عرب کی دودھ پلائیاں۔۔ حلیمہ 70 سعدیہ کی غریبی
شریفان عرب کا قاعدہ
تھا اس زمانے میں
تھا اس زمانے میں
کہ بچے ان کے پلتے تھے کسی
بدوی گھرانے میں
بدوی گھرانے میں
اسی مقصد سے بدوی عورتیں
ہر سال آتی تھیں
ہر سال آتی تھیں
بڑے شہروں سے نوزائیدہ
بچے لے کے جاتی تھیں
بچے لے کے جاتی تھیں
پلا کر دودھ اپنا پالتی
تھیں نونہالوں کو
تھیں نونہالوں کو
عوض دولت میں دینا پڑتا
تھا اولاد والوں کو
تھا اولاد والوں کو
جو بچے اس طرح سے کاٹتے
تھے دن رضاعت کے
تھے دن رضاعت کے
بڑے ہو کر نظر آتے تھے وہ
پتلے شجاعت کے
پتلے شجاعت کے
یہ بچے سختیوں کو کھیل بچوں کا سمجھتے تھے
یہ تلواروں کی جھنکاروں
کو اک نغمہ سمجھتے تھے
کو اک نغمہ سمجھتے تھے
چنانچہ شہر میں امسال
بھی کچھ عورتیں آئیں
بھی کچھ عورتیں آئیں
بیابانوں سے اپنے ساتھ
نہریں دودھ کی لائیں
نہریں دودھ کی لائیں
قریشی نسل کے اطفال کی
ہر دل میں خواہش تھی
ہر دل میں خواہش تھی
امیروں کا کوئی بچہ ملے
یہ سخت کاہش تھی
یہ سخت کاہش تھی
یہ دایہ عورتیں تھی سعد کے بدوی 71 قبیلے کی
انہیں میں تھی حلیمہ
سعدیہؓ اور اس کا شوہر بھی
سعدیہؓ اور اس کا شوہر بھی
حلیمہ قافلے بھر میں غریب
اور سب سے کم تر تھی
اور سب سے کم تر تھی
پھر اس کی اونٹنی بھی
دُبلی پتلی اور لاغر تھی
دُبلی پتلی اور لاغر تھی
گھروں میں مقدرت والوں
کے پہنچیں عورتیں ساری
کے پہنچیں عورتیں ساری
حلیمہؓرہ گئی ڈیرے پہ بیٹھی
شرم کی ماری
شرم کی ماری
وہ زر داروں کے بچے لے کے
واپس لوٹ بھی آئیں
واپس لوٹ بھی آئیں
حلیمہؓ سعدیہ نے دو
کھجوریں بھی نہیں پائیں
کھجوریں بھی نہیں پائیں
بالآخر قافلے کی واپسی
کا روز آ پہنچا
کا روز آ پہنچا
بچاری کے لئے اِ ک ناوکِ
دلدوز آ پہنچا
دلدوز آ پہنچا
شکستہ خاطری سے اب دلِ مایوس بھر آیا
مرادیں سب نے پائیں ہائے
مَیں نے کچھ نہیں پایا!
مَیں نے کچھ نہیں پایا!
اٹھی اس سوچ میں جا کر
طوافِ کعبہ آؤں
طوافِ کعبہ آؤں
وہاں سے آ کے سوچوں گی
کہ ٹھہروں یا چلی جاؤں
کہ ٹھہروں یا چلی جاؤں
مری قسمت بھلی ہوتی تو
کوئی طفل مل جاتا
کوئی طفل مل جاتا
غریبی ہیں میں اس کو
پال لیتی مجھ سے ہل جاتا
پال لیتی مجھ سے ہل جاتا
بلا سے دودھ کم ہے تو
بھی وہ مجھ کو خوشی دیتا
بھی وہ مجھ کو خوشی دیتا
مرا بچہ بچارا اُونٹنی
کا دودھ پی لیتا!
کا دودھ پی لیتا!
یہ باتیں سوچتی تھی دل
ہی دل میں روتی جاتی تھی
ہی دل میں روتی جاتی تھی
کوئی بچہ نظر آئے تو بیکل
ہوتی جاتی تھی
ہوتی جاتی تھی
اچانک اس کو اس کو
عبدالمطلب نے دور سے دیکھا
عبدالمطلب نے دور سے دیکھا
حلیمہ کو بلایا رنج و
غم کا ماجرا پوچھا
غم کا ماجرا پوچھا
کہا میں سعدیہ عورت ہوں
یعنی بدویہ دایا
یعنی بدویہ دایا
حلیمہ نام ہے ، میں ے کوئی بچہ نہیں پایا
قبیلے والیاں لائی ہیں
کیسے پھول سے لڑکے
کیسے پھول سے لڑکے
رہی جاتی ہوں میں اور
قافلے کا کوچ ہے تڑکے
قافلے کا کوچ ہے تڑکے
ہنسے یہ سُن کے عبدالمطلب
اور ہنس کے فرمایا
اور ہنس کے فرمایا
کہ ہاں اے نیک بی بی !
اے حلیمہ سعدیہ دایا
اے حلیمہ سعدیہ دایا
حلیمی اور سعادت خوبیاں
دو پاس ہیں تیرے
دو پاس ہیں تیرے
انہی دونوں کے باعث کام
سارے راس ہیں تیرے
سارے راس ہیں تیرے
مرے پاس ایک بچہ ہے پدر
جس کا نہیں زندہ
جس کا نہیں زندہ
مگر اک خاص جلوے سے ہے چہرہ
اس کا تابندہ
اس کا تابندہ
تمہارے ساتھ والی عورتیں
بھی گھر میں آئی تھیں
بھی گھر میں آئی تھیں
زر و انعام پانے کی امیدیں
ساتھ لائی تھیں
ساتھ لائی تھیں
یتیم اور بے سر و سامان
بچہ تو اگر چاہے
بچہ تو اگر چاہے
اسے لے جا اگر بدلہ چاہے
اور نہ زر چاہے
اور نہ زر چاہے
یہ کہہ کر ایک ہلکا سا
تبسم آگیا لب پر
تبسم آگیا لب پر
یہ معنی تھے مرا بچہ ہے
بالا مال و جاں سب پر
بالا مال و جاں سب پر
حلیمہؓ نے کہا دریافت
کر لوں اپنے شوہر سے
کر لوں اپنے شوہر سے
مبادا وہ خفا ہو اور میری
جان پر برسے
جان پر برسے
یہ کہہ کر جلدی جلدی آئی
حلیمہؓ اپنے ڈیرے پر
حلیمہؓ اپنے ڈیرے پر
کہا قسمت سے بچہ مل گیا
ہے مجھ کو اے شوہر!
ہے مجھ کو اے شوہر!
مگر اس کا پدر زندہ نہیں،
کہہ دو تو لے آؤں
کہہ دو تو لے آؤں
یہاں سے قافلے ساتھ خالی
گود کیا جاؤں
گود کیا جاؤں
ہماری ساتھنیں بچوں کی
دولت لے کے جائیں گی
دولت لے کے جائیں گی
ہنسیں گی مجھ پہ طعنے دیں
گی سو باتیں بنائیں گی
گی سو باتیں بنائیں گی
کہا شوہر نے ہاں لے آؤ شاید
کچھ بھلائی ہو
کچھ بھلائی ہو
ہماری بہتری اس طفل کی
صورت میں آئی ہو
صورت میں آئی ہو
اگرچہ اُونٹنی کا اور
تمہارا دودھ بھی کم ہے
تمہارا دودھ بھی کم ہے
مگر مالک کی رحمت پر
بھروسہ ہے تو کیا غم ہے
بھروسہ ہے تو کیا غم ہے
شریفان عرب کا قاعدہ تھا اس زمانے میں
Reviewed by WafaSoft
on
August 26, 2019
Rating:


No comments: