صدائے روح الامین
دلِ مخلوق میں یوں راہ اندیشے نے جب پائی
تسلی کے لئے فورا ندا جبریلؑ کی آئی
کہ اے طاعت گزارو ذات باری کے پرستارو
بنام حضرتِ حق امن و راحت کے طلبگارو
نگاہ غور سے دیکھو ذرا آدم کی پیشانی
نظر آتی نہیں کیا ایک خاص الخاص تابانی ؟
یہی جلوہ ہے تخلیقِ جہاں کی علت غائی
اسی کی روشنی ہے دیدہ ہستی کی بینائی
یہی جلوہ ہے پہلے جس کو سجدہ کر چکے ہو تم
اسی نعمت سے دامانِ بصیرت بھر چکے ہو تم
ہوا ابلیس اسی کے سامنے جھکنے سے انکاری
یہی تھا امتیاز آدم کا جس سے جل گیا ناری
اسی سے دشمنی رکھنے کی کھائی ہے قسم اس نے
عبودیت کی چادر سے نکالا ہے قدم اس نے
اسی کی ضد پہ اس باغی کو ہیں ارمان شاہی کے
گیا ہے لے کے دنیا میں وہ منصوبے تباہی کے
مشیت ہے کہ اب طاقت کا وہ بھی امتحاں کر لے
مشیت کے مقابل خبثِ باطِ ن کو عیاں کر لے
یہ ظاہر ہے کہ شیطاں اب بڑی طاقت دکھائے گا
زمانے میں قیامت ڈھائے گا فتنے اٹھائے گا
یہ سچ ہے مدتوں اولاد آدم راہ بھولے گی
وہاں ابلیس کی کھیتی پھلے گی اور پھولے گی
وہ دن بھی آئے گا جب آخری اک سامنا ہو گا
حق و باطل میں گویا فیصلہ کن معرکہ ہو گا
مشیت ہے کہ آدم ہی کرے گا اس کو پست آخر
یہی اقبالِ پیشانی اسے دے گا شکست آخر
یہی وہ نور ہے جس سے زمانہ جگمگائے گا
یہی آدم کا رتبہ عرش اعظم تک اٹھائے گا
ملے ابلیس سے کتنی ہی قوت اہل ظلمت کو
بجھا سکتا نہیں کوئی مگر شمع ہدایت کو
یہ جلوہ دم بہ دم دنیا کو راہ حق دکھائے گا
یہی رہبر ہر اک گمراہ کو منزل پہ لائے گا
مسلسل منتقل ہوتا رہے گا نیک بندوں میں
خدا کے مُرسلوں پیغمبروں میں حق پسندوں میں
نشان اسلام کا اللہ نے عالم میں رکھا ہے
کہ نورِ احمدیؐ پیشانی آدم میں رکھا ہے
اسی کی بندگی ہے خاکیوں کے ناز کا باعث
اسی کا عکس ہے مٹی میں ہر اعجاز کا باعث
مقدر ہے اسی کو آخری پیغامِ دیں ہونا
مقدر ہے اسی کو رحمۃ للعٰلمینؐ ہونا !
عجب نغمہ تھا یہ جس سے زمین و آسماں گونجے
صدا اللہ اکبر کی اٹھی کون و مکاں گونجے
مشیت نے رخ امید سے پردہ جو سر کایا
سمجھ میں نوریوں کے آیہ لا تفنطوا آیا
زمانہ ہو گیا شاداں ندا جبریلؑ کی سن کر
زمین و آسماں جن و ملائک نے جھکایا سر
ترانے حمد باری کے ہوئے جاری زبانوں پر
درود و نعت نغمہ بن کے گونجے آسمانوں پر
فرشتے شان احمدؐ دیکھنے کو صبر کھو بیٹھے
زمیں پر جھک پڑے تارے ہمہ تن چشم ہو بیٹھے
افزائش نسل آدم اور ابلیس کا مکر و فریب
کیا تہذیب کا آغاز آدمؑ اور حوا نے
رکھی بنیاد سوز و ساز آدمؑ اور حوا نے
زمینیں جوت کر دنیا میں جنت کی بنا ڈالی
بڑی خوبی سے انسانی خلافت کی بنا ڈالی
ہوا شیطان بھی مشغول مکاری کے دھندوں میں
مگر اللہ کے بندے نہ آئے اس کے پھندوں میں
زمیں پر پھولنے پھلنے لگی اولاد آدم کی
لگے شوکت بڑھانے خوب آدم زاد آدم کی
یہ نقشہ دیکھ کر ابلیس اپنے دل میں گھبرایا
حسد بن کر دِ ل فرزندِ آدم میں اتر آیا
لڑائی ٹھن گئی نیکی بدی کی خانہ دل میں
یہ پہلی جنگ تھی روئے زمیں حق و باطل میں
ہوا شیطاں کا تابع اول اول نفسِ امارہ
کہ عورت کے لئے قابیل نے ہابیل کو مارا
یہ پہلا واقعہ تھا قتل کا دنیائے ہستی میں
جنم پایا گنہ نے اس طرح انساں کی بستی میں
زمیں پر رفتہ رفتہ بڑھ چلی جب نسل انساں کی
حسد کا چل گیا جادو بن آئی خوب شیطاں کی
خود انسانوں کی لشکر آ گئے ابلیس کے ڈھب پر
ہَوَا و حِ رص کا افسُوں مسلط ہو گیا سب پر
بدی نے چار سو کچھ اس طرح پھیلائی گمراہی
کہ آئی قبضہ ابلیس میں انسان کی شاہی
وبائے شرک پھیلی چار سو دنیائے انساں میں
نہ کوئی فرق رکھا اَہرمَن میں اور یزداں میں
اٹھایا اس طرح شیطاں نے فتنہ خود ستائی کا
معاذاللہ ، بندوں نے کیا دعویٰ خدائی کا
حسد کے لشکروں نے روند ڈالا باغِ عالم کو
بزعم خود مسخر کر لیا اولادِ آدم کو
زمیں کا بادشہ گویا یہی مردُود بن بیٹھا
کہیں شداد بن بیٹھا کہیں نمرود بن بیٹھا
نتیجہ کیا ملا دنیا کو انسانی خلافت سے
زمیں کا گوشہ گوشہ ہو گیا آلودہ ذلت سے
فرشتے دم بخود تھے آسمانوں کو بھی سکتہ تھا
ترس آتا تھا لیکن کوئی بھی کچھ کر نہ سکتا تھا
ستارے منتظر تھے خواب کی تعبیر روشن کے
کہ دیکھیں دن پھریں کس روز اس برباد گلشن کے
دلِ مخلوق میں یوں راہ اندیشے نے جب پائی
Reviewed by WafaSoft
on
August 26, 2019
Rating:


No comments: