بازار عکاظ
یہاں پر کھینچ کر ہلکا
سا نقشہ ان کے میلوں کا
سا نقشہ ان کے میلوں کا
دکھا دوں حال بے دینی
کا جھگڑوں کا جھمیلوں کا
کا جھگڑوں کا جھمیلوں کا
حدود مکہ سے دس کوس پر
چھوٹا سا میداں ہے
چھوٹا سا میداں ہے
جہاں خیمے لگے ہیں جمع
اک انبوہ انساں ہے
اک انبوہ انساں ہے
عرب کے لوگ اس انبوہ کو
بازار کہتے ہیں
بازار کہتے ہیں
برس کے بعد آ کر اس جگہ
کچھ روز رہتے ہیں
کچھ روز رہتے ہیں
بنو کلب و بنو نہد و
بنو تغلب ، بنو کندہ
بنو تغلب ، بنو کندہ
بنو اوس و بنو خزرج ،
بنو دوس و بنو عذرہ
بنو دوس و بنو عذرہ
بنو لحم و بنو مرجح،
بنو طے و بنو اسلم
بنو طے و بنو اسلم
جہینہ اور خزاعہ اور بجیلہ
اور بنو خشعم
اور بنو خشعم
یہ قحطانی قبائل دور سے
میلے میں آئے ہیں
میلے میں آئے ہیں
سب اپنے اپنے بچوں بیویوں
کو ساتھ لائے ہیں
کو ساتھ لائے ہیں
ہوازن اور عدنان اور
اطفان اور اعصر بھی
اطفان اور اعصر بھی
غنی بھی ، بابلہ بھی ،
عبس بھی ذبیان و عامر بھی
عبس بھی ذبیان و عامر بھی
قریش و سعد و نصر و کعب
و مرہ بھی فزارہ بھی
و مرہ بھی فزارہ بھی
بنی تیم و بنی عدی سلول
اور آل قارہ بھی
اور آل قارہ بھی
یہ عدنانی قبائل اور
شاخیں بھی سبھی ان کی
شاخیں بھی سبھی ان کی
عرب کی سرزمینِ خشک اب تک مِ لک ہے جن کی
جوان و پیر و مردو زن یہاں
آئے ہوئے ہیں سب
آئے ہوئے ہیں سب
غرور و عجب سے چہروں سے
چہروں کا چمکائے ہوئے ہیں سب
چہروں کا چمکائے ہوئے ہیں سب
تمازت سے بچانے کو کھڑے
ہیں جا بجا خیمے
ہیں جا بجا خیمے
زمیں کے جسم پر یہ سوز
کے چھالے ہیں یا خیمے
کے چھالے ہیں یا خیمے
حجازی بدوؤں نے کالے کمبل
تان رکھے ہیں
تان رکھے ہیں
کھڑے ہیں اونٹ بھی اور
ساتھ ہی سامان رکھے ہیں
ساتھ ہی سامان رکھے ہیں
یمن، نجد و عراق و شام
کے سوداگر آئے ہیں
کے سوداگر آئے ہیں
پکھا لیں کملیاں ستو
کھجوریں ساتھ لائے ہیں
کھجوریں ساتھ لائے ہیں
کوئیں ہیں چند نخلستان
میں جن کے گرد میلا ہے
میں جن کے گرد میلا ہے
گرے پڑتے ہیں پانی کے لیے
لوگوں کا ریلا ہے
لوگوں کا ریلا ہے
جوانان عرب کیا اینڈتے پھرتے
ہیں راہوں میں
ہیں راہوں میں
دلوں کے ولولے ڈوبے ہوئے
ہیں سب گناہوں میں
ہیں سب گناہوں میں
ہزاروں نیم عریاں عورتیں
ہر سمت پھرتی ہیں
ہر سمت پھرتی ہیں
نہ گھیریں آ کے مرد ان
کو تو خود جا جا کے گھرتی ہیں
کو تو خود جا جا کے گھرتی ہیں
قبائل کے جو ہیں سردار
پتلے ہیں رعونت کے
پتلے ہیں رعونت کے
عیاں ہیں ان کے ہر
انداز سے انداز نخوت کے
انداز سے انداز نخوت کے
کمر سے نیچے ہیں تہبند
باقی جسم ننگے ہیں
باقی جسم ننگے ہیں
وجاہت پر مگر تکرار ہے جھگڑے
ہیں دنگے ہیں
ہیں دنگے ہیں
ہیں ایسے مرد بھی ان میں
کہ منہ پر ہے نقاب ان کے
کہ منہ پر ہے نقاب ان کے
حیا ان کی نرالی ہے انوکھے
ہیں حجاب ان کے
ہیں حجاب ان کے
کمر سے کھول کر تہبند
گھٹنوں پر لپیٹے ہیں
گھٹنوں پر لپیٹے ہیں
نہیں کچھ ستر کی پروا
کہ یہ آدم کے بیٹے ہیں
کہ یہ آدم کے بیٹے ہیں
شرابیں پی رہے ہیں اور
قے بھی کرتے جاتے ہیں
قے بھی کرتے جاتے ہیں
شکم میں اور دامن میں
نجاست بھرتے جاتے ہیں
نجاست بھرتے جاتے ہیں
دوشیزہ لڑکیاں مردوں کے
آگے دف بجاتی ہیں
آگے دف بجاتی ہیں
نشے میں جھومتی ہیں
ناچتی ہیں اور گاتی ہیں
ناچتی ہیں اور گاتی ہیں
ذرا سی بات پر تلوار
کھنچ جاتی ہے آپس میں
کھنچ جاتی ہے آپس میں
غضب کا شور و غوغا ہے کہیں
گالی کہیں قسمیں
گالی کہیں قسمیں
یہاں پر کھینچ کر ہلکا سا نقشہ ان کے میلوں کا
Reviewed by WafaSoft
on
August 26, 2019
Rating:


No comments: