حضرت اسمٰعیلؑ کی ولادت، ماں بیٹے کی
ہجرت
ہجرت
جنابِ ہاجرہؓ تھیں زوجۂ ثانی پیمبرؓ کی
ملا فرزند اسمٰعیلؑ انہیں خوبی مقدر کی
ہوا ساراؓ کو رشک اس
امر سے دل میں ملال آیا
امر سے دل میں ملال آیا
نکل جائے یہاں سے ہاجرہؓ
بس یہ خیال آیا6
بس یہ خیال آیا6
مشیت کو ادھر کچھ اور ہی
منظورِ خاطر تھا
منظورِ خاطر تھا
کہ نورِ احمدیؐ بچے کی پیشانی سے ظاہر تھا
ہوا ارشاد دونوں کو عرب
کی سمت لے جاؤ
کی سمت لے جاؤ
خدا کے آسرے پر وادی
بطحا میں چھوڑ آؤ
بطحا میں چھوڑ آؤ
خدا کے حکم سے مرسل نے جب
رخت سفر باندھا
رخت سفر باندھا
جناب ہاجرہؓ نے دوش پر
لخت جگر باندھا
لخت جگر باندھا
پیمبرؑ اپنا بیٹا اور بیوی ہمعناں لے کر
چلا سوئے عرب پیری میں
بختِ نوجواں لے کر
بختِ نوجواں لے کر
خدا کا قافلہ جو مشتمل
تھا تین جانوں پر
تھا تین جانوں پر
معزز جس کو ہونا تھا زمینوں
آسمانوں پر
آسمانوں پر
چلا جاتا تھا اس تپتے ہوئے
صحرا کے سینے پر
صحرا کے سینے پر
جہاں دیتا ہے انساں موت
کو ترجیح جینے پر
کو ترجیح جینے پر
وہ صحرا جس کا سینہ آتشیں
کرنوں کی بستی ہے
کرنوں کی بستی ہے
وہ مٹی جو سدا پانی کی
صورت کو ترستی ہے
صورت کو ترستی ہے
وہ صحرا جس کی وسعت دیکھنے
سے ہول آتا ہے
سے ہول آتا ہے
وہ نقشہ جس کی صورت سے فلک
بھی کانپ جاتا ہے
بھی کانپ جاتا ہے
جہاں اک اک قدم پر سو
طرح جانوں پر آفت تھی
طرح جانوں پر آفت تھی
یہ چھوٹی سی جماعت بس
وہیں گرمِ مسافت تھی
وہیں گرمِ مسافت تھی
پیمبرؑ زوجہ و فرزند یوں
قطعِ سفر کرتے
قطعِ سفر کرتے
خدا کے حکم پر لبیک کہتے
اور دکھ بھرتے
اور دکھ بھرتے
بالآخر چلتے چلتے آخری
منزل پر آ ٹھہرے
منزل پر آ ٹھہرے
پئے آرام زیر دامنِ کوہ صفا ٹھہرے
یہ وادی جس میں وحشت بھی
قدم دھرتی تھی ڈر ڈر کے
قدم دھرتی تھی ڈر ڈر کے
جہاں پھرتے تھے آوارہ
تھپیڑے بادِ صر صر کے
تھپیڑے بادِ صر صر کے
یہ وادی جو بظاہر ساری
دنیا سے نرالی تھی
دنیا سے نرالی تھی
یہی اک روز دین حق کا
مرکز بننے والی تھی
مرکز بننے والی تھی
یہ وادی جس میں سبزہ
تھا نہ پانی تھانہ سایا تھا
تھا نہ پانی تھانہ سایا تھا
اسے آباد کردینے کو
ابراہیمؑ آیا تھا
ابراہیمؑ آیا تھا
یہیں ننھے سے اسمٰعیلؑ کو
لا کر بسانا تھا
لا کر بسانا تھا
یہیں پر نور سجدوں سے خدا
کا گھر بسانا تھا
کا گھر بسانا تھا
جنابِ ہاجرہؓ تھیں زوجۂ ثانی پیمبرؓ کی
Reviewed by WafaSoft
on
August 26, 2019
Rating:


No comments: