حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ کی ہجرت
ہوئی یہ آتش نمرود تختہ
باغ جنت کا
باغ جنت کا
ہوا الہام ابراہیمؑ کو
بابل سے ہجرت کا
بابل سے ہجرت کا
کہ یہ بھی خدمت تبلیغ
کا اک پاک حیلہ ہے
کا اک پاک حیلہ ہے
سفر کہتے ہیں جس کو
کامرانی کا وسیلہ ہے
کامرانی کا وسیلہ ہے
مشیت تھی کہ ابراہیمؑ سے
کچھ کام لینا تھا
کچھ کام لینا تھا
انہی ہاتھوں سے بھر کر
معرفت کے جام دینا تھا
معرفت کے جام دینا تھا
وطن کو چھوڑ کر نکلا
خدائے پاک کا پیارا
خدائے پاک کا پیارا
برادر زادہ تھا ہمراہ یا
تھیں حضرتِ ساراؓ
تھیں حضرتِ ساراؓ
اندھیری شب کے دامن سے مہِ
تاباں نکل آیا
تاباں نکل آیا
بحکمِ حق تعالیٰ جانبِ کنعاں نکل آیا
یہاں وعدہ کیا حق نے کہ
ہاں اے بندہِ ذیشاں
ہاں اے بندہِ ذیشاں
تری اولاد کی قسمت میں
ہے یہ خطۂ کنعاں
ہے یہ خطۂ کنعاں
مقدر ہو گئی اولاد میں
دارین کی شاہی
دارین کی شاہی
تو پیغمبر دیار مصر کی
جانب ہوا راہی
جانب ہوا راہی
یہ ایسا دور تھا انسان
سب کافر ہی کافر تھے
سب کافر ہی کافر تھے
زمیں آباد تھی اللہ کے بندے
مسافر تھے
مسافر تھے
ہوئی یہ آتش نمرود تختہ باغ جنت کا
Reviewed by WafaSoft
on
August 26, 2019
Rating:


No comments: