حضرت اسمٰعیل کی قربانی
بشارت خواب میں پائی کہ
اٹھ ہمت کا ساماں کر
اٹھ ہمت کا ساماں کر
پئے خوشنودی مولیٰ اسی
بیٹے کو قرباں کر
بیٹے کو قرباں کر
خلیلؑ اللہ اٹھے خواب سے
دل کو یقیں آیا
دل کو یقیں آیا
کہ آخر امتحاں بندے کا
مالک نے ہے فرمایا
مالک نے ہے فرمایا
اٹھا مرسل اسی عالم میں
رسی اور تبر لے کر
رسی اور تبر لے کر
پئے تعمیل چل نکلا خدا
کا پاک پیغمبرؑ
کا پاک پیغمبرؑ
پہاڑی پر سے دی آواز
اسمٰعیلؑ ادھر آؤ
اسمٰعیلؑ ادھر آؤ
ادھر آؤ خدائے پاک کا
ارشاد سن جاؤ
ارشاد سن جاؤ
پدر کی یہ صدا سن کر
پسر دوڑا ہوا آیا
پسر دوڑا ہوا آیا
رکا ہرگز نا اسمٰعیلؑ گو
شیطاں نے بہکایا
شیطاں نے بہکایا
پدر بولا کہ بیٹا آج میں نے خواب دیکھا ہے
کتاب زندگی کا اک نرالا
باب دیکھا ہے
باب دیکھا ہے
یہ دیکھا ہے کہ میں
خود آپ تجھ کو ذبح کرتا ہوں
خود آپ تجھ کو ذبح کرتا ہوں
خدا کے نام سے تیرے لہو
میں ہاتھ بھرتا ہوں 11
میں ہاتھ بھرتا ہوں 11
سعادتمند بیٹا جھک گیا
فرمانِ باری پر
فرمانِ باری پر
زمین و آسماں حیراں تھے
اس طاعت گزاری پر
اس طاعت گزاری پر
رضا جوئی کی یہ صورت
نظر آئی نہ تھی اب تک
نظر آئی نہ تھی اب تک
یہ جرات پیشتر انساں نے
دکھلائی نا تھی اب تک
دکھلائی نا تھی اب تک
عجب بشاش تھے دونوں
رضائے رب عزت پر
رضائے رب عزت پر
تامل یا تذبذب کچھ نا
تھا دونوں کی صورت پر
تھا دونوں کی صورت پر
کہا فرزند نے اے باْپ
اسمٰعیلؑ صابر ہے
اسمٰعیلؑ صابر ہے
خدا کے حکم پر بندہ پئے
تعمیل حاضر ہے
تعمیل حاضر ہے
مگر آنکھوں پر اپنی آپ
پٹی باندھ لیجے گا 12
پٹی باندھ لیجے گا 12
مرے ہاتھوں میں اور پیروں
میں رسی باندھ دیجے گا
میں رسی باندھ دیجے گا
مبادا آپ کو صورت پہ میری رحم آ جائے
مبادا میں تڑپ کر چھوٹ
جاؤں ہاتھ تھرائے
جاؤں ہاتھ تھرائے
پسر کی بات سن کر باپ نے
تعریف فر مائی
تعریف فر مائی
یہ رسی اور پٹی باندھنی
ان کو پسند آئی
ان کو پسند آئی
ہوئے اب ہر طرح تیار
دونوں باپ اور بیٹا
دونوں باپ اور بیٹا
چھری تھامی پدر نے اور
پسر قدموں میں آ لیٹا
پسر قدموں میں آ لیٹا
پچھاڑا اور گھٹنا سینہ
معصوم پر رکھا
معصوم پر رکھا
چھری پتھر پہ رگڑی ہاتھ
کو حلقوم پر رکھا
کو حلقوم پر رکھا
زمیں سہمی پڑی تھی ،
آسماں ساکن تھا بیچارہ
آسماں ساکن تھا بیچارہ
نہ اس سے پیشتر دیکھا
تھا یہ حیرت کا نظارہ
تھا یہ حیرت کا نظارہ
پدر تھا مطمئن بیٹے کے چہرے
پر بحالی تھی
پر بحالی تھی
چھری حلقوم اسمٰعیلؑ پر
چلنے ہی والی تھی
چلنے ہی والی تھی
مشیت کا مگر دریائے رحمت
جوش میں آیا
جوش میں آیا
کہ اسمٰعیلؑ کا اک
رونگٹا کٹنے نہیں پایا
رونگٹا کٹنے نہیں پایا
ہوئے جبریلؑ نازل اور
تھاما ہاتھ حضرت کا
تھاما ہاتھ حضرت کا
کہا بس ، امتحاں مقصود
تھا ایثار و جرات کا
تھا ایثار و جرات کا
اطاعت اور قربانی ہوئی منظورِ یزدانی 13
جزا یہ ہے کہ جنت سے یہ
برا آگیا ہے بہر قربانی
برا آگیا ہے بہر قربانی
ہمیشہ کے لئے اس خوابِ
صادق کا ثمر لیجے
صادق کا ثمر لیجے
اسی برے کو بیٹے کے عوض قربان کر دیجے
مٹی قربانی انسان اسمٰعیلؑ
کے صدقے
کے صدقے
حیات نو ملی ایمان کی تکمیل
کے صدقے
کے صدقے
خطاب اس دن سے اسمٰعیلؑ
نے پایا ذبیح اللہ
نے پایا ذبیح اللہ
خدا نے آپ ان کے حق میں
فرمایا ، ذبیح اللہ 14
فرمایا ، ذبیح اللہ 14
بشارت خواب میں پائی کہ اٹھ ہمت کا ساماں کر
Reviewed by WafaSoft
on
August 26, 2019
Rating:
No comments: