Best Wall Stickers

فروغ نعت میں ’’سیارہ‘‘ کا کردار (اسلامی ادب کی تحریک کے تناظر میں)

گوہر ملسیانی۔ خانیوال


فروغ نعت میں ’’سیارہ‘‘ کا کردار
(اسلامی ادب کی تحریک کے تناظر میں)


براعظم ہندوستان کی تاریخ ثقافت اور علم وادب کا جائزہ لیا جائے تو وہ اثرات نمایاں نظر آتے ہیں جو شمالی اور مغربی مسلم ممالک سے آنے والے مسلمانوں نے مرتب کیے۔ ساتویں، آٹھویں صدی ہجری یا پندرھویں، سولھویںصدی عیسوی اس کا نقطئہ آغاز ہے۔ ان مسلمانوں کے سینوں میں رب کائنات کی کتابِ مبین، قرآن حکیم کی حکمت وتعلیم کا نور ضیاء بار خیال وفکرمیں احکاماتِ خداوندی ضوفشاں تھے۔ وہ قرآن کی اس ہدایت پر عمل کرنا دنیوی اور اخروی فلاح کا اثاثہ سمجھتے تھے اور رضائے الٰہی کا ذریعہ جانتے تھے کہ:
اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو۔٭۱
یعنی کسی استثنا اور تحفظ کے بغیر اپنی پوری زندگی کو اسلام کے تحت لے آئو۔ تمھارے خیالات ، تمھارے نظریات،تمھارے علوم، تمھارے طور طریقے، تمھارے معاملات اور تمھاری سعی وعمل کے راستے سب کے سب بالکل تابع اسلام ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ تم اپنی زندگی کو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے بعض حصّوں میں اسلام کی پیروی اور بعض حصّوں کو اس کی پیروی سے مستثنیٰ کرلو۔٭۲
یہ تعلیمات قرآن وسنت تھیں، جنھیں حرزجان بناکر یہ مسلمان حکمران، اولیائے کرام ہزاروں میلوں کی مسافت طے کرکے ہندوستان آئے تھے۔ ان کے سامنے ربِّ کائنات کی وہ خوش خبری ہی تھی، جس میں تکمیل دین اسلام اور اس کی پسندیدگی کا اظہار تھا۔
آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے پسند کرلیا ہے۔٭۳
گویا نظام فکر و عمل اور نظام تہذیب وتمدن پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا۔ اب زندگی کے جملہ مسائل کی رہنمائی کا منبع ومصدر دین اسلام بن گیا۔علم وادب کی تشکیل اور تخلیق کا دائرہ بھی مخصوص ہوگیا۔ نعمت فکر و خیال، عظمت اظہار و اقرار، رفعتِ اسلوب وانداز کی ضیائیں بھی تعلیمات اسلام سے پھوٹنے لگیں۔ چناںچہ براعظم ہند کا جنوبی حصّہ صوفیا اولیا کا مرکز بنا۔ تبلیغ اسلام کے لیے ان مبلغین کی کاوشیں رنگ لائیں۔ اپنی بات کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے ابتدائی زبان اردو وجود میں آئی۔ اسی طرح شمالی علاقہ بھی مشائخ اور علما کی آماج گاہ بنا اور اظہار و پیغام رسانی کے لیے نئی زبان معرضِ وجود میں آئی۔
یہ ابتدائی علمی، ادبی کاوشیں کسی ادبی تحریک کے تابع نہ تھیں بلکہ اسلامی روایات، علمی ادبی نگارشات میں اسلامی تعلیمات کے مختلف رنگ نمایاں ہورہے تھے۔ اردو میں اسلامی افکار کی ترویج کا سہرا بھی انھی ہندوستان میں داخل ہونے والے مسلمانوں کے سر ہے۔ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے، اگرچہ یہ مسلمان مختلف ممالک عرب، ایران اور افغانستان وغیرہ سے آئے تھے مگر ایک مذہب کے علاوہ ان کی اپنی ثقافت اور اپنی زبان بھی تھی جو یہاں کی اقوام سے مختلف تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کی مذہبی اور تہذیب وتمدن کے تصور اور روایات میں اختلاف تھا جو ایک دوسرے کی ضد ہے جو آج تک موجود ہے بلکہ یہ ایک ایسا ثقافتی اختلاف ہے جو مستقل بنیادوں پر قائم ہے۔
ہندوستان میں صوفیائے کرام اور مشائخ عظام زیادہ تر جنوبی ریاستوں ، دکن، گجرات، بیجاپور، گولکنڈہ وغیرہ میں پہلے پہنچے اور یہ علاقے تبلیغی سرگرمیوں کے مراکز بنے اور اردو ادب کی نشوونما میں انھی مشائخ کا زیادہ حصّہ ہے۔ اسی اردو زبان وادب میں اسلامی ادب کی بنیاد موجود ہے۔ اگرچہ زمانی اعتبار سے دیکھا جائے تو اسلامی ادب کی تحریک پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد عمل میں آئی مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ اردو ادب میں اسلامی افکار وخیالات کا اظہار دکنی اور شمالی خطوں میں صدیوں پہلے ہوچکا تھا۔ان صوفیا و اولیائے کرام کے ملفوظات، رسائل، اشعار اور کتابچوں میں تحریریں میں زیاد ہ تر اسلامی ادب کے درخشاں نمونے ہیں۔ دکن میں تصنیف و تالیف کی روایت تو تحقیقی کاوشوں سے سامنے آچکی ہے۔ پہلی تحقیق کے مطابق حضرت خواجہ بندہ نوازگیسودراز(۷۲۱ھ۔ ۸۲۵ھ بمطابق ۱۳۱۲ء ۔ ۱۴۲۱ء)کے رسالے معراج العاشقین کو پہلی منثور تخلیق کہاجاتا تھا مگر جامعہ عثمانیہ کے مشہور محقق ڈاکٹرحفیظ قتیل نے اپنی تحقیق کے مطابق مذکورہ کتاب کو ریاست بیجاپور کے ایک اور صوفی حضرت مخدوم شاہ حسینی بلکانوی کی تصنیف ’’تلاوت الوجود‘‘ کی تلخیص قراردیا ہے۔٭۴ ان تحقیقات کی روشنی میں یہ بات تو ظاہر ہوجاتی ہے کہ اسلامی ادب کی داغ بیل اس زمانے میں ڈالی گئی۔
خصوصاً شعر و سخن کے حوالے سے دیکھا جائے تو حمدونعت کی روایت اسی دور سے شروع ہوئی جب شاعری کے دواوین کے آغاز میں ان اصناف کو ضرور شامل کیاجاتا۔ اس کے علاوہ بھی ہمیں خواجہ بندہ نواز کی مثنوی کائنات میں مختلف النوع منظومات اور صوفیانہ گیتوں میں اسلامی ادب کے انوار ملتے ہیں۔ اسی طرح فخرالدین نظامی اور گولکنڈہ کے حکمران محمد قلی قطب شاہ کے ہاں نعتیہ کلام موجود ہے۔ قلی قطب شاہ کے تو غزل کی ہیئت میں سب سے پہلے نعت لکھنے کا سہرا نئی تحقیق نے رکھ دیا ہے۔٭۵ دکن کے اس عہد کے بہت سے دیگر شعراء نے بھی نعت میں طبع آزمائی کی ہے پھر ولی دکنی کے ہاں بھی اسلامی ادب کی روایت نعت کی صورت میں ملتی ہے۔ احیائے اسلام کی تحریکوں میں اسلامی ادب کا دور دورہ رہا۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کی تحریک تجدیدواحیائے اسلام اکبر کے دین الٰہی کے خلاف شدومد سے اٹھی۔ یوں اسلامی ادب بتدریج رنگینیاں بکھیرتا رہا اور ہندوستان میں محفلیں جمتی رہیں اور ساتھ ہی ساتھ عہد محمدشاہی میں عیش ونشاط کی ثقافت کا دور بھی چمک دمک دکھاتارہا۔ اسی انحطاط میں غزل کی صنف میں ابہام گوئی کو فروغ ملا۔ یہاں تک کہ اٹھارویں صدی کے وسط میں اسلامی ادب کی لہر پھر اُبھری۔ یہ اسلامی ادب کے اوّلین معمار، مرزا مظہرجانِ جاناں کی آواز تھی۔ ان کی کوششوں سے شمالی ہند کا شعری منظرتیزی سے تبدیل ہوا۔ اردو ادب مقامی لسانی روایت سے نکلا اور انفرادی شناخت کا حامل بنا۔ فارسی اسالیب کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں اسلامی تہذیب و ثقافت کو بھی سمونے لگا۔
اسلامی ادب کی یہ روایت وسعت پزیری میں آگے بڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ خواجہ میردرد، حکیم مومن خان مومن جیسے شعراء کرام سرچشمۂ شیخ مجدد سے فیض یاب ہوکر اسلامی فکر کے انوار بکھیرنے لگے۔
مغلیہ خاندان کا سورج غروب ہوا اور حکومت انگلیشیہ نے ہندوستان کو تاراج کیا تو مسلمانانِ ہند پر ظلم وتشدد کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ یہ ایک علاحدہ خونین باب ہے، جس میں ملی واسلامی ادب کی ایک اور رو ابھری، جنگ آزادی کی شکست وناکامی نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ غالبؔ بھی بلبلااُٹھا۔
بیدلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں
سرسیّداحمدخان نے اس انقلاب کی ناکامی کے بعد مسلمانانِ ہند کو ملی جذبے سے اُبھارنے کی کوشش کی۔ انھوںنے اس زوال کا سبب مسلمانوں کے تعلیم سے دوری کو سامنے رکھتے ہوئے۔ ملت کو علوم وفنون کے حصول کی توجہ دلائی۔ہندوؤں کے تفوق کو محسوس کیا، اسی دور میں دو قومی نظریے کی ضرورت سامنے آئی۔ سرسیّد کی تحریک سے منسلک شعرا ادبا نے قومی، معاشرتی اور شعری احساسات وجذبات، افکاروخیالات کو صفحۂ قرطاس پر نمایاں کیا۔ الطاف حسین حالیؔ کی ’’مدوجزراسلام‘‘ مسلمانوں کی بیداری کی محرک ہے۔یہ اسلامی ادب کا موقع ہے۔ پھر شبلی نعمانی کی تاریخی روایات کی ضیائیں اور شعروسخن میں خصوصاً مثنوی کی نوائیں حالی کی ملّی صداؤں کا تتمہ ہیں۔ ان تخلیقات میں اسلامی پیغام ایک قرینے سے سمویا گیا ہے۔
اسلامی ادب میں اکبر الہ آبادی کا مقام ارفع واعلیٰ ہے۔ انھوںنے طنزومزاح کے ذریعے قوم کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ ان کے پیام میں ملّی جذبۂ واحساس کی شان ہے اور اسے ہم اردو ادب کی اسلامی تحریک کانمایاں شاعر کہہ سکتے ہیں۔
زبان اردو میں اسلامی ادب کی تحریک کے نمایاں شعرائے کرام وہ تخلیق کار ہیں جو حمدونعت میں اردوادب کے بطورخاص موضوعی صنف کے معمار کہلائے۔ شاعری کا وہ سیلاب جو ایران سے ہندوستان میں داخل ہوا۔ اس میں ایک ابھرتی ہوئی لہر نعت کی شکل میں نمودار ہوئی۔ یہ خالصتاً اسلامی ادب کے گہرہائے گراںمایہ سے لبریز تھی۔چناںچہ مختلف اصناف میں حمدونعت منصہ شہود پر ظاہر ہونے لگیں اور محافل کا انعقاد اس کی نشوونما میں ممدومعاون ثابت ہوا۔
ابتدائی دور میں نوازش علی شیدا، مولانامحمدباقرآگاہ، مولوی کرامت علی خاں شہیدی، مولوی غلام امام شہید خاص طور پر نعت کائنات میں گلاب بن کر مہکے اور اسلامی ادب کا نور پھیلایا۔ بعد میں امیرمینائی اور محسن کاکوروی کا کلام حمدونعت میں تاریخی مقام کا حامل ہے۔اسلامی ادب میں حمدونعت کی یہ دل کشی جہاں عقیدت ومحبت محسن انسانیتﷺ کے انوارِ جلیلہ رکھتی ہے۔ وہاں اردو ادب میں ایک نئے درخشاں باب کا بھی اضافہ کرتی ہے۔
دورجدید کے آغاز میں مولانا احمدرضاخاں بریلوی کا گلستانِ نعت عطربیز ملتا ہے۔ اردو ادب میں اسلامی ادب کی یہ موج قلب و نظر کو متاثر کرتی ہے اور تاریخ ادب کو لولوئِ لالہ سے منور کرتی ہے۔ بہت سے ستارے اردو کے اسلامی ادب کے آسمان پر جگمگاتے رہے اور شعروسخن کو ضیا بار کرتے رہے۔ یہاں تک کہ علامہ محمداقبال جیسا نابغۂ روزگار،مفکر، معلم اور آفاقی شاعر افقِ ادب پر طلوع ہوا۔ جن کی بابت گرامی جالندھری جیسے عظیم شاعر نے کیا خوب کہا:
پیغمبری کردو پیمبر نتواں گفت
فارسی شاعری کے علاوہ اردو شاعری کو جس پر ناز ہے۔ اقبال کی شاعری اسلامی فکر کی غماز ہے۔ ملّی وحدت اور اسلامی قومیت کی آئینہ دار ہے، قرآنی تعلیمات کے تصوارت سے سدابہار ہے۔ صحیفۂ آسمانی کی ہدایات کامرقع ہے۔ قرآنِ حکیم کی دعوت سے لبریز ایک آیت کا رنگِ جمال دیکھیے:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر
تمام کلام دعوتِ فکر دیتا ہے،قومی شعور اور جوشِ ایمانی سے مالامال کرتا ہے۔اسلامی نظریاتی مملکت کا تصور پاکستان کی شکل میں دیا۔ ابلیسی فکر اور مغربی تہذیبی چکاچوند کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے۔اسلامی اخلاقیا ت وتعلیمات کے افکار واضح کیے۔فکری نقطئہ نظر سے ’’خودی‘‘ کی حقیقت کو واشگاف اسلوب میں بیان کیا۔ مدنی اصطلاح میں ’’بے خودی‘‘ کا جدید انداز سے احاطہ کیا۔ فرد اور ملت کے ربط کو خلافتِ الٰہی کی تشکیل کا تصور دیا:
ربط قائم فردِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
اردو ادب کی اصلاحی تحریک کے تمام نظائر،تمام نکات کلام اقبال میں قوسِ قزح کی طرح ضوفشاں ملتے ہیں۔ اقبال اسلامی ادب کی تحریک کے سرخیل ہیں اس لیے تووہ انسانیت کا معراج پیغمبراسلام کی تعلیمات میں دیکھتے ہیں:
خبر ملی ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
اسلامی ادب کے اسی حلقے کی جودتِ طبع کے شاعر، ادیب، صحافی مولاناظفرعلی خاں ہیں۔ ان کا اخبار ’’زمیندار‘‘ اتحادِ ملّی کا علم بردار تھا۔ علی گڑھ تحریک نے ظفرعلی خاں کو ادیب، نڈر صحافی اور شاعر بنایا۔ ان کا مقام حمدونعت میں بھی بہت بلند ہے۔ یوں ان کی شاعری اسلامی روایات کی امین ہے اور اردوادب میں تعلیماتِ قرآن وسنت کا نور ان کی زندگی کا اثاثہ ہے۔مختلف اصناف میں اسلامی ادب کی روشنی میں اپنے خیالات وجذبات کے اظہار میں ان کو کمال حاصل ہے۔
مذکورہ بالا اسلامی ادب کا مختصر سا جائزہ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے قبل تاریخ اردوادب میں اسلامی خدوخال کا مظہر ہے۔ پاکستان کی تخلیق میں جہاں تحریک پاکستان میں مسلمانانِ ہند کی جہدمسلسل اور قائداعظم کی شبانہ روز محنت کا حصہ ہے، وہاں اردوادب کا بھی ایک خاص رول ہے۔پھر اس سلسلے میں دوقومی نظریہ کا سامنے آنا بھی اسلامی ادب کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
اسلامی ادب کی تحریک اردو ادب کے آغاز سے مرتب نہ ہونے کے باوجود بھی اردو ادب کا حصہ رہی۔۱۹۳۶ء میں ترقی پسند تحریک ادب کے آسمان پر نمودار ہوئی اور پھر اس نے اسلامی روایات، مذہبی اعتقادات اور روحانی تعلیمات کے خلاف پرپرزے نکالنے شروع کیے، یہاں تک تقسیم ہند عمل میں آئی، اسلامی نظریاتی مملکت پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرآئی۔ مسلمانوں کی حصول آزادی کی تحریک نے سرخ سویرے کے دعویداروں کو بھی نظریہ پاکستان کے تناظر میں تخلیق ادب کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی مگر ’’ترقی پسند تحریک‘‘ نے سیاسی طرزعمل اختیارکیا۔ آزادی کے بعد اس تحریک نے ’’ادب برائے انقلاب‘‘کا نعرہ بلند کیا۔٭۶ الف۔ وقت آگیا ہے کہ ہر ادیب کھلم کھلا اشتراکیت کا پروپیگنڈا شروع کردے کیونکہ اب ہمارے سامنے دوہی راستے ہیں۔ آگے بڑھتی ہوئی رواں دواں اشتراکیت یا ساکن جامد موت‘‘
اپنے نغموں اور گیتوں سے رنگ نیا برسادیں آؤ
لال پھریرا آج ادب کی دنیا پر لہرادیں آؤ
اُنیسویں صدی میں مغرب کا سائنسی انقلاب دنیا پر چھاگیا۔ایک نیا مادّی والحادی فلسفہ نمودار ہوا۔ جس کے نتیجے میں جدید انسان نے خدا کی جگہ استقرائی سائنس کی بنیاد پر فکر و عمل کی پوری دنیا ازسرنو ترتیب دی۔ اب توجہ کا مرکز مابعدالطبیعیات اور دینیاتی مسائل نہ تھے بلکہ طبیعیات کی دنیا تھی۔
اس طرح اشتراکی کوچہ گردوں کے ساتھ ساتھ مغربی الہادی، لادینیت اور تشکیک کی فضا بھی برصغیر میں پھیل گئی۔ نیازفتح پوری کے رسالہ نگار(اجرا، ۱۹۲۱ء) نے مغرب کو ہدف تنقید بنانا شروع کردیا۔ خدا، وحی،ملائکہ، آخرت اور روح وغیرہ پر ارتدا دی اور تشکیکی نقطئہ نظر سے مباحث شائع ہونے لگے۔یوں ایک نیا خلافِ قرآن واسلام محاذ کھل گیا۔ پاکستانی اور اسلامی ادب کی تحریکیں قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی کئی اسلام دشمن ادیبوں اور شاعروں کی تنقید کی زد میں آگئیں۔
قیامِ پاکستان کیاآغاز ہی میں اسلامی اور پاکستانی نظریۂ حیات کے خلاف جو حقیقتاً اسلامی ادب ہی کا مرکزی نقطہ ہے، مخالفانہ بلکہ معاندانہ نظریہ رکھنے والے قلم کار ادب کے میدان میں اُتر آئے۔یہ اشتراکیت پسند، مادی والحادی مغرب نواز، سرمایہ دارا ور جاگیردار افراد تھے جو پاکستان کی بقا کے خلاف تھے۔ ان کے متعلق اسلام اور پاکستان سے محبت رکھنے والے اہل فکر، اصحاب الرائے اور ادبی تنقید نگاروں نے اظہارخیال کیا ہے۔ چند اقتباسات وضاحت کے لیے درج ہیں ۔
ہم میں سے کچھ لوگ نئی روشنی کی چمک دمک سے چندھیا کر اپنی اصلی روایت او رثقافتی ورثے سے کچھ شرمانے سے لگے ہیں۔ یہ اسی احساسِ کم تری کا نتیجہ ہے کہ ثقافتی سرگرمیوں میں ہماری پرانی ذہنی، روحانی اور عوامی روایت وفنون کی حفاظت اور نمائش پر زیادہ زور نہیں دیا جاتا بلکہ نئی راہوں کی تلاش اور نئی اقدارکی تعمیر پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔٭۷
ڈاکٹرآفتاب احمد نے ایک مضمون ’’اردو ادب تقسیم کے بعد‘‘ تحریر کیا،انھوںنے بھی پاکستانی نظریہ کے قومی احساس کایوں اظہار کیا:
پاکستان کے قیام نے مسلمان ادیبوں میں پھر اس قومی احساس کو ابھارا ہے، وہ پھر قوم سے رشتہ جوڑنے لگے ہیں،اس کا احترام کرنے لگے ہیں۔ انھیں اپنی تمدنی اور ثقافتی روایت کے تحفظ اور ترقی کی فکر ہونے لگی ہے۔اصل میں تو خود پاکستان کا مطالبہ ہی اس بنا پر کیاگیا تھا کہ ہم اس کلچر کو زندہ رکھنا چاہتے تھے جو ہندوستان میں مسلمانوں کی بدولت پیدا ہوگا کیوںکہ ہمیں یہ خوف تھاکہ متحدہ ہندوستان میں ایک معاندانہ ہندو اکثریت کا کلچر اسے برداشت نہیں کرسکے گا اور ہر حیلے بہانے سے مٹانے کی کوشش کرے گا۔٭۸
تاریخ بتاتی ہے کہ ہندوستان ہی نہیں بلکہ پاکستان کے آغاز میں یہ کیفیت چندادبا و شعرا کی اسی ذہنیت سے سامنے آئی اور تہذیب وکلچر کی بحث نے سر اُٹھایا۔ سجادباقر رضوی نے کہا:
میں یہاں یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں پاکستان کی سیاسی سا لمیت کو پاکستانی تہذیب کا جسم اور تہذیب کو پاکستان کی روح سمجھتا ہوں۔ میں یہ بھی کہتا ہوں کہ پاکستانی تہذیب پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے موجود تھی اور پاکستان محض اس روح کو جسم دینے کے لیے وجود میں آیا۔ میرا مطلب یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے پاکستان کا مطالبہ اس لیے کیا تھا کہ مسلمانوں کی تہذیب کاتحفظ کیا جاسکے۔٭۹
یہ ایک مختصر سا پس منظر ہے۔ جس میں اردو ادب کے روایتی نشیب و فراز کی تاریخ مرتب کی جاسکتی ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہی نظریاتی آویزش ادبی حلقوں میں نمودار ہوگئی دائیں اور بائیں کی تقسیم عمل میں آگئی۔خاص طور پر اسلام اور سوشلزم میں تو تصادم کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ یوں دو نقطہ ہائے نظر عملی طور پر وجود میں آگئے، اسلامی ادب نے اردو ادب کا تعلق مذہب اور اسلامی تاریخ سے جوڑا جب کہ دوسرے طبقہ نے اردو ادب میں معاشی، تہذیبی اور جغرافیائی عوامل سے کلچر کی تصویرکشی کی۔ وہ اسلامی افکار وتصورات جو صدیوں سے اردوشعروادب میں پیش کیے جارہے تھے اور انفرادی کوششیں تھیں اب مربوط شکل اختیار کرگئیں اور اردو میں اسلامی ادب کی تحریک بن گئیں۔ بقول ڈاکٹر انورسدید یہ ایک ردِعمل تھا:
اس دور میں اشتراکیت کا مطلب لادینیت اور الحاد تھا اور پاکستان چوںکہ اسلامی نظریات کی اساس پر وجود میں لایاگیا تھا، اس لیے اشتراکی تصورات کو اسلام کے منافی سمجھاگیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ترقی پسند ادب کا ردِعمل پیش کرنے اور اسلامی نظریات کو ادب اور فن کے ذریعے مقبول بنانے کے لیے ایک نئی تحریک کی طرح ڈالی گئی۔٭۱۰
یہی اردو ادب میں اسلامی ادب کی تحریک کہلائی۔تقریباً تمام وہ ادیب وشاعر جو اسلام اور پاکستان سے محبت کرتے تھے اس میں شامل ہوئے۔ خصوصاً مولانا سیّدابواعلیٰ مودودیؒ نے اسلامی جماعت پاکستان کے شعرا وادبا کو اس طرف متوجہ کیا اور اشتراکیت والحاد کے لٹریچر کے مقابلے میں اسلامی اور اصلاحی ادب پیش کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ یہ بات واضح کی کہ انسانی زندگی بے مقصد نہیں ہے اور ادب اسی مقصد زندگی کو واضح تر کرنے کا نام ہے۔ اسلامی ادب کوواضح کرتے ہوئے فرمایا:
ایک ایسا ادیب جو اسلام کے پیش کردہ حقائق کو درست سمجھتا ہو، معاشرت، معاش، تمدن اور سیاست وغیرہ کے اسلامی اصولوں پر ایمان رکھتا ہو۔ وہ جب کبھی اپنی ادبی صلاحیتوں کو استعمال کرے گا تو بلاکسی ارادے اور کوشش کے وہ جو کچھ تخلیق کرے گا، وہ اسلامی ادب ہوگا۔٭۱۱
اس تحریک کے اور ادیب پروفیسر فروغ احمد اسلامی ادب کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اسلامی ادب وہ ادب ہے، جس میں اسلامی افکار وجذبات کی عکاسی کی گئی ہو۔ قرآنی تعلیمات، آثار، تاریخ وسیر اور سفرنامے، ملفوظاتِ اولیا بزرگوں کے تذکرے، حمدونعت، منقبت، قصائد و مراثی، مثنویاں میلادنامے، نورنامے، معراج نامے، قرآنی قصص اور اخلاقی حکایات۔۔۔ غرض یہ ہے کہ اسی نوع کے سارے کلاسیکی سرمایہ کا جائزہ لے کر دیکھ جائیے، اس میں آپ کو رطب و یابس سبھی کچھ ملے گا۔۔۔عجمی ویونانی تصورات کو الگ کرنے کے بعد۔۔۔اس میں آپ کو بہت کچھ خالص اسلامی افکار و جذبات ہی کا غلبہ نظر آئے گا۔٭۱۲
پاکستان میں ترقی پسند تحریک اور حلقۂ ارباب ذوق کے مراکز لاہور میں تھے چناںچہ اسلامی ادب کی تحریک کامرکز بھی لاہور بنا۔ حلقۂ ادب اسلامی کراچی میں بھی متحرک رہا، چناںچہ اسلامی ادب کی تحریک کے فروغ کے لیے جرائد اور اخبارات جاری کیے گئے۔ ان میں ’’جہان نو‘‘ اسعدگیلانی کی ادارت میں ’’فاران‘‘ ماہرالقادری کی ادارت میں اور ’’چراغِ راہ‘‘ نعیم صدیقی، ’’مشیر ادبی ڈائجسٹ‘‘، مرزاعبدالغفوربیگ کی زیرادارت کراچی سے جب کہ بھارت سے ایک ماہ نامہ ’’معیار‘‘، پروفیسر نجم الاسلام کی زیرادارت شائع ہوئے۔ ان میں ادب اسلامی کی تحریک سے وابستہ ادیب وشاعر اپنی نگارشات نظم،غزل، افسانہ، مقالہ جات وغیرہ پیش کرتے تھے۔ ان تخلیقات کو خالص ادبی معیار پرپرکھا جاسکتا ہے۔٭۱۳
قیامِ پاکستان کے بعد جب یہ نظریاتی جنگ اردوادب کا حصّہ بن گئی تو حلقۂ ادب اسلامی میں اسلامی نظریات کے فروغ کے لیے تقریبات کا اہتمام کیا جانے لگا اور حلقۂ اربابِ ذوق کی طرح پروگرام کیے جانے لگے۔ ترقی پسند تحریک کے ردّعمل میں مختلف مقامات پر حلقۂ ادب اسلامی کی شاخیں قائم کی گئیں۔ ڈاکٹرانورسدیدتحریر کرتے ہیں۔
تحریک ادب اسلامی بے ساختہ یا خودروتحریک نہیں تھی۔۔۔ یہ تحریک ترقی پسند تحریک کے ردّعمل کے طور پر رونما ہوئی اور اس نے بیش تر ایسے ذرائع کو استعمال کرنے کی کوشش کی جنھیں اس سے قبل ترقی پسند تحریک آزماچکی تھی۔٭۱۴
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی ادب کی تحریک کی فکری جہت مولانامودودیؒ کے نظریات پر مبنی ہے۔ پھر اس تحریک میں نعیم صدیقی، اسعدگیلانی، پروفیسرفروغ احمد، نجم الاسلام اور پروفیسرخورشیداحمد جیسے نقاد بھی تھے جنھوںنے اسلامی ادب کے نقطئہ نظر کو فلسفیانہ سطح پر اجاگر کیا۔ مگر تعصب کی حد یہ بھی ہے کہ ان ادبا کے رشحات قلم کو دوسرے ادبی رسائل نے عملاً نظرانداز کیا اور حالت یہاں تک پہنچی کہ اس تحریک کے معروف ادباء کو بھی درخورِ اعتنا نہ سمجھاگیا۔مگر اس کے باوجود تخلیقی عمل مقابلتاً جاری رہا بلکہ اس عالم میں اسلامی ادب کی تحریک کاررواں اردو ادب کو نئی منزلوں سے آشنا کرتا چلتا رہا۔ اپنے مقصد کو وہ دنیا کو غیراسلام سے ہٹائے اور اسلام کی طرف راغب کرے ، کو اپنا مشن بنائے، ہر صنف ادب کی آبیاری کرتا رہا۔ ان حالات میں اسلامی ادب کا آرگن ماہ نامہ ’’سیارہ‘‘ لاہور نعیم صدیقی کی زیرادارت اگست ۱۹۶۲ء میں طلوع ہوا اور اسلام پسند قلم کاروں کی تخلیقات منصہ شہود پر لانے لگا ’’سیارہ‘‘ کے ان شماروں میں اسلامی جماعت کے ادبا اور شعرا کے علاوہ پاکستان کے علاوہ بھارت اور دیگر ممالک کے معروف اہل قلم کی شعری اور نثری کاوشیں شائع ہوتی رہیں اور جملہ اصناف کا ادبی معیار سامنے آتا رہا۔
مذکورہ بالا مختصر سے اردو ادب کی روایت کے جائزے میں ادب اسلامی کی تحریک کے خدوخال واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس مقالہ کا حقیقی مقصد تو یہ ہے کہ اسلامی ادب کے حوالے سے ماہ نامہ ’’سیارہ‘‘ میں اشاعت پزیر ہونے والی حمدونعت کی تخلیقات کو سامنے لایا جائے اور اس سلسلے میں ’’سیارہ‘‘ کی کاوشوں کو نعت کی تاریخ کا ایک باب بنایا جائے۔
ماہ نامہ ’’سیارہ‘‘ مئی ۱۹۷۶ء تک تو ہر ماہ منصہ شہود پر آتا رہا لیکن جون ۱۹۷۶ء سے اس کی اشاعت میں تبدیلی رونما ہوئی، اسے سہ ماہی خصوصی اشاعت میں تبدیل کردیاگیا چناںچہ اس ماہ پہلی اشاعتِ خاص سہ ماہی شائع ہوئی اور مجلس ادارت وانتظامیہ میں نعیم صدیقی، پروفیسرفروغ احمد، فضل من اللہ، طاہرشادانی اور حفیظ الرحمن شامل ہوئے۔ اس سہ ماہی اشاعت سے نعت کائنات کو خصوصی عقیدت وعظمت سے نوازاگیا ۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ اردو میں اسلامی ادب کی اہم صنف نعت ہے۔ رب کائنات نے محسن انسانیت کی خود نعت کہی اور اس کے فرشتے نعت کہتے ہیں اور اہل ایمان کو نعت کہنے کاحکم دیا:
بلاشبہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی کریمﷺ پر درود بھیجتے ہیں۔ اے اہل ایمان تم بھی خوب ان پر درودوسلام بھیجو۔٭۱۵
گویا اللہ تعالیٰ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم پر صلواۃ بھیجتا ہے۔ یعنی رحمت وشفقت کے ساتھ آپ کی ثنا اور اعزاز واکرام کرتا ہے اور فرشتے بھی بھیجتے ہیں مگر ہر ایک کی صلواۃ وتکریم اپنی شان و مرتبہ کے موافق ہوگی۔ مومنین کو حکم ہے کہ تم بھی آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم پر صلواۃ وسلام بھیجو۔٭۱۶
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی سلسلے میں اہلِ ایمان کو تعلیم یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں کہ وہ اپنی رحمتوں کی بارش اپنے پیغمبرحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر ابدالآباد تک نازل فرماتا ہے۔یہی تو اسلامی ادب کا مرکزی نقطہ ہے، جس سے خیال وفکر اور اسلوب و انداز کی عمارت تشکیل پاتی ہے۔ ’’سیارہ‘‘ لاہور کے خصوصی شمارہ میں نعت کا ایک گوشہ ’’زمزمۂ نعت‘‘ اردو ادب کے جملہ رسائل میں جو ۱۹۷۶ء سے شائع ہوئے، اولیت رکھتا ہے کہ نعت کو اس کا مقام بلند ملا۔اس میں نعت کے معتبر شعرائے کرام،عبدالعزیز خالد، احسان دانش،عبدالکریم ثمر، حافظ مظہرالدین،انورمسعود، حفیظ تائب، سیدعطاحسین کلیم، خورشید انصاری فریدآبادی، طاہرشادانی اور حفیظ الرحمن احسن کا جمال آخر میں نعتیہ کلام ضوریز ہے۔ یاد رہے کہ یہ ستر کی دہائی ہے اور فروغ نعت میں وہ پہلی ضیائیں ہیں جو بعد میں عقیدت ومحبت کی رنگین فضائیں بن گئیں، پھر سرمدی خیالوں کے انوار، قلبی جذبوں کے افکار اور الفاظ ومعانی کے حسین آثار اسلامی ادب کو ضیا بار کرنے لگے۔
اس گلزارعقیدت ومحبت کے نعت نگاروں کے خیالات کی نکہت فشانی تو احباب نعت کے قلب و نظر کو عطربیز کرتی جگہ جگہ ملتی ہے اور آج تک نقدونظر کے گلشن میں مہکتی ہے مگر اس دور کا تصور کیجیے جب اسلامی ادب کی مخالف تحریکیں ایسے ادب کو مذہبی اور پروپیگنڈہ ادب کہہ کر درخورِ اعتنا نہ سمجھتی تھیں ’’سیارہ‘‘ کا یہ زمزمۂ نعت اردو ادب کی تاریخ کا چمکتا باب ہے۔ اس گوشہ کا علمی وادبی اور نعتیہ صنف کے حوالے سے مختصر سا جائزہ نعت کے نقوش کو اس دور کے تناظر میں واضح کرے گا۔
پہلی نعت عبدالعزیز خالد کی ’’ماذماذ‘‘ کے عنوان سے درخشاں ہے ۔ اس نظم کے پہلے دوبند اس زمانے میں نعت گوئی کی کیفیت کے مظہر ہیں۔
اے رسول عربی! اے مرے محبوب ونبی!
طاب وطیب لقبی اَنْتَ باُ مّی وابی
کس نوا سنج کو توفیق تری مدحت کی؟
مدِ محدود نہیں تیرے جہاں میں کوئی
سدِ مسدود نہیں تیرے مکاں میں کوئی
وقتِ معدود نہیں تیرے زماں میں کوئی
نعت موجود نہیں تیرے بیاں میں کوئی
اردو ادب میں مدحتِ سیّدلولاک صلی اللہ علیہ وسلم میں نعتیہ ادب کی حالت کا اظہار ان اشعار سے نمایاں ہورہا ہے۔جس سے اس صنفِ جلیلہ کی طرف شعراء کی توجہ نہ ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔ مگر اس حصّہ میں شامل نعت گو وصف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نغمہ سرائی میں اپنی فنی سحرآفرینی کا حق ادا کرتے ملتے ہیں۔ہر شاعر کے دو یا تین اشعار ان کی نعت نگاری کے حسن وجمال کے اظہار کے لیے پیش کرتا ہوں:
جب بھی بھٹکا ہے اندھیروں میں شناسا تیرا
آسماں سے اتر آیا ہے اجالا تیرا
میری منزل تیرا در ہے تو خضر کیوں بولے
خود مسافر کو صدا دیتا ہے رستا تیرا
اپنے دانش کی طرف ایک عنایت کی نظر
امتی یہ بھی تو ہے اے شہِ بطحا تیرا


(احسان دانش)
خدا نے نورِ نبوت سے فیضیاب کیا
تو کہہ کے حرفِ مدثر تجھے خطاب کیا
یہ تیری شان، خدا نے کتاب رحمت کا
ترے ہی اسم گرامی سے انتساب کیا
یہ ایک جان بہاراں کا معجزہ ہے ثمر
تمام گلشن ہستی کو مشکِ ناب کیا


(عبدالکریم ثمر)
تری رہبری نے بخشا یہ شعورِ راہ، ورنہ
تھا عرب کے ساربانوں کا شعار خاکبازی
شہِ ذی وقار ہوکر بھی یہ بوریہ نشینی
دوجہاں کے تاج والے! یہ کمال بے نیازی


(حافظ مظہرالدین)
فقط حصولِ سعادت کا اک بہانہ ہوا
کسی سے نعت پیمبر کا حق ادا نہ ہوا
کوئی بھی اس کی تجلی سے آشنا نہ ہوا
نظر کی تنگی داماں سے کب گلا نہ ہوا
وہ ظلمتوں کے سمندر کو پیرتا ہی گیا
وہ روشنی کا کنول تھا کہ تیرتا ہی گیا


(انورمسعود)
سرچشمۂ اقدارِ منور تری سیرت
سرنامۂ بیضاوی خاور تری سیرت
زیبائی افکار کا مصدر تری گفتار
رعنائی کردار کا جوہر تری سیرت
ہر رہ میں ہوا ہاتھ لیے ہاتھ میں اپنے
چلتی ہے مرے ساتھ برابر تری سیرت


(حفیظ تائب)
عشقِ پیغمبر رخِ ہستی کا غازہ ہوگیا
نعت کہنے سے مرا ایمان تازہ ہوگیا
نعت کہنے سے ملا سوزو گدازِ قلب وجاں
نعت کہنے سے ملی مجھ کو متاعِ دوجہاں


(سیّد عطاحسین کلیم)
تڑپ کے آئی عقیدت پئے سلام رسول
مری زبان پہ جب آگیا ہے نام رسول
وہ سادگی کا نمونہ وہ خلق اے خورشیدؔ
دلوں پر ثبت ہوئی عظمت دوام رسول


(خورشید انصاری، فریدآبادی)
اے ماہِ عرب مظہر انوارِ الٰہی
کب تک مری قسمت میں شب غم کی سیاہی
قرآن میں فرما کے رفعنالک ذکرک
اللہ نے دی ہے تری رفعت کی گواہی


(طاہر شادانی)
تھا اُن سے قبل فروغ بہار نامفہوم
ریاضِ دہر تھا اک دختر خزاں کی طرح
حرا کے فیضِ تجلی سے ہوگیا روشن
دل وجود تھااک تیرہ خاک داں کی طرح
نثار آپ کے حسنِ بیاں پہ لطفِ کلام
کسے ملی ہے زباں آپ کی زباں کی طرح


(حفیظ الرحمن احسن)
نعتِ رسول مکرمﷺ تو نغمہ آسمانی ہے، وجہ شادمانی ہے بلکہ زندگی کے لیے پیغام کامرانی ہے، حاصل سوزوساز اور جہانِ عشق ومحبت کی ترجمانی ہے۔ جس محفل میں اسے پزیرائی ملی اُسے خیال و فکر کی تابانی ملی، جس صفحہ قرطاس پرلکھاگیا۔ اُسے درخشانی ملی۔ ماہ نامہ ’’سیارہ‘‘ اس زمزمۂ نعت کے گوشے سے نکھرگیا۔ اسلامی ادب کا نورِ جاودانی ہرطرف بکھر گیا۔ یہ رعنائی جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بہارِ جاوداں سے ہے۔ یہ فکروشعور کی چمک دمک حسن گلزارتوصیف خیرالوریٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائرہ نکہت نشاں سے ہے۔ اردو ادب میں فصل گل کا سماں سرمایۂ نازونیازنعت سے ہے بلکہ معیار کا نکھار رحمت عالمﷺ کی مدحت میں قائم فکر کی بلندپرواز سے ہے۔ یہ انوارِ نعت ہمیں ’’سیارہ‘‘ میں چمکتے دمکتے ملتے ہیں۔
اسلوبِ نعت کی بوقلمونی ہمیں سترویں صدی کی تخلیقات نعت میں بھی مسحور کرتی ہے۔ ’’سیارہ‘‘ کے اسی خصوصی شمارہ نمبر۱ میں نعیم صدیقی کی ایک ایسی آزاد اسلوب کی نعت بھی تحیر کے سمندر میں غوطہ زن ہونے پرمجبور کرتی ہے کہ نعیم صدیقی کے احساسات وجذبات ۱۹۷۱ء کے ہندوپاک مناقشہ کی طرف لے جاتے ہیں جب دشمنِ دین بھارت نے پاکستان کا ایک بازو کاٹ کر رکھ دیا تھا۔ اس عصری آشوب نے شاعر کو اس قدر مضمحل کیا کہ وہ دربارِ سالارِ غزوۂ بدر وحنین صلی اللہ علیہ وسلم میں جا پہنچتا ہے۔ حالات کے تھپڑوں سے متاثر ہوکر پکار اُٹھتا ہے۔
’’تھام لیجیے حضورﷺ!‘‘
یہ اس نعتیہ نظم کا عنوان ہے، جس میں نعت کا نیارنگ وآہنگ ہے، منفرد انداز ہے، جدتِ نگارش میں بھی ایک امتیاز ہے۔ آیئے پہلے تین بندوں کی چند سطریں مطالعہ کریں اور شوکتِ الفاظ، عظمت استعارہ وتشبیہ سے محظوظ ہولیں:
پہلا بند: حضور! میرے حضور!
میں وہ کہ آپ کے سرچشمۂ محبت سے
مقامِ شرم کہ اب تک رہا ہوں دور ہی دور
میں تشنگی کا شکار
کئی سراب تھے جن کی طرف لپکتا رہا
یوں ہی بھٹکتا رہا
مرے ضمیر میں رستے ہوئے کئی ناسور
رہا ہوں زندگی مستعار کا مزدور
بری طرح سے پسا میرے دل کا فقر غیور
ہوس کے دیس کا میں ہوں مہاجر بے کس
بہت سی صدیوں کا صحرا کیا ہے میں نے عبور
پڑے ہیں راہ میں خارزارکئی
لہولہان قدم، تن کا انگ انگ ہے چور
مجھے بدستِ کرم، بڑھ کے تھام لیجیے حضور!
٭
تیسرے بند کے چند مصرعے:
حضور! میرے حضور!
تبسم آپ کا جیسے کہ اک دکانِ عطور
تکلم آپ کا جیسے کہ اک جہانِ سرور
مرے نبی ہدیٰ
مرے رسول سلام
مرے نقیب فیوض وفلاح وفوز وفتوح
مرے پیمبر نور!
رؤف اور رحیم
شفیق اور کریم
مثالِ صبحِ فروزاں ترا پیام عظیم
مثالِ چشمۂ حیواں ہے تیرا لطفِ عمیم
یتیم! در یتیم!!
حقیقت ازلی کی موجِ شمیم
ہے تیرا خلق کریمانہ مثلِ بادِ نسیم
بشیر، جس نے کہ دی ہے نوید خلدِ نعیم
نذیر، جس نے سنائی وعید نارِ جہنم
ترا جہانِ محبت ہے بے حدود وثغور
میں کہنے آیا تھا کیا کچھ مگر کھڑا ہوں خموش
حضور! میرے حضور!
٭
چوتھے بند کے چند مصرعے:
ہزاربار تری ذات پر درودوسلام
یہ صبح نور وظہور
تجلّیوں کا وفور
مئے طہور ملی ہے بہ ساغر بلّور
نصیب جاگ اٹھا ہے کہ بعد دورطویل
حصارِ جسم کی سنگیں فصیل ٹوٹ گری
میں اس حصار میں کب سے پڑا رہا محصور
نحیف اور رنجور
ضعیف اور معذور
مریض اور مجبور
حضور سے مہجور
اور آج میرے حضور
فصیل ٹوٹ گری
ہوا ہے پہلی دفعہ آج مجھ کو اپنا شعور
٭
تین اور طویل بند۔ کل سات بند(۱۹۷۱ء کے تاثرات)
اس نعتیہ نظم کا اسلوب ندرتِ الفاظ وتشبیہات اور استعارات کے لحاظ سے بے مثال ہے۔ ساری نظم کی بنت اگرچہ آزاد نظم میں ہے مگر ایک کہسار پر گرتا ہوا دھارا ہے، جس کی ترنم ریزی مسحورکرتی جاتی ہے۔ روایتِ نعت کے اسلوب سے جدا متن نئی شان سے سامنے آیا ہے۔ خیال کا نور تو سراج منیر صلی اللہ علیہ وسلم کی شعاعوں سے حاصل کردہ ہے مگر متن کی وسعت آفاقی ہے۔ ایک ایسا منفرد اندازِ بیان ہے، جس کا صعودی جمال اور معنوی حسن جدید نعت کی نوید دیتا ہے۔تخلیق نعت کے نئے زاویوں کی نشان دہی کرتا ہے۔خیال وفکر کے اظہار میں نعت کی نئی سمت کو سامنے لارہا ہے۔ ہر بند نعت کے ایک ایسے گلشن کی تصویر پیش کرتا ہے، جس میں غنچوں کی چٹک، کلیوں کی مسکراہٹ ہے۔ آپ نظم کا مطالعہ کریں ایک ایسا سمندر ہے جس کی موجیں اُٹھ اُٹھ کر پیغام عقیدت دیتی ہیں۔ انوکھی طرزِادا جس میں نہ نقالی یا سرقہ کا شائبہ بلکہ اپنا حسین وجمیل رنگ ہے۔صناع بدائع کے استعمال کی ضیائیں شعریت کی پرکشش ردائیں رکھتی ہیں۔ حرمتِ الفاظ کی شان جیسے شبنم سے دھلا ہوا گلاب، تعلیماتِ نبوی کے اثرات کی قوسِ قزح اور احساسات وجذبات کی مرقع نگاری طلعت سحر کی سرشاری لیے ہوئے ہے۔ پھر ساری نظم میں درخشاں شدتِ شوق اور جذب وسوز سے منور حبِّ نعت کی زرنگاری ہے۔
نعت کی سرزمیں جہاں سرسبز وشاداب ہوئی ہے وہاں اس میں فکروشعور کے نئے لولوئِ لالہ بھی تو آفتاب و ماہتاب بنے ہیں۔ تاثراتی نقوش کی آب وتاب بھی اپنی گرفت میں لے لیتی ہے بلکہ ساری نظم کے محاکاتی عمل میں ایک تجسس بھی ابھرتا ہے جو عقیدت کا منظر بن جاتا ہے۔ نعت کے حقیقی پیکر کی ضیائیں پھیلتی جاتی ہیں، روحانی مسرت کی صدائیں کانوں میں رس گھولنے لگتی ہیں۔ مدحت کی نئی ردائیں، کہکشائیں بن جاتی ہیں۔ ساری نظم میں متن کے تنوع کے ساتھ مضامین و خیالات کا افضل و اعلیٰ معیار بھی ہے۔ نعت میں نعیم صدیقی کا یہ تجربہ چشم کشا بھی ہے اور جدتِ اسلوب کا غماز بھی۔ بقول ماہرالقادری جناب نعیم صدیقی کی نعتیہ نظم جوشِ عقیدت کا مواج سمندر ہے۔٭۱۸
جناب انورمحمودخالد نے بھی اس نعت کے بارے میں اپنے وقیع خیالات کا اظہار کیا ہے: ’’نعیم صدیقی نے ’’تھام لیجیے حضورﷺ‘‘ کے عنوان سے ۱۹۷۱ء کے المناک تاثرات کی داستان آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب فرماکر سنائی ہے۔نعت کا نظم آزاد میں اس طرح کا ظہور بھی قابل تعریف ہے ۔ نعیم صدیقی کے جذبات واحساسات سیلاب کی صورت میں پھیلتے ہیں اور اپنی تیزی وتندی کی وجہ سے بسااوقات نظم کی حدود کو بھی بہاکر لے جاتے ہیں۔اس نعتیہ نظم میں یہی ہوا ہے۔ نعیم صدیقی کی ذہنی تربیت شاعری کے کلاسیکی ذوق کے مطابق ہوئی ہے اسی لیے وہ الفاظ کے معاملے میں شاہ خرچ ہیں۔
ماہ نامہ ’’سیارہ‘‘ میں صنف نعت کے جاوداں نقوش ہر شمارے میں چراغ عشق ومحبت جلاتے اور رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ و اخلاق عظیمہ اور سیرتِ مقدمہ کے نورِ عرفان کو پھیلاتے ملتے ہیں۔
اسلامی ادب کا یہ نمائندہ رسالہ، ماہ نامہ ’’سیارہ‘‘۔ جب آسمانِ ادب پر طلوع ہوا تو اصناف نظم و نثر کا ہر شعبہ اس کے اوراق پر اسلامی ادب کے گہرہائے گراںما یہ بکھیرتا نظرآتا ہے۔ اگرچہ ’’سیارہ‘‘ کا دورِ نو۔ خصوصی اشاعت کی شکل میں ضخیم حجم لیے جون ۱۹۷۶ء میں شروع ہوا، یہ ادبی کسادبازاری کا دور تھا۔بقول فضلٌ من اللہ مدیرانتظامی:
’’سیارہ‘‘ کا دورِ نو کا آغاز اسی ادبی کسادبازاری کے دور میں ہوا۔ جن حالات میں سرے سے ادب تخلیق نہ ہورہا ہو۔ اس زمانے میں یہ توقع رکھنا کہ لکھنے والے اخلاقی حدود کا خیال رکھتے ہوئے تعمیری ادب پیش کریںگے، یاس و نااُمیدی کے ہجوم سے امید کی کرن تلاش کرنے کے مترادف ہے۔ بہرحال اس امید میں ہم کامیاب رہے۔۔۔ ’’سیارہ‘‘ میں مقتدر لکھنے والوں نے کشش محسوس کی ہے اور ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ مقالات کے موضوعات متنوع اور لکھنے والے معروف اہل قلم ہیں۔٭۱۹
نظریۂ پاکستان سے دل وجان سے محبت کرنے والے حقیقتاً تعلیماتِ اسلام کے دل دادہ ہیں۔ان کی تخلیقات اسلامی ادب کی شاہ کار ہیں۔ اردو ادب کو ان پر نازہے۔ اہلِ بصیرت اور اردو ادب کے ادبا و شعرا نے ان کی نگارشات کو تحسین کی نظر سے دیکھا ہے۔ چند آرا دیکھیے:
۱۔ ’’سیارہ‘‘ کی ’’اشاعت خاص‘‘ کے مطالعہ نے آنکھوں کو نور اور دل کو سرور بخشا، مضامین کا تنوع خاص طور سے قابل داد ہے۔ (ماہرالقادری، کراچی)
۲۔ نظم و نثر دو قوی حصّے معیاری ہیں۔ بڑی حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ سنجیدگی اور متانت کے ساتھ ادبی خوبیوں کو برقرار رکھاگیا ہے اور پاکستان کے اساسی تصور کی روح ’’سیارہ‘‘ کے ہرصفحہ سے جھلکتی نظرآتی ہے۔ (ایس اے رحمن ، گلبرگ، لاہور)
۳۔ آپ نے بڑی محنت اور شوقِ فراواں کے ساتھ بہت خوب صورت مضامین افسانے اور نظمیں جمع کی ہیں اور پرچے کو ملک کے نامور اہل قلم کا تعاون حاصل ہوگیا ہے ۔ (میرزا ادیب کرشن نگر ، لاہور)
۴۔ ’’سیارہ‘‘ کی اوّلین اشاعتِ خاص، حسنِ صورت اور حسنِ سیرت سے آرا ستہ معنویت، افادیت اور مقصدیت کی آئینہ دار ۔ بار بار مطالعہ اور استفادے کے لائق ہر تحریر نظر افروز اور ہر نقش دل کش، آپ حضرات کی ریاضتوں کا ثمر شیریں۔ (عاصی کرنالی)
۵۔ تمام مضامین اور نظم وافسانے کا حصّہ قابل ستائش ہے۔ نعتیہ کلام وجد آفریں ہے۔ مجموعی طورپر ’’سیارہ‘‘ اسلامی ادب کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ (گوہرملسیانی)
۶۔ موجودہ عریانی و فحاشی کے طوفان میں ’’سیارہ‘‘ ایک پاک اور صاف ہوا کا جھونکا ہے ورنہ آج کل کی بعض ’’ترقی پسند‘‘ ادبی مطبوعات کا یہ حال ہے کہ آپ ہی کے الفاظ میں:
علوم میں بھی فساد ٭ فنون میں بھی قصور محمدخاں(کرنل)، جہلم۔
زمزمۂ نعت کے متعلق بھی ’’سیارہ‘‘ کے قارئین کی آرا حسب ذیل ہیں:
(۱) نظم کے حصّے میں نعت کا حصّہ نہایت ایمان افروز ہے۔ ایک ایک شعر شاعر کے دل کی دھڑکن ہی نہیں بلکہ ہر مومن کے دل کی دھڑکن معلوم ہوتا ہے۔ (عبدالعزیزخالد)
سادہ گوئی پر اُترآئیں تو بے پناہ ہوجاتے ہیں۔ قاری کے ذہن کو چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں:
میں اویس قرنی ہوں نہ بلال حبشی
بے بضاعت ہوں، تہی دوست ہوں لیکن پھر بھی
دے مجھے جہل مرا حوصلۂ بے ادبی
سر ٹپکتی ہے ترے در پر میری بے صبری
طے نہ ہو اب تیرے طالب کی تمنا ہے یہی
اے رسولِ عربی! اے مرے محبوب و نبی
تادم باز پسیں مرحلۂ شوق کبھی
حفیظ احسن کس والہانہ شیفتگی سے عرض کرتے ہیں:
دل حزیں تھا کسی محشر فغاں کی طرح
وہ آئے شوق کی محفل میں لطفِ جاں کی طرح
تھا ان سے قبل فروغِ بہار نامفہوم
ریاض دہر تھا اک دفترِ خزاں کی طرح
(۲) ’’زمزمۂ نعت‘‘ کے زیرِ عنوان آپ نے احسان دانش، حافظ مظہرالدین، انورمسعود اور نعیم صدیقی کی بڑی عمدہ نعتیں شائع کی ہیں۔ احسان دانش اور حافظ مظہرالدین کی نعتوں کا ہیئتی ڈھانچا غزل یا قصیدے کا ہے۔ انورمسعود نے اپنی نعت کے لیے مسدس اور نعیم صدیقی نے آزاد نظم منتخب کی۔ موضوع ایک ہوجانے کے باوجود یہ ہیئتی تنوع، افکار کی یہ پاکیزگی اور حضورﷺ سے عقیدت کا یہ اظہار آج کی نعت کی دین ہے۔احسان دانش کی اس نعت کی زمین میں احمدندیم قاسمی نے بھی بہت اعلیٰ پائے کی نعت کہی تھی لیکن احسان دانش اس سے آگے بڑھ گئے ہیں۔ انورمسعود نے جس طرح آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے واقعات سے اپنی نعت کو مزین کیا ہے اور یوں ان کے اسوۂ حسنہ کو انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ثابت کیا ہے، اس سے ان کی تخلیق میں جان پڑگئی ہے۔ (انورمحمودخالد، مدن پور)
(۳) نعت کے حصّے میں نئے لکھنے والوں نے عقیدت کے اظہار میں غلو سے کام نہیں لیا لیکن جدتِ طبع سے پُراثر کیفیت پیدا کی ہے۔ تحسین فراقی صاحب نے نعت میں ہیئت کا بھی عمدہ تجربہ کیا ہے۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب نعت کا اسلوب آہستہ آہستہ بدلتا جارہا ہے اور یہ بات بڑی خوش آئند ہے۔ (انورسدید، سرگودھا)
(۴) شمارہ ۹ میں نعت کے متعلق پروفیسر اسراراحمد سہاوری نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے۔ اس دفعہ راسخ عرفانی صاحب نے بڑی عمدہ نعت پیش کی ہے۔ ہر شعر اپنی جگہ پر انتخاب ہے۔ عقیدت، محبت اور خلوص کی کرنیں ہر شعر میں پھوٹ رہی ہیں۔عجز، افتادگی اور سپردگی ہر شعر میں گداز اور تاثیر پیدا کررہی ہے۔ الفاظ کا سلیقہ مندانہ انتخاب اپنی جگہ پر قابل داد ہے۔ تراکیب اور تشبیہات بڑی نازک اور دل گیر ہیں۔ اظہارِ مدعا پر پوری قدرت حاصل ہے۔ پہلے ہی شعر میں اپنی ذات کو رسول کریم ﷺ کی ذات کے مقابلے میں غبارِ راہ کا ذرّہ کہنا اور پھر اس ذرّے کا حضورﷺ کی نسبت سے افلاک تک یعنی روضۂ اقدس تک پہنچنا ایک معجزہ نما طرزِ بیان ہے۔ ان کے ہوائی سفر کی وجہ سے ان استعارات میں لطف دوبالا ہوگیا ہے، کہتے ہیں:
غبارے راہ کے ذرّے بھی کیا افلاک تک پہنچے
ہوا پر اڑ کے ہم شہر رسول پاک تک پہنچے
دوسرے شعر میں خود کو اسیرجنوں کہا اور امام الانبیاﷺ کے وسیلے سے منزلِ ادراک کا حصول حاصل کرنے کا بیان بھی بڑی شاعرانہ جگر کاوی کا ثبوت ہے:
امام الانبیا کی پیشوائی کے وسیلے سے
اسیرانِ جنوں بھی منزل ادراک تک پہنچے
بیادِ باغ طیبہ بادِ عنبر بیز کے جھونکے
گزرگاہِ تصور سے دل صد چاک تک پہنچے
لیے نقدِ عقیدت حضرتِ اقدس کے روضے پر
نگینے بن کے آنسو دیدۂ غم ناک تک پہنچے
خورشید رضوی صاحب کی نعت کے تمہیدی اشعار مرصع اور بلند آہنگ ہیں ۔ قصیدے کی تشبیب کاکام دے گئے ہیں:
ہے وہی کنجِ قفس اور وہی بے بال وپری
وہی میں اور تمنا کی وہی بے اثری
لب ملے ہیں سو شب و روز ہیں فریاد کناں
آنکھ پائی ہے سو ہے وقف پریشاں نظری
کس سے کیجے خلشِ سوزش پنہاں کا بیاں
کون سنتا ہے یہاں قصۂ شوریدہ سری
حبیب العیشی کی نعت بھی جذبات نگاری اور قدرتِ کلام کا اچھا نمونہ پیش کررہی ہے:
متاعِ دوجہاں ہے آپ کے در کی جبیں سائی
زہے قسمت جسے یہ دولت کو نین ہاتھ آئی
ہوئی ہے جب سے میرے دل میں ان کی جلوہ فرمائی
نہ اب وہ دل کی بے چینی نہ اب تنہائی تنہائی
وہ طیبہ میں بہر اک گام تیرا سرخرو ہونا
مبارک ہو، مبارک ہو، تجھے اے آبلہ پائی
وہی عالم ازل سے آج تک ہے دیدۂ و دل کا
وہی ذوقِ جبیں سائی، وہی چشم تمنائی
حقیقت میں وہی ہیں عالم ہستی کا افسانہ
وہی افسانۂ ہستی کا ہیں عنوان زیبائی
راز کاشمیری صاحب نے بھی اس دفعہ نعت میں اچھے شعر نکالے ہیں:
دل میں الفت ہے یوں موجزن آپ کی
مدح کرتا ہے ہر موئے تن آپ کی
مثلِ گل ہیں شگفتہ سرِ حشر بھی
جن پہ رحمت ہے سایہ فگن آپ کی
آپ کا نور پھیلا اُفق تا اُفق
پھیلی خوش بو چمن در چمن آپ کی
(اسرار احمد سہاوری، گوجرانوالہ )
ادبِ اسلامی کی حیات امروز تجلیات ماہ نامہ ’’سیارہ‘‘ کے افق پر ضیا بار ملتی ہیں۔ صنفِ نعت کے فروغ میں اس کی کاوشیں بھی ناقابلِ فراموش ہیں، گلشنِ ہنر کو اسالیب کے تنوع سے جگمگا دیا ہے۔ پھر شعریت کے حسن وجمال کی شمعیں روشن کی ہیں۔ صنف نعت کے معتبر اور نامور اہلِ قلم کے ساتھ نئے نعت نگاروں کی تخلیقات بھی جدید اسلوب میں جلوہ گر ہیں۔ نعت کے خاص جرائد کے علاوہ اتنی تعداد میں رحمتِ کائنات کی عقیدت کے پھول ماہ نامہ ’’سیارہ‘‘ کی زیب وزینت ہی بنے ہیں۔ قدیم و جدید اسلوب میں سخن طرازی کی مثالیں قاری کی توجہ کھینچتی ہیں۔ ’’سیارہ‘‘ میں ضیابار نعتیں شعرائے کرام کے جذبات کی آنچ سے منور اور خیالات جمالِ رسالت مآبﷺ سے ضوفشاں مثال گوہر ہیں۔ حسین و جمیل تشبیہات، نادر استعارات جدید اسلوب کو شوکت وعظمت عطا کرتے ہیں۔ پھر حسنِ ادا کی دل کشی، مضامین نو کی چاندنی اور صباحت ولطافت کی چاشنی نعت نگاروں کی تمناؤں کو ضوفشاں کرتی ہے۔ ادب اسلامی کی شعری کائنات کو نعت کے گلہائے رنگارنگ نے نکہت فشاں کردیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صنفِ نعت عروس اصناف ہے پھر محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے جمالِ اسوۂ حسنہ، نورِ خلق عظیم اور حسنِ سیرت کے مضامین کی بوقلمونی نے اردو ادب کو صداقت کے رموز اور حسن کے اعجاز سے لبریز کردیا ہے۔ان خصوصی اشاعتوں میں شامل نامور اور نئے نئے تخلیق کاروں نے مضامین و موضوعات کی رفعت، صاحب ورفعنالک ذکرک کے چمنستان عظمت سے لے کر ہمیں نشۂ عقیدت سے مخمور کردیاہے۔ آیئے ان صادق جذبوں سے قلب ونظر کو جگمگائیں اور خیالات میں سمائے ہوئے صورت وسیرت کے جلووں سے اردوادب میں پھیلی تاریکیوں کو بھگائیں۔
۱۔ جمالِ شمائل۔ نعت کے ابتدائی لمحات میں روایت جمالِ رخ انور، سیاہ گھنگریالے بال روشن مردمک اور سرمگیں جیسی رعنائیوں کا مرقع ہے۔’’سیارہ‘‘ کا گلشنِ نعت بھی انوار سراپائے حضور، جمال محبوب رب غفور کی تجلیات سے چمک دمک رہا ہے۔ اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے چند اشعار ہدیۂ قارئین کرتا ہوں:
ہر دو عالم سے الگ ہے ترا انداز نظر
ہر تکلف سے بری ہے رخِ زیبا تیرا


(احسان دانش)
ترے نقوش قدم سے ہے کہکشاں روشن
ترے خرام نے ذروں کو آفتاب کیا
نگارِ لالۂ و گل کو حریم خضریٔ کو
ترے نفس نے معطر کیا گلاب کیا


(عبدالکریم ثمر)
ز رُخِ تو لحظہ لحظہ گل لالہ رنگ گیرد
چو خوش ست قامت توکہ بسانِ سرونازی
(حافظ مظہرالدین)
رخ ہے کہ آئینے میں مصور سجا ہوا
آواز، جیسے نغمۂ فطرت چھڑا ہوا
آغوش جس طرح درِ کعبہ کھلا ہوگا
ماتھے کی ہر لکیر پہ قرآں کھلا ہوگا
کانپے، جلالِ عرش مزاجِ حلیم سے
جنت کو راہ جائے قدِ مستقیم سے
(مظفروارثی)
ہیں شمس وقمر جلوۂ رخسارِ محمد
واللیل ہے کیا گیسوئے خمدارِ محمد


(نذیراحمد ناظر)
نبی کے روئے رنگیں کے تصور کا کرشمہ ہے
خزاں بھی میرے گلشن میں بانداز بہار آئی
(عارف سیالکوٹی)
ان کے نفس کے فیض سے مہکا دیارِ دل
ان کی نظر کے نور سے چمکا حریمِ جاں
(حفیظ الرحمن احسن )
جسے ترے رُخ پہ دیکھتا ہوں، شفق کی صورت کھلی ہوئی سی
میں اپنے چہرے پہ بھی ہمیشہ حیا کی وہ آب و تاب دیکھوں
(عارف عبدالمتین)
منفعل طلعت افروختہ سے بدر تمام
قدِ رعنا سے خجل سروِ بلند وبالا


(عبدالعزیز خالد)
آنکھوں میں بس جائے تیری سوہنی صورت
ہونٹوں پہ رہ جائے تیرا نام محمد


(عطاء الحق قاسمی)
جس گُل کو ڈھونڈتی ہے صبا آپ ہی تو ہیں
مہکی ہوئی ہے جس سے فضا آپ ہی تو ہیں
اللہ رے جمالِ دل افروز آپ کا
خلقت ہے جس حسیں پہ فدا آپ ہی تو ہیں
(نذیر خرم)
آپ کے باعث مزین ہیں زمیں ہو یا فلک
آپ کے مرہون احساں ہیں بشر ہوں یا ملک
یہ ہلال و بدر اس کے سامنے کیا چیز ہیں
جس کسی نے دیکھ لی اس رُوئے انور کی جھلک
آپ کے رُوئے منور کے مقابل ماند ہیں
چاند کی یہ چاندنی ہو یا جواہر کی ڈلک
(خالدبزمی)
نعت کی تاریخی روایت کا مطالعہ تو ہمارے سامنے حسن وجمال سرورِ کائناتﷺ کا ایک گلستاں سجا دیتا ہے۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تو بحرِ بے کراں ہے، مضامین وموضوعات جمال کی موجیں ابھر ابھر کر دعوتِ فکر دیتی ہیں۔ ’’سیارہ‘‘ کی خصوصی اشاعتیں بھی ان گہرہائے ضیا بار سے لبریز ہیں۔ نام ور نعت گوؤں کے ساتھ ساتھ نو واردانِ صنف نعت ہی ان لولوئِ لالہ کی تابانی سے اپنی نگارشات کو ضوفشاں کرتے ہیں۔اردو نعت کے جدید اسلوب کے ساتھ روایت کا یہ انداز بھی ہمیشہ زندہ رہے گا کیوںکہ اس میں بھی ایک صوری بلکہ فکری حسن ہے۔ادب اسلامی کے داعی اس جمالِ سرمدی کے جو یا ہیں، کیونکہ یہ اسلامی تعلیمات کا ایک درخشاں پہلو ہے جو ہر زبان کے نعتیہ ذخیرہ کا لازمی حصہ رہا ہے اور اردو زبان اس سے پُرنور رہے گی۔
۲۔ حُبِّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔ تحریک ادب اسلامی کو آغاز ہی میں چومکھی لڑائی سے دوچار ہونا پڑا۔ اگرچہ بیسویں صدی کی پانچویں دہائی کے بعد ترقی پسند ادب کی تحریک تقریباً زمیں بوس ہوگئی تھی مگر کہیں کہیں گرد و غبار اٹھتا رہتا تھا۔اسلامی ادب کے سامنے اسی صدی کی چھٹی اور ساتویں دہائی میں ایک اور حلقہ وجود میں آیا، جس نے ادب میں نظریہ کی نفی کا پرچم لہرایا خصوصاً ہندوستان اس کا مرکز تھا۔ ان قلم کاروں نے کہا کہ فن کار کو اپنے محسوسات وجذبات کی ترجمانی میں مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ یہ لہر اس دور کے یورپ کے معاشرے کی مادہ پرستانہ تمدنی ٹوٹ پھوٹ کی ترجمانی سے ہندوستان میں در آئی تھی۔ چناںچہ اردو ادب میں اُلجھے ہوئے جذبات، کھردرے احساسات اور بے ربط وبے معنی مشاہدات کا اظہار نمودار ہوا۔ یہاں تک کہ بہت سے فحاشی کی منزل کو پہنچ گئے۔ یوں شعر و ادب میں ایک نیا اسلوب ، ایک نیا لہجہ دل کشی کے نام سے پھیلنا شروع ہوگیا، جسے جدید ادب یا جدیدیت کا نام دیاگیا۔اسلامی ادب کی تحریک کے اہلِ قلم بیدار ہوئے اور ان فن کاروں کو یاد کروایا کہ محض ذوق لطیف یا جمالیاتی مذاق ہی کافی نہیں بلکہ مشاہدہ اور تجربہ کو بامعنی اور بامقصد بناکر پیش کرنے کی صلاحیت بھی ضروری ہے، ورنہ ہر تخلیق وادیِ یھیمون کے زُمرے میں شمار ہوگی۔ ٭۲۰
ماہ نامہ ’’سیارہ‘‘ کی اسی دور کی اشاعتوں میں اسلامی ادب کے تابندہ مضامین کے ساتھ ساتھ حمدونعت کو بھی عروج حاصل ہوا۔ نامور اہل قلم کے ساتھ نئے شعرا نے بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ یہی دور نعت کو اصنافِ ادب میں اجاگر کرنے لگا۔ جرائد ،اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن پر مشاعرے اور مترنم آواز میں نعت کی فضا کو ضوفشاں کرنے لگے۔ بیسویں صدی کی آخری تین دہائیاں صنفِ نعت کے فروغ میں ناقابلِ فراموش بن گئیں۔ وہ عہد ہوس کی جو قہرمانیاں اردو ادب پر قبضہ جمانے کی کوشش کررہی تھیں حرفِ غلط کی طرح مٹ گئیں۔
اسی دور کے نعت نگاروں نے قصرِ ایمان کو مضبوط بنانے کے لیے حُبِّ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا مسالہ بنایا اور روشنی پھیلانے کے لیے عقیدت ومحبت کے چراغ جلائے۔ ’’رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی ذات اقدس کے ساتھ ہمارے شعراء کا یہ روز افزوں شغف معاشرے کی بہتری کے ساتھ ساتھ ادب کی ترقی کے لیے ایک نیک فال ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جدید ادب کی چند بے راہرویوں کے درمیان راہِ راست کی لکیر بھی کہیں چمک رہی ہے جو بہت سی گمراہیوں میں ایک نشانِ راہ ثابت ہوسکتی ہے۔ بشرطے کہ نعت گوئی محض قوالی نہیں، جذبۂ دل کا اظہار ہو اور ایک روشن ذہن کے ساتھ روشن ضمیر کی نشاندہی کرتی ہو۔٭۲۱
سچی عقیدت کی مہک تو عشق و محبت سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے گلابوں سے ملتی ہے۔ حقیقی عشق و عقیدت تو پیکر صدق و صفا صلی اللہ علیہ وسلم کی بہارمحبت کو جذبات واحساسات میں سمونے کا نام ہے اور مدحت کے غنچے میں عشقِ سیّدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی نکہت فصلِ گل سے کھلتے ہیں۔ آئیے ماہ نامہ ’’سیارہ‘‘ کی نعت کائنات میں شعرا کے عشقِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تجلیات سے قلب ونظر روشن کریں مگر اختصار کے ساتھ :
جو دل میں عشق محمد کا آستانہ رہے
سحر کا حسن رہے، رونق شبانہ رہے


(سرورسہارن پور)
اسرارِ لامکاں ہے محبت حضور کی
تفسیرکن فکاں ہے محبت حضور کی
ایمانِ عاشقاں ہے محبت حضور کی
تسکین قلب وجاں ہے محبت حضور کی
روشن ہے ان کے نور سے ایوانِ شش جہات
ہر شے میں ضوفشاں ہے محبت حضور کی


(ڈاکٹرعطیہ خلیل عرب)
عشق احمد، علاجِ ہر غم ہے
اک لمحہ دوحہ روح پرور ہے
(افضال احمد انور)
چشمِ بتاں میں خوار نہ ہوجائے عاشقی
مطلوبِ عاشقاں مجھے رسوا نہ کیجیے
(فروغ احمد)
یہ نعت کی کون سی ہے منزل
یہ عشق کی کون سی ہے محفل
خرد کی شبنم برس رہی ہے
جنوں کا شعلہ دہک رہا ہے
(گل بخشالوی)
بنامِ عشق ملا نطقِ دل نواز مجھے
کیا ثنائے پیمبر نے سرفراز مجھے
(راسخ عرفانی)
دلِ حزیں تھا کسی محشرِ فغاں کی طرح
وہ آئے شوق کی محفل میں لطفِ جاںکی طرح
(حفیظ الرحمن احسن)
عشق پیغمبر رخِ ہستی کا غازہ ہوگیا
نعت کہنے سے مرا ایمان تازہ ہوگیا
(سیّدعطا حسین کلیم)
طاہرؔ کو بھی ہو دولتِ دیدار عنایت
ہاں وہ بھی ترے عشق کی منزل کا ہے راہی
(طاہر شادانی)
ہے نام حسن اسی کے رخِ منور کا
ہے عشق اس کے وجودِ ابد قرار کا نام
(اشرف بخاری)
ہو نہ گر عشق تو پہچان تری مشکل ہے
عقل کو ہو نہ سکے گا کبھی عرفاں تیرا
(حافظ مظہرالدین)
میرے جان ودل ہیں سرشار مئے عشق نبی
دل خدائے مصطفی جاں ہے نثارِ مصطفی
(یزدانی جالندھری)
کرامت ایک یہ بھی تابشِ عشق نبی کی ہے
دلِ عشاق مثلِ ذُروۂِ فاراں چمکتے ہیں (جعفربلوچ)
چمکتے ہیں سرِ مژگاں جو موتی
یہ ہیں میری عقیدت کے نگینے
(یزدانی جالندھری)
عشقِ نبی کو موجِ بلاکب مٹاسکی
ہوتا گیا چراغ فروزاں ہوا کے ساتھ
دیکھاگیا ہے رحمتِ پروردگار کو
عشق رسول پاک کے ہر مبتلا کے ساتھ


(میرواصف علی)
۳۔ جمال رحمت سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم: عصرِ حاضر میں ملتِ اسلامیہ پر چاروں طرف سے کفر و شرک کی یلغار ہے۔ کہیں آتشِ بارود کی برسات ہے کہیں ناموسِ رسالت پر متعصب یہودیوں اور الحادی قوتوں کی نازیبا حرکات ہیں۔بیسویں صدی کی آدھی ساعتیں بھی مختلف معاندانہ خرافات اہل ایمان کے درپے آزار تھیں اور تو اور اپنے جو مسلمان ہونے کا دم بھرتے تھے وہ بھی تعلیماتِ اسلامی اور تصورِ پاکستانی کو بیخ و بن سے اکھاڑنے، کبھی ترقی پسند ادب اور کبھی ادبِ جدید کی شکل اختیار کرکے میدانِ اردو ادب میں اترچکے تھے۔اسلامی ادب کو اصناف ادب کا حقیقی مرکز بنانے کے لیے ماہ نامہ ’’سیارہ‘‘ نے فیصلہ کیا کہ ’’سیارہ‘‘ کی ابتدا حمد و نعت سے کی جائے چناںچہ ایک طویل اداریے میں مدیرِانتظامی فضلٌ من اللّٰہ نے اہل قلم کو دعوت دی:
آدم کے بیٹوں کی خدمت میں اسلامی ادب کا ایک حقیر ہدیہ اس گزارش کے ساتھ کہ:
تم نے تہذیب مغرب کا ایٹمی تحفوں والا سرمایہ دارانہ الحادی ادب بھی دیکھا ہے!
تم نے انسان کو انسان سے ذبح کرانے والا بے خدا اشتراکی ادب بھی دیکھا ہے!
تم نے انسانوں کا شکار کھیلنے والا سفاک اور فرقہ پرست قومی ادب بھی دیکھا ہے!
ادب کے ان تمام نظریوں نے تمھیں حیوان قرار دیا ہے۔
لیکن اس میں کیا شبہ کہ تم انسان ہو اور اشرف المخلوقات ہو۔
اسلامی ادب تمھیں نہ صرف ایک ذمہ دار انسان بلکہ اس زمین پر خدا کا نائب قرار دیتا ہے اور بتاتاہے کہ:
تم اپنے دورِ نیابت کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہو۔
زندگی کا یہ نظریہ عیش پرست ، دوپائے انسان او رقوم پرست درندے کے تصوارت سے قطعی مختلف ہے۔ یہ نظریہ تمھیں ذمہ دار، بااختیار، باشعور اورمعززواشرف قراردیتا ہے۔
اسلامی ادب تمھاری انسانیت سے انتخاب راہ کی گزارش کرتا ہے۔٭۲۲
یہ سطور گزشتہ رات میری نظر سے گزری تھیں۔ میری حیرت کی انتہا اس وقت ہوئی جب میں آج علی الصباح حسبِ معمول قرآنِ حکیم کی تلاوت کررہا تھا اور اس کے مفہوم پر غور کررہا تھا تو یہ آیت مجھے ہلاکر رکھ گئی۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی کیفیت کو میرے سامنے کھول کر رکھ دیا۔ یہ اسی عورت کی ترجمانی ہے، دیکھیے، یہاں ترجمہ درج ہے اور تفہیم قرآن سے سیداابوالاعلیٰ مودودیؒ کی مختصر سی تشریح ہے:
اے پیغمبرﷺ، ان سے کہہ دو کہ پاک او رناپاک بہرحال یکساں نہیں ہیں خواہ ناپاک کی بہتات تمھیں کتنا ہی فریفتہ کرنے والی ہو، پس اے لوگو! جو عقل رکھتے ہو، اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو، امید ہے کہ تمھیں فلاح نصیب ہوگی۔٭۲۳
تشریح: ناپاک خواہ مقدار میں کتنا ہی زیادہ ہو، بہرحال وہ پاک کے برابر کسی طرح نہیں ہوسکتا۔ غلاظت کے ایک ڈھیر سے عطر کا ایک قطرہ زیادہ قدر رکھتا ہے اور پیشاب کی ایک لبریز ناند کے مقابلہ میں پاک پانی کا ایک چلّو زیادہ وزنی ہے ۔ لہٰذا ایک سچے ، دانش مند انسان کو لازماً حلال ہی پر قناعت کرنی چاہیے خواہ وہ ظاہر میں کتنا ہی حقیروقلیل ہو اور حرام کی طرف کسی حال میں بھی ہاتھ نہ بڑھانا چاہیے خواہ وہ بظاہر کتنا ہی کثیر وشاندار ہو۔٭۲۴
یہ پڑھتے ہی بے ساختہ میری زبان سے نکلا:
فاعتبرو یا اولی الابصار۔
اللہ تعالیٰ تو حقانیت پر مہر ثبت کردیتا ہے۔ اسلامی ادب میں حمدونعت کا چمنستان سجانا بھی تو فرمانِ رب کائنات ہے، جس نے یہ مژدہ بنی نوع انسان کو سنادیا:
وَمَا ارسلناک الَّا رحمۃ للعالمین۔ (الانبیاء: ۱۰۷)
اور (اے پیغمبر) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا ہے مگر اس لیے کہ تمام جہانوں کے لیے رحمت کا ظہور ہو۔
یہ رحمت و شفقت جاودانی ہے، اس کا تسلسل تا قیامت ہی نہیں ، یوم حشر میں بھی شفاعت کی صورت میں ظاہر ہوگا۔حالاتِ حاضرہ میں اُمتِ بیضا کی عزت وتکریم کے لیے اس کی اشد ضرورت ہے۔ ادبِ اسلامی کی تحریک سے وابستہ نعت نگاروں نے عقیدت ومحبت کے پھول کھلاتے ہوئے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کے سدابہار غنچوں کو خوب چمکایا ہے اور اردو ادب کے اسلوب کو رنگ و نور کی متنوع پربہار ادائیں عطا کی ہیں، آئیے چند پھول چنتے ہیں:
کرم ہی کرم، رحم ہی رحم ہیں
انھیں کیوں نہ دریائے رحمت کہوں (صبامتھراوی)
مانگے تھے میں نے آپ سے رحمت کے چند پھول
سارا چمن دعاؤں کی ڈالی پہ رکھ دیا
(مظفر وارثی)
شاہ وگدا سب ایک ہوئے اس کے سائے میں
دامانِ رحمت اس طرح پھیلا حضور کا (حامدیزدانی)
بندۂ و آقا سبھی ہیں آپ کے ادنیٰ غلام
اے شہ دنیا ودیں اے رحمت للعالمین
(حفیظ الرحمن احسن)
تو رحمتِ سرکار کا عنوان جلی ہے
رسم و رہِ الفت ترے کوچ سے چلی ہے
(حافظ لدھیانوی)
اپنوں کے لیے آیۂ رحمت تراسایہ
غیروں کی بھلائی بھی سدا تو نے ہے چاہی
اس دورِ پرآشوب میں اے رحمت کونین
سرمایۂ تسکیں ہے تری فیض پناہی
بیشک مرے عصیاں کی نہیں کوئی نہایت
لیکن تری رحمت بھی تو ہے لامتناہی
(طاہر شادانی)
اے خواجۂ کونین شہِ ملکِ رسالت
ہیں آپ دوعالم کے لیے آیۂ رحمت
(محمدخاں کلیم)
آپ رحمت کا گلستان آپ شفقت کی بہار
آپ پھولوں کا تبسم، آپ خوش بو کا نکھار
(طفیل دارا)
جان بھی دل بھی مرا آپ کے قدموں پہ نثار
دوجہانوں میں نہیں آپ سے پیارا کوئی
(ظہیر صدیقی)
بنایا قادرِ مطلق نے ان کو رحمتِ عالم
اسی رحمت کے بل پر ہم نے کی تسخیر بحروبر
(حامدخاں حامد)
پیمبر نے جب بے کسوں پر نظر کی
تو پھر زیر سے ان کی حالت زبر کی
(محمدمنشاء سلیمی)
ہو تیری عنایت تو تری سمت بڑھوں میں
دیوار بنا اپنے ہی رستے میں کھڑا ہوں
تو نور کی برکھا ہے برس جا کبھی مجھ پر
ظلمت کے گھنے دشت میںقرنوںسے پڑاہوں
(عارف عبدالمتین)
کرم کی ایک نظر تشنگان رحمت پر
قسیم کوثر و تسنیم وسلسبیل حضور
(محمدحمیدشاہد)
حضور آپ جو رحمت تمام رحمت ہیں
غم آشناؤں کو گویا نوید شفقت ہیں
(ریاض احمدپرواز)
سحاب رحمت ازل سے سایہ فگن ہے تپتی ہوئی زمیں پر
جبین ارض وسما پہ روشن رہے گا نقشِ دوام ان کا
(ریاض حسین چوھدری)
وہ ہی شرح آیۂ حکمت وہی تفسیر دیں
نازش کون و مکان و رحمت للعالمین
(وحیدہ واحد)
۴۔ اخلاقِ عظیمہ، اُسوۂ حسنہ اور سیرتِ مقدسہ کے نقوش نعت کائنات میںعصرِ حاضر میں معاشرتی زندگی کی کش مکش، سیاسی اور معاشی تنگ دستی کی یورش اور اخلاقی وروحانی بے ثباتی کی آزمائش کئی پہلوؤں سے انسانیت پراثرانداز ہوچکی ہے خصوصاً فنونِ لطیفہ،ادبی شعبہ اور فکری دائرہ زیادہ متاثر ہوا ہے۔ تخلیق پاکستان کے بعد اسلامی روایات کے خلاف کئی بگولے گرد اڑاتے گھومتے رہے اور اس غبار نے اردو ادب کو بھی متاثر کرنے کی کوشش کی مگر اسلامی ادب کی تحریک نے اہلِ قلم کو نتائج سے آگاہ کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا، اس پر خاص طورپر حمد و نعت کے فروغ کا بیڑہ اُٹھایا۔ نعت نگاروں نے اپنی تخلیقات میں دانائے سبل، ختم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے حوالے سے اسلامی تہذیب وثقافت کے پھول کھلائے۔ان مضامین میں اسوۂ حسنہ کی رفعت کو معراجِ انسانیت قرار دیا، اخلاقِ عظیمہ کو معاشرتی نور کے طور پر پیش کیا اور سیرتِ طیبہ کو آدمیت کی عظمت کا جمال پکارا۔ یوں اسلامی ادب میں تعلیماتِ قرآنی اور سنتِ برہانی کی ضیائیں پھیل گئیں۔ ماہ نامہ ’’سیارہ‘‘ ان تذکار سے انسانی زندگی کو تابندگی کی ضیائیں دیتا رہا۔ آئیے ان لولوئِ لالہ کو نعت کے آئینے میں دیکھیں:
قرارِ قلب پریشاں، پناہ گاہِ جہاں
انیس غمزدگاں، چارہ سازِ درد و الم
(عابدنظامی)
بخشی جہاں کو دولتِ اخلاق وآگہی
نوعِ بشر کا محسن اعظم کہیں جسے
(گوہرملسیانی)
اسوۂ کامل، نعمت عظمیٰ
ہر مومن کی دولتِ اولیٰ
ان کی اطاعت سب پر لازم
صلی اللہ علیہ وسلم
(منظور علی شیخ)
سیرت قرآن کی مکمل تفسیر
صورت عرفان کی مکمل تفسیر
ذاتِ پیغمبر خداوندِ ازل
عدل واحسان کی مکمل تفسیر
(خالدعلیم)
بہت پیوند تھے لیکن کوئی دھبہ نہ تھا جس پر
اساسِ زندگی اپنی اسی چادر پہ رکھی تھی
(قمبرسنبھلی، دہلی)
حضورموجِ عطا ہیں، حضور بحرِ کرم
حضور مونس و غم خوار و دردمند و ودود
(ساقی گجراتی)
کتنی پیاری ہے آپ کی سیرت
نور ہی نور دھیان میں آئے
آپ کے باب لطف پر آکر
دوست دشمن امان میں آئے
مہربانی جہاں پہ فرماکر
کیا کمی مہربان میں آئے (خالدبزمی)
جود و کرم کا سرمدی اک بحرِ بے کنار
وہ آدمی ہے ملکِ محبت کا تاجدار
(ریاض حسین چودھری)
رفیق دل زدگاں غمگسارِ غمناکاں
خلیق و خوش نظر، خوب رو و خندہ جبیں
(علیم ناصری)
نرمی دلوں کو جوڑے، سختی چٹان توڑے
کردارِ مصطفی کی ہر شان انقلابی
(فروغ احمد)
بے کس و بے در و مظلوموں یتامیٰ کی امید
محسنِ مفلس و نادار، رسول عربی!
صاحبِ جود و سخا، فخرِ رُسل، ختمِ رسل
دستِ خلاق کا شہکار، رسول عربی!
(انورجمال)
نہیں ہیں ان کی صداقت کے معترف ہم ہی
عدو بھی جن پہ ہیں شاہد، امیں وہ ایسے ہیں
(بیاض سونی پتی)
ہر قدم راہ دکھاتی ہے مجھے
کسی ضو ریر ہے، سیرت اس کی
دشمنِ جاں بھی ہیں شاہد اس کے
ہے عیاں سب پہ صداقت ا س کی
سب کو ملتا ہے طلب سے بڑھ کر
ہے عجب شانِ سخاوت اس کی
(حافظ لدھیانوی)
بے کسوں، بے بسوں کے لیے
رحمتِ ذوالجلال آپ ہیں
گالیوں کے صلے میں دعا
کس قدر خوش خصال آپ ہیں
(طفیل ہوشیارپوری)
صورت ہے کہ فردوس کی خوش بوئے دل آویز
سیرت ہے کہ سرچشمۂ تسنیم رواں ہے
اخلاق ہمہ حسن و مروّت کا موقع
گفتار ہمہ عرشِ معلی کی زباں ہے
(علیم ناصری)
نگارِ وقت کے ماتھے پہ خُلق کے جلوے
کمالِ فطرت انساں، جمالِ حسنِ تاباں ہیں
(گوہرملسیانی)
۵۔ عظمت وشان رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم: کشمکش حق وباطل تو روزِ ازل سے شروع ہے۔ علامہ اقبالؒ تو برملا کہہ گئے ہیں:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی
(اقبال)
پاکستان کے ابتدائی سالوں ہی سے اردوادب کو اس آزمائش سے گزرنا پڑا، جب مارکس ، لینن و اسٹالن کے پجاریوں نے ترقی پسند تحریک کا غلغلہ بلند کیا اور مذہب و اخلاقی اقدارکو مشقِ تمسخر بنایا۔ مگر تاکجا، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اور اے پیغمبر(ﷺ)! اعلان کردیجیے کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے والا ہے۔٭۲۵
نظریاتی جنگ جو انیسویں صدی سے شروع ہوئی تھی، بیسویں صدی کی دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنی قوت کھونے لگی، ایشیا اور افریقا کے مسلمانوں میں بیداری کی لہر دوڑ گئی۔ پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو ان حالات میں اسلامی ادب کی تحریک عصری تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اردو ادب کو ضیابار کرنے لگی۔ جب کہ سابقہ مباحث میں یہ وضاحت موجود ہے کہ حمدونعت میں محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق واسوہ اور شریعت کے تقاضوں کے مطابق سیرت کے نقش ہائے رنگ رنگ جگمگ جگمگ کرنے لگے۔اب مفکرین اشراکیت اور سیکولر، مادہ پرست علماء واساتذہ کے فانی اور مصنوعی تفوق کے کم زور دعویٰ کے مقابل سرورِ کون و مکاں صلی اللہ علیہ وسلم کی تابندہ اور جاودانی عظمت ورفعت اور شوکت وحشمت کا ضوفشاں سورج طلوع کیا جائے، جس کی تصدیق خود خالقِ ارض وسماوات نے کی ہے۔ ’’ورفعنالک ذکرک‘‘ گویا بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔
ماہ نامہ ’’سیارہ‘‘ کا گلشنِ مدحت ان تصورات لونّی سے مہک رہا ہے۔ آئیے حظ اُٹھائیں:
وہی آگہی کا جلال ہے، وہی منتہائے کمال ہے
کہ خدائے حسن وجمال ہے وہی شاہ کارعظیم ہے
(غافل کرنالی)
سر فرش ہیں تری جلوتیں
سرِ عرش ہیں تری خلوتیں
ترے معجزے میں سخن نہیں
ترے مرتبے کا بیاں نہیں
کہیں کوئی تیری مثال ہے
نہ سوال ہے نہ مجال ہے
مرے فہم میں یہ نشاں نہیں
مرے وہم میں یہ گماں نہیں
(صوفی فقیر محمد)
تیرے اوصاف کا ہوتا ہے وہاں سے آغاز
ختم ہوتی ہے جہاں فکرونظر کی سرحد
تیرے دم سے ہے معطر چمنستانِ خیال
تجھ سے حاصل ہے مرے دل کو سرورِ سرمد (خالدعلیم)
دیکھی نہ نظیر اس کی کہیں چشمِ فلک نے
یک تائے زماں، منفرد عالمیاں ہے
(علیم ناصری)
نوری ہستی، پھربھی انساں
عقلیں غلطاں، نظریں حیراں
جیسے سورج، جیسے کرنیں
خود ہی دعویٰ، خود ہی برہاں
رُتبہ اونچا، نظر یں نیچی
دل میں تسکیں، چہرہ تاباں
سر دل سجدہ، پابر سدرہ
حیراں قدسی، حوریں، غلماں
موتی موتی حکمت دانش
کرنیں کرنیں، ایماں، عرفاں
خلوت فکری، جلوت ذکری
صبحیں خنداں، راتیں گریاں
(نعیم صدیقی)
آپ کی عظمتیں یہاں آپ کی رفعتیں وہاں
ارض وسما میں محترم آپ کا نام اے حضور
ذاتِ خدا کے بعد ہے آپ کی شان برتری
آپ ہیں کائنات میں خیرانام اے حضور
(عبدالرحمن بزمی)
جمال، مہر درخشاں کی آنکھ کا تارا
جلال، عدل کی شمشیر بے اماں کی طرح
خیال، نزہتِ احساس کا جہانِ لطیف
مزاج، فطرتِ ہستی کے رازداں کی طرح
(حفیظ الرحمن احسن)
تری عظمت سے ہمیں وسعتِ کردار ملی
ہم کہ قطرہ تھے ہمیں بحر بنایا تو نے
(عارف عبدالمتین)
خدا نے کتنا بلند آپ کا مقام کیا
جبین کعبہ جھکی، عرش نے سلام کیا
(اقبال صفی پوری)
آپ کی عظمت پہ شاہد ہے یہ قرآن حکیم
ہے خدائے پاک مدحت خوانِ ختم المرسلین
(قمریزدانی)
سلام اس پر جو بن کر پیکر صدق و صفا آیا
سلام اس پر رفعنالک ہے جس کے حق میں فرمایا
(منظورالٰہی)
شہرِ حسن وجمال مدینہ منورہ، گلستانِ نعت میں سدابہار گلاب: تاریخ نعت میں شہر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تمنائیں اس طرح ضوفشاں ہیں کہ دیدۂ و دل اس کے انوار سے روشنی پاتے ملتے ہیں۔ کون سا انسان ہے جو دولتِ ایمان سے مالامال ہے، اس قریۂ جمال کا تمنائی نہیں۔ دیارِ فخرجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوہ ہائے شام و سحر سے ضیا بار ہے۔ اس نور و نکہت کے چمنستاں کو جانے والا ہر راستہ عقیدت مندوں کے جوش وجذبہ کا امین رہتا ہے۔ وہ لمحات خصوصاً نعت کائنات میں درخشاں ہیں جب ترقی پسند جادۂ ماسکو پر گامزن تھے اور سیکولر نظریات کے حامل ادیب و شاعر پیرس و لندن کی جانب رواں دواں تھے۔ اس وقت حُبِّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سرشار اہلِ قلم دربارِ مصطفی، گلزار خیرالوریٰ میں حاضری کے مشتاق تھے۔ اس چمنستان کے تجلیات سے لبریز شام و سحر کو قلب و نظر میں بسانے کے لیے تڑپتے تھے۔ ماہ نامہ ’’سیارہ‘‘ میں اس دور کی نعت میں یہ زندگی پرور ترانے گونجتے ہیں۔ ان کی ضیاؤں اور دل رُبا صداؤں سے منور اور فردوسِ گوش ہونے کا لطف اُٹھائیں۔
کوئی مقام شہر نبی سا حسیں نہیں
کوئی جمال مثلِ جمال حرم نہیں
(حافظ مظہرالدین)
شہرِ حضور ہر کس و نا کس کے واسطے
جائے اماں ہے چرخ ستمگار کے تلے
(حفیظ تائب)
جب سے جمالِ گنبد خضریٰ نظر میں ہے
اک کیف لازوال مری چشم تر میں ہے
آئینہ جمال ہے وہ آستانِ پاک
حسنِ ازل حضور کے محراب و در میں ہے
(حافظ لدھیانوی)
ذرّہ ذرّہ کہکشاں آثار ہے اس شہرمیں
ہر نظارہ جنت دیدار ہے اس شہر میں
پتے پتے کے جلو میں ہے بہارِ انبساط
غنچہ غنچہ گلشنِ سرشار ہے اس شہر میں
(عارف سیالکوٹی)
نسیم گلشنِ فردوس کا سالطف بخشا ہے
مدینے کی ہوا نے راحتِ قلب حزیں ہو کہ
(خورشیدانصاری، فریدآبادی)
لیے نذرِ عقیدت حضرت اقدس کے روضے پر
نگینے بن کے آنسو دیدۂ غم ناک تک پہنچے
(راسخ عرفانی)
بلاوے کا ہوں منتظر ہر گھڑی میں
مجھے بھی دکھا اپنے روضے کی جالی
(حفیظ صدیقی)
ہر آن کھنچا جاتا ہے دل سوئے مدینہ
ہر آن تمنائے شہ کون ومکاں ہے
(میاں تنویر قادری)
طیبہ ہے کہ مرکز ہے تری جلوہ گری کا
اللہ اب آیا ہے مزا خوش نظری کا
اس شہر میں ہاتھوں سے نکل جاتی ہیں صدیاں
اک لمحہ گزر جائے اگر بے خبری کا
اک صبح مدینے کی طرف لے اڑی مجھ کو
میں بھی کوئی جھونکا تھا نسیم سحری کا
سر اپنا ترے بابِ معلّٰی پہ جھکادے
یہ نقطئہ آخر ہے عروج بشری کا
(عاصی کرنالی)
کدورتوں کے اندھیرے سمٹ گئے آخر
دلوں کی ضوہیں مدینے کی چاہتوں کے چراغ
(گوہر ملسیانی)
وہ ادب گاہِ محبت ، وہ مدینے کی زمیں
جس کا ہر ذرہ درخشاں جس کا ہرگوشہ حسیں
جس نے چومے ہیں رسول پاک کے پیارے قدم
رفعت واقبال میں جو مثلِ چرخِ ہفتمیں
جس نے ہر دل سے مٹا ڈالے ہیں شبہات و شکوک
جس نے اہل دہر کو بخشا ہے ایمان ویقیں
جس کے باشندوں پہ ہے بالکل بجا دنیا کو رشک
جس کے بیٹے عظمت واکرام میں گردوں نشیں
ساری دنیا میں وہی ہے مرکز امن واماں
کتنے خوش قسمت ہیں فردوس مدینہ کے مکیں
(خالدبزمی)
مدینہ میری حسرت ہے، مدینہ میری الفت ہے
درخشاں جس کے کوچے ہیںمعطر جس کی گلیاں ہیں
(گوہرملسیانی)
ملتی تھی صحابہ کو یہاں دین کی تعلیم
ہوتی تھی یہاں لشکرِ اسلام کی تنظیم
دیکھی ہے زمانے نے یہاں نور کی تجسیم
اترے ہیں تری خاک پہ قُدسی پئے تعظیم
فردوس نظر ہے ترا ہر خطۂ شاداب
اے قریۂ مہتاب
(حافظ لدھیانوی)
اردو ادب وزبان میں ادبِ اسلامی کی تحریک کا مختصر سا جائزہ ماہ نامہ ’’سیارہ‘‘ لاہور میں صنفِ نعت کے حوالے سے لینے کی سعی نامکمل بھی ہے اور ادبی سطح پر ہوسکتا ہے جامع بھی نہ ہو مگر بے راہ روپن، اسلامی تہذیبی اقدار کے خلاف الحادی شیشہ گری اور ادبی صنم گری کے اُٹھتے ہوئے گرد و غبار کو ابرِکرم کی بوندوں سے دبانے اور نکہتِ مدحت سے مہکانے کی جستجو ضرور ہے۔حالات کے تقاضے کو سامنے رکھتے ہوئے ادارۂ ’’سیارہ‘‘ کا یہ ادبی محاذ پر حمدونعت کو اہمیت دینا قابلِ ستائش ہے۔ ویسے بھی نعت تو جزوایمان ہے ہر مسلم نعت نگار جانتا ہے کہ ہادئ برحق صلی اللہ علیہ وسلم ہی صرف اور صرف حقیقتاً تناور تعریف کے حق دارہیں جو ہر لحاظ سے کامل و اکمل، احسن و اجمل اور اعظم و افضل ہیں۔ ’’سیارہ‘‘ نے اسلامی ادب کے تناظر میں افتخارِ نعت گوئی کاحتی الامکان خیال رکھا ہے اور صنف نعت کو قرطاسِ مجلہ پر شائع کرنے کی دعوتِ عام دی ہے اور شعرائے کرام نے بھی حدیقۂ نعت کو پُربہار بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے۔
مدحت کے عنوانات ومضامین تو ہر نعت کے مطالعہ میں مجھے اپنی طرف کھینچتے رہے مگر ’’نعت رنگ‘‘ کا دامن مجھے تفصیل میں جانے سے روکتا رہا۔ اسی پر اکتفا کرتے ہوئے حفیظ الرحمن احسن کی ایک نعت جو وقت کے تقاضے پر نعت کو ایک نیا تصور دیتی ہے۔ چند باتیں اس اسلوب تازہ پر کہنے کی جسارت کرتا ہوں کیونکہ یہ جذبہ واحساس اور فکروخیال صنف نعت کو نئی سمت سے آشکار کرتے ہیں۔ نظم کا عنوان ہے۔ ’’پھر آؤ لوٹ جائیں پیمبرﷺ کی راہ پر‘‘
نعت کی روایت کے پھول تو صدیوں سے مہک رہے ہیں مگر بیسویں صدی کی آخری تین دہائیاں خاص طور پر نعت میں تہذیب اسلامی اور تقاضائے عالم انسانی کی اقدارِ روحانی انقلابی رنگ کی آئینہ دار ہیں، چوںکہ افق اردو ادب پر تعلیمات سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نئے رنگ ابھارنے کی کوشش ہورہی تھی، اس لیے اسلامی روح کے حامل دیدۂ و دل بھی اسے محسوس کرتے ہوئے اردو نعت میں روایت کو جدید اسلوب اور نادر فکر و خیال کی شمعیں اس طرح جلانے لگے کہ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی ضیائیں، اخلاق عظیم کی ادائیں اور اسوۂ حسنہ کی ردائیں جدید زاویۂ نگاہ کو ضوفشاں کرنے لگیں۔ اس نظم میں ایسے ہی نور پارے درخشاں ہیں جو آج کل کے ماحول کو صنف نعت کی رعنائیاں عطا کرتے ہیں اور انسانیت کو دامن رسولِ ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ ہوکر ساکنانِ کرۂ ارض میں عزت ووقار کی دعوت دیتے ہیں مجھے یہاں اس نظم کا تنقیدی جائزہ پیش نہیں کرنا ہے بلکہ اہلِ علم اور خصوصاً نعت گوؤں کے سامنے اس احساس کو اجاگرکرنا ہے کہ نعت میں جمالِ سیرت روحِ رواں عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے گہرہائے گراں کی اہمیت عصرِ حاضر میں اُمتِ مسلمہ کے لیے کیا ہے؟ جناب احسن نے اس خلوص سے نعت کو جدید رخ کا سرمایہ بنانے کی ضرورت پُرزور دیا ہے کہ اردو ادب اس کی تلاش بھی ہے، نئے نعت نگار اور نام ور اہلِ قلم بھی اس اندازِ خیال سے مستفید ہوسکتے ہیں بلکہ دردِ دل رکھنے والے نعت خواں اور سامعین وقارئین بھی اس طرزِ جمیل سے سرشار ہوسکتے ہیں۔
یہ نظم پابند دوبندوں پر مشتمل ہے،پہلے بند میں سولہ اشعار ہیں، اس بند کا مرکزی نقطہ بعثتِ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم تارکیوں میں طلوعِ آفتاب اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریکیوں کو انوارِ قرآن سے منور کرنے کی مسلسل جدوجہد ہے، پھر اشرارِ مکہ وطائف کی صاحب عزم و عزیمت کا راستہ ہدایت روکنے کے لیے ظلم وستم کی بارش ہے۔ مگر حرفِ شکایت اور بددعا زبان پر لانے کی بجائے، نعمتوںکے خزانے لٹانے اور سیل نور کی تجلیات برسانے کا تذکرہ ہے۔ آپ کی گفتار کے کھلتے ہوئے گو پھول اور شبنمی خطاب کی پرتبسم چاندنی ہے۔ چند شعر دیکھیے:
دن رات ایک دھن تھی، عزیمت تھی ہم رکاب
لوگوں میں نور بانٹتا پھرتا تھا آفتاب
ہر ظلمتِ حیات کا درماں تھا اس کے پاس
پہلو میں روشنی تھی تو ہونٹوں پہ تھی کتاب
سلجھائیں اس نے اس طرح ذہنوں کی الجھنیں
اُٹھا کوئی سوال تو پاس اس کے تھا جواب
کیا رستہ اس کے عزم وعزیمت کا روکتے
طائف کے ہوں رئیس کے مکّے کے شیخ وشاب
کردار اس کا عظمت ورفعت کا آسماں
ہر قول اس کا، بحرِ حکم کا دُر خوش آب
رفتار اس کی جوئے رواں کا خرامِ ناز
گفتار اس کی شاخ پہ کھلتا ہوا گلاب
حفیظ الرحمن احسن نے اس نظم میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ضیابار لمحات کو نعت میں اس طرح سمویا ہے کہ ایک طرف تو پیرایۂ بیان پُرتاثیر ہوگیا ہے۔ دوسری جانب صنف نعت کو نئی روشنی ملی ہے کہ صداقتیں دلوں کی دھڑکن بن گئی ہیں۔ پھر نعت اسلامی ادب کی روح رواں کہی جاسکتی ہے۔ماضی کی روایت میں جن جمالیاتی، شمائل اور انوارِ رخ ورخسار کے تذکار نعت کی شان کہلاتے تھے، اب جدید اسلوب میں نعت کے یہ معیارات تبدیل ہوچکے ہیں۔احسن کا یہ نعتیہ نظم کا پہلا بند ہر نعت گو کے سامنے نئے انداز بیان کے تخلیقی رنگ پیش کرتا ہے جو حالاتِ حاضرہ کی روشنی میںلابدی ہیں بلکہ صوری اور معنوی لحاظ سے بھی حقیقی نعت کے مظہر ہیں۔
دوسرا بند نعت کی ایک نئی جہت کا ترجمان ہے۔ یہ اس فکری تصور کا تسلسل ہے جو مولانا الطاف حسین حالیؔ کی مسدس اور ملّی آشوب کی نمائندہ نظم سے شروع ہوتا ہے۔ جس میں ملت کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور ایک استغاثہ کی صورت میں محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں پیش کیا ہے:
اے خاصۂ خاصانِ رُسل وقتِ دعا ہے
اُمت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
پھر یہ جذبات واحساسات کی رو اورملت کے زوال و نکہت کی روح فرسا لہر عاشق رسولﷺ حضرت علامہ اقبالؒ تک پہنچتی ہے۔ جنھوںنے سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور کتاب ہدیٰ میں مسلمانوں کی رہنمائی کی آیات سے نعت کو نیا رخ دیا۔وہ پیغام جو جمالِ سیرت اقدس سے ضوبار تھا، زبان وبیان کی خوبیوں سے پُرجوش لہجہ رکھتا تھا۔ قلب و نظر کو مسحور کرنے لگا۔ اس سے بڑھ کر یہ بات بھی بے حد پُراثر ہے کہ علامہ اقبال مسلمانوں کی خستہ حالی اور کم زوری کو آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے دوری کا سبب سمجھتے تھے۔ یہ جدید اسلوب بعدازاں بھی نعت کے شعرا نے اپنایا اگرچہ ان کا طرزِ بیان مختلف تھا۔ یہی جدید اسلوب کی رعنائی حفیظ الرحمن احسن کے اس دوسرے بند کا طرۂ امتیاز ہے۔ چند اشعار آپ کے مطالعہ کے لیے پیش ہیں:
تاریخ میں وہ دورِ سعادت ہے ضوفشاں
کم آج تک کبھی نہ ہوئی اس کی آب وتاب
ہم ہیں! جو بے نیازِ دین حق ہوئے
اپنا یہی زوال ہے تقدیر کا عتاب!
دین نبی تو ساغر آبِ حیات ہے
ہر بے خدا نظام حقیقت میں ہے سراب
ہم ہی نے توڑ ڈالے تھے جام و سبو کبھی
ہم ہی سے چھوٹتی نہیں عصیاں کی اب شراب
ہے بحرِ زندگی میں تلاطم کچھ اس قدر
دل خوفِ نیستی سے ہے سہما ہوا حباب
تھے ایک جب تو سارے جہاں میں تھے محتشم
بکھرے تو مثلِ خاک ہوئے خستہ وخراب
چل کر ہوئے تھے جس پہ معزز جہاں میں ہم
اب بھی کھلی ہے ہم پہ وہ احسن رہ صواب
پھر آؤ لوٹ جائیں پیمبر کی راہ پر
اپنی تو ہے پناہ فقط اُن سے انتساب!
نعت کا یہ جدید جمالیاتی رنگ ار دو نعت کو حسن و صداقت کا اسلوب اپنانے کا شعور دیتا ہے۔اس اساسی رویہ کو ہمارے سامنے لاتا ہے، جس میں کارِ نبوت کی یہ فکر درخشاں ہے کہ یتلواعلیھم آیٰتہٖ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمۃ۔یہ مرکزی تعلق ، یہ فکری تجسّس اور یہ اندازِ جہاںبانی سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم آج کی نعت کا آہنگ ہو۔تاکہ نعت اُمتِ مسلمہ کو حق شناس بنائے اور اسلامی روایات کا عکاس بنائے۔ رحمت للعالمینﷺ کی ذاتِ اقدس کی طرح حساس بنائے۔ جدید نعت کے تخلیق کاروں کو اپنے خیالات کو ماضی کی عظمت سے منور کرکے مدحت کو اجالنا ہوگا، مسلمانوں کے عظیم ثقافتی ورثہ کو ابھارنا ہوگا تاکہ نعت صرف قوالوں کی پرواز یا نعت خوانوں کی پُرسوز آواز تک محدود نہ رہے بلکہ اسوۂ سرورعالمﷺ کا عرفان اورعہدِ حاضر میں ملتِ بیضا کی عظمت و وقار کی دلیل و برہان بن جائے۔
اردو ادب میں اسلامی ادب کی تحریک کا مقصدِ اولیٰ بھی نعت کائنات کو اس قدر پُربہار بنانا ہے کہ دیگر اصنافِ سخن کے معیار سے کسی طرح بھی اس کا معیار فروترنہ ہو مگر ’’سیارہ‘‘ میں شامل زمزمۂ نعت کے مطالعہ سے ایک بات معیار ہی کے حوالے سے کھٹکتی رہی بلکہ حیرانی کا باعث رہی کہ صاحبانِ ادارت نے ایسی نعتیں بھی شامل اشاعت کیں جن میں نعت کی حدود سے تجاوز تھا۔ اس سلسلے میں ایک مثال بلا اسمِ شاعر اور اس پر حرف گیری کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں:
عاصی ہوں مگر غلام تیرا
مشکل سے مجھے نکال آقا
دے اپنے کرم کی بھیک مجھ کو
تجھ سے ہے مرا سوال آقا
دنیا کے سہارے جھوٹے نکلے
اب توہی مجھے سنبھال آقا
آقا مرے بے مثال آقا
رحمت کی نگاہ ڈال آقا
ہم مسلمان نماز پنج گانہ کی ہر رکعت میں اللہ تعالیٰ سے یہ پیمان باندھتے ہیں کہ ’’اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘مگر عملی زندگی میں ہم لوگ غیراللہ سے بھی استمداد کرتے ہیں۔ غیراللہ سے استمداد بھی شرک ہی کی ایک قسم ہے اور یہ چیز نعت گوئی میں بہت عام ہے۔ اس شمارے میں ایک نعت کے چند مصرعے کچھ اس طرح ہیں:
مشکل سے مجھے نکال آقا
دے اپنے کرم کی بھیک مجھ کو
اب تو ہی مجھے سنبھال آقا


Urdu Naat Lyrics, Naat with Lyrics | Naat Lyrics Urdu | Naat Lyrics a to z
رحمت کی نگاہ ڈال آقا
میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کردیا کہ:
اے محمدﷺ! تو نے اپنے پیچھے وہ اُمت چھوڑی جو میرے بجائے تجھ سے ’’استمداد‘‘ کرتی رہی؟
تو حضورﷺ کیا جواب دیں گے؟ یہ ایک بہت بڑی جواب دہی ہے جس کا بوجھ ہمارے شعرائے کرام روزافزوں حضورﷺ کے کندھوں پر ڈالتے رہتے ہیں۔ کتب سیئر میں آیا ہے کہ حضورﷺ کبھی کبھی فرمایا کرتے تھے کہ میں نہیں جانتا کل میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔(کل سے مراد قیامت کا دن ہے) اور اس قسم کا کلام پڑھ کر یہ بات اب سمجھ میں آتی ہے کہ آپ ایسا کیوں فرماتے تھے۔‘‘
یہ بات ہرقسم کے شک و شبہ سے بالا ہے کہ رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت دنیا کی ہر عزیز چیز سے زیادہ عزیز ہے پھر اسی عقیدت و محبت کا متصف و منبع اللہ تعالیٰ نے اطاعت کو قرار دیا ہے۔ ’’اے نبیﷺ، لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو۔‘‘(آل عمران: ۳۱) گویا اللہ تعالیٰ کی محبت کے لیے بھی رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت شرط ہے۔ اطاعت، عقیدت و محبت ہی کا دوسرا نام ہے۔ یعنی سیرت و کردار، اسوہ و اطوار کو اپنایا جائے، جس طرح سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی وحدانیت کو اپنے قول وفعل سے ظاہر کیا۔ آپ نے اللہ کی الوہیت، ربوبیت اور صفات کو دنیا کے سامنے رکھا اور ان کو اللہ تعالیٰ کی خالص خوبیوں کو کسی دوسرے سے متعصف کرنے کو گناہ قرار دیا۔ یہی عمل ہماری اطاعت کا لازمی جزو بن جاتا ہے۔ان سے تجاوز شرک کے زمرے میں آتا ہے۔
نعتیہ کلام کے مطالعہ سے یہ بات بعض اوقات سامنے آتی ہے کہ نعت گو اس حکم ربانی کو فراموش کردیتے ہیں:
ان اللّٰہ علی کل شی ئٍ قدیر۔(البقرہ: ۱۰۶)
اللہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے، بلکہ فرما دیا:
کیا تمھیں خبر نہیں کہ زمین اور آسمانوں کی فرمانروائی اللہ ہی کے لیے ہے اور اس کے سوا کوئی تمھاری خبرگیری کرنے اور تمھاری مدد کرنے والا نہیں ہے۔(البقرہ: ۱۰۷)
اب اگر محتاط نہ رہتے ہوئے یہ صفات نبی مکرم ، رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرار دے دی جائیں تو یہی صنف نعت کی حدود سے تجاوز ہوگا۔ اسی سے ظاہر ہوگا کہ نعت نگار قرآن و حدیث کی ہدایات سے ناواقف ہے بلکہ کریم و مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ شناس نہیں ہے اور مدحت کی صفات سے آگاہ نہیں ہے۔
ان معروضات کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ماہ نامہ ’’سیارہ‘‘ نے اسلامی ادب کی جِلا کے حمد و نعت کو تو فوقیت دی مگر نعت کو معیاری نعت بنانے کے لیے تنقیدی نظر استعمال نہ کی۔ بلکہ نعت کے فروغ کے لیے اور اردوادب میں دیگر اصناف سخن کے مقابلے میں لانے کے لیے ایسا تحقیقی، تنقیدی لائحۂ عمل اختیار نہ کیا جو اصنافِ حمدونعت کو وقار عطا کرتا اور نعت کو ادب میں باافتخار بناتا۔ کوئی تحقیقی اور تنقیدی مقالہ ان چالیس سال کی اشاعتوں میں سامنے نہیں آیا۔ اس سلسلے میں مجھے منصہ شہود پر یہ قابلِ تحسین بات لاتے ہوئے کوئی باک نہیں کہ کتابی سلسلہ ’’نعت رنگ‘‘ اپنے آغاز ہی سے یہ فریضہ ادا کررہا ہے کہ صنف نعت کو حقیقی معیار عطا کرنے کے لیے نقدونظر کے حوالے سے مقالات شائع کیے جائیں اور اس سلسلے میں ’’نعت رنگ‘‘ کے مدیرجناب سیدصبیح رحمانی کی کاوشیں رنگ لائیں، تنقیدی نظر رکھنے والے صاحبان علم وبصیرت کی ایک ٹیم تیار ہوئی جو صبیح رحمانی کی تخلیقی اور نعت کے فروغ اور اس کے معیار کو بلند کرنے کی تجاویز پر لبیک کہتی ہے۔ اگرچہ ’’نعت رنگ‘‘ کی ان خدمات کو بہت سے لوگوں نے پسند نہیں اور نعت پر تنقید کو عقیدت ومحبت کے منافی قراردیا مگر اردوادب کو نازاں ہونا چاہیے کہ صنف نعت نے دوسری اصناف کے مقابلے میں زیادہ تنقیدی، نعت شناسی اور تذکرہ سے مزین لوازمہ فراہم کیا اور اس کی گواہی مقبول نعتیہ مجموعے، تنقیدی، تبصرہ کی حامل اور تذکرہ کی نمایاں کتابیں پیش کرتی ہیں۔ یہ دراصل ایک چشم کشا حقیقت ہے کہ اس ساری ریاضت میں سرکارِ رسالت مآبﷺسے محبت اور عرفانِ شانِ عظمت عملی طور پر داخل ہے، یہی نعت گوئی کے فروغ کی بنیاد ہے۔
اسلامی ادب کی تحریک کے اس رسالہ کی جملہ خصوصی اشاعتوں میں حمدونعت کا ایک جذبات واحساسات سے لبریز ذخیرہ ہے، جس نے حمدونعت کو جدید اسلوب دیا۔ اردوادب کو نعت کے درخشندہ شریعت کا جمال دیا اور ادب میں تہذیبی گراوٹ ، اخلاقی نکبت اور انسانیت کی پستی کے تدارک کے لیے محسنِ انسانیتﷺ کی زندگی کا منشور دیا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اتنے بڑے خزانے کی قدروقیمت کا اندازلگایا جائے۔ اس عقیدت ومحبت کے چمنستان سے گل ہائے رنگارنگ کی رعنائیوں سے دامنِ علم و داب کو منور کیا جائے،ان سرمدی تخلیقات کو تحقیق کے ابر پر جگمگایا جائے اور حمدونعت کے موجودہ ذخیرۂ انوار کا حصّہ بنایا جائے۔ یہ متاعِ حمدونعت ہی میں اضافہ نہیں ہوگا بلکہ اردوادب کا بھی ورثہ ہوگا۔
مجھے اُمید ہے میری یہ صدائے پُرصداقت محققین کی سماعت پر اثرانداز ہوگی اور پاکستانی جامعات کے شعبۂ اردو ادب کے صدورخصوصاً علامہ اقبال یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ اردو کے ڈین زمزمۂ حمدونعت کے اس عصری پیغام پر لبیک کہیں گے۔ماہ نامہ ’’سیارہ‘‘ کا یہ حمدونعت کا ادبی ذخیرہ اسلامی ادب کے حوالے سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کا مقالہ بن سکتا ہے ورنہ کم ازکم ایم ۔فل کی تحقیقی میزان پر پورا اُتر سکتا ہے۔
حوالہ جات
٭۱۔ البقرۃ:۲۰۸ ٭۲۔ تفہیم القرآن اوّل، صفحہ ۱۶۰
٭۳۔ سورۃ المائدہ: ۳
٭۴۔ محمدعلی اثر پروفیسر، ’’دکنی میں نعتیہ شاعری‘‘مشمولہ ’’نعت رنگ‘‘ ۲۲، صفحہ ۶۰
٭۵۔ ایضاً، صفحہ ۶۳
الف۔ ظہیر کشمیری، سویرا ۷، ۸، صفحہ ۷، بحوالہ ارودادب کی تحریکیں از۔ ڈاکٹر انور سدید صفحہ ۶۰۱۔
٭۶۔ رسالہ سلسبیل شاہ پور فروری ۱۹۴۹ء صفحہ ۹ بحوالہ ایضاً:
٭۷۔ سیارہ ۲۰، صفحہ ۴۱۔
٭۸۔ قدرت اللہ شہاب، ’’کلچر کی دوڑ آرٹ کونسل تک‘‘ ، مشمولہ ذکر شہاب، صفحہ۱۹۶
٭۹۔ آفتاب احمد، ڈاکٹر ’’اردو ادب تقسیم کے بعد‘‘،مشمولہ اشارات، صفحہ ۱۲، ۱۳
٭۱۰۔ سجادباقررضوی، ’’پاکستانی تہذیب کا مسئلہ‘‘، مشمولہ تہذیب واخلاق، صفحہ۱۰، ۱۱
٭۱۱۔ انورسدید ڈاکٹر، اردوادب کی تحریکیں، صفحہ ۶۰۱
٭۱۲۔ سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ’’اسلام پسند ادیب اور اسلامی ادب‘‘ ، مشمولہ اسلامی نظریہ ادب، صفحہ ۲۰
٭۱۳۔ فروغ ادب پروفیسر، ’’اسلامی ادب کی تحریک‘‘ مطبوعہ ماہ نامہ سیارہ لاہور ستمبر۱۹۹۵ء، صفحہ ۸۱
٭۱۴۔ استفادہ از اردوادب میں اسلامی تحریک مؤلف مہراختروہاب
٭۱۵۔ اردو ادب کی تحریکیں، صفحہ ۶۰۱، ۶۰۲ ٭۱۶۔ سورۂ احزاب: ۵۶
٭۱۷۔ امان اللہ ترمذی ڈاکٹرسعید، حکمت فرقان، صفحہ ۵۷، ۵۸
٭۱۸۔ سیارہ ۲، صفحہ ۹ ٭۱۹۔ الف۔ سیارہ ۲، صفحہ ۵، ۶
٭۲۰۔ سیارہ ۲۔ صفحہ ۷ ٭۲۱۔ سیارہ ۲۰، صفحہ ۴۹
٭۲۲۔ عبدالمغنی ڈاکٹر، پٹنہ بھارت، ’’ادب میں نعت شریف کا مقام‘‘، سیارہ صفحہ۳۵
٭۲۳۔ سیارہ ۷، صفحہ ۳۹ ٭۲۴۔ سورۃ المائدہ: ۱۰۰
٭۲۵۔ تفہیم القرآن جلد اوّل، صفحہ ۵۰۷ ٭۲۶۔ سورۂ بنی اسرائیل: ۱۸


 

Urdu Naat Lyrics, Naat with Lyrics | Naat Lyrics Urdu | Naat Lyrics a to z

 

{٭}

فروغ نعت میں ’’سیارہ‘‘ کا کردار (اسلامی ادب کی تحریک کے تناظر میں) فروغ نعت میں ’’سیارہ‘‘ کا کردار (اسلامی ادب کی تحریک کے تناظر میں) Reviewed by WafaSoft on September 05, 2019 Rating: 5

No comments:

Comments

Powered by Blogger.