہ چپ رہنا
ہی غیرت کا تقاضا تھا
ہی غیرت کا تقاضا تھا
کہا بابا طبعیت آج
گھبرائی ہوئی سی ہے
گھبرائی ہوئی سی ہے
اداسی کی گھٹا دل پر مرے
چھائی ہوئی سی ہے
چھائی ہوئی سی ہے
اجازت ہو تو میں بہر
شکار اک دن چلا جاؤں
شکار اک دن چلا جاؤں
دل آبادی سے گھبرایا
ہوا ہے اس کو بہلاؤں
ہوا ہے اس کو بہلاؤں
پدر بولا کہ اے جان پدر
اچھا چلے جانا
اچھا چلے جانا
مگر دو ایک مسلح خادموں
کو ساتھ لے جانا
کو ساتھ لے جانا
مجھے اکثر تمہاری جان
کا رہتا ہے ڈر بیٹا
کا رہتا ہے ڈر بیٹا
نہ جانے بات کیا ہے کیوں
ہے یہ بیم و خطر بیٹا
ہے یہ بیم و خطر بیٹا
وہاں دن بھر ٹھہرنا شام
ہوتے ہی چلے آنا
ہوتے ہی چلے آنا
جونہی سورج چھپے تم شہر
کے اندر چلے آنا
کے اندر چلے آنا
بدی کے جوش کو پایا جو یوں ایمان کا طالب
Reviewed by WafaSoft
on
August 26, 2019
Rating:


No comments: