یتیم مکہ صحرائی گھر کی طرف
بڑھائے اپنے اپنے اونٹ
سب نے نور کے تڑکے
سب نے نور کے تڑکے
کجاووں پر تھیں دایہ
عورتیں اور ساتھ کے لڑکے
عورتیں اور ساتھ کے لڑکے
اُٹھا شوہر حلیمہ کا
اور اپنی اونٹنی لایا
اور اپنی اونٹنی لایا
حلیمہ اور دونوں بچوں
کو اک ساتھ بٹھلایا
کو اک ساتھ بٹھلایا
چلا خود آپ پیدل اُونٹنی
دُبلی تھی بیچاری
دُبلی تھی بیچاری
کسی صورت نہ ہو سکتی تھی
اس پر سب اسواری
اس پر سب اسواری
جب آئے تھے تو پیچھے تھک
کے رہ جاتے تھی منزل سے
کے رہ جاتے تھی منزل سے
وہ اپنے آپ ہی کو لے کے
چل سکتی تھی مشکل سے
چل سکتی تھی مشکل سے
مگر آج اس نے دکھلائی
کچھ ایسی تیز رفتاری
کچھ ایسی تیز رفتاری
جو آگے چل رہی تھیں اب
وہ پیچھے رہ گئی ساریں
وہ پیچھے رہ گئی ساریں
یکایک ہمرہوں کے پاس سے
جس دم گزرتی تھی
جس دم گزرتی تھی
تو ہر عورت تعجب کا وہیں
اظہار کرتی تھی
اظہار کرتی تھی
وہی پہلی ہے تیری اُونٹنی
یا اور ہے کوئی
یا اور ہے کوئی
نہیں پہلی کہاں، ایمان
سے کہنا اور ہے کوئی!
سے کہنا اور ہے کوئی!
حلیمہؓ کہتی تھی ہاں
ہاں وہی تو ہے وہی تو ہے
ہاں وہی تو ہے وہی تو ہے
یہ سر ، یہ ناک ہے ، یہ
تھوتھنی ہر شے وہی تو ہے
تھوتھنی ہر شے وہی تو ہے
یہ سن کر عورتیں بیچاری
حیران ہوتی تھیں
حیران ہوتی تھیں
نگاہیں گِرد پھر پھر کر
بلا گردان ہوتی تھیں
بلا گردان ہوتی تھیں
حلیمہؓ کی سواری اس قدر
جب تیز دم دیکھی
جب تیز دم دیکھی
سوار اس اُونٹنی پر ہو
گیا اب اس کا شوہر بھی
گیا اب اس کا شوہر بھی
مگر یہ ہو گئی تیز رَو اور
برق دم ایسی
برق دم ایسی
کہ سارے قافلے سے پہلے منزل
پر پہنچتی تھی
پر پہنچتی تھی
بڑھائے اپنے اپنے اونٹ سب نے نور کے تڑکے
Reviewed by WafaSoft
on
August 26, 2019
Rating:


No comments: