Best Wall Stickers

غزل کاسہ بکف ساکت کھڑی ہے اُن کی گلیوں میں

ریاض حسین چودھری۔ سیالکوٹ





غزل کاسہ بکف ساکت کھڑی ہے اُن کی گلیوں میں


نعت وہ صنفِ سخن ہے جو دیگر تمام اصنافِ سخن کے سر کا تاج ہے۔ نعت محض صنفِ سخن ہی نہیں لوح و قلم کی مسلسل سجدہ ریزیوں کا بھی نام ہے۔ یہ کائنات کی سچائیوں کی آئینہ بردار اور کائنات کی سب سے عظیم اور محترم شخصیت کے اوصافِ مقدسہ کا عکسِ جمیل بھی ہے۔ ہر صنفِ سخن منتظر رہتی ہے کہ اُسے خوش بوئے نعت کو اپنی سانسوں میں سمونے کا اعزاز حاصل ہو۔ نعت چشم براہ رہتی ہے کہ اُس کے برہنہ سر پر ثنائے رسول کا عمامہ سجایا جائے، غزل، قصیدہ، پابندنظم، نظم آزاد، نظمِ معریٰ، قطعہ، رُباعی، مسدس، مخمس وغیرہ سے لے کر ہائیکو، ثلاثی، کوثریہ اور دیگر اصناف تک کا دامن بہارِ نعت کے سدابہار پھولوں سے مہک رہا ہے اور دیارِ دیدہ و دل میں روشن ہو رہا ہے۔ ہدایتِ آسمانی کی آخری دستاویز قرآن حکیم بھی ایک نعتِ مسلسل ہے اور یہ کتابِ آخر نثر میں ہے۔ بعض مقررین کی خوش بیانی اور بعض نثرنگاروں کے فن پاروں پر بھی نعت کا عنوان سجایا جاسکتا ہے۔ دستِ قدرت نے بابِ ثنا میں حرفِ زوال لکھا ہی نہیں، غزل کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ زیادہ تر نعت اسی کی ہیئت میں لکھی گئی ہے، غزل اپنی اس خوش بختی پر جتنا بھی ناز کرے کم ہے۔
شعرائے نعت کا غزل پر احسان ہے کہ انھوںنے نعت گوئی کے لیے غزل کی ہیئت کو اپنایا ہے اور غزل کا مقدر کہ ثنائے رسولﷺ کے ان سرمدی اثاثوں کو اپنے دامن میں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ غزل ایک سدابہار صنفِ سخن ہے اردو اور فارسی نعت نے اسے حیاتِ ابدی بخشی ہے۔ ہزار سال بعد بھی غزل کی ہیئت میں کہی جانے والی نعت ہی مقبول ترین نعت ہوگی اور اسے عوام اور خواص دونوں میں زبردست پزیرائی حاصل رہے گی۔ نعت عشقِ نبیﷺ اور اتباعِ رسول کے تخلیقی اور جمالیاتی اظہار کا نام ہے، حضور ختمی مرتبتﷺ کی ذاتِ گرامی سے والہانہ اور غیرمشروط محبت اور اتباع کو ایمان قرار دیا گیا ہے، یہی محبت اور اتباع خالقِ حقیقی تک رسائی کا وسیلہ جلیلہ ہے اور غزل اسی معیارِ ایمان کے ابلاغ کے لیے اپنی تمام تر تخلیقی توانائیاں وقف کیے ہوئے ہے، نعت اسلامی تہذیب، تمدن اور ثقافت کا ایک دل آویز مظہر بھی ہے۔ کیوںکہ اسلامی تہذیب، تمدن اور ثقافت کا مرکز و محور آقائے محتشمﷺ ہی ہیں جن کے سرِ اقدس پر خود خدائے بزرگ و برتر نے محبوبیت کا تاج سجایا اور اُن کی خاطر اُن کے ذکرِ جمیل کو بلند کرنے کا اعلان آخری الہامی صحیفے میں کیا۔ کتابِ مقدسہ کے اوراق کو خالقِ کائنات نے اپنے محبوب رسولﷺ کے تذکار سے مصور فرمایا ہے۔ ہر طرف تاجدارِ کائناتﷺ کے محامد و محاسن کی قندیلیں روشن ہیں، کائنات کا تمام حسن و جمال سردارِ انبیا کے قدمین کی خیرات ہے۔ نعت دراصل حکمِ ربی کی تعمیل ہے۔ ارشاد ہوتا ہے، ’’میں اور میرے فرشتے آپ پر ہر گھڑی درود و سلام بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی میرے محبوب پر خوب خوب درود بھیجو۔‘‘ نعت کی اساس بھی درود و سلام پر رکھی گئی ہے۔ غزل باوضو ہوکر ہماری ثقافتی اکائی کے تحفظ کی علامت بنی ہوئی ہے۔ نعت درود و سلام کا پیکرِ شعری ہے۔ غزل درود و سلام کے اسی پیکرِ شعری کی تمنائی ہے۔ غزل کی ساری رعنائیاں حضورﷺ کی نعت کا خام مواد بنتی ہیں۔ یقینا یہ ایک حقیقت ہے اور محض جذباتی یا شاعرانہ سوچ نہیں کہ روئے زمین پر آج تک کوئی ایسی ساعت نہیں اُتری جس کے شاداب ہاتھوں میں خوش بوئے اسمِ محمدﷺ کا پرچم نہ ہو، سفرِ ثنا ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔
جب کائنات میں اللہ کے سوا کوئی نہ تھا تو سب سے پہلے نورِ محمدی تخلیق ہوا بعد میں کائناتِ رنگ و بو معرضِ وجود میں آئی، کائنات کی وسعتیں اس وقت بھی درود و سلام کا پرچم اُٹھائے ہوئے تھیں اور لامکاں کی وسعتیں اس وقت بھی درود و سلام کے زمزموں سے گونج رہی ہوںگی جب ہر چیز موت کی آغوش میں سو چکی ہوگی۔ صرف اللہ کی ذات باقی ہوگی وہ جو ابتدائوں کی ابتدا اور انتہائوں کی انتہا ہے، جو ہمیشہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ غزل نے نعت کے دامنِ صد رنگ کی خلعتِ فاخرہ اوڑھ کر اپنی ہی سلامتی اور بقا کا اہتمام کیا ہے۔
غزل جب جہانِ نو کی تلاش میں ابہام اور تشکیک کے مقفل دروازوں پر دستک دیتی ہے تو معانی کی اَن گنت دنیائوں کے منظرناموں کی دھند خودبخود چھٹنے لگتی ہے اور اسے نئے آفاق کی تسخیر کی بشارت ملتی ہے۔ جب یہی غزل اپنے تہذیبی اور ثقافتی شعور کے ساتھ ہوائے مدینہ کی انگلی پکڑ کر درِ سرکارﷺ پر حاضری کے شرف سے مشرف ہوتی ہے تو اس کے مقدر کا ستارہ اوجِ ثریا پر چمکنے لگتا ہے اور ابلاغ کی چاندنی لفظ کے ظاہر ہی کو نہیں اس کے باطن کو بھی منور کردیتی ہے۔ غزل تاجدارِ کائنات کے درِ عطا پر کاسہ بکف حرفِ التجا بن کر کھڑی ہے اور حضورﷺ کی نعلینِ پاک کی خیراتِ مطہرہ کی تمنائی ہے۔ غزل سے نعت تک کا تخلیقی سفر رنگوں، روشنیوں اور خوش بوئوں کا سفر ہے۔ کائناتی سچائیوں اور جمالیاتی توانائیوں کی معراج ہے۔ غزل جب نبی مکرمﷺ کی بارگاہِ بے کس پناہ میں چشمِ کرم کی ملتجی ہوتی ہے تو اس کی آنکھیں ہی نہیں پوری کائناتِ حسن روشنیوں سے بھر جاتی ہے۔ ہوا چراغ بانٹے کا منصب سنبھالتی ہے اور خوش بوئیں نعت گو کے قلم کا طواف کرنے لگتی ہیں۔ بگڑے غزل گو کو نعت گوئی کی معنبر اور معطر کوچے میں زبردستی دھکیلنے کی سازش ایک گھنائونا جرم تھی، یہ ابلیسی سازش بیمار ذہنوں کی اختراع تھی ۔ اگرچہ یہ شیطانی فلسفہ اپنے ہی ملبے تلے دفن ہوچکا ہے لیکن اس کی باقیات کسی نہ کسی انداز میں آج بھی ذہنوں میں فتور برپا کرنے کے مکروہ عمل میں مصروف رہتی ہیں۔ منظرنامہ اب اتنا واضح اور روشن ہے کہ ابہام اور تشکیک کی گرد کو رختِ سفر باندھنے کے سوا کوئی اور تدبیر نہیں سوجھتی، غزل نسیمِ نعت کے ہر مقدس جھونکے کی پزیرائی کے لیے حرفِ سپاس بن کر تخلیق کی رہ گزر پر دست بستہ منتظر رہتی ہے۔ قدم قدم غلامی کے چراغ جل رہے ہیں، قدم قدم پر خود سپردگی کی شبنم گر رہی ہے۔ قدم قدم رعنائیِ خیال دم بخود ہے۔ قدم قدم دھنک کے رنگ اپنا دامن بچھا رہے ہیں اور قدم قدم پر صبا چراغِ آرزو لیے نغمہ سرا ہے۔ غزل نے اپنا سارا حسن نعت کے قدموں پر نثار کردیاہے اور عملاً مذکورہ بیہودہ رائے زنی کی نفی کی ہے۔ نعت دراصل غزل کے لیے پروانۂ نجات ہے۔ میں یہاں غزل کے مضامین اور موضوعات کا حوالہ دینے کی جسارت نہیں کررہا صرف غزل کے جمالیاتی وژن کی بات کر رہا ہوں۔ جب یہ جمالیاتی وژن شاعر کے تخیل کو اپنے حصارِ حسن میں لے لیتا ہے تو قصرِ نعت کے دروازے خودبخود وا ہونے لگتے ہیں، غزل کا رچائو، اس کی ایمائیت اور اس کی نرماہٹ فنی بالیدگی کے آئینہ خانوں میںعکس ریز ہونے لگتی ہے تو شاعر کو اذنِ ثناگوئی عطا ہوتا ہے۔ حریمِ غزل تو نعت گو کا تربیتی کیمپ ہے جہاں اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا ملتی ہے کہ جب شاعر بارگاہِ حضور میں دل کے آبگینوں کا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرے تو اس کا تخلیقی وجود بھی ادب و احترام اور شعری وژن کے احترامِ مقدسہ میں لپٹا ہوا ہو، چمن زارِ غزل میں جذبات و احساسات کی حنابندی کے بغیر منصبِ نعت سنبھالنا بہت بڑی ادبی جسارت ہے۔ اس بے ادبی کے قریب بھی نہیں پھٹکنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلے دیارِ غزل میں تخلیق کار کی تخلیقی صلاحیتوں کی پرورش ہوتی ہے، اس کا احساسِ جمال رفتہ رفتہ پروان چڑھتا ہے۔ جب وہ فنی باریکیوں سے آگاہی حاصل کرلیتا ہے تو فنی پختگی اس کے قلم کو اعتماد کے نور سے ہم کنار کرتی ہے۔ تب کہیں جاکر اسے نعت گوئی کا اعزاز حاصل ہوتا ہے۔ نمازِ عشق ادا کرنے سے پہلے اشکوں سے وضو کرنے کا سلیقہ آئے تو اقلیمِ نعت میں باریابی کی اجازت ملتی ہے، زبردستی شہرِ نعت میں گھس آنے والے دراندازوں کی ادبی موت کا منظر ہم اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھتے رہتے ہیں۔
تاریخِ ادب شاہدِ عادل ہے کہ ایک اچھا غزل گو ہی اچھا نعت گو ثابت ہوتا ہے۔ غزل کی کو ملتا دامن چھڑا کر دل کے شگفتہ پھولوں کی آب یاری کا تصور تخلیقی حوالوں سے انحراف کے سوا کچھ بھی نہیں، ہم جانتے ہیں کہ منحرف چہرے اپنے تشخص کے لیے سرگرداں رہتے ہیں لیکن ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں آتا۔ جمالیاتی قدروں سے فرار حاصل کرکے ممدوحِ کبریا کی بارگاہِ صد احترام میں شائستگی، سنجیدگی اور متانت کی قدروں کو کہاں تک تحفظ کی ردا دی جاسکتی ہے۔ نعت محض اوزان اور بحور کے حوالے سے اپنی پہچان نہیں رکھتی بلکہ نعت اندر کی روشنی کے بھرپور ابلاغ کا نام ہے۔ کبھی کبھار غزل میں نعت کا شعر ہوجاتا ہے اسی طرح نعت میں بھی غزل کے شعر در آنے کو ناممکنات کے زمرے میں نہیں ڈالا جاسکتا لیکن ایسے اشعار بلاواسطہ نہ سہی بالواسطہ طورپر نعت کے حیطۂ ادراک میں بھی آسکتے ہیں اور نعت کامجموعی تاثر مرتبت کرنے میں اپنا بھرپور کردار بھی ادا کرسکتے ہیں۔ غزل اور نعت کی تخلیقی اور جمالیاتی کڑیاں بہرحال کہیں نہ کہیں جا کر آپس میں ضرور ملتی ہیں۔ ایک سچے نعت نگار کو ان کڑیوں کو مربوط بنانے کی سعی میں مصروف رہنا چاہیے کہ یہی تخلیقی عمل نعت کے ادبی مقام کے تعین میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو چراغِ راہ بنانا ہوگا کہ نعت درود و سلام کے پیکرِ شعری کو کہتے ہیں۔ اقلیمِ نعت میں کسی قسم کی بے تکلفی کو داخلے کی قطعاً اجازت نہیں، ادب ادب کہ ادب پہلا قرینہ ہے۔۔۔۔
{٭}

غزل کاسہ بکف ساکت کھڑی ہے اُن کی گلیوں میں غزل کاسہ بکف ساکت کھڑی ہے اُن کی گلیوں میں Reviewed by WafaSoft on September 06, 2019 Rating: 5

No comments:

Comments

Powered by Blogger.