سردار عبدالمطلب اور ابرہہ اشرم کی گفتگو
سحر کے وقت اک بدویہ مکے
میں*خبر لایا
میں*خبر لایا
کہ لشکر فیل والوں نے حرم
کی حد پہ ٹھیرایا
کی حد پہ ٹھیرایا
چراگاہوں میں خاک اڑنے لگی
ہے ظلم کے مارے
ہے ظلم کے مارے
پکڑ کر اونٹ عبدالمطلب
کے لے گئے سارے
کے لے گئے سارے
ہوئے تیار عبدالمطلب بھی
یہ خبر سن کر
یہ خبر سن کر
تنِ تنہا چلے گھوڑے پہ چڑھ کر جانبِ لشکر
وہاں پہنچے تو ان کو
ابرہہ نے دور سے دیکھا
ابرہہ نے دور سے دیکھا
کہ اک مرد معمر آ رہا ہے
بے دھڑک تنہا
بے دھڑک تنہا
نشاں چہرے سے ظاہر ہیں
بزرگی کے امارت کے
بزرگی کے امارت کے
شرافت کے نجابت کے تقدس
کے طہارت کے
کے طہارت کے
وہ ان کی پیشوائی کے لیے
باہر نکل آیا
باہر نکل آیا
بڑی عزت سے اپنی بارگہ
میں لا کے بیٹھا
میں لا کے بیٹھا
کہا فرمائیے کیا نام ہے
کیا کام ہے صاحب؟
کیا کام ہے صاحب؟
بیاں کیجے یہاں آنے کا
اپنے مقصد و مطلب
اپنے مقصد و مطلب
کہا اہلِ عرب کہتے ہیں عبدالمطلب مجھ کو
نہیں ہے آپ سے کوئی غرض
کوئی طلب مجھ کو
کوئی طلب مجھ کو
ہنکا لائے ہیں میرے اونٹ
جا کر آپ کے چاکر
جا کر آپ کے چاکر
میں آیا ہوں کہ لے جاؤں
یہاں سے اونٹ لوٹا کر
یہاں سے اونٹ لوٹا کر
سنی یہ بات تو حیران ہو
کر ابرہہ بولا
کر ابرہہ بولا
کہ شاید تم نے اپنی بات
کو دل میں نہیں تولا
کو دل میں نہیں تولا
یہ ظاہر ہے میں آیا ہوں
یہاں کعبہ گرانے کو
یہاں کعبہ گرانے کو
تمہارے جدِ امجد کی عبادت گاہ ڈھانے کو
تعجب ہے ، کہ اک ناچیز
شے کا ذکر کرتے ہو
شے کا ذکر کرتے ہو
نہیں کعبے کی فکر
اونٹوں کی اپنے فکر کرتے ہو
اونٹوں کی اپنے فکر کرتے ہو
تمہیں لازم تھا عزت کے مطابق
گفتگو کرتے
گفتگو کرتے
خدا کا گھر بچانے کے لیے
کچھ آرزو کرتے
کچھ آرزو کرتے
سحر کے وقت اک بدویہ مکے میں*خبر لایا
Reviewed by WafaSoft
on
August 26, 2019
Rating:


No comments: