Best Wall Stickers

سفینہ مہر کا جس دم شفق کے خون میں ڈوبا



ہجرت کی رات



سفینہ مہر کا جس دم شفق
کے خون میں ڈوبا

کیا تاریکیوں نے دن پہ
چھا جانے کا منصوبا


کئی فتنے جگا کر رات نے
پھیلا دیے دامن

فضا پر لشکر ظلمات نے پھیلا
دیے دان


مسلط ہو گئیں خاموشیاں
دنیائے ہستی پر

ستاروں کی نگاہیں جم گئیں
مکے کی بستی پر


نہیں تھا دامن کعبہ پہ
زمزم اشک جاری تھا

چٹانیں دم بخود تھیں
وادیوں پر ہول طاری تھا


نظر آتی ہو جس میں روشنی
وہ ایک ہی گھر تھا

مصلے پر وہاں جو شخص بیٹھا
تھا پیمبر تھا






 


عبادت ختم کی تسکین اطمینان
سے اس نے

اٹھا، باندھی کمر اللہ
کے فرمان سے اس نے


جگایا نیند سے شیر خدا
کو اور فرمایا

کہ فرماں ہجرت یثرب کا
ہے میرے لیے آیا


 مثال موسیٰؑ و داؤدؑ ہجرت 156 فرض ہے مجھ پر

کمال دین حق اتمام حجت
فرض ہے مجھ پر


اٹھو دیکھو کہ تلواروں
سے گھر محصور ہے میرا

کہ میری قوم کو اب قتل
ہی منظور ہے میرا


نکلنا اور اس عالم میں
تلواروں پہ چلنا ہے

مگر حکم خدا ہے اس لیے مجھ
کو نکلنا ہے


یہ چادر اوڑھ لو! سو جاؤ
آ کر میرے بستر پر

محافظ ہے وہی رکھو
بھروسہ شانِ  داور پر






 


یہ مال و زر انہی لوگوں
کا میرے پاس امانت ہے

امانت کا ادا کرنا ہی
اسلامی دیانت ہے



خدا حافظ ہے دیکھو دل میں
اندیشہ نہ کچھ لانا

یہ چیزیں ان کی پہنچا
کر سوئے یثرب چلے آنا


علی ؓ نے حکم کی تعمیل
کی اور اوڑھ لی چادر

بہ اطمینان آ کر سو گئے
حضرت کے بستر پر


ارادہ کر لیا جب سرور
عالمؐ  نے چلنے کا

تو دیکھا راستہ مسدود ہے
گھر سے نکلنے کا


درازوں میں سے جھانکا
ہر طرف گہرا اندھیرا تھا

مگر پہرے کھڑے تھے گھر
کو جلادوں نے گھیرا تھا


اندھیرے میں چمک اٹھتی
تھیں بجلی کی طرح دھاریں

نظر آیا کہ ہیں ہر سمت
تلواریں ہی تلواریں






 


یہ آدھی رات کا عالم یہ
ہیبت ناک نظارہ

مگر ڈرتا تھا باطل سے وہ
اللہ کا پیارا


وہ دراتا ہوا وحدت کا
دم بھرتا ہوا نکلا

تلاوت سورہ یس کی کرتا
ہوا نکلا


گری برق نظر اس مجمع
قاتل کی آنکھوں پر

کہ پٹی خیرگی کی بندھ
گئی باطل کی آنکھوں پر


کھنچی ہی رہ گئیں خوں ریز
خوں آشام شمشیریں

کسی نے کھینچ دی ہوں جس
طرح کاغذ کی تصویریں


خدا نے خاکِ  غفلت ڈال دی کفار کے سر میں

رسول پاک پہنچے حضرت صدیق
کے گھر میں


سنایا دوست کو فرمان حق
یثرب کی ہجرت کا

نوید زندگی بخشی دیا
مژدہ رفاقت کا






 


بعجلت دختر صدیقؓ نے سامان
کو باندھا

نطاق اپنی اتاری اس سے توشہ
دان کو باندھا


حبیب حق کی خوشنودی صلہ
تھا جوشِ  خدمت کا

 شرف پایا ہوئیں ذات النطاقین آج سے ا سماؓ 157



سفینہ مہر کا جس دم شفق کے خون میں ڈوبا سفینہ مہر کا جس دم شفق کے خون میں ڈوبا Reviewed by WafaSoft on August 27, 2019 Rating: 5

No comments:

Comments

Powered by Blogger.