عرب کی دھوپ
یہ شب چلتے ہی گزری اور
دن کی دوپہر آئی
دن کی دوپہر آئی
رب کی دھوپ نے شان
تمازت اپنی دکھلائی
تمازت اپنی دکھلائی
اٹھا طوفانِ آتش اس بیابانی سمندر میں
سمایا آ کے سو سو ہاویہ
ایک ایک پتھر میں
ایک ایک پتھر میں
زمیں انگارے اگلی آگ
برسی آسمانوں سے
برسی آسمانوں سے
دھواں اٹھنے لگا جھلسی
ہوئی کالی چٹانوں سے
ہوئی کالی چٹانوں سے
فضا تھرا گئی سیلِ حرارت کے دریڑوں سے
ہوا گھبرا گئی امواج
حدت کے تھپیڑوں سے
حدت کے تھپیڑوں سے
ازل کے روز سے یہ خاک یونہی
پاک ہوتی تھی
پاک ہوتی تھی
وضو کرتی تھی ہر ذرے کا
منہ کرنوں سے دھوتی تھی
منہ کرنوں سے دھوتی تھی
کیا کرتی تھی غسلِ آفتابی اس لیے وادی
کہ گزرے گا یہاں سے ایک
دن اسلام کا ہادی
دن اسلام کا ہادی
کیا آرام اک پتھر کے سائے
میں رسالت نے
میں رسالت نے
مہیا کر لیا دودھ اس جگہ بھی جوش خدمت165 نے
ہوئی جس وقت ہلکی دھوپ
کی وہ شعلہ سامانی
کی وہ شعلہ سامانی
پیا شیرِ مصفا آپ نے چلنے کی پھر ٹھانی
یہ شب چلتے ہی گزری اور دن کی دوپہر آئی
Reviewed by WafaSoft
on
August 27, 2019
Rating:


No comments: