مشکلات
رہا سینے میں چھپ کر
فرض کا احساس برسوں تک
فرض کا احساس برسوں تک
رہی اس راستے میں سنگ
بن کر یاس برسوں تک
بن کر یاس برسوں تک
وسائل ڈھونڈتا پھرتا
رہا ہوں کام کرنے کے
رہا ہوں کام کرنے کے
کشائش کو حریف گردش ایام
کرنے کے
کرنے کے
غریبوں میں نظر آیا
مجھے منظر تباہی کا
مجھے منظر تباہی کا
امیروں نے روا رکھا طریقہ کم نگاہی کا
تمنا تھی اگر مل جائے کوئی
غزنوی مجھ کو
غزنوی مجھ کو
ذرا آرام سے رہنے دے فکر زندگی مجھ کو
تو اس آغاز کو انجام کی منزل پہ لے جاؤں
جہازِ آرزو مقصود
کے ساحل پہ لے جاؤں
کے ساحل پہ لے جاؤں
مزرا قطب الدین ایبک1
انہی افکار میں بیٹھا
تھا میں اک دن جھکائے سر
تھا میں اک دن جھکائے سر
در آرام گاہِ شاہِ قطب الدین ایبک پر
وہ قطب الدین وہ مرد
مجاہد جس کی ہیبت سے
مجاہد جس کی ہیبت سے
یہ دنیا از سر نو جاگ اُٹھی تھی خوابِ غفلت سے
اکھاڑیں ہند سے جس نے ستمگاری
کی بنیادیں
کی بنیادیں
رکھیں ہر دل میں انسانی
رواداری کی بنیادیں
رواداری کی بنیادیں
وہ جس کی جراتِ بیباک سے سفاک ڈرتے تھے
وہ جس کے بازوؤں کی
دھاک سے افلاک ڈرتے تھے
دھاک سے افلاک ڈرتے تھے
وہ قطب الدین جس کے دامنِ
تسخیر کا سایا
تسخیر کا سایا
قُلوبِ راجگانِ ہند کو دامن میں لے آیا
لکھی ہے ذرے ذرے کی جبیں
پر داستاں جس کی
پر داستاں جس کی
ہے سُرخی داستانِ فاتحِ ہندوستاں جس کی
وہ جس کی ذات پر لفظِ غلامی ناز کرتا تھا
ترقی کا تخیل عرش تک
پرواز کرتا تھا
پرواز کرتا تھا
لئے بیٹھی ہے دہلی قلب
میں نقشِ نگیں جس کا
میں نقشِ نگیں جس کا
لقب تاریخ میں ہے تاجدارِ اولیں جس کا
یہاں لاہور میں سوتا ہے
اک گمنام کُوچے میں
اک گمنام کُوچے میں
پڑی ہے یاد گارِ دولتِ اسلام کوچے میں
نجس ، ناپاک کوچہ جس میں
کوئی بھی نہیں جاتا
کوئی بھی نہیں جاتا
وہاں سویا ہوا ہے مسندِ
دہلی کا لَکھ داتا2
دہلی کا لَکھ داتا2
یہ تربت ماتمی ہے اُن حجازی شہسواروں کی3
مسلمانوں نے مٹی بیچ لی
جن کے مزاروں کی
جن کے مزاروں کی
یہاں تک ابرِ باراں کی رسائی ہو نہیں سکتی
گھٹا روتی ہوئی آتی ہے لیکن
رو نہیں سکتی
رو نہیں سکتی
شعاعوں سے یہاں خورشید
دامن بھر نہیں سکتا
دامن بھر نہیں سکتا
فلک اس پر ستاروں کو
نچھاور کر نہیں سکتا
نچھاور کر نہیں سکتا
یہ تُربت چادر میتاب سے
محروم رہتی ہے
محروم رہتی ہے
نگاہوں سے چھپی رہتی ہے
نامعلوم رہتی ہے
نامعلوم رہتی ہے
یہاں سہرے کہاں ، کیا
ذکر پھولوں کے چڑھاوے کا
ذکر پھولوں کے چڑھاوے کا
کوئی ساماں نہیں ہے اہلِ
ظاہر کے دکھاوے کا
ظاہر کے دکھاوے کا
نہ پڑھتا ہے یہاں پر
فاتحہ کوئی نہ روتا ہے
فاتحہ کوئی نہ روتا ہے
کسے معلوم ہے اس چھت کے
نیچے کون سوتا ہے
نیچے کون سوتا ہے
ادھر لاہور کی دنیا
کا ایماں سوز نظارا
کا ایماں سوز نظارا
جہاں تہذیبِ نو پھرتی ہے بازاروں میں آوارہ
ادھر اک تُربتِ خاموش کا اندوہگیں منظر
الم انگیز، حسرت خیز
عبرت آفریں منظر
عبرت آفریں منظر
نہیں ہے چار گز ٹکڑا
زمیں کا جس کی قسمت میں
زمیں کا جس کی قسمت میں
یہ تربت آسماں رفعت ہے میری
چشم عبرت میں
چشم عبرت میں
میں اکثر شہر کے پر
شور ہنگاموں سے اُکتا کر
شور ہنگاموں سے اُکتا کر
سکوں کی جستجو میں بیٹھ
جاتا ہوں یہاں آ کر
جاتا ہوں یہاں آ کر
مرے نزدیک اس تربت سے اب
بھی شان پیدا ہے
بھی شان پیدا ہے
مزار مردِ غازی سے عجب ایمان پیدا ہے
یہاں آتے ہی مجھ پر
غلبہ احساس ہوتا ہے
غلبہ احساس ہوتا ہے
کسے معلوم دل اس وقت کس
کے پاس ہوتا ہے
کے پاس ہوتا ہے
یہاں میں حال کو ماضی کے
دریا میں ڈبوتا ہوں
دریا میں ڈبوتا ہوں
تصور کے طفیل اک اور ہی
دنیا میں ہوتا ہوں
دنیا میں ہوتا ہوں
تخیل مجھ کو لے جاتا ہے
اک پر ہول میداں میں
اک پر ہول میداں میں
جہاں باہم بپا ہوتی ہے جنگ
انبوہِ انساں میں
انبوہِ انساں میں
نظر آتا ہے لہراتا
ہوا اسلام کا جھنڈا
ہوا اسلام کا جھنڈا
بہر سو نور پھیلاتا
ہوا اسلام کا جھنڈا
ہوا اسلام کا جھنڈا
مقابل میں گھٹائیں دیکھتا
ہوں فوج باطِ ل کی
ہوں فوج باطِ ل کی
نظر آتی ہے فرعونی
خُدائی اوج باطِ ل کی
خُدائی اوج باطِ ل کی
حق و باطل کی آویزش کا
منظر دیکھتا ہوں میں
منظر دیکھتا ہوں میں
نظر آتی ہیں تلواریں
مجھے سر دیکھتا ہوں میں
مجھے سر دیکھتا ہوں میں
صدائیں نعرہ ہائے جنگ کی
آتی ہیں کانوں میں
آتی ہیں کانوں میں
بلند آہنگ تکبیریں سما
جاتی ہیں کانوں میں
جاتی ہیں کانوں میں
نظر آتے ہیں مجھکو سرخرو
چہرے شہیدوں کے
چہرے شہیدوں کے
لہو کی ندیاں کھلتے ہوئے
گلشن امیدوں کے
گلشن امیدوں کے
عَلم کے سائے میں
سلطان غازی کا بڑھے جانا
سلطان غازی کا بڑھے جانا
سرِ دشمن پہ افواج حجازی کا چڑھے جانا
وہ حملہ آوروں کی خون کے
دریا میں غرقابی
دریا میں غرقابی
وہ باطل کی شکست فاش وہ
حق کی ظفر یابی
حق کی ظفر یابی
وہ امن و صلح سے معمور
ہو جانا فضاؤں کا
ہو جانا فضاؤں کا
زمانے بھر کے سر سے دور
ہو جانا بلاؤں کا
ہو جانا بلاؤں کا
یہ سب کچھ دیکھتا ہوں میں
تصور کی نگاہوں سے
تصور کی نگاہوں سے
ملاقاتیں ہوا کرتی ہیں
غازی بادشاہوں سے
غازی بادشاہوں سے
مجھے محسوس ہوتا ہے مجاہد
مرد میں بھی ہوں
مرد میں بھی ہوں
پرانے لشکر اسلام کا اک
فرد میں بھی ہوں
فرد میں بھی ہوں
شہادت کے رجز پڑھتا ہوں
میدانِ شہادت میں
میدانِ شہادت میں
رجز پڑھتا ہوا بڑھتا
ہوں میدانِ شہادت میں
ہوں میدانِ شہادت میں
عظیم الشان ہوتا ہے یہ
منظر پاکبازی کا
منظر پاکبازی کا
شہیدوں کی خموشی غلغلہ
مردانِ غازی کا
مردانِ غازی کا
مرا جی چاہتا ہے اب نہ
اپنے آپ میں آؤں
اپنے آپ میں آؤں
اسی آزاد دنیا کی فضا میں
جذب ہو جاؤں
جذب ہو جاؤں
سکوں کی راہ میں حائل
ہے جب تک گردشِ گردوں
ہے جب تک گردشِ گردوں
قلم سے کام لینے کا
ارادہ ملتوی کر دوں
ارادہ ملتوی کر دوں
رہا سینے میں چھپ کر فرض کا احساس برسوں تک
Reviewed by WafaSoft
on
August 26, 2019
Rating:


No comments: