وہب بن عبد مناف والد سیدہ آمنہ ؓ
بنو زہرہ میں اک مرد
معمر وہب نامی تھا
معمر وہب نامی تھا
قریشی نسل میں یہ شخص
بھی ماہ تمامی تھا
بھی ماہ تمامی تھا
تھی اس کے گھر میں اک
دختر جو ایسی پاک سیرت تھی
دختر جو ایسی پاک سیرت تھی
کہ اس کی ذات سے لفظ حیا
داری عزت تھی
داری عزت تھی
عرب میں آمنہ مشہور
تھا نام اس عفیفہ کا
تھا نام اس عفیفہ کا
اسی کی گود گہوارہ بنی
دین حنیفہ کا
دین حنیفہ کا
بہت ہی فکر رہتی تھی
پدر کو عقد دختر کی
پدر کو عقد دختر کی
بنی ہاشم میں تھی اس
کو تلاش و جستجو بر کی
کو تلاش و جستجو بر کی
روایت ہے کہ اس دن ہو گیا
تھا اونٹ گم اس کا
تھا اونٹ گم اس کا
وہ اس کو ڈھونڈا پھرتا
تھا اس جانب بھی آ نکلا
تھا اس جانب بھی آ نکلا
بلندی سے اسے اس جنگ کا
نقشہ نظر آیا
نقشہ نظر آیا
یہودی قاتلوں کے بس میں
اک لڑکا نظر آیا
اک لڑکا نظر آیا
نظر آیا وہ لڑکا برسرِ پیکار چاروں سے
بہت ہی تن دہی سے لڑ
رہا تھا پختہ کاروں سے
رہا تھا پختہ کاروں سے
خیال آیا کہ ملنی چاہیے
امداد لڑکے کو
امداد لڑکے کو
مبادا قتل کر دیں مل کے
یہ جلاد لڑکے کو
یہ جلاد لڑکے کو
مگر اٹھا جونہی امداد
کرنے کے ارادے سے
کرنے کے ارادے سے
نہ جانے کیوں الجھ کر
رہ گیا اپنے لبادے سے
رہ گیا اپنے لبادے سے
پھر اٹھا جب دوبارہ
پاؤں پھسلا ایک پتھر سے
پاؤں پھسلا ایک پتھر سے
چٹان ابھری ہوئی تھی ایک
وہ ٹکڑا گئی سر سے
وہ ٹکڑا گئی سر سے
اٹھا پھر تیسری بار اور
چاہا جلد اتر جاؤں
چاہا جلد اتر جاؤں
جوان ہاشمی کو قتل ہونے
سے بچا لاؤں
سے بچا لاؤں
مگر اب کے ہوا اک اژدہا
اس راہ میں حائل
اس راہ میں حائل
کہ جس کے خوف سے ساری
عزیمت ہو گئی زائل
عزیمت ہو گئی زائل
یہ مرد اب دور ہی بیٹھا
ہوا حسرت سے تکتا تھا
ہوا حسرت سے تکتا تھا
جوان ہاشمی کے واسطے کچھ
کر نہ سکتا تھا
کر نہ سکتا تھا
نظر آیا کہ لڑکا سست ہے
زخموں کی شدت سے
زخموں کی شدت سے
یہودی پے بہ پے حملے کئے
جاتے ہیں قوت سے
جاتے ہیں قوت سے
خیال آیا مری آواز سے شاید
وہ ڈر جائیں
وہ ڈر جائیں
یہاں اک شخص کو موجود
سمجھیں اور باز آئیں
سمجھیں اور باز آئیں
مگر جونہی یہ سوچا اور
نعرہ مارنا چاہا
نعرہ مارنا چاہا
وہیں گھونٹا کسی نے حلق
اور بٹھلا دیا چپکا
اور بٹھلا دیا چپکا
حقیقت میں یہ سب شیطان
کی فتنہ طرازی تھی
کی فتنہ طرازی تھی
مدد کے راستے میں ہر
رکاوٹ حیلہ سازی تھی
رکاوٹ حیلہ سازی تھی
رہی جب اس برح ہر
مرتبہ تدبیر ناکارہ
مرتبہ تدبیر ناکارہ
نظر آیا نہیں تقدیر سے
انسان کا چارہ
انسان کا چارہ
مگر اس بے گنہ کا قتل میں
ہونا نہ دیکھوں گا
ہونا نہ دیکھوں گا
نہیں کچھ اور کر سکتا
تو آنکھیں بند کرلوں گا
تو آنکھیں بند کرلوں گا
مگر اتنے میں اس کو
اور ہی نقشہ نظر آیا
اور ہی نقشہ نظر آیا
زمیں سے تا فلک اک نور
کا جلوہ نظر آیا
کا جلوہ نظر آیا
نظر آیا اترنا چار
نورانی فرشتوں کا
نورانی فرشتوں کا
اور ان کو دیکھتے ہی
بھاگنا ان بد سرشتوں کا 59
بھاگنا ان بد سرشتوں کا 59
گرا کر قاتلوں کو بھاگ
اٹھے رہوار شیطانی
اٹھے رہوار شیطانی
زمیں پر سر پٹکتے رہ گئے
غولِ بیابانی
غولِ بیابانی
جواں نے ا ب تعاقب کر کے
مارا ان لعینوں کو
مارا ان لعینوں کو
نہ شیطاں دے سکا کوئی
سہارا ان لعینوں کو
سہارا ان لعینوں کو
یہ صورت دیکھ کر مرد
معمر ہو گیا حیراں
معمر ہو گیا حیراں
یقیں آیا، کہ ہے یہ
ہاشمی لڑکا بہت ذیشاں
ہاشمی لڑکا بہت ذیشاں
اٹھا تو راستے میں اب
نہ کوئی اژدہا دیکھا
نہ کوئی اژدہا دیکھا
وہاں پہنچا تو پانچوں
قاتلوں کا سر کٹا دیکھا
قاتلوں کا سر کٹا دیکھا
پڑے تھے پانچ لاشے ایک
اک سے دور سب تنہا
اک سے دور سب تنہا
کھڑا تھا اک جگہ فرزند
عبدالمطلب تنہا
عبدالمطلب تنہا
غرض زخمی جواں کو ساتھ
لے کر وہب گھر آیا
لے کر وہب گھر آیا
یہ سارا ماجرا اس کے پدر
کو جا کے بتلایا
کو جا کے بتلایا
پھر اپنی نیک دختر بیاہ
دی اس شیر صولت سے
دی اس شیر صولت سے
خوشی اس بیاہ کی سب نے منائی
شان و شوکت سے
شان و شوکت سے
بہم دولہا دلہن تھے صورت
و سیرت میں لاثانی
و سیرت میں لاثانی
قسم کھاتی تھی ان کا
نام لے کر پاک دامانی
نام لے کر پاک دامانی
وہ نور لم یزل جس کی ضیا
تھی روئے انور میں
تھی روئے انور میں
نظر آنے لگی اس کی جھلک
تقدیر مادر میں
تقدیر مادر میں
بنو زہرہ میں اک مرد معمر وہب نامی تھا
Reviewed by WafaSoft
on
August 26, 2019
Rating:


No comments: