Best Wall Stickers

سراپائے رسولِ اکرم اور مثنوی

ساجد صدیق نظامی۔ لاہور


سراپائے رسولِ اکرم اور مثنوی


نعت گو شعرا نے وقتاً فوقتاً فرطِ عقیدت میں نعتیہ غزلیات و منظومات کے ساتھ ساتھ دیگر ہئیتوں اور اصناف میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ کسی نے قصیدہ لکھا ہے تو کسی نے مثنوی اور کسی نے دیگر اصناف کا چنائو کیا ہے ۔ کسی نے شمائل و خصائل بیان کیے ہیں تو کسی نے سیرتِ مبارک کے مختلف پہلو نظم کیے ہیں ۔ ’سفینۂ عشقِ مدینہ ‘ میں شامل سراپائے رسول بھی شمائل حضورﷺ بیان کرنے کی ایک کاوش ہے۔
راقم نے ’’نعت رنگ‘‘ کے گزشتہ شمارے (شمارہ نمبر۲۲: ستمبر ۲۰۱۱ء) میںمذکورہ نعتیہ دیوان یعنی ’’سفینۂ عشقِ مدینہ‘‘ از محمد حسین فقیرؔ کا تعارف کرایا تھا اور اُس میں سے نعتیہ غزلیات کا انتخاب بھی پیش کیا تھا۔ اس دیوان سے متعلق مفصل معلومات وہیں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ البتہ پیشِ نظر مضمون کی مناسبت سے چند ضروری باتیں یہاںمکرر درج کی جا رہی ہیں۔ یہ نعتیہ دیوان ۱۲۹۱ھ (مطابق ۱۸۷۴ء) میں دہلی کے مطبعِ فاروقی سے طبع ہوا۔ اس میں ۲۸۰کے قریب نعتیہ و حمدیہ غزلیات شامل ہیں۔ اس دیوان کے دیگر مشمولات میں مناجات، عرضِ حاجات، مثنوی اور سراپائے رسول وغیرہ شامل ہیں۔ اس مضمون میں ’سفینۂ عشقِ مدینہ‘ میں شامل ’سراپائے رسولﷺ ‘ اور مثنوی ’نالۂ فقیر ‘ کا متن پیش کیا جارہا ہے۔
’’سفینۂ عشقِ مدینہ‘‘ میں محمد حسین فقیرؔ نے ترکیب بند مسدس کی ہیئت میں ۱۰۴؍ بندوں پر مشتمل ایک سراپا رقم کیا ہے۔ آغاز میں شاعر نے اپنی کم مایگی کا اظہار کیا ہے اور حضورِ اکرمﷺ کی شانِ اقدس بیان کی ہے، پھر اپنے سخن کے ذریعے حضورﷺ کے خصائل کے بیان کو مبارک جانا ہے۔ پھر آنکھ، سر، زبان، ہاتھ، قامت، مو، جمال، ابرو، مژگان، گیسو، گوش، دنداں، دہن، مُہر، صدر وغیرہ کے اوصاف اور خصائل عمدہ انداز میں بیان کیے ہیں۔ شاعر کہیں بھی فرطِ عقیدت میں توازن کی حدسے باہر نہیں نکلا ،اُس نے سراپا میں اس بات کا اظہار بھی کیا ہے کہ محبتِ محمدﷺ میں حدوں سے تجاوز کرنا مناسب امر نہیں ہے۔



Urdu Naat Lyrics

شاعر نے سراپا میں عربی الفاظ و تراکیب کا بہت استعمال کیا ہے لیکن سہولت یہ ہے کہ جہاں جہاں شاعر کو معلوم ہوا ہے کہ قاری کے لیے اس جگہ تفہیم میں مشکل پیش آ سکتی ہے، حواشی درج کر دیے ہیں۔ بیش تر حواشی میں آیاتِ قرآنی و احادیث کو بھی اپنے خیالات کی حمایت میں درج کیا گیا ہے۔ بعض مشکل الفاظ کے معنی متن ہی میں متعلقہ لفظ کے آس پاس لکھ دیے ہیں۔ اس مضمون کے لیے سراپا کا متن ترتیب دیتے ہوئے یہ حواشی برقرار رکھے گئے ہیں مگر ان کو نمبروار مسلسل ترتیب سے متن کے آخر میں درج کر دیا گیاہے ۔ دیوان کی اشاعت اُس وقت کے رائج املا میں ہوئی تھی ۔ یائے معروف اور یائے مجہول میں فرق نہ کرنا،ہائے مخلوط اورہائے ہوز کو ایک ہی طرح لکھنا، نون اور نونِ غنہ کی یکسانیت وغیرہ وغیرہ اس رواج کے نمایاں مظہر تھے ۔ زیرنظر مضمون میں متن آج کے مروّج املا میں درج کیا گیا ہے۔


سراپائے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہٰ وسلّم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
للہ الحمد کہ سلطاں ہوا مہمانِ فقیر
آج کس قرب کے شایان ہوئی شانِ فقیر
دافعِ حزن ہوا کلبۂ احزانِ فقیر
بن گیا کُنجِ حرم گوشۂ حرمانِ فقیر
آج صادق میرے رتبے پہ وہ قول آتا ہے
ابنِ مسجود ملائک جو لقب میرا ہے
ظلِ طوبیٰ ہوا ہر سایۂ دیوار اپنا
گل سے زخمِ دلِ گلشن ہوا ہر خار اپنا
ہے گلیم اب شرفِ کسوتِ ابرار اپنا
بوریا آج ہے استبرقِ اخیار اپنا
ظلِ سلطاں سے گرامی وہ ہوا نقشِ حصیر
موردِ غبطہ۱؎ ہوئی حور کے ہاتھوں میں لکیر
ہے حصیر آج یہاں رشکِ حصارِ شاہاں
اس میں محصور ہوا نورِ فخارِ شاہاں
بن گیا دارِ حزن غیرتِ دارِ شاہاں
ہر ستوں اپنا ہے محسودِ منارِ شاہاں
کیوںنہ ہرزحمتِ دل صورتِ رحمت بن جائے
حلسِ۱؎بیت آج نہ کیوں سندس؎جنت بن جائے
آج یاں ہر خطِّ ساغر ہے دلیلِ اسرار
ذرۂ دُرد ہے خورشیدِ سماواتِ فخار
ہو گیا آہنِ دل رشکِ زرِ دست افشار
داغِ دل شمعِ حرم دار ہے نورالابصار
بیتِ ویراں مرا کس نور سے معمور ہے آج
لیلتہ البدر بھی دریوزہ گرِ نور ہے آج
کیا محلِّ حسنات آج ہوا حال اپنا
ثقلِ میزان قیامت ہوا اثقال اپنا
رشکِ شمشاد بنا سبزۂ پامال اپنا
کاسۂ فقر ہوا کیسۂ اقبال اپنا
اب مرا قریہ اُس اقبال سے آباد ہوا
یک قلم جس سے ہر اِدبار کا اِفساد ہوا
خشک لب دیدۂ تر تھے جو رفیق اپنے مدام
جلوۂ بحر و بر اُن سے ہوا اب حظِّ انام
دودِ دل آج ہوا کاکلِ محبوبِ مرام
ہے دمِ سرد میں بادِ سحری کا اِشمام
غمِ دارین سے منجی ہوا آج اپنا غم
زلفِ معشوقِ تمنا ہوئی زنجیر الم
اے فقیر آج وہ سلطان جہاں ہیں مہمان
ایسے مہمان نہیں ہوتے نصیبِ شاہان
خاکِ اسفل پہ نہ تھا مقدمِ اعلی کا گمان
جذبِ دل تیرا کہاں اور کہاں وہ ذی شان
کیوں غزل خوانِ ثنا آج نہ ہوں میں ہر دم
غزلِ حمقیٰ۴؎ بھی ہوا دامِ غزالانِ حرم
آج کس روح سے ہے یہ تنِ بے حس حسّاس
ابرِ رحمت کو ہے کیا آج مری خاک کا پاس
جس کا ہر قطر ہوا صفر ترقی حواس
بن گئی ہر بنِ مو دیدۂ اسرار شناس
سبحاتِ ابدی سے یہ کیا کس نے ظہور
بھر دیا دیدۂ دل میں میرے اک غیب سے نور
آج دردِ متالم کی دوا حاصل ہے
آج امراض درونی کی شفا حاصل ہے
آج اُمیدِ دلی یاس کی جا حاصل ہے
آج میں کیا کہوں ہم دم مجھے کیا حاصل ہے
امرِ ذوقی کا بیان کون سے الفاظ سے ہو
غیر ملفوظ عیاں کون سے الفاظ سے ہو
آج بالیدگیٔ فرق سرورِ محزوں
تنگ ٹھہراتی ہے وسعت میں کلاہِ گردوں
منزلِ شمس مرے گھر کا لقب ہے موزوں
صاحبِ تاج منور ہے اب اس میں مکنوں
حاصلِ عمرِ طبیعی نے کیا آج نزول
جان و دل نذر ہیں اے کاش اگر ہوئیں قبول
اطلسِ چرخ بنا جس کے لیے فرش براہ
ہو گیا جلوہ گرِ حلسِ فقیر آج وہ شاہ
جوش زن دل میں ہے وہ شوق و سرورِ دل خواہ
فرطِ شادی ہو عجب کیا مجھے مرگِ ناگاہ
یہی حیرت ہے کہ یاں اور شہ دین آ جائے
بالیقین دل کو یقیں ہو تو یقین۵؎ آ جائے
قافِ قرب آج ہوا قاف سے اعظم میرا
یعنی فکرِ صفتِ شاہ ہے ہم دم میرا
امرِ اوسط ہے جو توصیف میں مہتم میرا
دل نہیں مدحِ محمد میں مذمم میرا
مجھ کو اترانی سے اطرا سے بچائے اللہ
مدحِ غالی۶؎ کا مجھے منھ نہ دکھائے اللہ
کیا ہی ۔۔۔ صحفِ نعتِ رسولِ مختار
بن گئی ارضِ حرم آج زمینِ اشعار
آئی اشباحِ۷؎ مضامیں وہ عطائے غفار
موردِ نورِ قدم میں جو سراپا انوار
یعنی ہے فکرِ سراپائے محمدؐ وارد
جس مزیدی۸؎ پہ ہوا نورِ مجرد وارد
بحرِ اشعار ہے یاں روکشِ کوثر گویا
وزنِ ہر بیت میں ہے ثقل ترازوئے جزا
نقطہ حرف بنا مردمِ چشمِ بینا
ہے سخن ناسخِ طغیان و غلوِ شعرا
حاصل۹؎ قریۂ گفتار کچھ آج ایسا ہے
خرج صد ملکِ سخن ور۱۰؎ کو بھی رشک آتا ہے
یہ سخن۱۱؎ رشکِ گلستانِ جہاں کیوں کہ نہ ہو
یہ سخن نورِ شبستانِ جہاں کیوں کہ نہ ہو
رونقِ شان سخن شانِ جہاں کیوں کہ نہ ہو
سامی اس بات سے سامانِ جہاںکیوںکہ نہ ہو
گر سخن کاشفِ اسرار نہ ہوتا واللہ
قل بھی قرآں میں بہ تکرار نہ ہوتا واللہ
یہ سخن وہ ہے کہ جو معجزۂ عیسیٰ ہے
اس سخن کے لیے بے تاب دلِ موسیٰ ہے
یہ سخن وہ ہے کہ اسرارِ شہ اسرا ہے
یہ وہ شاہد ہے کہ در پردۂ ما اَوحیٰ ہے
طورِ دل کے لیے عالم میں تجلی ہے سخن
دیکھ لو آئینۂ صورتِ معنی ہے سخن
ہر مسافر کے لیے کشتیٔ کعبہ۱۲؎ ہے یہ
اور بغیر آج پئے عیر مدینہ ہے یہ
ہر خطاکار کو یاں عذر خطیۂ ہے یہ
قابل التوب کی درگاہ میں توبہ ہے یہ
شرف انساں کو مَلَـک پر ہے سخن کے باعث
نازنیں ارض فلک پر ہے سخن کے باعث
بے کس عشق کو خود مونس و ہم دم ہے سخن
داغِ دل کے لیے کافور کا مرہم ہے سخن
صاحبِ زینتِ۱۳؎ مدح شہ عالم ہے سخن
ہاں قبیح اُس کو کہو جو کہ مذمم۱۴؎ ہے سخن
کچھ نہیں جائے سخن یاں کہ سخن ہے وہ رفیق
جذبِ مطلوب میں سہل اُس کو ہے ہر فجِ عمیق
خود سخن کے لیے ہیں چار کتابیں تفسیر
اور سخن سے ہوا کاشانۂ عنصر تعمیر
ہے حدیثِ نبوی خاص سخن کی تصویر
سخنِ مدح سے ممدوح ہوئی ذاتِ بشیر
اور سخن میں ہے سراپائے محمد کا بیان
جس کو لکھتا ہے قلم آج بعونِ الرحمان
کیوں نہ ہو وصفِ قلم کاتبِ لوحِ محفوظ
کب نہیں دفترِ کونین قلم سے محظوظ
ہوگیا جس سے یہ ما کان و یکون سب ملفوظ
یہ وہ یکتا ہے کہ ہے ضابطِ ہر حظ و حظوظ
اس نے خود لکھی ہے آیاتِ قدم کی تفسیر
یہ قلم وہ ہے کہ ہے نون و قلم کی تفسیر
کون ہر دم ہے وہ اس نے میں الٰہی نفّاخ
کہ صریراس کے دوعالم میںہوئے قرع صماخ
واہ کیا کچھ یہ قلم کی بھی قلمرو ہے فراخ
لکھ رہا ہے یہ زمین پر بھی توسرِ نہِ کاخ
سرو کس باغ کا ہے رونقِ گل زارِ قلم
شاخ کس نخل کی ہے پر گل اسرار قلم
بے زبانی پہ بھی اللہ رے ایسا ہے بیاں
جس سے حاصل رہے طوطی کے لیے طیِّ لساں
کاشفِ رازِ دلی ہے یہ مگر کیا ہے نہاں
گوشِ دل میںبھی کہے دیتاہے چپکے سے کہ ہاں
نہیں ناکس کے سزاوار یہ شانِ اسرار
با ادب چاہیے اسطورِ بیانِ اسرار
صورتِ خضر سرِ چشمۂ تاریکِ دوات
کھینچتا مردہ دلوں کے لیے ہے آبِ حیات
خامہ اس کو نہ کہو کیوں کہ یہ خامہ و نرات
پختہ کرتا ہے اُسے جو ہے یہاں خام صفات
عنق دل کے لیے سلکِ جواہر ہے یہ کلک
اس سیاہی میں وہ انوار مظاہر ہے یہ کلک
یہ قلم وہ ہے کہ خود جس نے باذن الرحمان
لکھی توریت اور انجیل و زبور و قرآن
کاتبِ وحی و حدیث اس کا لقب ہے شایان
کہ انھی دو کے لیے اس کو ملی ہیں دو زبان
صورتِ دستِ دعا اب یہ سراپا ہے دراز
کہ سراپائے محمد کا بھی ہو نقش طراز
بارک اللہ ہوئی مقبول دعائے خامہ
ہوگیا نفسِ جہول آج میرا علامہ
تو ہوا مجھ سے یہ آغازِ طرازِ نامہ
کیا ہی گرم آمدِ مضموں کا ہوا ہنگامہ
چشم بددور وہ مضموں ہے یہ ماشاء اللہ
جس میں قدرت کا دکھاتا ہے تماشا اللہ
ہے دلیل آج تو اوصافِ محمد پہ رقم
کیجے کیوں کر اسے قرطاسِ مُلبَّد۱۵؎ پہ رقم
یہ وہ مضموں ہے کہ ہو لوحِ زبرجد پہ رقم
قلمِ زر سے ہو الواحِ زمّرد پہ رقم
بلکہ مسطور ہوں اسطور سراپا کی سطور
قلمِ نور ہو قرطاس ہو رخسارۂ حور
چاہیے صرفِ قلم اس میں ہو شاخِ طوبیٰ
کاغذِ مشق ہو اس کا ورقِ شمسِ ضحی
اور سیاہی ہو سویدائے ضمیر حَوَرا۱۶؎
نقطئہ حرف بنی مردمِ چشمِ عینا۱۷؎
اور بنیں خطِ شعاع اس کی خیوط مسطر
دم بہ دم صرفِ مداد اس میں ہو آبِ کوثر
اور سرخی کے لیے اس میں ہو شنجرفِ شفق
اور پئے جذبِ مدادین ہو صوف۱۸؎ استبرق
ہاتھ آ جائے مجھے کاش جو قرطاسِ فلق
تو لکھوں آج وہ نورانی و رنگین ورق
دیکھ کر روئے افق رنگِ شفق فق ہو جائے
ورقِ شمسِ ضحی کاغذِ بادی نظر آئے
کیا۱۹؎ مزا دور ہے اشعار سے اُس کے واللہ
جس نے جبریل کو مزدور کہا بے پرواہ
وہ مکیں ہیں وہ امیں ہیں وہ مطاعِ ذی جاہ
آپ جن کے لیے رہتے تھے نبی چشم براہ
دلِ احمد سے یہ پوچھے کوئی کیا ہیں جبریلؑ
جس میں خود ملقیِ اسرارِ خدا ہیں جبریلؑ
کوئی اُس آنکھ کو ڈالے ابھی پتھر سے کچل
نظر آتا ہے جسے دیدۂ یعقوب کھرل
توبہ ہے یوں ہو کہیں عینِ نبی مستعمل
کوئی تشبیہ نہ تھی اور نصیبِ اجہل
اس میں تعظیم رسولِ عربی کاہے کو ہے
مدح مستلزم تحقیر نبی۲۰؎ کاہے کو ہے
نعت میں ذکر ہے یوسف کا تو کیا بے تعظیم
جن کو فرماتے ہیں۔۔۔ کریم ابنِ کریم۲۱؎
کس اہانت سے ہے ذکرِ زکرّیا و کلیم
کیسے تحقیر سے ہے وصفِ مسیحائے فخیم
یوں ہے اخوان محمد کا جو موہن ہے کوئی
کس کے اخوان سے کیا جانیے وہ جن ہے کوئی
میں نے مانا کہ بڑا طبع کا موزوں کوئی ہو
فکرصائب میںبھی صائب ہی سے مقروںکوئی ہو
شعرا میں وہی سرکردۂ غاووں کوئی ہو
خامہ مرفوع۲۲؎ تو اُس سے ہو جو مجنوں کوئی ہو
استعارات و مراعات کی ہشیاری ہے
ہجو میں خوب جنوں کی اُسے بیماری ہے
گنگ ہوئے وہ زبان جس سے ہو ایذائے رسول
ذمِ جبریل ہو اور اُس میں تولائے رسول
یا کہ مخلوق میں جو قبلِ نبی آئے رسول
اُن کی تحقیر ہو اور آپ ہو شیدائے رسول
اپنا دیوانہ ہے شیدائے نبی کب وہ ہے
ایک ہشیار ہے دیوانۂ مطلب وہ ہے
جس کا مقصود فقط شعر ہو کیا اُس کو شعور
کیوں کہ ہوتی ہے بیاں نعتِ رسولِ مغفور
کوئی وادی یہیموں۲۳؎ میں گو ہو سرور
جو کہ ہے ذامِ رسل وہ ہے نبی کا مقہور
ایسی احسانِ تراشیدہ کا محسن ہے اُمی
گو تکلف سے ہو جساں وہ لیکن ہے اُمی
قصہ کوتاہ کہاں پہنچی طبیعت میری
پھر معاون ہو وہ اللہ کی رحمت میری
روحِ حسانؓ سے اے کاش ہو قربت میری
حسن احمد کے بیاں میں ہے راحت میری
نونِ تنوین نبی سے ندا کا ہے نزول
کہ فقیر اب مترنم ہو بہ تحسینِ رسول
ظاہر و باطنِ محبوب ہے وہ حسن عیاں
کہ بیان اُس کا نہیں طاقتِ جن و انساں
اُس محاسن کے حسیں ہیں وہ وجیہہ دو جہاں
کہ شریک اُن کا نہیں ہے کوئی دارین میں ہاں
جوہرِ حسنِ رسول آمدہ آں جوہرِ فرد
کہ خدا با دگرش وعدۂ تقسیم نہ کرد
کس سے موصوف ہو وہ ذی شرفِ حسن و جمال
ہے وہاں ہم صفِ خدام صفِ حسن و جمال
ذاتِ احمد ہے وہ دُرِ صدفِ حسن و جمال
سائل حسن ہے واں سب کے کفِ حسن و جمال
کیوں کر معقولِ بشر ہو رمقِ حسنِ فخیم
جلوہ افروز ہو جس حسن پہ خود حسنِ قدیم
صفتِ حسن سے ہے صفتِ مہر منیر
کہ بیاں۲۴؎ باعثِ تصغیر ہے اور وہ ہے کبیر
دیدۂ وصف سے اکبر نظر آتا ہے صغیر
دعویٔ وصفِ سراپا ہے سراپا تقصیر
شدہ مفہومِ دلم کبرِ جمالِ اکرم
مہر در وصفِ صغیر است و محیطِ عالم
ہم سے ہوتا نہیں کچھ وصفِ خیالِ مرسل
یعنی آنکھوں میں جو پھرتی ہے مثالِ مرسل
خاص کیا ہو سکے تفصیلِ جمالِ مرسل
ہے یہ مجمل صفتِ فضل و کمالِ مرسل
کہ فضائل میں محمد کے ہے تطویل فضول
قدر مرسل سے عیاں ہوتی ہے خود قدرِ رسول
خالی حکمت سے نہیں فعلِ حکیمِ و علّام
حسن محبوب کا عالی وہ کیا سب سے مقام
کہ جو ہوتا کہیں ظاہر بھی وہ عالم میں تمام
مستطیع اُس کی نہ ہوتی کبھی یہ چشمِ انام
لایکلِّف۲۵؎ کا یہ مصداق پئے نفس ہوا
نہ ہوا وہ جو یہاں شاق پئے نفس ہوا
قدرِ طاقتِ ابصار دکھایا ہم کو
تو ہوئی مدحِ محمد کی تمنا ہم کو
صورتِ مدح ہوئی مبصِرِ معنیٰ ہم کو
حسن احمد ہوا دارین میں حسنیٰ ہم کو
حسن وہ مطلعِ انوار الٰہی ہے یہ
کہ ہمیں وعدۂ۲۶؎ دیدارِ الٰہی ہے یہ
اللہ اللہ الفِ قامتِ آغاز انام
یاد آتا ہے جسے دیکھ کے اللہ کا نام
سر بلند اُس کی بلندی سے ہیں کونین مدام
قدِ محبوب ہے وہ سروِ ریاضِ اکرام
رشکِ قمری ہوئے جان و تنِ ملک و ملکوت
طوقِ عشق اُس کا ہے اور گردنِ ملک و ملکوت
متوسط قدِ موزوں ہے وہ سر تا پا نور
کیوں کہ منصوص ہے اوسط صفتِ خیرِ امور۲۷؎
کیسے ہی ذی قدِ بالا رہیں ہمراہِ حضور
سب سے عالی نظر آتی ہیں وہی وقتِ مرور
قدِ بالائے محمد میں وہ اعجاز ہے واہ
نظر آتی ہیں وہاں قامتِ بالا کوتاہ
بارک اللہ تعالیٰ قدِ سروِ بالا
رفتہ بر عالم بالا بہ فرازِ معنیٰ
چوں شدہ منفعل فاعل فعل اسرا
لامِ زلف و قدِ او کردہ بتاکیدندہ
قدِ بالاش لقد۲۸؎ فاز علی نور العرش
گوش دلہا بشندند دمِ عود بہ فرش
زیبِ تشریفِ رسالت ہے قدِ پیغمبر
خلعتِ اذنِ شفاعات بھی روزِ محشر
راست آئے گا اسی قد پہ حضورِ داور
راستی آتی ہے کیا راست اسی قامت پر
راست ایسا قدِ یکتائے نبی نیک آیا
کہ نظر دیدۂ احول سے بھی وہ ایک آیا
وہ جمالِ نبوی ہے اثرِ نورِ جلال
اس لیے اُس قدِ پُرنور کا سایہ ہے محال
اور جس سایہ نے واں زیرقدم پائے مجال
گویا اُس ظل کو بھی لے آئے قضا کے عمّال
مردمِ دیدۂ انسان بنایا اُس کو
نور ہے وہ بھی نہ کہنا کہیں سایہ اُس کو
سرِ عالی ہے حبابِ یم رضوانِ خدا
تاجِ ہر سجدہ ہے اُس سر کا وہ ذی درِّ رضا
ہو اگر نقدِ سجودِ دو جہاں اُس پہ فدا
تو بھی ارزاں رہے اُس تاجِ منور کی بہا
کیا بیاں ہو صفتِ راسِ رئیس الابرار
جس کا ہر سجدہ یقینی ہے قبولِ جبار
لیل اِسرا ہیں وہ موئے سرِ محبوبِ جہاں
اور ہر اک تار میں ہے فیضِ شبِ قدر نہاں
شبِ طاعت متہجد کو نصیب ایسے کہاں
جو تعلق میں ہے حظِّ دلِ بیدار یہاں
زُلَفِ۲۹؎ لیلِ سعادات ہیں وہ زلف کے تار
زلف دل کے لیے زلفیٰ۳۰؎ ہے حضورِ غفار
دل کشا ایسی ہے واللہ وہ پُرنور جبیں
صبح صادق ہے کہ آفاق میں رہتی ہے مبیں
دیدۂ کاذبِ کافر اُسے دیکھے تو وہیں
سجدۂ خالقِ ایماں میں ہو سر بہ زمیں
جلوہ فرما جو وہ پیشانیِ فائق ہو جائے
دیکھ کر ناصیۂ۳۱؎ کاذبہ صادق ہو جائے
شجرِ طور ہے گویا قدِ زیبائے رسول
جلوۂ طور کی لمعات ہیں سمائے رسول
جن کو پیش آ گئی پیشانیِ عظمائے رسول
ہمہ تن چشم رہے محوِ تجلائے رسول
یک نظر خواب میں اب بھی جو وہ دل کش آجائے
دلِ مشتاق کو موسیٰ کی طرح غش آ جائے
کس قرینے سے قریں ہیں دو کمانِ ابرو
قاب قوسین کی تصویر ہے شانِ ابرو
سورۂ نون ہے خود وصف و بیانِ ابرو
قبلتین آج ہیں عالم میں نشانِ ابرو
یا درِ کعبہ ہے وہ جس میں دعا ہے مقبول
بال بال آپ کا کیا نامِ خدا ہے مقبول
وصفِ ابرو میں قلم میرے قلم کی ہے زباں
ایسا عالم میں سرِ فکرِ سخن ور ہے کہاں
کہ سلامت جسے یاں چھوڑ دے یہ تیغ بیاں
ہے محالات سے اوصافِ دو ابرو کا نشاں
نقشِ ابروئے نبی کھینچ نہ سکے جو کھینچے
کس کی طاقت ہے کہ اس قوس و قزح کو کھینچے
آئے اُس ابروِ عالی پہ اگر چینِ عتاب
الحذر گور ہے دوزخ میں بھی ہر موج عذاب
کیوں کہ عالم میں عتابِ نبوی ہے وہ حجاب
کہ نہاں جس میں ہے قہار کی خود نارِ عقاب
جھانکتی ہے دلِ کفار کو اس پردے سے
اُن پہ پُرغیظ کیا نار کو اس پردے سے
ایک رگ آپ کے مابینِ دو ابرو ہے نہاں
غیظ فی اللہ۳۲؎ میں ہوتی ہے کسی وقت عیاں
مُسقِطِ نبض جہاں ہو وہ اگر ہو جنباں
ہم سرِ جنبشِ عرش اُس کی صفت ہے شایاں
غضب۳۳؎ اللہ لمغضوب رسولٍ واللہ
لقد اِہتزلہٗ العرشَ بہ قہرُ الاَوّاہ
فرقِ سر جادۂ حسنِ دو جہاں ہے دیکھو
استوا چرخِ رسالت پہ عیاں ہے دیکھو
وہ جو ابرو سے قرین انف کی شاں ہے دیکھو
معنیِ نون و قلم جلوہ کناں ہے دیکھو
حاجبین ایسے ہیں وہ غایت ۔۔۔ حسنین
قاب قوسین ہیں ۔۔۔ رہِ قابِ قوسین
سورۂ صاد ہے وہ عینِ حیا مند نبی
گوشۂ چشم ہے اک ملکِ جہاں سے مغنی
ہے نظر سوئے زمیں اس لیے اکثر اُن کی
کہ رہیں کنج عدم میں بھی تو مرحوم سبھی
رحمت خاص ہیں اُس نورِ ہُدیٰ کی آنکھیں
کیوں نہ ہوں دیکھنے والی ہیں خدا کی آنکھیں
کیا ہو کیفیتِ عینِ نبوی کا اظہار
کحل مازاغ ہے اور چشمِ رسولِ مختار
آنکھیں ہیں عالمِ دیدارِ خدائے غفار
اور سیاہی و سفیدی ہیں وہاں لیل و نہار
جس کو موسیٰ نے سنا آپ نے دیکھا اُس کو
جو شنیدہ ہے وہ ہم صورت دیدہ کب ہو
مژۂ چشم ہے تارِ رگِ ابرِ رحمت
نَہَرِ۳۴؎ خلد نثارِ رگِ ابرِ رحمت
کیوں ہو جنبش سے قرارِ رگِ ابرِ رحمت
رحمِ کونین ہے کارِ رگِ ابرِ رحمت
یا کہ محسوس ہیں وہ تارِ نگاہِ الطاف
کیوں کہ دارین ہیں یاں چشم براہِ الطاف
صفِ مژگاں پئے کفار ہے صفِ پیکار
تیربازی کو ہے اعدا پہ وہ ابرِ مدرار
جس سے ہوتا ہے مغازی میں بہ اعجاز اظہار
مینہ برستا ہے مگر ہوتے ہیں کافر فی النار
ہیبت۳۵؎ اُس جنبشِ مژگان میں ہاں ایسی ہے
ہیبتِ زلزلۂ ارض کہاں ایسی ہے
صدفِ گوہرِ آیاتِ خدا گوشِ رسول
صورتِ نور و دُخاں عارض و گیسو مقبول
ماہ و خورشید سے ہے مانعِ تشبیہ اُفول
یہی مضموں رخِ انور سے ہوا دل میں نزول
ہے وہ رخسارۂ تاباں لبِ خندان کے پاس
یا کہ نازل ہے قمر سورۂ رحمان کے پاس
صورتِ سورۂ قرآں وہ رُخِ روشن ہے
صفتِ کعبۂ رحماں وہ رُخِ روشن ہے
عرش پُرنورِ درخشاں وہ رُخِ روشن ہے
یا قدِ شاہ پہ تاباں وہ رُخِ روشن ہے
وصف میں ہم کو جو کالنور کی عادت ہے یہ
کافِ تشبیہ نہیں کافِ زیارت ہے یہ
ازہر اللون ہیں محبوبِ دو عالم واللہ
ابیض الخلق۳۶؎ بھی ممدوحِ عرب ہیں وہ شاہ
وصفِ اسمر بھی ہے مذکورِ لسان و افواہ
گندمی رنگ ہے یعنی وہ رخِ غیرتِ ماہ
اللہ اللہ جو مشبہ رخِ نورِ حق ہے
ثقل تشبیہ سے گندم کا بھی سینہ شق ہے
وہ دہن وہ لبِ جاں بخش وہ خطّ و رخسار
ہیں قریں کیا ہے قرینے سے بہ صنع الغفار
کعبہ رخسار ہے خط طائفِ کعبہ زُوّار
یا خطِ سبز و لب و فم سے ہوا وہ اظہار
طبعِ غواص جو لے آئی ہے دُرِّ مضمون
لبِ کوثر پہ ہوئے خضر و مسیحا مقرون
در دنداں ہیں درونِ لب خندانِ رسول
یا کہ ہے قلبِ شفق میں یہ ثریا کا نزول
ہے وہ پشتِ لبِ جاں بخش پہ خطِّ مقبول
یا کہ آبِ دُرِ دنداں سے ہے انبات حصول
سبزۂ آب تو ہر جائے نمایاں دیکھا
سبزۂ آبِ گہر آنکھ سے بس یاں دیکھا
دہنِ پاک میں اسرارِ نہاں ہیں محفوظ
اور خفیّاتِ قِدَم نوک زباں ہیں محفوظ
لوح اعلیٰ میں جو رازِ دو جہاں ہیں محفوظ
دیکھ لو اُس کا نمونہ وہی یاں ہیں محفوظ
لوحِ محفوظ میں مکتوب ہے سین یاسین۳۷؎
یاں ہیں محفوظ وہ دندان مبین یاسین
فکرِ توصیفِ دہن میں ہوئے گم میرے حواس
کہ مشبہ نہیں وہ لائے جو تشبیہِ قیاس
دلِ راجی کو یہاں جب ہوئی امید سے یاس
وصفہ الہم لی فیہ شفاء للناس
اور تقدیر جن اشیا کے لیے تھی ساتر
دہنِ پاکِ محمد سے ہوئیں یاں۳۸؎ ظاہر
اللہ اللہ نبی کی وہ زبانِ عربی
طفلِ مکتب ہیں جہاں پیر و جوانِ عربی
سن کے اُس افصحِ عالم سے بیانِ عربی
رہ گئی سُن ہی فصیحانِ لسانِ عربی
صادق’‘ فیہ لسان’‘۳۹؎ عرَبی’‘ افخم
قولہ کان شفائً لِصدورِ العالم
وہ زبان موردِ قرآن ہے سبحان اللہ
ماہیِ کوثرِ عرفان ہے سبحان اللہ
ساقیِ چشمۂ حیوان ہے سبحان اللہ
خاتمِ حجتِ سبحان ہے سبحان اللہ
آیت اللہ است کہ در شہرِ حدوث آمدہ است
ترجمانِ قدم از بہرِ حدوث آمدہ است
کرے محشر کو جب اللہ کی قدرت پیدا
تو تکلم سے واں سب کو ہو ہیبت پیدا
اس معانی کی وہاں صاف ہے صورت پیدا
اس کے جوہرسے ہے وہاںعرض شفاعت پیدا
اذنِ رحماں سے شفاعت کے لیے ہو گویا
وہ زبان یوم فلا تسمَعُ اِلّا ہَمَا۴۰؎
عمر بھر نطقِ ہوا سے وہ زبان ہے خاموش
کلماتِ ابدی سنتی ہے گویا بے گوش
ذکرِ رویت میں جو وہ بحرِ بیاں ہو پُرجوش
ہوئیں موسیٰ کی طرح اہلِ سماعت بے ہوش
محض ذی حاسۂ ذوق نہیں ہے وہ زباں
قوتِ سمع و بصر بھی تو نمایاں ہے وہاں
لذتِ شربتِ دیدارِ حق اُس سے پوچھو
ذوق روحانیِ گفتارِ حق اُس سے پوچھو
لطفِ کیفیتِ اسرارِ حق اُس سے پوچھو
ذکر میں غیر پہ ایثارِ حق اُس سے پوچھو
حق تو یوں ہے کہ جو حق گوئی اُسی کا حق ہے
حقِ محسوس میں پوشیدہ یہ گویا حق ہے
صدق ہر لحظہ تصدق کے لیے ہے موجود
سنجۂ صدق ہے ہر دم وہ زبان محمود
اس طرح کذب سیہ رو ہے وہاں سے نابود
صبحِ صادق سے ہے جس طور یہ کاذب مفقود
یُنطِقُ۴۱؎ الحقُّ عَلَیہ نجفاء لِلنَّاس
ہَا وَ فیِ القَولِ فَمَن اَصدَقُ من ربِّ النَّاس
بالیقیں ہے سخنِ ربِ کریم اُس کی حدیث
واہ کیا کچھ ہوئی ذی شانِ عظیم اُس کی حدیث
کیا بیاں کرتی ہے اسرارِ قدیم اُس کی حدیث
بحرِ معنی سی ہے وہ درِّ یتیم اُس کی حدیث
کہ جہاں ہے دُرِ قلبِ دو جہاں حلقہ بگوش
بر و بحر و صدف و گوہر و کاں حلقہ بگوش
ابً و اُمْ میرے ہوں قربانِ زبانِ اُمّی
اللہ اللہ ہے کیا رفعتِ شانِ اُمّی
ہوئی جبریل سے تعلیمِ بیانِ اُمّی
کیوں نہ دارین میں اعلیٰ ہو مکانِ اُمّی
مَلَکِ اُمِّ قریٰ آج وہی اُمّی ہے
مُنْزَلِ اُمِّ کتابِ ابدی اُمّی ہے
پست ہے فکر کی اُس گردنِ عالی سے نظر
وہ سرافرازیِ کونین ہے زیبا اُس پر
سرنگوں واں ہیں سلاطینِ جہانِ داور
طوقِ تسلیم میں اُس کے لیے رکھے ہوئے سر
اللہ اللہ وہ عالی عُنُقِ احمد ہے
عنقِ کون و مکاں اُس کی طرف ممتد ہے
حسنِ گردن وہ گلو سوز ہے سبحان اللہ
شبِ کاکل میں عیاں روز ہے سبحان اللہ
وہ بیاض ایسی دل افروز ہے سبحان اللہ
سِرِّ علم و حِکم آموز ہے سبحان اللہ
کیوں نہ اُس گردنِ مینا کا جہاں میں غل ہو
قل ہو اللہ جہاں زمزمۂ قلقل ہو
صبح دیباچہ ہے یہ بہرِ بیاضِ گردن
شمعِ کافور کہاں اُس کے مقابل روشن
سوختہ رشک سے ہے شمعِ حرم بھی ہمہ تن
سحر جنت فردوس ہے گویا اَبیَن
حسن کی شان سے ہے جنتُ عدنٍ ظاہر
فخرِ عدنان۴۲؎ سے ہے جنتُ عدنٍ ظاہر
موئے سر آ گئے گردن پہ تو ظاہر ہوا صاف
کہ پڑا کعبۂ پُرنور پہ مشکیں یہ غلاف
یا کہ ہے طور کی چوٹی میں معنبر موباف
نور و ظلمت میں یہاں ہے یہی قولِ وصّاف
رات دن جمع ہیں کیا حسن کا اعجاز ہے یہ
جمع اضداد۴۳؎ میں ہر حسن سے ممتاز ہے یہ
صفتِ مُہرِ نبوت ہو تو کیا ہو مرقوم


Urdu Naat Lyrics, Naat with Lyrics | Naat Lyrics Urdu | Naat Lyrics a to z

رمزِ مہرِ یدِ قدرت ہو کہاں سے معلوم
ہوئے اُس مہر کی تشبیہ اگر اُس سے مرسوم
ہو رواں بیضِ حمامہ۴۴؎ سے رحیقِ مختوم
زِرِّ حجلہ۴۵؎ کی شبیہ اُس کو اگر کیجے بیاں
موردِ رشک رہے چشمِ عروسانِ جناں
مہر ہے چرخِ رسالات پہ وہ مُہرِ مبین
قلبِ مومن میں ہے صدق اُس کے سبب نقشِ نگین
اُس سے یاں جس دلِ کافر پہ لگی۴۶؎ مہرِ مہین
طَبَع اللہ کا مصداق ہے وہ قلبِ لعین
دفترِ دل نہیں مقبول اب اس مُہر بغیر
بے سند ہیں خطِ اعمال سب اس مُہر بغیر
کیوں کر اُس مہر سے ہم رنگ ہو مُہرِ انور
روشنائی ید قدرت نے لگائی جس پر
کون سے مشک سے ہو گی وہ مدادِ اطہر
بس گیا بوئے قدس سے جو وہ مہرے دفتر
دیکھو جس راہ سے محبوب گزر جاتے ہیں
اُسی خوشبو کو دماغ سرو جاں پاتے ہیں
اب یہ ہی راہِ سعادت نظر آتی ہے فقیر
صفتِ ساعدِ مسعود بھی ہوئے تحریر
ہے یہاں ترکِ ادب دستۂ سیمیں کے نظیر
کہ کہاں مبتذلِ خلق کہاں صُنعِ قدیر
آستیں جلوۂ ساعد سے ہے فوارۂ نور
یا کہ روشن ہے وہ فانوس میں شمعِ کافور
دستِ قدرت سے بنے دستِ نبی کیسے خوب
اور خطِ دستِ مبارک ہیں عیاں ایسے خوب
دستِ گل بھی تورگِ گل سے نہیں ویسے خوب
ہاتھ ملتاہوں۴۷؎ کہ کیاکہہ دوںوہ ہیںجیسے خوب
لوحِ محفوظ کفِ رشکِ یدِ بیضا ہے
یا یمِ جود و سخاوت پہ یہ کف آیا ہے
کیا کہوں خوبیِ انگشتِ درازِ احمد
رہ گئی گردنِ فکر اُس کی طرف کو ممتد
اخذِ مضموں سے ہوا میرے قلم کا شل ید
ایں بہ گفتم صفتش کاشکے مقبول افتد
ہیں وہ انگشت و کفِ دستِ رسول ایسی قریں
یدِ قدرت سے ہوئے لوح و قلم جیسی قریں
رفعِ سبابہ۴۸؎ جو ہے عادتِ محمود خصال
تو عمل ہم کو بھی مسنون ہے آج اُس کی مثال
عیدِ سنت کا ہے وہ ناخنِ انگشت ہلال
اور دکھاتا ہے ہمیں طوع۴۹؎ محمد کا جمال
مائلِ دید ہوا ایک جہاں اُس کی۵۰؎ طرف
ہیں تشہد میں اشاراتِ بناں اُس کی طرف
اور جو لکھوں صفتِ سینۂ صافی بنیاد
آبِ آئینہ رواں آئے پئے صرف مداد
سینہ ہے لوح جہاں حولِ خدا آئے یاد
یا کہ عرش اُس سے ہوئے شرع جہاں میں ایجاد
حولِ حق دیکھ لو قلبِ صفتِ اولیٰ میں
شرع موجود ہے قلبِ صفتِ اخریٰ میں
ہے وہ آرامِ دل و سینۂ انساں سینہ
ہولِ دل کے لیے ہے آیتِ رحماں سینہ
زندگی بخش ہے جوں چشمۂ حیواں سینہ
خطِ اسود سے ہے یا صفحۂ قرآں سینہ
خطِ باریک سے مقروں ہے وہ صدرِ انور
یا کھینچی جدولِ مشکیں ہے الم نشرح پر
بالیقیں مطلعِ انوارِ الٰہی وہ ہے
سر بہ سر مخزنِ اسرارِ الٰہی وہ ہے
مورد و منظرِ انظارِ الٰہی وہ ہے
حاملِ سُبحَتِ۵۱؎ دیدارِ الٰہی وہ ہے
آمدورفتِ نَفَس سے ہے یہ اُس کی تمثیل
شیشۂ۵۲؎ ساعتِ اوقاتِ تجلیِ جلیل
اس یدِ کلک میں وصفِ کمر آئے کیوں کر
رشتۂ جاں کی یہ تصویر بنائے کیوں کر
اعجب الخلق کے اسرار کو پائے کیوں کر
رمزِ بے چوں کو یہ چوں صاف جتائے کیوں کر
ہو سکا اُس کی ثنا میں یہی مصرع موزوں
کام اُسی کا ہے قیام اور رکوعِ بے چوں
اب ہے نعتِ قدمِ پاک کی تقدیم اہم
ظرفِ خیرات و سعادات ہے جس کا مقدم
قَدَمِ صدق۵۳؎ ہے محسوسِ میانِ عالم
اقدم ہر متقدم ہے بہ درگاہِ قِدَم
پائیں گے اُس کی حقیقت کو جبھی خاص و عوام
اُس کو اقدام ہو جب یوم تُزِلُّ الاقدام
ملے تعویذ جو نقش اُس قدمِ اکرم کا
نہ ہو امت کو کبھی پھر مرضِ لغزشِ پا
ناخنِ پائے نبی آج ہے وہ عقدہ کشا
ناخنِ عقلِ فلاطوں کو جو ہو یہ دعویٰ
شرف اُس ناخنِ پا کا نہ کبھی پائے وہ عقل
ناخنِ شیر اُسی کے لیے بن جائے وہ عقل
کیوں کہ خاموش ہو یاں طوطیٔ خامہ کی زباں
آئینہ ہے قدمِ صافِ نبی جس پہ عیاں
واں ہے ہر ذرّۂ خاکِ قدم ایسا ذی شاں
درۃ التاجِ شہاں ہے لقب اُس کا شایاں
آج کس سر کے نصیبوں میں ہے یہ اوجِ عروج
فرش پا ہے جو محمد کے لیے ذاتِ بروج
شمعِ کاشانۂ عالم ہیں مقرر دونوں
اُن سے بطحا و مدینہ ہیں منور دونوں
اُن پہ قرباں یہ مرے دیدے ہوں اور سر دونوں
بوسہ گاہِ لبِ مشتاق ہوں کیوں کر دونوں
حاش للہ کہ بود رُتبۂ خاک و خاشاک
کہ بہ شوخی بودش قربتِ آن عالمِ پاک
بارک اللہ سراپا کا جب اتمام ہوا۵۴؎
خواب میں حضرتِ مرسل نے قدم رنجہ کیا
خیرمقدم مرے ہر مونے زباں بن کے کہا
فرطِ شادی نے مگر پھر مجھے سونے نہ دیا
للہ الحمد کہ جو دیکھ لیا کافی ہے
یہی دنیا میں سراپا کا صلا کافی ہے
یہی باقی ہے فقیر اب تو تمنا میری
خاک ہو شہرِ مقدس میں سراپا میری
ختم ہو جائے مدینے میں یہ دنیا میری
زیر اعقاب محمد رہے عقبیٰ میری
ہو وہاں میرے لیے صفِ نعال احمد
چشمِ مشتاق رہے محوِ جمالِ احمد
ربنا صل علی روح رسول الثقلین
و علیٰ آلہ الاخیار بخیر الدارین
جن کی تمثیل۵۵؎ میں فرماتے ہیں شاہِ کونین
کشتیٔ نوح ہیں گویا یہ میرے قرۃ عین
ہو رکوب اُن کی اطاعت کے سفینے میں نصیب
قربت اُن کی مجھے یارب ہو مدینے میں نصیب
اور اصحاب پہ نازل ہو تحیات و سلام
نامور صاحبِ دیں جن سے ہوا نامِ انام
اُن کی توصیف میں وارد ہے نجوم الاسلام۵۶؎
اقتدا اُن کی ہدایت ہے پئے خاص و عوام
گو عمیق آج ہے گردابِ جہاں اپنے لیے
یہ نجوم اور وہ کشتی ہے اماں اپنے لیے
یاخدا شہرِ نبی کا شرف اور افزوں ہو
جو محب اُس کا ہے فردوس سے وہ مقروں ہو
اور جو دشمن ہے مدینے کا تو وہ ملعوں ہو
سِجنِ سجیّن کا عقبیٰ میں وہی مسجوں ہو
بعض کہہ دیتے ہیں ایسا بھی تو بے عقل و شعور
کہ مدینے کی زیارت نہیں کچھ ایسی ضرور
لاتشدّوا کی حدیث آئی ہے بے شک مرفوع
مگر اُس سے نہیں یہ قصدِ زیارت ممنوع
جنس مذکور سے محذوف یہاں ہے مشروع
تو ہوا وسوسۂ کلِ مُوَسوِس مرفوع
نہ ہی شارع میں مفرّغ جو یہ استثنا ہے
فارغ اس وہم سے مقصود میں دل میرا ہے
موردِ وحی ہے اور منزل تنزیل ہے وہ
راحتِ روح۵۷؎ ہے اور مہبطِ جبریل ہے وہ
جائے تسبیح ہے اور موقعِ تہلیل ہے وہ
مصرِ تعظیم ہے اور بلدہ تبجیل ہے وہ
مصطفی کا جسدِ پاک ہے اُس تربت میں
وہ حبیبِ صَمَدِ پاک ہے اُس تربت میں
ہے خسِ راہ وہاں قفلِ تمنا کی کلید
خشتِ بام اُس کی ہے خورشیدِ سمائے تمجید
عود اُس کا ہو جو ہر روز تو ہر روز ہو عید
کیوں نہ اُس کے لیے ہو دل کو یہاں شوقِ مزید
موقفِ سرورِ عالم ہے مدینہ واللہ
قدر میں مکہ سے کیا کم ہے مدینہ واللہ
ہے وہ آباد تو ہر جسم میں ہے جان آباد
اُس کی تعمیر سے ہے ہر دلِ ویران آباد
کعبۂ دل میں ہے اُس کے سبب ایمان آباد
یاالٰہی رہے وہ خانۂ احسان آباد
اور وہ معمورہ ہو معمور تیری رحمت سے
دُور طیبہ نہ رہیں دُور تیری رحمت سے
کیوں کہ ہو مدحِ نبی سرد دلوں سے مرقوم
وہ تو ممدوح ہیں اور اپنا بیاں ہے مذموم
کیا ہوا آب میں آیا بھی اگر عکسِ نجوم
عالیہ سافلہ ہو جائے نہیں یہ مفہوم
یاں محیط اس کا کوئی بار خدایا کب ہو
فکرِ ادنیٰ میں محاط آج وہ اعلیٰ کب ہو
جو بیاں مجھ سے سراپا میں ہوئی شبہ و نظیر
تو کھلا۵۸؎ یہ کہ مشبہ بہ نہیں ذی توقیر
کیوں کہ اُن سب کی مشبہ ہے یہاں ذاتِ بشیر
مدح میں مجھ سے سراپا رہی تقصیر فقیر
خالقِ حسنِ محمد سے یہ مستغفر ہوں
عفوِ تقصیر ہو یارب مری میں قاصر ہوں
حواشی
۱؎ غبطہ، بہ کسر غین، آرزوے بے حسد کو کہتے ہیں۔
۲؎ حِلس، بہ کسرحا ،گلیم سطبرکہ، فرش فاخرہ کے نیچے ہوتا ہے جیسے ٹاٹ۔
۳؎ سندس، زیبائے نازک۔
۴؎ غزل حمقیٰ سے اشارہ ہے اس قصہ کی طرف کہ آیت ولا تکونو کالتّی نقضت غزلہا [النحل: ۹۲]کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ایک عورت رائطہ بنتِ سعد قرشیہ ہمیشہ سوت کات کر تیار کرتی اور توڑ کر خراب کر دیتی تھی اور حمقیٰ یعنی سخت احمق اس سبب مشہور تھی۔ تو گویا فکر فقیر کا بھی مثل اس غزل حمقیٰ کے ہے اور باوجود اس کے دام غزالان حرم بن گیا یعنی مضامینِ وصف سراپائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آیا۔
۵؎ یقیں بہ معنی موت آیا ہے چناںچہ قرآن مجید میںآیت واعبد ربک حتیٰ یاتیک الیقین [الحجر: ۹۹] نازل ہے۔
۶؎ یعنی جس میں توہین اور انبیا علیہم السلام کی یا جبریلؑ کی لازم آئے۔
۷؎ شخص ہا وکالبد ہا ، یعنی مضامین۔
۸؎ یعنی اسمِ مبارک محمدؐ ارباب تفعیل کہ مزید فیہ است۔
۹؎ یعنی میرا فکر سخن اگرچہ مثل قریہ ہے لیکن حاصل اس کا عظیم ہے اور نعت و مدح ہے۔
۱۰؎ یعنی جس شاعر کو نعتِ رسول اللہؐ سے بہرہ نہیں گو انوریِ وقت ہو۔
۱۱؎ مراد سخن سے یہاں اپنا سخن اور خاص فنِ شعر نہیں بلکہ عام ہے۔ سخن خیر میں گو اس کے ضمن میں مدح شعر و سخن حسن کی بھی ہو۔
۱۲؎ یعنی فضائلِ زیارت سن کر چلا جاتا ہے۔
۱۳؎ یعنی۔۔۔ سخن میں نعت و مدح بھی ہے تو یہ مزین ہے۔
۱۴؎ یعنی مذمم حدیث ِقبیحہ قبیح۔
۱۵؎ یعنی منجمد و ساختہ شدہ از قرطاس پارینہ وغیرہ کثیف۔
۱۶؎ حَوَرا مفرد حور کا ہے۔
۱۷؎ عینا مفرد عین کا ہے۔
۱۸؎ یعنی صوفِ دوات کے استبرق جنت سے ہوں۔
۱۹؎ یعنی بعضے شاعر جو محض اظہار کمالِ فن کے دیوانہ ہیں حضرت جبریلؑ کی شان میں کلماتِ تحقیر بکتے ہیں۔
۲۰؎ لفظ نبی یہاں نکرہ ہے یعنی کسی نبی کی جس مدح میں تحقیر لازم آئے ہرگز اس شاعر کی وہ مدح، مدح نہیں ہے۔
۲۱؎ حدیث میں آیا ہے الکریم ابن الکریم ابن الکریم ابن الکریم یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم۔
۲۲؎ یعنی مرفوع القلم ہونا کراماًکاتبین سے یا ہمارے قلم رد و قدح سے جب ہو کہ کوئی دیوانہ ہوشیار کس طرح ہو جائے۔
۲۳؎ یعنی مصداق الم ترا انّہم فی کل وادیہیمون[الشعراء: ۲۲۵]۔
۲۴؎ یعنی ہمارا بیان وصفِ رسول اللہﷺ کے سامنے ایسا ہے جیسے ہماری آنکھ آفتاب کے سامنے آفتاب کو چھوٹا دیکھتی ہے اور وہ بڑا ہے۔
۲۵؎ یعنی حق تعالیٰ فرماتا ہے لایکلف نفساً الا وسعہا [البقرہ: ۲۸۶] تو اظہار جمالِ محمدی میں بھی تکلیف بالایطاق بندوں پر نہیں فرمائی۔
۲۶؎ یعنی رویت اس حسن کی مبشر رویت الٰہی ہے یعنی حسنِ نبی نے عالم میں ظاہر ہو کر بشارت دیدارِ الٰہی سے اہلِ ایمان کو امیدوار کیا۔
۲۷؎ یعنی حدیث میں ہے خیرالامور اوسطہا۔
۲۸؎ لام زلف بالا قدسی لقد کا لفظ حاصل ہوا اور یہ لامِ تاکید اور قد ِتحقیق ہے۔
۲۹؎ زُلَفِ، بضم زائے معجمہ وفتح لام، ساعاتِ شب را گویند۔
۳۰؎ زُلفیٰ، بضم زائے معجمہ بسکون لام و آخر مقصور ،مصدر است بمعنی قربیٰ۔
۳۱؎ یعنی کفار کے ناصیہ کی صفت قرآن میں ناصیۃ کاذبہ ہے۔
۳۲؎ یعنی حضرت کو غصہ اپنے نفس کے عوض نہ تھا محض اللہ کے لیے غصہ آتا تھا۔
۳۳؎ یعنی اللہ جل شانہ کو بھی اس پہ غصہ آتا ہے جس شخص پر رسول اللہؐ کو غصہ آوے ۔ البتہ تحقیق کانپ جاتا ہے اس پر عرش بہ سببِ قہرِاوّاہ کے یعنی بہت فریاد والے کی جنابِ الٰہی میں اور یہ صفت پیغمبروں کی ہے۔
۳۴؎ لفظ نہر، بہ سکون ہا اور فتح ہا سے دونوں طرح ہے۔
۳۵؎ یعنی کفار کے حق میں ہیبت ہے اور اہلِ ایماں کو ابر رحمت ہے۔
۳۶؎ باعتبار شعر مشہورہ عربیہ وابیض یستسقیٰ انعام توجہہ۔
۳۷؎ ایک یاسین سے مراد شروع سورۃ یس مراد ہے کہ لوحِ محفوظ میں ہے اور دوسرے یاسین سے نام پاک رسول اللہ صلعم کا مقصود ہے۔
۳۸؎ یعنی بیان احکام الٰہی جل و جلالہ، فرائض اور واجبات اور وعدہ وعید اور نار و جنت وغیرہ کا۔
۳۹؎ یعنی آیت و ہذا لسان عربی مبیں [النحل : ۱۰۳] بزبانِ صادق می آید۔
۴۰؎ اشارہ بہ آیت وخشعت الاصوات للرحمن فلا تسمَعُ الاَہمساً [طہ ٰ : ۱۰۸]
۴۱؎ یعنی مصداق وما ینطق عن الہویٰ [النجم : ۳] است۔
۴۲؎ عدنان حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک جد کا نام ہے۔ اس جا رعایت ذکر جنت عدن سے یہ ذکر مناسب ہوا۔
۴۳؎ یعنی اجتماع ضدین محال ہوتا ہے لیکن معجزۂ حسنِ صاحبِ معجزات سے گویا یہ اجتماع ممکن ہوا۔
۴۴؎ تشبیہ مہر نبوت کی بعض کتب میں بیضِ حمامہ سے آتی ہے یعنی اگر اس سے تشبیہ ہو تو اثر تشبیہ سے بیضۂ حمامہ میں سے رحیقِ مختوم رواں ہو جائے۔
۴۵؎ زرِّ حجلہ چھپرکھٹ کی گھنڈی کو کہتے ہیں، یہ تشبیہ بھی آتی ہے۔
۴۶؎ مُہرِمہین یعنی مہر کفر کے ذلیل کرنے والے کافر کی۔
۴۷؎ افسوس میں یعنی کوئی تشبیہ حسب مراد دل ہاتھ نہیں آئی۔
۴۸؎ رفع سبابہ التحیات میں انگشت ِشہادت بلند کرنے کو کہتے ہیں اور یہ فعل رسول اللہ صلعم کا ہے۔
۴۹؎ یعنی اتباع جمیل کا جمال دکھاتا ہے وہ ہلال ناخنِ رسول اللہ صلعم۔
۵۰؎ اسی جمال اتباع سنت کی طرف۔
۵۱؎ سبُحَت بمعنی جلال و بزرگی۔
۵۲؎ یعنی آمدورفتِ دمِ مبارک سے گویا سینہ صافی شیشہ ساعت ہے۔ یادداشت اوقات تجلی الٰہی کے لیے۔
۵۳؎ یعنی وہ جو قدم صدق عندبہم فرمایا ہے وہ گویا دنیا میں محسوس و مبصر ہے۔
۵۴؎ یعنی قریب تمام کے تھا کہ فقیر مشرف بہ زیارت پر بشارت ہوا۔
۵۵؎ یہ اشارہ اس حدیث کی طرف ہے مثل اہل بیتی ۔۔۔ نوح من رکبہ نجیٰ۔
۵۶؎ یہ ایما اس حدیث کا ہے اصحابی کالنجوم بہ ایّہم اقتدیتم اہتدیتم۔
۵۷؎ یہاں ارواح حضرت انبیاء اور مرسلین مراد ہیں یا روح الامین علیہ السلام۔
۵۸؎ یعنی جس شے سے حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضا کی تشبیہ دی گئی بالضرور وہ شے مکرم ہوئی کہ اس جاء مذکور ہوئی لیکن مدح اعضائے کرام کی نہ ہو سکی کیوں کہ بعض مشبہ بہ خسیسہ ہیں اور حضرت انفس النفائس ہیں ۔ اس لیے عذر تقصیر بہ جناب خالق حسن بشر ہے رب اغفر وارحم۔


 

Urdu Naat Lyrics, Naat with Lyrics | Naat Lyrics Urdu | Naat Lyrics a to z

{٭}

سراپائے رسولِ اکرم اور مثنوی سراپائے رسولِ اکرم اور مثنوی Reviewed by WafaSoft on September 02, 2019 Rating: 5

No comments:

Comments

Powered by Blogger.