شہر پومپی آئی کی آخری رات
سیاہی بن کے چھایا شہر
پر شیطان کا فتنہ
پر شیطان کا فتنہ
گناہوں سے لپٹ کر سو گیا
انسان کا فتنہ
انسان کا فتنہ
پناہیں حسن نے پائیں سیہ
کاری کے دامن میں
کاری کے دامن میں
وفاداری ہوئی روپوش
ناداری کے دامن میں
ناداری کے دامن میں
میسر ہیں زری کے شامیانے
خوش نصیبی کو
خوش نصیبی کو
اڑھا دی سایہ دیوار نے چادر
غریبی کو
غریبی کو
مشقت کو سکھا کر خوبیاں
خدمت گذاری کی
خدمت گذاری کی
ہوئیں بے خوف بے ایمانیاں
سرمایہ داری کی
سرمایہ داری کی
لیا آغوش میں پھولوں کی
سیجوں نے امیری کو
سیجوں نے امیری کو
مہیا خاک ہی نے کر دیئے
آسن فقیری کو
آسن فقیری کو
تڑپنا چھوڑ کر چپ ہو گئے
جی ہارنے والے
جی ہارنے والے
مزے کی نیند سوئے تازیانے
مارنے والے
مارنے والے
وہ روحانی وہ جسمانی
عقوبت کم ہوئی آخر
عقوبت کم ہوئی آخر
غلامی بیڑیوں کے بوجھ سے
بے دم ہوئی آخر
بے دم ہوئی آخر
ہوئے فریادیوں پر بند ایوانوں
کے دروازے
کے دروازے
کہ خود محتاج درباں ہیں
جہانبانوں کے دروازے
جہانبانوں کے دروازے
ادائے ناز سے جا سوئی
غفلت بادشاہوں کی
غفلت بادشاہوں کی
سرور و کیف بن کر چھا
گئیں نیندیں گناہوں کی
گئیں نیندیں گناہوں کی
شرابیں پی پلا کر ہو گئے
خاموش ہنگامے
خاموش ہنگامے
بالآخر نیند آئی سو گئے
پر جوش ہنگامے
پر جوش ہنگامے
تھما جب زندگی کا جوش
پر خاشِ اجل جاگی
پر خاشِ اجل جاگی
عمل کو دیکھ کر مدہوش
پاداشِ عمل جاگی
پاداشِ عمل جاگی
اٹھایا موت نے پتھر
جہنم کے دہانے سے
جہنم کے دہانے سے
جہاں آتش کا دریا
کھولتا تھا اک زمانے سے
کھولتا تھا اک زمانے سے
بلندی سے تباہی کے سمندر
نے کیا دھاوا
نے کیا دھاوا
چٹانوں کے جگر سے پھوٹ
نکلا آتشیں لاوا
نکلا آتشیں لاوا
دکھا دی آگ ایوانوں کو مظلومی
کی آہوں نے
کی آہوں نے
اٹھائے شعلہ ہائے آتشیں
بے کس نگاہوں نے
بے کس نگاہوں نے
اٹھیں مختار بن کر بے کسی
کے خون کی موجیں
کے خون کی موجیں
حصار مرگ نے محصور کر لیں
جنگ جو فوجیں
جنگ جو فوجیں
نہ حسن و عشق نے پائی
اماں قہر الٰہی سے
اماں قہر الٰہی سے
دبی پاداش امیری سے فقیری
سے نہ شاہی سے
سے نہ شاہی سے
ستاروں کی نگاہوں نے دھواں
اٹھتا ہوا دیکھا
اٹھتا ہوا دیکھا
مگر خورشید نے کچھ بھی
نہ مٹی کے سوا دیکھا
نہ مٹی کے سوا دیکھا
سیاہی بن کے چھایا شہر پر شیطان کا فتنہ
Reviewed by WafaSoft
on
August 26, 2019
Rating:


No comments: