Best Wall Stickers

غیرمسلم نعت گو شعرا ایکناتھ سے چندر بھان خیال تک

ڈاکٹر سیّد یحییٰ نشیط۔ بھارت


غیرمسلم نعت گو شعرا
ایکناتھ سے چندر بھان خیال تک


معلوم تاریخ کے مطابق مہاراشٹر میں مسلمانوں کی بود و باش اور تہذیب و تمدن کے آثار آٹھویں صدی عیسوی تک متحقق ہوچکے ہیں۔ چناںچہ راشٹرکوٹ سلاطین کے دورِ حکومت (آٹھویں صدی کے وسط سے دسویں صدی کے اواخر تک) میں چول اور تھانے میں مسلمان بستیوں کی نشان دہی مسعودی اور یاقوت نے اپنی کتابوں میں کی ہے۔
ولبھ رائے گوند سوم (۷۹۳ء۔۸۱۴ء) اور اموگھ ورشا (۸۱۴ء۔۸۷۷ء) کے دورِ حکومت میں تو مسلمانوں میں شرعی امور کی پاسداری کے لیے ان ہی میں سے ایک ناظم مقرر کردیا جاتا تھا۔ اسے مقامی زبان میں ’’ہنرمن‘‘ کہتے تھے۔ سلاطین مہاراشٹر مسلمان مجرموں کی سزا شریعت کے تحت تجویز کرتے تھے اور قاضی کے انصاف پر تکیہ کیا جاتا تھا۔ دیہی علاقوں میں سماجی سطح پر ’’بارہ بلوتدار‘‘ کی اصطلاح رائج تھی۔ ان بارہ افراد میں مسلمانوں کے ’’مولانا‘‘ کا بھی شمار ہوتا تھا۔
اتحاد و اتفاق کی بدولت یہاں کا ہندو، مسلم کلچر ایک دوسرے سے متاثر ہوتا رہا۔ اس پر مستزاد یہاں کی روحانی تعلیم، جس کے سوتے صوفی سنتوں کے اندرون سے پھوٹے، انھوںنے ظاہری رنگ ڈھنگ کو اجالے کی بجائے باطن کو مجلیٰ کیا۔ ان کی کومل وانی نے عوام الناس کو موہ لیا اور یہ بے تاج بادشاہ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرنے لگے۔ چناںچہ ہندو سنتوں کے ساتھ ساتھ مسلمان صوفیوں نے بھی یہاں روحانیت کی تعلیم کو عام کیا۔ مٹھ اور خانقاہی تہذیب کا یہ اثر ہوا کہ مسلمانوں کے گرو ہندو اور ہندوئوں کے مرشد مسلمان آپس میں ایسے خلط ملط دکھائی دینے لگے گویا یک جان و دو قالب ہوں۔ خانوادۂ قادریہ کے بزرگ حضرت سیّد محمد غوث گوالیاری (م۱۵۱۴ء) کے مریدین کا شجرہ اس پر دال ہے۔ حضرت غوث گوالیاری کے مرید راز محمد ان کے مرید یودھلے بوا، ان کے دو مریدوں میں جناء دھن سوامی ہندو اور شیخ محمد مسلمان، شیخ محمد کے عقیدت مندوں میں شیواجی کے دادا مالوجی۔ شیواجی کے گرو رام داس سوامی۔ رام داس سوامی کے بھکت کیشو سوامی اور کیشو سوامی کے شاگرد شاہ تراب چشتی اور واجد پٹھان۔ آخرالذکر مراٹھی کے صوفی شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ دوسری طرف جناردھن سوامی کے مرید ایکناتھ مہاراج ہیں۔ یہ وہی ایکناتھ مہاراج ہیں جو غیرمسلم نعت گو شعرا کی صف میں سب سے اوّلین نعت گو شاعر ہیں۔
چناںچہ اردو (دکنی) زبان میں کہی گئی غیرمسلم شاعر ایکناتھ مہاراج کی نعت اوّلین نعت کہی جاسکتی ہے۔ ان کا زمانہ سولھویں صدی کا نصف اوّل ہے۔ انھوںنے ہندو مسلم منافرت کو دُور کرنے اور ملک میں قومی یک جہتی کی فضا ہموار کرنے کے لیے ’’ہندو نترک سنواد‘‘ جیسی مکالماتی نظم بھی لکھی تھی۔ اس نظم میں مسلمان اور ہندوئوں کو قریب لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں:
کہے ہندو موہی رام پیارا، ترک کہے رحمانا
آپس میں دونوں لری لری مرے مرم نہ کو ہوجانا
اس نزاع کو ایکناتھ مہاراج نے اس طرح ختم کیا ہے:
برہمن مھنے آہو جی سوامی، وستوتہ ایک تمھیں آمھی
ترک کہے وہ بات صحیح، خدا کو تو ذات نہیں
ایکناتھ مہاراج نے دکنی زبان میں جو نعت کہی ہے وہ مراٹھی (دیوناگری) رسم خط میں ان کے مجموعۂ کلام میں درج ہے۔ اس نعت کا خاص وصف یہ ہے کہ انھوںنے رام، کرشن اور محمدﷺ کی تثلیث میں غیرمنفصل سلسلہ کو تلاش کرلیا ہے اور ان کا نقطئہ اتصال محمدﷺ کی ذات میں ڈھونڈا ہے۔ عقیدت میں ڈوبے ہوئے یہ اشعار ایکناتھ کے عشقِ رسولﷺ کے مظہر ہیں۔ ہندو، مسلم مناقشات سے اوپر اُٹھ کر انھوںنے حضورﷺ سے اپنی قلبی وابستگی کا ثبوت فراہم کردیا ہے۔ اندازِبیان اگرچہ سپاٹ اور سیدھا ہے۔ اس نعت میں کوئی شعری حسن بھی نہیں ملے گا، لیکن وارفتگیٔ شوق اور ہدایت کی روشنی ضرور ملے گی۔ مدحِ رسولﷺ میں ایسی سرشاری کافر کو مسلمان بنا دیتی ہے۔ اس لحاظ سے ایکناتھ غالباً پہلے غیرمسلم نعت گو ہیں، جنھوںنے اپنی مادری زبان مراٹھی کو بالائے طاق رکھ کر نہایت عقیدت کے ساتھ ثنائے رسولﷺ کہنے کی سعادت حاصل کی۔ ان کی دکنی نعت کے یہ بند ملاحظہ ہوں:
دشرتھ رام رانا و لیکن
دیو چھڑاوے بند محمد
کھیل کھلانے آیا محمد
لٹکاپنی راون مارا و لیکن
راجیہ دیا بھبشن محمد
کھیل کھلانے آیا محمد
کنس ما ما کو ماریا و لیکن
راجیہ دیا اگرسین محمد
کھیل
کھلانے آیا محمد
اردو (دکنی) میں کہی گئی غیرمسلم شاعر کی یہ اوّلین نعت ہے۔ یہ وہ دور ہے جب شمال میں چندربھان برہمن اور جنوب میں برہان الدین جانم کا طوطی بول رہا تھا۔
ایکناتھ کے بعد اردو شاعری میں غیرمسلموں کی نعت گوئی کا سلسلہ چلتا رہا۔ آںحضرتﷺ سے اپنی عقیدت کا اظہا کرنے کے لیے بعض شعرانے چند نعتوں پر اکتفا کیا تو بعض شعرا ایسے بھی رہے جنھوںنے نعتیہ مجموعے شائع کیے۔ کچھ غیرمسلم مدیر ایسے بھی اردو صحافت کی تاریخ میں دکھائی دیتے ہیں جنھوںنے غیرمسلم شعرا کے نعتیہ نمبر شائع کیے۔ چناںچہ ۱۹۴۰ء میں ہوشیارپور سے شائع ہونے والے رسالے ’’کیلاش‘‘ نے اپنا نعت نمبر نکالا تھا۔ ماہ نامہ ’’نعت‘‘ لاہور نے بھی غیرمسلم شعرا کی نعت گوئی پر ایک خصوصی نمبر شائع کیا تھا۔ ماہ نامہ ’’معلوماتِ اسلام‘‘ آگرہ نے بھی غیرمسلموں کی نعت گوئی پر خصوصی نمبر بڑے اہتمام سے نکالا تھا۔ ’’شام و سحر‘‘ کے نعت نمبروں میں تو ہمیشہ غیرمسلم شعرا کے نعتیہ کلام کو جگہ دی جاتی تھی۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے میگزین ’’اوج‘‘ کے نعت نمبر میں بھی کئی غیرمسلم شعرا کی نعتیں دکھائی دیتی ہیں۔ مختلف جامعات میں صوبائی زبانوں میں نعت کے موضوع پر جو تحقیقی کام ہوا ہے اس میں بھی غیرمسلم نعت گو شعرا کا ذکر ہوا ہے۔ ان نعت نمبروں کے علاوہ غیرمسلم شعرا کے نعتیہ مجامع بھی منظرعام پر آئے ہیں۔ ان میں سب سے قدیم نعتیہ مجموعہ دلو رام کوثری کا ’’گلبنِ نعت کوثری‘‘ ہے، جو ۱۹۳۹ء میں مدینہ پریس مدراس سے شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے کو ظہیرالدین قریشی ویلوری نے صاحب بہادر جلال محمد ابراہیم صاحب کی ایما پر مرتب کیا تھا۔ اس کے بعد مہاراجا سرکشن پرشاد شادؔ کا دوسرا نعتیہ مجموعہ ’’خمکدۂ رحمت‘‘ ۱۳۱۷ھ میں منظرعام پر آیا۔ نذیر قیصر عیسائی شاعر گزرے ہیں۔ انھوںنے بھی رسولِ اکرمﷺ سے اپنی عقیدت کا اظہار اپنے نعتیہ مجموعے ’’اے ہوا مؤذّن ہو‘‘ میں کیا ہے۔ یہ عیسائی شعرا کا دوسرا نعتیہ مجموعہ ہے۔ مجموعاتِ نعت میں کالی داس گپتا رضا کے ’’اجالے‘‘ اور جگن ناتھ آزاد کی نعتوں کے فرانسیسی ترجمے ’’ہو میج۔ آ محمیٹ‘‘ (Hommage a Mahomet) خاصے اہمیت کے حامل ہیں۔ محمد حمیداللہ نے آزاد کی اردو میں کہی گئی نعتوں کا منظوم فرانسیسی ترجمہ کیا اور اسے ترتیب دے کر کتابی شکل میں شائع کردیا۔ مندرجہ بالا نعتیہ مجامع میں نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ اوصافِ احمدی بیان ہوئے ہیں۔ ان میں آپ سے رکھی جانے والی محبت اور آپ سے وابستگی کا اظہار اخلاص و استخلاص کے ساتھ ہوا ہے۔ مدحت و محبتِ رسولﷺ کی حامل یہ منظومات نعتیہ شاعری میں بلند مقام کی حامل ہیں۔غیرمسلموں کی یہ نعتیہ شاعری اس امر کی شہادت دیتی ہے کہ آپ لاریب ’’رحمت للعالمین‘‘ ہیں۔ آپ کی محبت پر صرف مسلمانوں ہی کی اجارہ داری نہیں بلکہ غیر بھی آپ کے دامن شفقت و رحمت میں پناہ حاصل کرنے کا مجاز رکھتے ہیں۔ ان نعتیہ مجموعوں کے نعتیہ اسلوب سے ہٹ کر جناب چندربھان خیال نے آپ کی مدحت طرازی کے لیے نیا عنوان قائم کیا ہے۔ انھوںنے حضرت محمدﷺ کی سیرتِ طیبہ کو اجمالاً مگر بڑے مؤثر انداز میں منظوم کیا ہے۔ اگرچہ اردو میں منظوم سیرتِ رسولﷺ لکھنے کی روایت کافی قدیم ہے اور ولی ویلوری کی ’’روضۃ الانوار‘‘ (۱۱۵۹ء) سے لے کر عصرحاضر تک کم و بیش پچاس منظوم سیرتیں لکھی گئی ہیں، ان میں چندربھان خیال کی منظوم سیرت ’’لولاک‘‘ بھی شامل ہے، لیکن ان پچاس منظوم سیرتوں میں ’’لولاک‘‘ اس لیے منفرد ہے کہ کسی غیرمسلم کی لکھی ہوئی یہ اوّلین منظوم سیرت ہے۔
چندر بھان خیال نے اپنی منظوم سیرتِ رسولﷺ کا نام ’’لولاک‘‘ رکھا۔ یہ ایک مشہور قول ’’لولاک لما خلقت الافلاک‘‘ کا ابتدائی لفظ ہے جس کے معنی یہ بتائے جاتے ہیں کہ حضورﷺ کو پیدا کرنا مقصد نہ ہوتا تو یہ کائنات بنائی نہ جاتی۔ بالعموم اس قول کو حدیث سمجھا جاتا ہے۔ اردو کے نعتیہ ادب میں اس قول کی ترجمانی کرنے والی سیکڑوں نعتیں لکھی گئی ہیں اور مختلف قسم کی صحیح، غریب، ضعیف اور موضوع روایات ان میں شامل کردی گئی ہیں۔ یہاں ان کے وضاحت کی ضرورت نہیں کہ یہ ایک علاحدہ موضوعِ بحث ہے۔ یہاں صرف اتنا اشارہ کرنا ضروری ہے کہ خیالؔ نے آپ کی صفت ’’لولاک‘‘ کو اس منظوم سیرت کا عنوان دیا ہے۔
گزشتہ صدی کے رُبع آخر کے اُبھرنے والے شعرا کی صف میں چندربھان خیالؔ قدآور شاعر ہیں۔ انھوںنے اپنے پہلے شعری مجموعے ’’شعلوں کا شجر‘‘ کے ذریعے اردو کے جدید شعری ادب میں اپنا مقام بنوا لیا تھا۔ ادبی قدروں کی پامالی اور ان کے زوال میں خیالؔ قدیم ادبی روایات کو گلے لگانے کا ہنر جانتے ہیں۔ ’’لولاک‘‘ اس کی بہترین مثال ہے۔ انھوںنے اس طویل نظم کے لیے ایسی ہیئت کا استعمال کیا جو اردو میں شاذ ہی استعمال ہوئی ہے۔ اس نظم کے ہر بند میں ردیف و قافیہ کا استعمال اس طرح ہوا ہے کہ پہلے دو مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں تیسرے اور چوتھے مصرعوں میں الگ الگ قافیہ و ردیف ہوتے ہیں لیکن دوسرے بند کے اوّلین دو مصرعوں کے قوافی پہلے بند کے آخری مصرع کے مناسب ہوتے ہیں۔ اس طرح ہر بند اپنے دوسرے والے بند سے قافیہ کے لحاظ سے باہم مربوط ہوجاتا ہے۔ نظم کی یہ ٹیکنیک ہندی چھند کے مماثل ہے۔
خیالؔ نے سیرت نگاری کی مروّجہ روایت سے ہٹ کر اس منظوم سیرت کی ابتدا تخلیقِ آدمؑ سے کی ہے۔ انھوںنے آدمؑ سے لے کر ولادتِ رسولﷺ تک کی انسانی معاشرت کو توہم پرست اور مظاہر پرست تمدن قرار دیا ہے۔ اس پورے حصے میں چندربھان خیالؔ کی خیال آرائی، نظم کی روانی، الفاظ کا شکوہ اور سب سے بڑھ کر تاریخِ تمدن عرب کی قدیم روایات اور تہذیبی فضا کو جوں کا توں برت رکھنے کا فن وغیرہ تمام عوامل ان کی قادرالکلامی اور کہنہ مشقی کا ثبوت بہم پہنچاتے ہیں۔ ولادتِ رسولﷺ سے قبل کے عربوں کی جہالت و جاہلیت کی ایسی حقیقی تصویرکشی الفاظ و زبان پر مکمل گرفت کے بغیر ممکن نہیں۔ شاعر نے بڑے مؤثر انداز میں اس دور کا نقشہ کھینچا ہے کہ تصویر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے:
خلوتوں کی خاک میں لپٹے ہوئے دن بے قرار
اور سناٹوں کے آگے بے قبا شب شرم سار
اک طرف مبہم عقاید دوسری جانب فریب
بیچ میں بیٹھے ہوئے بے دست و پا شام و سحر
(ص۲۸)
اس پہلے باب میں دورِ جہالت کی مؤثر تصورکشی کے لیے شاعر نے بعض ہندی الفاظ و تراکیب سے بھی کام لیا ہے۔ ان تراکیب نے اثرآفرینی میں شدت پیدا کردی ہے۔ جیسے جسم پر جلتے ہوئے جوالامکھی، خواہشوں کے ناگ کا پھن کاڑھ کرنا چنا، وِش دھروں کی پیٹھ پر اجگروں کی جیبھ، لذتوں کا بھوت، جہل میں لتھڑا سماج، پتھر کا پجاری وغیرہ۔ یہ ہندی لفظیات جہالت کے منظر کو اور بھی شدید کردیتے ہیں۔ ان لفظیات کی جگہ خیالؔ اگر فارسی تراکیب استعمال کرتے تو شاید یہ شدت قائم نہ رہ پاتی۔
شاعر نے آپ کی ولادتِ باسعادت کو ’’آمدِ نور‘‘ کہا ہے۔ یہ خیال ہماری نعتوں کی قدیم روایات کا ایک حصہ ہے۔ بعض احادیث اور نصوص کی بنیاد پر آپ کو ’’نورِ مجسم‘‘ کہا گیا ہے۔ شاعر نے آپ کی آمد کو بطور استعارۂ نور اور روشنی کے استعمال کیا ہے اور ظلماتِ عالم کو دُور کرکے سارے عالم میں روشنی پھیلانے والا کہا ہے:
سمت سمت نورانی ۔۔۔۔۔۔
جس طرف نظر جائے روشنی کی طغیانی
جیسے مصارع آپ کی صفتِ نور کی ترجمانی کرتے ہیں۔ آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر آپ کو لاثانی کہنا بھی میلادناموں کی روایت رہی ہے۔ ان روایتی اصطلاحات و لفظیات کے علاوہ خود شاعر نے اپنے خلاق تخیل سے بعض نہایت معنی خیز اصطلاحات و لفظیات بھی آپ کی ذات و صفات کے لیے استخراج کی ہیں۔ مولودِ رسولﷺ کے سلسلے میں یہ لفظیات جدید اور معنی خیز ہیں۔ آپ کی آمد پر ناصبور سینوں کا صبر سے بھر جانا، بے قرار لمحوں کا اقرار پانا، شہر جستجو کا جاگنا، علم، سوچ، شجاعت و سخاوت کا علم بلند ہونا، رات کی قبائوں میں میٹھی مہک کر گھل جانا، روز و شب کا لطف و مسرت میں نہا جانا، بے اماں گھروندوں پر رحمتوں کے سائے اترنا، یاس اور بے کسی کے ڈیروں کا چراغِ مصطفوی سے روشن ہوجانا، زخم خوردہ سانسوں کا اعتماد کے نغمے گانا وغیرہ اچھوتی خیال آرائی کے نمونے آپ کو لولاک میں ہر جگہ دکھائی دیںگے۔ شاعر نے آپ کے لیے صاحب کتاب، اہلِ انقلاب، عکس ربانی، اوج بخش، بختاور، نئی بشارت، قربتوں کی حدت، صبر و شکر کا مسکن، صلح کل کا محور، آدمی کے پہلو میں شکلِ حق، نرمیوں کا دریا وغیرہ استعارے اوصافِ محمدیﷺ کے لیے استعمال کیے ہیں، یہ نادر استعارے یقینا اس سے قبل شاذ ہی استعمال ہوئے ہوں۔ لولاک کے تیسرے باب میں نبوت اور واقعۂ معراج کا ذکر ہے۔ ذکر معراج میں انھوںنے احادیث سے سرمو انحراف نہیں کیا اور اشاروں کنایوں میں معراج کے ہر واقعہ کو بیان کردیا۔
ہجرت کے باب میں چندربھان خیالؔ نے آپ کا سراپا بھی بیان کیا ہے۔ اردو کی قدیم منظوم سیرتوں میں سراپا بیانی کی روایت رہی ہے۔ ولی ویلوری، باقر آگاہ، سید حیات اور شاہ عبدالحئی احقرؔ کے یہاں سیرتِ رسولﷺ کی منظوم کتابوں میں آپ کے سراپا کو بیان کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے، لیکن مجھے علاوہ چندربھان خیالؔ کے کسی دوسرے کے یہاں اُم معبد کے بیان کردہ سراپائے رسولﷺ کی منظوم ترجمانی نہیں دکھائی دی۔ چندربھان خیالؔ نے عربی متن کو اردو میں جوں کا توں ڈھالنے کی کوشش کی ہے، اُمِ معبد کا بیان کردہ آپ کا حلیہ کچھ اس طرح ہے:
پاکیزہ رو، کشادہ چہرہ، پسندیدہ خو، ہموار شکم، سر میں بھرے ہوئے بال، زیبا صاحبِ جمال، آنکھیں سیاہ و فراغ، بال لمبے اور گھنے، آواز میں مردانگی اور شیرینی، گردن موزوں، روشن اور چمکتے ہوئے دیدے، سرمگیں آنکھیں، باریک اور پیوستہ ابرو، سیاہ گھنگریالے گیسو، جب خاموش رہتے تو چہرہ پُروقار معلوم ہوتا، جب گفتگو فرماتے تو دل ان کی طرف کھنچتا، دُور سے دیکھو تو نور کا ٹکڑا، قریب سے دیکھو تو حسن و جمال کا آئینہ، بات میٹھی جیسے موتیوں کی لڑی، قد نہ ایسا پست کہ کم تر نظر آئے، نہ اتنا دراز کہ معیوب معلوم ہو، بلکہ ایک شاخِ گل ہے جو دو شاخوں کے درمیان ہو، زیبندہ نظر، والا قدر۔
اُمِ معبد کے اس حلیے کو خیالؔ یوں منظوم کرتے ہیں:
چہرۂ پُرنور پر تابانیِ شمس و قمر
چودھویں کے چاند جیسا رات کی آغوش میں
پُرکشش، پُرامن، پُرآداب، دل کش، پُروقار
سرمگیں آنکھوں میں مستقبل کی روشن جھلکیاں
ابروئے باریک میں پوشیدہ سب کون و مکاں
نرم اور شیریں لبوں پر گفتگو کی سادگی
رنگ گورا، گول چہرے پر دمکتے سب نقوش
لمبی گردن، پیٹ ہلکا اور سینہ سخت جاں
درمیانہ قد نگاہوں کو بہت اچھا لگے
خوش بوئیںاوڑھے ہوئے مضبوط محنت کش بدن
دن میں اُجلاپن بکھیرے، رات کو روشن کرے
دن میں جب دیکھو تو اُگتا آفتاب ایسا لگے
دو جہاں کی تاب ناکی عارض و رخسار پر
کالی پلکوں پر تھرکتا اک تمدن شان دار
جیسے الفاظِ دعا احرام سے لپٹے ہوئے
پُراثر انداز سے ہر شے پہ چشمِ ملتفت
سر سے پا تک پیکر پاکیزگی معلوم ہو
جب چلے قدموں تلے دھرتی جھکی معلوم ہو
یوں محسوس ہوتا ہے کہ اُم معبد کے نثری حلیے کو خیالؔ نے منظوم کردیا ہے۔
اس منظوم سیرت کے پانچویں باب میں آپ کے غزوات اور صلحات کا ذکر ہے اور چھٹے باب میں ’’نصرت‘‘ کے عنوان سے شاعر نے آپ کی حج الوداع تک کی زندگی کے حالات کو سمیٹ لیا ہے۔ اس باب میں اس مشہور وعظ کا ذکر بھی ہے جو آپ کی حیاتِ طیبہ کا آخری خطبہ اور مسلمانوں کو کامل نصیحت ہے۔ چندربھان خیال نے اس طرح آپ کی سیرتِ مبارکہ کے اہم واقعات ’’لولاک‘‘ میں منظوم کردیے ہیں۔ غیرمسلم شاعر کی لکھی ہوئی اردو کی یہ اوّلین منظوم سیرت ہے، جو اردو نعتیہ شاعری میں ایک اہم اضافہ ہے۔
میں نے اس مضمون میں اردو کے اوّلین غیرمسلم نعت گو ایکناتھ مہاراج اور عصرحاضر کے چندربھان خیالؔ کے نعتیہ کلام کا تجزیہ کیا ہے۔ ان دونوں شعرا کے درمیان یعنی سولھویں صدی کے نصف اوّل سے اکیس ویں صدی کے نصف اوّل تک کم و بیش پانچ سو برسوں میں بے شمار غیرمسلم نعت گو شعرا کا نعتیہ کلام منظرعام پر آچکا ہے اور اسے تنقید و تحسین کی کسوٹی پر پرکھا بھی گیا ہے۔ ہند و پاک کی کئی جامعات میں اس موضوع پر تحقیقی مقالے بھی لکھے گئے ہیں اور غیرمسلم نعت گو شعرا کے بیس ویں تذکرے ترتیب بھی دیے جاچکے۔ باہمی اخوت اور اتحاد و اتفاق بڑھانے میں اس صنف شاعری نے کلیدی رول نبھایا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بھارت سے زیادہ غیرمسلم نعت گو کی تذکرہ نویسی کا کام پاکستان میں ہوا ہے۔ چناںچہ اکیلے نور احمد میرٹھیؒ نے تین نہایت ضخیم تذکرے غیرمسلم حمدگو، نعت گو اور مرثیہ گو شعرا کے پیش کردیے ہیں۔ ان کے علاوہ فانی مرادآبادی کا مرتبہ انتخابِ نعت بعنوان ’’ہندوشعرا کا نعتیہ کلام‘‘، محمد محفوظ الرحمن کا تذکرہ ’’ہندو شعر ا دربارِ رسولﷺ میں‘‘ محمد دین فوقؔ کا ’’اذانِ بتکدہ‘‘، عبدالمجید خاں سوہدروی کا ’’ہندو شعرا کا نعتیہ کلام‘‘، نور احمد میرٹھیؒ کا ’’نورِسخن‘‘ اور ’’بہرزماں بہر زباںﷺ‘‘ اور حمدیہ شاعری کے تذکروں میں ’’اذانِ دیر‘‘ اور ’’گلبانگِ وحدت‘‘ کافی مشہور ہوئے ہیں۔ نور احمد میرٹھیؒ نے ’’بوستانِ عقیدت‘‘ کے عنوان سے غیرمسلم شعرا کے رثائی شعری ادب کو یک جا کردیا ہے۔ ان کتابوں کے علاوہ مضامین اور مقالات بھی غیرمسلم شعرا کی نعت نگاری کے متعلق لکھے گئے ہیں جو برصغیر کے مؤقر رسائل کی زینت بنے۔
اگر تقدیسی ادب پر مستقل طورپر اس طرح کے مذاکرات کیے جاتے رہیں تو ان شاء اللہ ہندو مسلم ذہنوں کی عنادی گرہیں خودبخود کھلتی چلی جائیںگی اور بھارت میں دوبارہ قومی یک جہتی اور اخوت و رواداری کی فضا قائم ہوجائے گی۔ نفرت کے شعلے سرد پڑ جائیںگے اور محبت کی شبنم ریزی سے سارا ہندوستان تر و معطر ہوجائے گا۔
مراجع
۱۔ ایکناتھ مہاراج، ’’سمگر ایکناتھ‘‘، پونہ، ۱۹۶۸ء
۲۔ چندربھان خیالؔ، ’’لولاک‘‘، فرید بک ڈپو، دہلی، ۲۰۰۲ء
۳۔ ڈاکٹر سیّد یحییٰ نشیط، ’’اردو مراٹھی کے تہذیبی رشتے‘‘ آکولہ، ۱۹۹۵ء
۴۔ ڈاکٹر سیّد یحییٰ نشیط، ’’اردو مراٹھی کے باہمی روابط‘‘ مالی گائوں، ۲۰۰۴ء
۵۔ نور احمد میرٹھیؒ، ’’بہرزماں بہر زباںﷺ‘‘ کراچی، ۱۹۹۶ء
۶۔ صبیح رحمانی، ’’نعت رنگ‘‘، مختلف شمارے
۷۔ کالی داس گپتا رضا، ’’اُجالے‘‘، ممبئی، ۱۹۷۴ء
{٭}

غیرمسلم نعت گو شعرا ایکناتھ سے چندر بھان خیال تک غیرمسلم نعت گو شعرا ایکناتھ سے چندر بھان خیال تک Reviewed by WafaSoft on September 04, 2019 Rating: 5

No comments:

Comments

Powered by Blogger.