Best Wall Stickers

اردوحمد و نعت میں فلسطین و کشمیر سے متعلق مناجات کا ایک جائزہ

ڈاکٹرالطاف حسین لنگڑیال۔بہاولپور


اردوحمد و نعت میں فلسطین و کشمیر سے
متعلق مناجات کا ایک جائزہ


اردو شاعری میںشعرا نے جہاں عالم اسلام کے گھمبیر حالات اورسلگتے مسائل کو مزاحمتی اندازمیں موضوعِ بحث بنایا ہے وہا ں حمد و نعت میں مناجات کا پہلو بھی بہت نمایاں ہے۔ عہدحاضر میں مسلم خطوںمثلاً فلسطین، کشمیر،افغانستان وغیرہ پر استعماری طاقتوں کا قبضہ اور مظالم اور مسلمانوں کی بے بسی اور بے حسی کو موضوع بنایا گیا ہے۔آئندہ سطور میں پاکستانی شعرا کا حمد و نعت میں کشمیر و فلسطین سے متعلق مناجاتی اشعارکا ایک جائزہ پیشِ خدمت ہے۔


 
Urdu Naat Lyrics

اردو حمد اور مسئلہ فلسطین
اسلام کا اوّلین عقیدہ جس کا اقرار کرنے سے کوئی شخص مسلم بنتا ہے وہ اﷲ ربّ العالمین کی وحدت پر ایمان ہے۔ یہی توحید کا اقرار مسلمان کا اصل سرمایہ، اس کا جذبہ اور اس کی قوت محرکہ ہے۔ اس پر ایمان کی وجہ سے وہ دنیا پر غالب آیا اور اس میں نقص کی وجہ سے آج وہ دنیا میں خوار و زبوں ہے۔ تاہم اسی عقیدہ پر مضبوطی اور ایمان و عمل پر پختگی اُس کو اس کا کھویا ہوا مقام دلا سکتی ہے۔ چناںچہ مسلمان شعراء نے اﷲ رب العالمین کی بارگاہ میں حمد و مناجات کی صورت میں اپنے مسائل پیش کرکے اُس سے استعانت طلب کرنے کو اپنا موضوعِ سخن بنایا ہے۔ اردو میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے شعرا کے کلام کے چند نمونے درج ذیل ہیں:
ماہر القادری
ماہر القادری اپنے مخصوص لہجے کی بنا پر ادبی حلقوں میں اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے تھے۔ شاعری کی تمام اصناف پر قدرت رکھتے تھے۔ حمد، نعت، نظم، غزل اور گیت تقریباً تمام اصناف میں سخن گوئی کی اور لاجواب تخلیقات پر بہت داد پائی۔



Urdu Naat Lyrics

اُمتِ مسلم کے مسائل اور دین سے دوری اور اس کی وجوہات ان کے خصوصی موضوعات ہیں۔ اگست 1967ء کے چراغ راہ میں ان کی ایک نظم ’’مشہدِاکبر‘‘کے عنوان سے چھپی۔ اس میں وہ قبلۂ اول اور ارضِ مقدس کی بربادی پر یوں بارگاہِ ربّ العالمین میں عرض گزار ہیں:
ہیں ارضِ مقدس پہ یہودی متصرف
اے غیرتِ حق! حشر میں اب دیر ہی کیا ہے
فریاد ہے اے مصلحتِ کاتبِ تقدیر!
مسلم کا لہو دستِ یہودی کی حنا ہے٭۱
محمد منظور احمد منظور ڈیسوی
گجرات کے علاقے ڈیسہ میں فروری 1923ء میں پیدا ہوئے اور اپنی جوانی میں تحریک پاکستان میں پیش پیش رہے۔ بعد ازاں پاکستان کی اسلامی تشکیل کیلئے فکری محاذ پر بھی سرگرم رہے۔ نہایت خوددار اور بے باک تھے۔ آزادی کے بعد حیدرآباد سندھ میں قیام رہا، معروف شاعر پرفیسرعنایت علی خان اور پروفیسر نجم الاسلام صدیقی کے ہم پیالہ و ہم نوالہ تھے۔ مئی 1994ء میں وفات پائی۔ ان کے کلام کو ان کے صاحبزادے مختار احمد ڈیسوی نے ترتیب دے کر ’’انقلاب انقلاب‘‘ کے عنوان سے شائع کیا ہے۔
ربّ کائنات کی بارگاہ میں ’’مناجات‘‘ میں امت مسلمہ کے حالات کے حوالہ سے یوں عرض گزار ہیں:
اے خدائے وحدہ، رب قدیر
تو ہے مالک ہم تیرے بندے حقیر
چو طرف ہیں کفر کی طغیانیاں
نورِ ایماں سے منور کر جہاں
ہر طرف الحاد کی تاریکیاں
ہے بھنور میں ملّتِ اسلامیاں
کر عطا مسلم کو پھر عزمِ جواں
دور کر ملت کی یہ مایوسیاں
سرزمینِ پاک کے تحفظ پر اپنے رب سے دعا کرنے کے بعد سرزمین فلسطین پر قبضۂ یہود اور اپنی بے کسی کا اعتراف کرتے ہوئے حاجت روائی کی یوں دعا کرتے ہیں:
قبلۂ اول پہ قابض ہیں یہود
سر زمین پاک کا خطرہ ہنود
اب ترے در کے سوا جائیں کہاں
ہے تو ہی حاجت روا اک بے گماں
ہر طرف اغیار کی ہیں یورشیں
چپے چپے پرعیاں ہیں سازشیں٭۲
نذیر قیصر
نذیر قیصر نے مسجد اقصیٰ کی یہودیوں کے ہاتھوں بے حرمتی اور آتشزدگی کے واقعہ کے بعد ربِّ لم یزل کی بارگاہ میں فریاد کی۔ ملاحظہ کیجیے:
اے خدا! دیکھ یہ عہدنمرود
صحنِ اقصیٰ لہو رنگ ہوا
جلتے اوراق لیے، بجھتی ہوئی شام لیے
لب پہ تیرا نام لیے
آگ میں لپٹے ہوئے گنبد و محراب تیرے
صف بہ صف جلتے ہوئے حرف و صدا
راکھ میں بکھرے ہوئے دستِ دعا
زخمی ہونٹوں پہ سسکتی ہوئی
بے لفظ اذاں
طاقِ بینائی میں۔۔۔ جلتا قرآں٭۳
اردو نعت اور مسئلہ فلسطین
ادبیات نعت میں نبی کریمﷺ کی ذاتِ گرامی سے تخاطب اور فریاد کی روایت بڑی پرانی ہے جس کے نمونے عربی، فارسی کے ساتھ ساتھ اردو میں بکثرت ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ نعت نگاری میں شعرا کی جانب سے اپنے انفرادی و اجتماعی حالاتِ زار کی بارگاہ ِ رسالت مآبﷺ میں فریاد کے سلسلہ میں یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ اس سے یہ مراد قطعاً نہیں کہ یوں گویا آپ سے مشکل کشائی کی درخواست کی جاتی ہے بلکہ مقصود اس سے یہ ہوتا ہے کہ حضورﷺ کی ذاتِ گرامی کیوںکہ بارگاہِ الٰہی میں مستجاب ہے اس لیے اُن کے توسط سے اپنی فریاد بارگاہِ رب العالمین میں عرض کرکے وہاں سے مدد کی درخواست کی جاتی ہے۔ دوسرے آنجناب علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ گرامی سے مسلمانوں کا عشق و محبت اور آپ کا مومنین کے حق میں رؤف ورحیم ہونا اس عرضِ حال کا محرک و موجب ہوتا ہے۔ فارسی نعت میں مولانا عبد الرحمن جامی کے اشعار زبان زدِ عام و خاص ہیں:



Urdu Naat Lyrics

نسیما جانبِ بطحا گذر کُن
زاحوالم محمدؐ را خبر کُن
اردو میں الطاف حسین حالیؔ کا عرض حال بجناب سرور کائنات علیہ افضل الصلوٰۃ واکمل التحیات اس سلسلہ میں ایک توانا آواز اور دائمی مقبولیت کادرجہ رکھتی ہے۔ اور یہی ہماری اس بات کی تائید بھی کرتی ہے کہ مومن کا آںجنابﷺ سے فریاد کرنے کا مقصد کیا ہوتا ہے۔
اے خاصۂ خاصانِ رسُل وقتِ دعا ہے
اُمت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
فریاد ہے اے کشتیٔ امت کے نگہباں
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
کر حق سے دعا امتِ مرحوم کے حق میں
خطروں میں بہت جس کا جہاز آکے لگا ہے
تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی
ہاں ایک دعا تیری کہ مقبولِ خدا ہے
حالی کے ہاں زبوں حالی امت کو بارگاہِ رسالت میں عرض کرنے کا بڑا خوب صورت انداز ہے۔ یہی بات انھوںنے اپنی مسدس میں ایک دوسرے انداز میں کہی ہے۔
اسی طرح نعیم صدیقی کے ہاں بھی اسی روایت کا تسلسل ملتا ہے۔ وہ 1960ء کی کسی صبح کو اخبار سے کسی خبر سے متاثر ہوکر تاریخ ملتِ اسلامیہ کے خون آلود اوراق کے نگاہوں میں پھر جانے اور پھر عالم خیال جسے وہ شاعرانہ کشف کا عالم قرار دیتے ہیں، میں حضورﷺ کی بارگاہ میں پیغام رساں ہوتے ہیں:
مری فغانِ سحر! جابہ درگہِ عالی
وہ ایک ذات کہ ہے بے نواؤں کی والی
یہ دکھڑا روئیو، روضے کی تھام کر جالی
بہت دراز ہوا اب یہ دردناک عذاب
ہیں کتنے قرن سے تیرے غلام خانہ خراب
یہ تیرہ صدیوں کی شب! اتنا ہول ناک یہ خواب
اب ان درندوں سے ممکن نجات ہے کہ نہیں؟
حضور! کوئی امیدِ حیات ہے کہ نہیں؟٭۵
ماہر القادری یوں عرض گزار ہیں:
آپ کی امت ہے باحالِ تباہ
اس طرف بھی اک عنایت کی نگاہ٭۶
اردو نعت کے موضوعات کے حوالے سے ڈاکٹر سیّد یحییٰ نشیط نے لکھا ہے کہ نعت کے موضوعات (۱) نعت خالص (۲) میلاد نامے (۳) معراج نامے (۴) وفات نامے (۵)اسرائیلیات (۶)صنمیات پر مشتمل ہے (7) ان میں موخر الذکر دو ناپسندیدہ ہیں۔ تاہم ہمارے نزدیک ادبیات نعت میں عرضِ حال اور فریاد ناموں کا موضوع بھی بہت نمایاں ہے۔چناںچہ ریاض حسین چودھری، خدمت اقدسﷺ میں’’خنک ساعتوں کا موسم‘‘ کے عنوان سے اپنی نعت میں زبوںحالیِ امت کا قصہ پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
یہ کیسی آگ ہے جس کا نہیں دھواں کوئی
یہ کیسی رات ہے جس کی سحر نہیں ہوتی
حضور آپ کی امت ہے مقتلِ شب میں
خودی کو اہل ہوس نے بنا لیا لونڈی٭۸
خواجہ عابد نظامی نے حضورﷺسے آپکے مستجاب الد عوات ہونے ہی کی بنا پر یوں عرض کی ہے:
مرے آقا! دعا امت کے حق میں
کہ اس میں الفتِ باہم نہیں ہے٭۹
چناںچہ آئندہ سطور میں فلسطین کے حوالے سے اردو شعرا کا نعت کی صورت میں عرضِ حال کا جائزہ پیش کیا جائے گا۔
احمد ندیم قاسمی
احمد ندیم قاسمی کا نام اردو ادب میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ نظم و نثر دونوں میدانوں کے شہسوار تھے اور اپنے ہم عصر و ہم فکر ادبا کے قافلہ کے سالار بھی۔ قاسمی صاحب کے ہاں نعتِ رسول مقبولﷺمیں آپ کی امت کی حالتِ زار کے حوالے سے عرضِ حال کا موضوع پایا جاتا ہے۔ ’’مرے حضورﷺ‘‘ کے عنوان سے ایک نعت میں وہ رقم طراز ہیں:
میرے حضور! سلام و درود کے ہمراہ
کئی گلے بھی کروں گا کہ دردمند ہوں میں
تمھارے نام کا تنہا جنھیں سہارا تھا
تمھارے نام پہ لٹنے لگے ہیں بے چارے٭۱۰
نعت میں فلسطین اور مسجدِ اقصی پر قبضے کا تذکرہ عوامی سطح پر جن شعراء کے کلام کی وجہ سے متعارف ہوا ان میں احمد ندیم قاسمی کا نام سرفہرست ہے۔ ان کی معروف نعت ’’کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا‘‘ کا آخری شعر تو زبان زدِ عام و خاص ہے۔ وہ روحِ گرامی نبی اکرمﷺ سے مخاطب ہوکر عرض کرتے ہیں:
ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصیٰ تیرا٭۱۱
اس شعر میں اصلاً تو لفظ بطحا کی جگہ ’’یثرب‘‘ ہے تاہم کیوںکہ حضورﷺ نے یثرب کا نام بدل کر مدینہ کردیا تھا تو قاسمی صاحب کے اس شعر کو کئی مجموعوں میں لفظ ’’بطحا‘‘ کے ساتھ ہی لکھا گیا ہے۔ دوسرے راقم الحروف نے شاعر کی موجودگی میں ایک مشاعرے میں ان کی اسی نعت کے اسی شعر کو خوش الحانی سے پڑھا اور یثرب کی جگہ بطحا کہا تو انھوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا


تھا۔


 
Urdu Naat Lyrics

نعیم صدیقی
نعیم صدیقی اردو ادب کی دنیا میں اسلامی ادبا تحریک کے روحِ رواں رہے۔ سکّہ بند شاعر اور بلند پایہ ادیب و نثر نگار تھے۔ سیرت طیبہ پر ان کی کتاب ’’محسن انسایت‘‘ ادبیاتِ سیرت میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔ انھوںنے کئی مایہ ناز نعتیں کہیں، نعت کو نئے اسلوب سے آشنا کرنے اور حالاتِ حاضرہ کو نعت میںسمونے کا اُن کو فن آتا ہے، سیرتِ مصطفی کے ساتھ ساتھ اُمتِ مسلمہ کی دو رنگی اور شکست خوردگی اُن کی نعت کے نمایاں موضوعات ہیں۔ وہ نہ صرف خود نعت کے ان موضوعات کو اختیار کیے ہوئے تھے بلکہ انھوںنے دیگر نعت نگاروں کو بھی اس طرف متوجہ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
اے نعت نگارو ہُنرمندو کوئی ایسی زندہ نعت کہو
روحوں کے اندھیرے چھٹ جائیں کوئی ایسی زندہ نعت کہو
تزویر کی اندھی نگری میں کمزوروں پر کر کر کے ستم
جو بڑھتے رہے وہ گھٹ جائیں کوئی ایسی زندہ نعت کہو٭۱۲
نعیم صدیقی کی نعت میں بالعموم نبی کریمﷺکی روحِ گرامی سے تخاطب اور پھر آپ سے ادھر نظر کرنے کی درخواست گزاری کا انداز پایا جاتا ہے، شعر ملاحظہ ہو:
عدوہیں چار طرف، لڑ رہا ہوں میں تنہا
بسوئے معرکۂ خیر و شر بس ایک نظر٭۱۳
شاعر اپنے اوّلین سفرِ حجاز میں جب مدینہ النبیﷺ میں حاضری دیتا ہے اور بارگاہِ خیرالانامﷺ میں سلام پیش کرتا ہے تو چودہ صدیوں کے دورِ ہجر کو ایک رات کے قرب و وصال میں قصۂ درد کو تمام کرنے پر اپنے عجز کا اعتراف کرنے کے بعد پھر امتِ مسلمہ کے حالِ زار کو حضورﷺ کی خدمت میں پیش کرتا ہے:
سارے جہاں کی قوتیں میری حریف ہوگئیں
میرے خلاف دہر کا سارا نظام اے حضور٭۱۴
قضیۂ فلسطین و لبنان اور عالم اسلام کے دیگر علاقوں میں غیروں کے ہاتھوں خون مسلم کی ارزانی انھیں بے چین و مضطرب کرتی ہے تو وہ ’’امت والےؐ‘‘ سے مخاطب ہوکر یوں گریہ کناںہوتے ہیں:
بستی بستی، وادی وادی، صحرا صحرا خون
امت والے ! امت کا ہے کتنا سستا خون
ایک نظر سرکار معلی ! کابل تا لبنان
محروموں کا، مظلوموں کا معصوموں کا خون٭۱۵
پھر شاعر اُمتِ مسلمہ بالخصوص قائدینِ امت کے بے حسی کے رویے پر تو گویا تڑپ اُٹھتا ہے اور ’’امت والے ‘‘ سے عرض کرتا ہے:
تیرے عاشق خاک و خون میں لوٹیں اور ہم چُپ
کھول رہا ہوں، اپنوں کا ہے کتنا ٹھنڈا خون٭۱۶
حسن المرتضیٰ خاور
حسن المرتضیٰ خاوراصلاً تو ضلع جھنگ سے تعلق رکھتے تھے تاہم پھر پنجاب کے دور افتادہ ضلع رحیم یار خان میں مستقلاً آباد رہے۔ ایک راست فکر شاعر تھے غالباً ملکی سطح پر شعرا کے حلقوں میں زیادہ متعارف نہ ہوسکے تاہم وہ بڑے توانا اور پختہ لہجے کے شاعر تھے۔ وہ شاعری پر کئی کتب کے مصنف تھے، مثلاً متاعِ کارواں، نغمات جہاد، اسلام کی فریاد وغیرہ مگر ہمیں اُن کی صرف ایک کتاب ’’نغماتِ حرم‘‘ مل سکی۔ اس کتاب کا بیش تر حصہ نعت پر مشتمل ہے۔ خاور اس کتاب میں ’’فریاد بحضور خیرالانامﷺ‘‘ میں زبوں حالی امت پر یوں رقم طراز ہیں:
تو ہی دیدۂ عالم کی ضیا ہے سرورِ عالم
تیری آمد پہ شورِ مرحبا ہے سرورِ عالم
تری امت گرفتارِ بلا ہے پھر زمانے میں
بہت مشکل ہے اب وقتِ دعاہے سرورعالم
آگے چل کر مسجدِ اقصیٰ کی دِگرگوں صورتِ حال پر یوں اشک بار ہیں:
ہیں محرومِ اذاں اب مسجدِ اقصیٰ کے مینارے
جہاں میں ہر طرف آہ و بکا ہے سرورِ عالم
ابھی تک پاک صخرہ منتظر و آبدیدہ ہے
فروزاں جس پہ تیرا نقشِ پاہے سرورِ عالم٭۱۷
’’معراجِ رسولﷺ‘‘کے عنوان سے ایک نعتیہ نظم میں معراجِ رسول کریمﷺ کی روداد نظم کرنے کے بعد آپ کی بے نواؤں پر کرم نوازیوں کا تذکرہ کرکے امت کی حالت زار بیان کرتے ہیں اور پھر مسجدِ اقصیٰ و بیتِ اقدس کا گریہ یوں پیش کرتے ہیں :
ہے امت تری آج پھر بے سہارا
ہے کون اس کو جو پستیوں سے اٹھائے
جہاں میں جنھیں سروری تو نے بخشی
انھیں کے سروں پر ہیں ذلت کے سائے
وہی پاک ضخرہ ترا جو نشاں تھا
اب اس پر یہودی درندے ہیں چھائے
وہی بیت اقدس ہے اب محوِ گریہ
جہاں تو نے القاب عظمت کے پائے
اذاں سے ہے محروم محرابِ اقصیٰ
لہو کے فلک نے ہیں آنسو بہائے
وہ عقبیٰ کی گھائی وہ شہر خلیلی
مقدس مقامات ہم نے گنوائے
وہ صحرا ئے سینا وہ عیسیٰ کا مولد
وہاں ظلمتوں کے ہیں اب گہرے سائے
وہ اجڑا پڑا ہے چمن تیرے دیں کا
فلک نے مجھے آج یہ دن دکھائے
مرے دل کے زخم اب بنے رستے گھاؤ
خدائے محمد ہی بگڑی بنائے٭۱۸
سیّد مطلوب علی زیدی مطلوب


 
Urdu Naat Lyrics

سیّد مطلوب علی زیدی مطلوب کا تعلق بہاولپور سے ہے۔ آپ مقامی کالج میں انگریزی زبان و ادب کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ ادبی گھرانے سے تعلق اور اہل زبان ہونے کے ساتھ ساتھ فارسی و انگریزی ادب سے کما حقہ شناسائی رکھتے ہیں۔ اردو شاعری میں ان کا پختہ لہجہ اُن کے بڑے مقام کا پتہ دیتا ہے تاہم روایتی ادبی و علمی مراکز سے دوری اور شاعروں اور ادب کی مروجہ انجمنوں سے دوری کی وجہ سے ان حلقوں میں زیادہ معروف نہیں ہیں۔ ان کی شاعری کا ’’صبوحی‘‘ کے نام سے ایک دیوان چھپ چکا ہے۔ انھوں نے ہر صنفِ شاعری میں اپنے جوہر دکھائے ہیں۔ چناںچہ نعت میں اُن کا لہجہ اپنی الگ پہچان رکھتا ہے اور دلوں کی دنیا کو متزلزل کر دینے کی تاثیر سے مالامال ہے۔ امتِ مسلمہ کا درد تو گویا اُن کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ جو بسا اوقات ایک طوفان منہ زور کی شکل اختیار کرتا ہے تو شعروں کی صورت اختیار کرکے قاری کے دل کی دنیا کے امن کو تہہ و بالا کرتے ہوئے اپنی رو میں بہالے جاتا ہے۔ اپنی ایک نعت بعنوان ’’سلام بخدمت مدینۃ العلم‘‘ میں عرض کرتے ہیں:
پارہ پارہ ہو رہا ہے کیوں دل خیر الامم؟
ہوگیا سکتے میں کیوں اب جسمِ امت؟ السلام
تاقیامت، قائم و دائم رہے، تیرا حرم
قبلۂ اوّل پہ، آتی ہے قیامت، السلام
سخت نا دم ہوں میں، اس حرکت پہ شاہِ دوسرا
کیا کروں آتی ہے لب پر، اب شکایت، السلام
پھر رہے ہیں دندناتے اب نصاریٰ اور یہود
ہیں مسلماں، کیوں گرفتارِ مصیبت؟ السلام٭۱۹
حبیب کبریا علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ایک دوسری جگہ یوں فریاد کناں ہیں:
کفر کی ظلمت ہے پھیلی چار سوکاش روشن ہو دیا فریاد ہے
مسجدِ اقصیٰ پہ قابض ہیں یہود قبلۂ اول چھنا! فریاد ہے
اب فلسطیں میں، قیامت آگئی لوٹتے ہیں اشقیافریاد ہے٭۲۰
مطلوب زیدی نے مولانا الطاف حسین حالی کی معروف ’’عرضِ حال ’’اے خاصۂ خاصان رسل وقت دعا ہے‘‘ کی بڑے خوبصورت اور پرُ اثر انداز میں تضمین کی ہے۔ جس میں دورِ حاضر کے مسائل کی تصویرکشی پرُزور انداز میں کی ہے۔ حالی کے برعکس شاعر نے اس فریاد کو مسدس کہا ہے جس میں چھٹا مصرع وہ حالی ہی کا لاتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:
ظالم ہے فلک اور مکدر ہیں فضائیں
طوفاں ہے بہت تیز، مخالف ہیں ہوائیں
ڈر ہے کہ یہ چپو بھی کہیں ٹوٹ نہ جائیں
ہیں تیری طرف امتِ عاصی کی نگاہیں
کشتی کا بھروسہ ہے نہ ساحل کا پتا ہے
’’اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعا ہے‘‘
اور قبلۂ اوّل اور اس کے اردگرد خونِ مسلم کے مباح ہونے پر یوں گریہ کرتے ہیں:
اپنا نہ رہا اب وہ فلسطین ہمارا
ہے خونِ مسلماں پہ یہودی کا گزارا
سازش ہے مٹا دیں وہ تیرا دین ہی سارا
کیا مسجدِ اقصیٰ کی تبا ہی ہے گوارا
اب قبلۂ اول تیرا تاریک پڑا ہے
’’اے خاصۂ خاصانِ رُسل وقتِ دعا ہے‘‘٭۲۱
سلیم ناز بریلوی


 
Urdu Naat Lyrics

سلیم ناز بریلوی بنیادی طور پر ’’کشمیر کے شاعر‘‘ تھے، کشمیرہی کے پس منظر میں اپنی ترانہ نما نعت میں جہاں وہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے آگ و خون کے کھیل کا دکھڑا عرض کرتے ہیں، وہیں وہ مسجدِ اقصیٰ کے پاس فلسطینی مسلمانوں کے خون کی ارزانی پر بھی درد کی ٹیسوں کا احساس پیشِ بارگہِ نبویﷺ کرتا ہے:
بھارت نے جنت کی فضا میں زہر کی پڑیا گھولی ہے
سارے ہی کشمیر میں پیہم آگ ہے خون کی ہولی ہے
سری نگر سے اقصیٰ تک ہر سمت لہو کی ہولی ہے
ٹوٹ رہے ہیں سارے سہارے یا رسول اﷲ
رو رو کر کشمیر پکارے یارسول اﷲ٭۲۲
یزدانی جالندھری
اپنے طویل ’’نعتیہ قصیدہ‘‘ میںنعت کے حوالے سے اپنے عجزِ سخن کا اعتراف کرتے ہوئے حضورﷺ کی ذات گرامی پر خوب صورت سلام پیش کرنے کے بعد امت کے حالِ زار کے حوالے سے یوں عرض کرتے ہیں:
نظر ہو ملتِ بیضا پہ اب اے نورِصمدانی
کہ بھولی ہے یہ اندازِ جہانگیری و سلطانی
پھر شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے الفاظ ’’لہو مجھ کو رُلاتی ہے مسلماں کی تن آسانی‘‘ کو شامل نعت کرتے ہوئے اُمتِ مسلمہ کے فرقوں میں بٹ جانے، جغرافیائی دیواروںاور قومی عصبیتوں میں امت کے کارواں کا بے جا دہ و منزل بھٹکنے کا رونا روتے ہیں۔ اندازِ حدی خوانی چھوڑ کر نظامِ اشتراکیت اور سرمایہ داری میں قائدینِ ملت کے پناہ لینے کا قصہ نظم کرنے کے بعد یوں فریاد کناں ہیں:
فلپائن ہویا لبنان، اریٹریا ہو یا افغان
مسلماں کا لہو بہتا ہے بن کر چار سو پانی
فلسطینی ادھر ہیں جبرِ اسرائیل سے بے دم
اسیرِ پنجۂ صیہونیت اُس سمت لبنانی٭۲۳
سعید بدر
سعید بدر اپنی ایک پچپن اشعار پر مشتمل طویل نعت میں جس کو انھوں نے ’’فریادِ امت بحضور رحمت للعالمینﷺ‘‘ کا عنوان دیا ہے، عالم اسلام کے مسائل اور امتِ مسلمہ کی حالتِ زار کا ذکر نہایت دردناک انداز میں بارگاہِ نبوت میں پیش کرتے ہیں۔ اس سے قبل وہ حضورﷺ کی تعریف، آپ کی بعثت مبارک کے وقت کے حالات اور آپ کے جود وکرم سے اس کا گہوارۂ امن بن جانے کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ آج بھی ملتِ اسلامیہ کے درد کا درماں آپ کی ذاتِ گرامی ہے اور تمام بیماریوں سے شفایابی کا ساماں بھی آپ ہی کا اسوہ ہے۔ پھر روحِ محمدﷺ سے مخاطب ہوکر عرض کرتے ہیں:
حالِ مسلم کیا کہوں؟ کس درجہ ہے سنگیں ہوا
مشرق و مغرب بھی اس کے خون سے رنگیں ہوا
اور خطۂ فلسطین میں مجاہدین ملت کی بے کسی اور بے بسی کے بارے میں یوں عرض کرتے ہیں:
سارے ایرانی، عراقی، مبتلائے حرب و کرب
اور فلسطینی مجاہد منتشر تا شرق و غرب
آگے چل کر کہتے ہیں:
چند لاکھوں نے کروڑوں کا کیا جینا حرام
لے نہ پائے آج تک صیہونیوں سے انتقام٭۲۴
اردو حمد اورمسئلہ کشمیر


 
Urdu Naat Lyrics

مسئلہ کشمیر پر بھی اردو شعرا نے بہ صورت حمد و مناجات بارگاہِ ربّ العالمین میں مدد کے لیے پکار کی ہے جس کا ایک مختصر جائزہ درجِ ذیل ہے:
گوہر ملسیانی
گوہر ملسیانی کا نام اردو شاعری میں بہت جانا پہچانا ہے۔ بالخصوص نعت گوئی ان کا خاص ذوق ہے۔ نعت پر ان کے کئی مجموعے منصہ شہودپر آچکے ہیں۔ کشمیر اور اہل کشمیر سے اُن کی دلی وابستگی اور ان کے آلام پر دل گرفتگی نیز مجاہدین کی ہمت افزائی بھی اُن کا موضوعِ سخن ہے۔ اپنی ایک مناجات بحضور رب کائنات میں اوّل تا آخر قضیہ و قصۂ کشمیر ہی بارگاہِ ربّ العالمین میں پیش کرتے ہیں۔
اے ربِ کائنات اے خلّاقِ شش جہات
ارض و سما میں ہرجگہ بیدار تیری ذات
رحمن بھی رحیم بھی، اعلیٰ تیری صفات
کرّو بیاں پہ خاص ہے احسان والتفات
سارے جہاں پہ مہرباں تو ربِّ کائنات
مشرق میں ایک وادی ہے کشمیر جس کا نام
نرغے میں آج ہند کے ہیں اُس کے خاص و عام
بچے ہیں یا جوان ہیں بے چین ہیں تمام
وہ چاہتے ہیں سرورِ کونین کا نظام
عزمِ صمیم دے انھیں قادر ہے تیری ذات
خوں میں نہائی آج ہے کشمیر کی زمیں
پرُسانِ حال دہر میں ان کا کوئی نہیں
شعلوں کی زد میں آج ہے وہ خطۂ حسیں
ہر ایک تن دریدہ ہے، ہر ایک ہے حزیں
اے مبدعِ سراج دے اُن کو بھی آب و تاب٭۲۵
شفقت تنویر مرزا
شفقت تنویر مرزا کا تعلق بنیادی طور پر کشمیر سے ہے مگر اپنے طالب علمی دور سے پاکستان میں مقیم ہیں اور صحافت کے میدان میں ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ پاکستان کی آزادی کے بعد مراحل تحریک آزادی کشمیر کو انھوںنے بچشم خود دیکھا ہے۔ عام طور پر ان کو ایک روشن خیال مفکر خیال جاتا ہے۔ ان کے نظریات کی تعبیریں مختلف ہوتی ہیں، کشمیر کے رنج الم اور بربادی و مسلسل غلامی پر وہ اپنے رب سے ’’پہلی پکار‘‘ کے عنوان سے فریاد میں کہتے ہیں:
خدائے عالم! بلند و برتر! کبھی تو نیلی بلندیوں سے
کسی سہانی سحر کے پردے سے لمحہ بھر کو ادھر نظر کر
کھنڈر ۔۔۔ یہ مخلوق، اشرف الخلق۔۔۔ظلم کی تیرگی سے نکلے
کھنڈر ۔۔۔ یہ مخلوق، اشرف الخلق ۔۔۔ ظلم کی تیرگی سے نکلے٭۲۶
پروفیسر عنایت علی خان


 
Urdu Naat Lyrics


پروفیسر عنایت علی خان اردو ادب میں طنزو مزاح نگار کے طور پر معروف ہیں۔ ان کی مزاحیہ غزلوں ’’ذرا یہ ورلڈ کپ ہولے تو اس کے بعد دیکھیں گے‘‘ اور ’’ہم لائے ان کو راہ پر مذاق ہی مذاق میں‘‘ نے مقبولیت کی انتہائی حدوں کو چھوا ہے۔ تاہم یہ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ ایک انتہائی سنجیدہ شاعر ہیں۔ بقول ان کے انھوں نے کبھی مزاح نہیں کہا ہے وہ تو سچائی بیان کرتے ہیں۔ اور یہ سچ بھی ہے انھوں نے ہماری معاشرتی زندگی کی ناہمواریوں کو اتنے خوب صورت انداز میں ایسے پیرائے میں ظاہر کیا ہے کہ ان کو پڑھ کر پہلے تو ہنسی آتی ہے اور قاری ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتا ہے اور پھر اگر دلِ حساس اس کے پاس ہو اور وہ اس پر مزید غور کرے توان تلخ حقائق پر اس کی چیخ نکل جاتی ہے اور وہ پھوٹ پھوٹ کر روپڑتا ہے۔
پروفیسر عنایت علی خان نے، حمد و نعت، نظم و غزل، قطعہ اور ترانہ وغیرہ میںبھی طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی شاعری کے موضوعات میں امتِ مسلمہ کے مسائل پر اظہار خیال شامل ہے۔ انھوں نے عالمِ اسلام کے تقریباً سبھی مسائل زدہ علاقوں اور ممالک پر اپنے احساسات کو شاعری کا جامہ پہنایا ہے۔ پروفیسر عنایت علی خان بارگاہ رب العالمین میں ’’اے خدا‘‘ کے عنوان سے ارض کشمیر کی فریاد یوں پیش کرتے ہیں:
ارض کشمیر سے آتی ہے یہ دلدوز صدا
اے خدا! اب تو کسی یارو مددگار کو بھیج!
اپنی رودادِ الم جا کے سناؤں کس کو؟
اور یہ حالِ زبوں جاکے بتاؤں کس کو؟
داغِ دل زخمِ جگر جاکے دکھاؤں کس کو؟
کس کو آواز دوں نصرت کو بلاؤں کس کو؟
اے خدا! اب تو کسی یارومددگار کو بھیج!
شاعر دل دوز مظالم سے نجات، بیٹیوں کی ناموس کی حفاظت اور شعلہ زن کوچہ و بازار کے امن کی درخواست گزاری کرتے ہوئے اپنے مہربان خدا سے کچھ یوں شکایت کناں ہے:
کیا مرے درد کی دنیا میں دوا کوئی نہیں؟
کیا بھری دہر میں گوش شنوا کوئی نہیں؟
میرے حق میں جو اُٹھے ایسی نوا کوئی نہیں؟
کفر ہنستا ہے کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں؟
اے خدا! اب تو کسی یارو مددگار کو بھیج!٭۲۷
سلیم ناز بریلوی
جہادِ کشمیر کی موجودہ تحریک میں ایک ہیرو کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے اس موضوع پر نہ صرف نظمیں اور ترانے کہے ہیں بلکہ حمد ونعت کی صورت میں اپنی خوش الحانی سے دلوں کو گرمایا اور جذبوں کو تازہ کیا ہے۔ امجد اسلام امجد، سلیم ناز بریلوی کی نظموں اور ترانوں کی مقبولیت پر لکھتے ہیں :
میں سمجھتا ہوں کہ عوامی مقبولیت خود اپنی جگہ پر ایک باقاعدہ اور مسلمہ معیار ہے۔ سو عطاء اﷲ عیسیٰ خیلوی کا گانا ہو یا استاد دامن اور سلیم ناز بریلوی جیسے شاعروں کی شاعری ۔۔۔٭۲۸
عطاء الحق قاسمی کے بقول:
سلیم ناز ایک اَن تھک قلمی مجاہد ہے جو اب تک صرف جہاد کشمیر کے موضوع پر سیکڑوں رزمیہ ترانے لکھ چکنے کے باوجود اسی موضوع پر تخلیقی دولت سے مالامال ہے ۔۔۔ میں اپنے اس دوست کو سلام کرتا ہوں۔٭۲۹
چناںچہ وہ کشمیر کی غلامی کی تاریک رات کے خاتمے کے لیے بارگاہِ ربّ العالمین میں یوں عرض کناں ہیں :
شب یہ غلامی کی کر دے کا فور یا اﷲ
دے کشمیر کو آزادی کا نور یا اﷲ
یا رب نیلم وڈل کے کنارے آج یزیدی لشکر ہیں
آزادی کی پیاسی وادی کے حلقوم پہ خنجر ہیں
اور ہم اس کشمیر کی کرب وبلا میں حسینی پیکر ہیں
بپا ہے جنت میں یومِ عاشور یا اﷲ
دے کشمیر کو آزادی کا نور یا اﷲ
ہند کی اس خونخوار خزاں کے سر کو کچل دے یا اﷲ
آزادی کے سوکھے پیڑ کو میٹھے پھل دے یا اﷲ
جموں اور کشمیر کی اب تقدیر بدل دے یا اﷲ
ہر کہسار بنا دے کوہِ طور یا اﷲ
دے کشمیر کو آزادی کا نور یا اﷲ٭۳۰
مطلوب علی زیدی، مطلوب
جیسا کہ گزشتہ سطور میں بیان ہوا مطلوب زیدی کا انداز نہایت پرُ اثر اور لہجہ بہت بلیغ ہے، انھوں نے حمد ونعت میں مصائبِ امت کو باقاعدہ موضوع بنایا ہے۔ چناںچہ اپنی ایک حمد بعنوان ’’فریاد بحضور ربّ العالمین‘‘ میں یوں عرض گزار ہیں:
ہے قوی، سب سے بڑا، تو سب سے، اعلیٰ شان ہے
آج کیوں خطرے میں، تیرے دینِ حق کی آن ہے
المدد! ہاں المدد! ہاں اے علیم و اے قدیر!
کون ہو فریاد رس، تو ہی فقط رحمان ہے
خسۃ تن ہیں، خسۃ جاں، خاموش لب، دل ناتواں
پیاس سے لب خشک ہیں، ہر جسم اب بے جان ہے
اور پھر مطلوب زیدی اس فریاد میں جنت برزمیں ،فردوس کشمیر اور اہل کشمیر کے درد کی تصویر کشی کرکے یوں دست بدعا ہیں:
جنتِ کشمیر پر، سُرخ آندھیوں کا راج ہے
نعرۂ تکبیر سے ناراض ہنو مان ہے
چادریں لٹتی ہیں، روتی ہے کھڑی برسات رات
جلد ہو جائے سحر مطلوب! اب یہی ارمان ہے٭۳۱
اردو نعت اور مسئلہ کشمیر
اردو نعت میں شعراء کے تذکارِ کشمیر کا ایک جائزہ ملاحظہ ہو:
نعیم صدیقی
نعیم صدیقی نے ایک طویل نعتیہ نظم ’’گرداب و گہر‘‘ کے عنوان سے کہی جو سولہ لائنوں کے اُنیس صفحات پر مشتمل ہے۔ نظم کو آٹھ بڑے حصوں میں تقسیم کیا گیاہے۔ اس نظم میں شاعر اپنے کمالِ فن کے ساتھ ساتھ نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں گویا اپنے زخمی دل و جگر، حزن و ملال سے چور چور روح و جان اور ملت اسلامیہ کی تاریخ اور حال کے اپنے ذہن کی لوح پر ہزاروں زخم سجائے موجود ہے۔ اس نعتیہ نظم کے آغاز میں حضورﷺ کی تعریف، آپ کے کرشمۂ پیمبری کا تذکرہ اور آپ کے اصحاب ؓ کی انجمن آرائی کا بیان ہے۔ پھر بالعموم امت مسلمہ کی خراب و خوار زندگی کا عنوان ہے کہتے ہیں ‘
میرے نبی!
میرے نبی محترم! میرے ولیٔ ذی حشم!
یہ زندگی ! یہ اِک وفا شعار کی، یہ ایک جاں نثار کی، خراب و خوار زندگی!
یہ تن پہ بار زندگی! جگر میں یہ چُبھی ہوئی مثالِ خار زندگی!
یہ اِک عذاب پے بہ پے کہ ہر نفس ہے نیش زَن، مثالِ مار زندگی!
پھر آگے چل کر وہ کشمیر کی شعلہ بار صورت حال کا تذکرہ یوں کرتے ہیں ‘
پھر آگئی ہے سر پہ رات
کبھی کے سائے ڈھل گئے
یہ دل کشا بنفشہ زار
چنار شعلہ بار ہیں، کھڑے قطار در قطار
اور اس کے آخری اشعار میں اپنے غمِ دل کا اظہار اس طرح کرتے ہیں :
مِرا یہ دل ہے زخم زخم
مِرایہ دل ہے داغ داغ
مِرا یہ دل لہو لہو، بایں ہزار کیف و کم
مِرے نبی محترم!٭۳۲
گوہر ملسیانی
گوہر ملسیانی کے ہاں نعت میں سیرت رسولﷺ، عظمتِ رسولﷺ اور دیگر موضوعاتِ نعت کے ساتھ ساتھ امت کی حالت زار کی فریاد کا موضوع بھی بکثرت ملتا ہے۔ بالخصوص اُن کے ہاں ملتِ کشمیر کی حالت و فریاد پر کثرت سے اشعار ملتے ہیں۔ ایک نعت کا شعر ملاحظہ ہو:
اے موجِ لطافت ابرِ کرم، اے شافعِ محشر، شاہِ امم
کشمیر میں بے کس دیوانے، دن رات ستائے جاتے ہیں
ایک دوسری جگہ حضور ﷺ کی شبنمیں باتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے یکدم اس موضوع کی طرف یوں آتے ہیں :
آپ کی باتیں پیار کی شبنم، خوش بو، رنگ، صبا
گلشن گلشن، مہکیں ہر دم، خوش بو، رنگ، صبا
کہساروں پر آگ ہے آقا، امت ظلم سہے
زخمی زخمی، پورب پچھم، خوش بو، رنگ، صبا
اور اس نعت میں تو گوہر ملسیانی بحضور رسالت مآب ﷺ کچھ اس طرح سے فریاد کناں ہیں کہ جس میں امت کا درد بالعموم اور ملتِ کشمیرکا دکھ بالخصوص اُن کے قلم میں سمٹ آیا ہے:
تڑپا زباں پہ قصۂ درد و الم حضور
امت پہ آج عام ہے ظلم و ستم حضور
ارزاں ہوا ہے دہر میں اسلامیوں کا خون
زخموں سے چور چور ہیں عرب و عجم حضور
کشمیر میں بھی جورہے لیکن ترے غلام
تھامے ہوئے ہیں آج کل تیرا علم حضور
اس داویٔ چنار میںکرگس ہیں خیمہ زن
قابض ہیں اس پہ دیر سے اہلِ صنم حضور
ہر شہر میں فساد ہے ہر کوچہ ہے قتل گاہ
ہوتے ہیں روز و شب کئی سر بھی قلم حضور
کر دیں جو بارگاہِ مقدس میں التماس
مل جائے ان کو پھر وہی جاہ و حشم حضور٭۳۳
سعید بدر
فلسطین کے حوالے سے ان کی پچپن اشعار پر مشتمل نعت ’’فریاد امت بحضور رحمت للعالمین‘‘ کا تذکرہ پہلے گزر چکا ہے اس میں جہاں وہ دیگر خطۂ ہائے زمین پر مسلمانانِ عالم کی زبوں حالی کو بارگاہِ نبوی میں عرض کرتے ہیں وہاں وہ خطۂ کشمیر کے مجبور و مقہور مسلمانوں کے درد و آلام کی تصویر کشی یوں کرتے ہیں:
خطۂ کشمیر میں لاکھوں مسلماں زیرِ دام
جو رہے صدیوں سے ہیں محکوم و مجبور و غلام
اور ملتِ اسلامیہ کے حدیث مبارکہ کے مطابق جسدِ واحد کی تصویر کشی تو درج ذیل شعرمیں کیا خوب کی گئی ہے:
کیا کہوں؟ کیسے کہوں؟ میں کچھ بتا سکتا نہیں
تن بدن پر زخم ہیں کتنے دکھا سکتا نہیں٭۳۴
شفقت تنویر مرزا
شفقت تنویر مرزا ،شیخ عبد اﷲ کے عہد حکمرانی میں مقبوضہ کشمیر میں عیدمیلادالنبیﷺ منانے پر پابندی کی خبر سُن کر بے چین ہو جاتے ہیں تو روح سرورِ کونین سے اپنی نعت تیرا نام ۔۔۔ تیرا نام میں یوں مخاطب ہوتے ہیں :
دیوتاؤں کی زمیں آج مقدس ٹھہری
بُت شکن بُت گری کرنے پہ اتر آئے ہیں
دیکھ اے روح محمد! کہ یہ ارض کشمیر
بُت تری ہمسری کرنے پہ اتر آئے ہیں
دیوتا زادوں نے کیا روپ دکھائے ہیں ہمیں
موت انجام ہوئی نام ترا لینے پر
تیری تقدیس کی شب اور دیا تک نہ جلے
تیرا دن اور ترے بندوں کو اندھیروں کا سفر
پھر شاعر اپنے اس غم اور فریاد کو عزم اورحوصلے میں بدلتا ہے اور اس سے امید کی شمع روشن کرتا ہے۔اسم محمدﷺ کی برکت اور ڈھارس حاصل کرتے ہوئے غلامی کی زنجیروں کو کاٹنے اور تاریکیوں کو روشنیوں میں بدلنے کا عزم یوں ظاہر کرتا ہے،
یوں ترے نام پہ ممکن ہے کوئی حرف آئے
مظہرِعظمتِ آدم ہے ترا اسمِ جمیل
صبحِ منزل ہے ترا ذکر تو اے جانِ حیات
نام لے کر ترا کاٹیں گے اندھیروں کی فصیل٭۳۵
سلیم ناز بریلوی
نعیم صدیقی مرحوم کی معروف نعت ’’ہے عرض داستانِ غم میرے نبی محترمؐ ‘‘ کو اپنی خوبصورت آواز میں پڑھ کر دوام بخشنے والے حساس دل کے شاعر سلیم ناز بریلوی خود بھی نعت گو نعت خواں تھے۔ انھوں نے کشمیر کے حوالے سے نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض حال کا ایک بالکل مختلف انداز اپنایا ہے۔ ان کی اس نعت نما کشمیری نظم یا یوں کہیے کہ نعتیہ کشمیری ترانے میں جہاں کشمیر کی داستانِ الم کا بیان ہے وہیں کشمیر پر قابض قوت کے ظلم و ستم پر اُس کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے عمل کو نہایت پرُکاری سے سر انجام دیتے ہوئے شاعر نے بارگاہ نبویﷺ کی وساطت سے نور الٰہی کی طلب کی ہے۔
رو رو کر کشمیر پکارے یا رسول اﷲ
تم ہی ہو اﷲ کے پیارے یا رسول اﷲ
دل میں ہمارے کعبہ ہے آنکھوں میں سنہری جالی ہے
پھر کیوں اس کشمیر کا دامن آزادی سے خالی ہے
اﷲ کے دربار میں کب سے یہ کشمیر سوالی ہے
چمکیں گے کب اس کے ستارے یا رسول اﷲؐ
رو رو کر کشمیر پکارے یا رسول اﷲ٭۳۶
مطلوب علی زیدی مطلوب
مطلوب علی زیدی نے اپنی نعت میں کشمیر کے قضیے کو بھی ذکر کیا ہے۔ وہ امتِ اسلامیہ کے رہبر و رہنما اور ناخدائے کشتیٔ امت سے عرض کرتے ہیں:
ہر طرف کالی گھٹائیں، آندھیاں ہیں اے حضور
شمع حق نوحہ کناںہے، میرے ختم المرسلیں
کفر نے کشمیر کو دوزخ بنایا ہے جناب!
راکھ ہو جائے نہ یہ تصویر فردوسِ بریں٭۳۷
حبیب کبریاﷺ سے دوسری جگہ ایک فریاد میں عرض کرتے ہیں :
وادیٔ کشمیر میں ماؤں کا دل کافروں نے کھا لیا، فریاد ہے
بیٹیوں کی عصمتیں بھی لٹ گئیں چھن گئی سر سے ردا، فریاد ہے٭۳۸
گزشتہ سطور میں شاعر کی معروف تضمین کا تذکرہ گزرا۔ اسی میں وہ کشمیر کا ذکر اس پیرائے میں کرتا ہے:
وہ جنتِ ارضی، وہی فرودس کی تصویر
وہ باغِ جناں، رشک چمن، دادیٔ کشمیر
کافر یہ سمجھتا ہے اسی کی ہے وہ جاگیر
سب آگ میں جلتے ہیں، وہ معصوم و جواں پیر
عصمت کی حفاظت ، نہ کسی سر پہ ردا ہے
’’اے خاصۂ خاصانِ رسل، وقت دعا ہے‘‘
اپنی اس تضمین کے آخر میں تو شاعر نے ملتِ اسلامیہ کے زخمی زخمی بدن کا گویا دل باہر نکال کر رکھ دیا ہے اور شعر و ادب کو حیرت کی وادی میں پریشان و عاجز کھڑا دکھایا ہے :
وہ زخم ہیں دل پر، کہ دکھائے نہیں جاتے
وہ درد کے قصے ہیں سنائے نہیں جاتے
جذبے ہیں جو شعروں میں سمائے نہیں جاتے
آقا! یہ ستم ہم سے اٹھائے نہیں جاتے
مطلوب کے ہونٹوں پہ فقط ایک صدا ہے
’’اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعا ہے‘‘۵۹
مراجع و مصادر
٭۱۔ کلیات ماہر، القمر انٹر پرائزرز، لاہور، ۱۹۹۴ء، ص ۸۸۵۔ ۸۸۶
٭۲۔ انقلاب انقلاب، رہبر پبلشرز اردو بازار کراچی، ۱۹۹۵ء، ص۳۲
٭۳۔ فلسطین۔ اردو ادب میں، مرتب فتح محمد ملک، مطبوعات حرمت، راول پنڈی، فروری ۱۹۸۳ء، ص۲۱۰
٭۴۔ مسدس حالی،خزینہ علم و ادبالکریم مارکیٹ اردو بازار ،لاہور،ص ۱۶۷۔۱۷۴
٭۵۔ پھر ایک کارواں لُٹا، ادارہ مطبوعات ، لاہور، اکتوبر ۱۹۸۶ء، ص۸۸۔۹۲
٭۶۔ کلیات ماہر، ص۸۵
٭۷۔ اردو نعت گوئی کے موضوعات، نعت نگری، صبیح رحمانی (مرتب) ص۳۲-۶۱، اقلم نعت کراچی، فروری ۱۹۹۸ء
٭۸۔ شام و سحر نعت نمبر ۵، ج۲، شمارہ ۱، ۲، جنوری، فروری ۱۹۸۶ء، مدیر عالیٰ شیخ صفدر علی، ۱۴ ،اردوربازار ، لاہور،ص۴۴۴
٭۹۔ بہار نعت، مرتب حفیظ تائب، پاکستان رائٹرز گلڈ لاہور، ص۹۳
٭۱۰۔ نعت، احمد ندیم قاسمی، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۷ء ، ص۸۶-۸۷
٭۱۱۔ ایضاً
٭۱۲۔ نعیم صدیقی، نور کی ندیاں رواں،ادارہ معارف اسلامی،منصورہ لاہور،ص۲۸۔ ۲۹
٭۱۳۔ ایضاً۔ص۱ ٭۱۴۔ ایضاً۔ص۱۱۳
٭۱۵۔ ایضاً، ص۳۶۔ ۳۷ ٭۱۶۔ایضاً، ص۳۶۔ ۳۷
٭۱۷۔ نغماتِ حرم، ص۱۳- ۱۴ ٭۱۸۔ ایضاً، ص۲۲-۲۶
٭۱۹۔ صبوحی، شیخ غلام علی اینڈ سنز، پرائیویٹ لمیٹیڈ پبلشرز لاہور ۱۹۹۷ء، ص۱۱۰
٭۲۰۔ ایضاً، ص۱۱۹ ٭۲۱۔ ایضاً، ص۱۲۱
٭۲۲۔ جنگ جاری ہے، اسلامک پبلیکشنز لمیٹڈ، لاہور، جولائی، ۲۰۰۰ء، ص۶۸
٭۲۳۔ ماہنامہ شام و سحر لاہور، نعت نمبر۵، ص-۳۹۳-۳۹۴۔
٭۲۴۔ ماہنامہ شام و سحر لاہور، نعت نمبر۵، ص-۴۱۰-۴۱۲۔
٭۲۵۔ شوق شہادت زندہ ہے،ص-۹-۱۰ ٭۲۶۔ سر وادی کشمیر، ص-۲۳
٭۲۷۔ عنایتیں کیا کیا، منشورات، لاہور، ص ۶۶
٭۲۸۔ جنگ جاری ہے،ص۱۴ - ۱۷ ٭۲۹۔ ایضاً،ص ۲۰
٭۳۰۔ ایضاً،ص ۲۵-۲۷ ٭۳۱۔ صبوحی، ص-۸۰۔
٭۳۲۔ نور کی ندیاں رواں،ص ۱۳۱-۱۸۰ ٭۳۳۔متاعِ شوق، گوہر ادب پبلیکیشنز، صادق آباد، ص-۲۰۔
٭۳۴۔ شام و سحر، ۴۱۱،۴۱۲ ٭۳۵۔ سرِوادیٔ کشمیر، ص ۲۶،۲۷
٭۳۶۔جنگ جاری ہے، ص-۹۶، ۹۸ ٭۳۷۔ صبوحی، ص:۹۶۔
٭۳۸۔ ایضاً، ص:۱۱۹۔ ٭۳۹۔ ایضاً، ص:۱۲۲



Urdu Naat Lyrics

{٭}


 

 
Urdu Naat Lyrics

 
اردوحمد و نعت میں فلسطین و کشمیر سے متعلق مناجات کا ایک جائزہ اردوحمد و نعت میں فلسطین و کشمیر سے متعلق مناجات کا ایک جائزہ Reviewed by WafaSoft on September 01, 2019 Rating: 5

No comments:

Comments

Powered by Blogger.