غارِ ثور 158
ہوئے آزاد باطل کے حصار قہر سے دونوں
ابھی کچھ رات باقی تھی کہ نکلے شہر سے دونوں
نبیؐ نے خانہ کعبہ کو دیکھا اور فرمایا
کہ اے پیارے حرم میری تری فرقت کا وقت آیا
ترے فرزند اب مجھ کو یہاں رہنے نہیں دیتے
تری پاکیزگی کا وعظ تک کہنے نہیں دیتے
جدائی عارضی ہے پھر بھی دل کو بے قراری ہے
کہ تو اور تیری خدمت مجھ کو دنیا بھر سے پیاری ہے
یہ فرماتا ہوا آگے بڑھا اسلام کا ہادیؐ
سرا سر موم ہو کر رہ گئی یہ سنگ دل وادی
چڑھائی سخت تھی سنگین و ناہموار رستہ تھا
نکیلے پتھروں کا فرش تھا پر خار رستہ تھا
نبیؐ کے پائے نازک ہر قدم پر چوٹ کھاتے تھے
دل صدیقؓ کے جذبات زخمی ہوتے جاتے تھے
نہ دیکھا جا سکا پائے محمدؐ کی جراحت کو
بصد اصرار کندھوں پر اٹھایا شان رحمت کو
اندھیرا ، پتھروں کے ڈھیر، کوہِ ثور کی گھاٹی
خدا ہی جانتا ہے یہ مسافت جس طرح کاٹی
بالآخر دو مسافر نزد غارِ ثور آ ٹھہرے
مقدر تھا یہیں نورانیوں کا قافلہ ٹھہرے
گئے اندر ابو بکر ؓ اور اس کو صاف کر آئے
عبا کو چاک کر کے روزنوں میں اس کے بھر آئے 159
مہ و خورشید نے برج سفر میں استراحت کی
کہ تھا نوروز تاریخ یکم تھی سن ہجرت کی
ازل سے سو رہی تھی خاک کی توقیر جاگ اٹھی
یکایک اس اندھیرے غار کی تقدیر جاگ اٹھی
سحر کا نور خندہ زن تھا باطل کی لیاقت پر
افق کے غرفہ مشرق سے جب خورشید نے جھانکا
نظر آیا تماشا قاتلوں کی چشم حیراں کا
گروہ اشقیا کو سرنگوں ہوتا ہوا پایا
علی ؓ کو سایہ شمشیر مین سوتا ہوا پایا
سحر کا نور خندہ زن تھا باطل کی لیاقت پر
بہت جز بز تھا انبوہ قریش اپنی حماقت پر
حقیقت کھل گئی جس وقت غافل ہوش میں آئے
بہت بپھرے ، بہت ہی اچھلے کودے جوش میں آئے
بہت کچھ کھینچا تانی کی علی ؓ کو خوب دھمکایا160
یہاں سے پھر یہ مجمع خانہ صدیق ؓ پر آیا
ہوا معلوم انہیں بو بکرؓ بھی گھر میں نہیں سوئے
یہ ایسی بات تھی جس نے حواس و ہوش بھی کھوئے
بہم لڑنے لگے اک دوسرے کی داڑھیاں نوچیں
محمدؐ کو پکڑ لینے کی ترکیبیں کئی سوچیں
ہوئے آزاد باطل کے حصار قہر سے دونوں
Reviewed by WafaSoft
on
August 27, 2019
Rating:


No comments: