Best Wall Stickers

آفتاب مضطر۔ کراچی

آفتاب مضطر۔ کراچی



’’ بلغ العلی بکمالہٖ‘‘۔۔۔
جوابی تبصرہ اور عروضی نکات




 گزشتہ دنوں برادرم و خواجہ تاش، عزیزاحسن صاحب نے ’’نعت رنگ‘‘ کا شمارہ نمبر۲۲ مرحمت فرمایا۔ عزیزاحسن خود مدرکِ نعت اور حزم و احتیاط سے نعت کہنے والے صاحب النظر ہیں۔ آپ ’’نعت رنگ‘‘ کی مجلس مشاورت کے اساسی ارکان میں سے بھی ہیں۔ نعتیہ ادب کے فروغ اور نعتیہ مضامین کو عصری تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کرنے میں عزیزی صبیح رحمانی اور عزیزاحسن کی مساعی جمیلہ کے باعث ’’نعت رنگ‘‘ وقیع جرائد میں شمار ہوتا ہے۔ نیز یہ کہ ڈاکٹر ظفر اقبال، ڈاکٹرریاض مجید، ڈاکٹر معین الدین عقیل و دیگر صاحبانِ علم کی ’’نعت رنگ‘‘ میں مشاورت اسے مزید باوقار بناتی ہے۔ مطالعہ کے دوران کتابی سلسلہ میں شامل خطوط پر سرسری نظر ڈالی تو چند ایک جگہ ٹھہرنا پڑا کہ معاملہ ایک منظوم سیرت پاک کی کتاب ’’بلغ العلی بکمالہ‘‘ پر تبصرے کا تھا، جس میں صاحبِ تخلیق خورشید ناظر صاحب پر اور تخلیق کے مندرجات پر عارف منصور صاحب نے اپنے تبصرے میں خامہ فرسائی کی تھی، جس کے جواب میں پروفیسر عمران صاحب، پروفیسر منور عازی صاحب اور کامران جاوید عرفانی صاحب نے، عارف منصور کے ’’نعت رنگ‘‘ شمارہ نمبر۲۱ میں شامل تبصرے پر اپنے زریں خیالات رقم کیے ہیں۔
اوّل تو یہ کشش کہ اوّل الذکر دونوں حضرات ماشاء اللہ پروفیسر اور پروفیسر ڈاکٹر کے سابقوں کے ساتھ اپنی شناخت رکھتے ہیں، سو نظر ٹھہر گئی کہ نظر کا تقاضا بھی ٹھہرنے کا تھا اور یہ کہ اتنے معتبر سابقے نام کا حصہ ہوں اور ان کی رائے سے مجھ جیسا ادب کا طالب علم مستفید نہ ہو۔ سو ٹھہر ٹھہر کر تینوں خطوط کے مندرجات سے اپنے علم کی پیاس بجھائی۔ دوم کشش کا سبب ان خطوط کے متن میں شامل عروضی بحث نے بالخصوص متوجہ کیا۔ اب صورتِ حال یوں بنی کہ عارف منصور کہ جنھیں یہ خاکسار ۸۰ء کی دہائی سے جانتا، مشاعروں میں شریک ہوتا اور وقتاً فوقتاً گفت و شنید بھی کرتا رہا ہے، سو اس حوالہ نے بھی تینوں مدرکان فن کے خطوط پر خصوصی توجہ کا شائق کردیا۔
غرض یہ کہ خطوط کے مندرجات اور تمام حضرات مذکورہ کے زریں خیالات، نیز علم عروض سے طالب علمانہ دلچسپی نے مائل کیا کہ بھائی عزیزاحسن سے تبادلہ خیال کیا جائے (عزیزاحسن اور میں ان دنوں اپنے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالات ایک ہی جامعہ، جامعہ کراچی سے مکمل کررہے ہیں، نیز ہم حضرت فداؔ خالدی، دہلوی، جانشین بیخودؔ دہلوی کے حلقہ تلامذہ میں شامل اور اس پر فاخر ہیں) بھائی عزیزاحسن کو فون کیا اور مذکورہ خطوط کے تبصرہ پر تبصرہ پر تبادلہ خیال کیا۔ اس کے عروضی معاملات سے دلچسپی کے باعث اور عزیزاحسن کے علم میں یہ بات ہونے کے سبب کہ میرا پی ایچ ڈی مقالہ ’’اردو کا عروضی نظام اور عصری تقاضے‘‘ ہے، انھوںنے اس سلسلہ میں میری ناچیز رائے جاننا چاہی تو میں نے اجمالاً کچھ تفصیل عرض کردی۔ عزیزاحسن بھائی نے مجھ خاکسار اور علم عروض کے طالب علم کو اپنی رائے مضمون کی صورت میں پیش کرنے کی پیش کش کی اور بعدازاں ’’نعت رنگ‘‘ کے مرتب اور میرے خواجہ تاش عزیزم صبیح رحمانی نے بھی اسی حکم کی تعمیل پر مہر ثبت کردی۔ سو میں طالب علمانہ کوشش کے لیے دونوں حضرات سے مضمون کا وعدہ کر بیٹھا کہ اس میں مجھ ناچیز کی دلچسپی کا سامان بھی تھا اور احباب کی محبت بھرے حکم کی تعمیل کا عندیہ بھی، سو بہ قول مجید امجد ’’جو تیرا حکم، جو تیری رضا، جو تو چاہے‘‘ کے مصداق رائے حاضر ہے۔
میری رائے میں پروفیسر عمران صاحب نے خط نما تبصرے کی ابتدا ہی نہایت جذباتی انداز سے کی ہے جو کسی پروفیسر مبصر یا صاحبِ نقد و نظر کے لیے سوالیہ نشان بناتا ہے۔ حوالہ کے لیے ’’نعت رنگ‘‘ میں پروفیسر صاحب کے خط کی دوسری سطر تا چھٹی سطر ملاحظہ فرمائیں۔ مزید حوالے کے لیے صفحہ ۵۲۰ کے دوسرے پیراگراف کی سطور بھی دیکھیے۔ میرے خیال میں پروفیسر صاحب شاید جذبۂ ایمانی اور نعت سے جذباتی عقیدت کے باعث سیلِ جذبات میںبہہ گئے۔ اسی جذباتیت یا جذبۂ حبّ نبیﷺ میں پروفیسرڈاکٹر منور غازی صاحب نے بھی عارف منصور کے اظہارِخیال کو ’’خصوصی جذبات‘‘ یعنی بین السطور میں عناد یا پَرخاش سے تعبیر کردیا۔ (بحوالہ: ص۵۲۱، پیراگراف ۲ کی آخری چھہ سطور)
صاحب موصوف کے جذبہ شعری کی جذباتیت صفحہ۵۲۷ کے آخری حصے میں تاب ناک ہے جس میں انھوںنے تبصرہ نگار اور مرتب ’’نعت رنگ‘‘ یعنی صبیح رحمانی کو چند ’’معروضات‘‘ گوش گزار کرکے گو شمالی کی حد تک متنبہ کردیا ہے۔ اللہ ہمیں صاحبانِ فہم و ذکا اور وہ بھی پروفیسر گوش گزار کرکے گو شمالی کی حد تک متنبہ کردیا ہے۔ اللہ ہمیں صاحبانِ فہم و ذکا اور وہ بھی پروفیسر / پروفیسر ڈاکٹر جیسے صاحبان کی جذباتیت سے محفوظ رکھے۔ بہ قول بہادر شاہ ظفر:
ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا ہو وہ کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی، جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا
یہاں تھوڑے تصرف سے شعر میں (عیش) کے بجائے (غیض) استعمال کرکے اپنے دونوں صاحبانِ علم سے ’’جان کی امان پائوں تو کچھ عرض کروں‘‘ کے مصداق اپنی طالب علمانہ معروضات بسلسلہ عروض پیش کرنے سے بیش تر ہی پیشگی معانی کا خواست گار ہوں۔ کیوںکہ اب تک تو مجھ ناچیز نے محض دونوں صاحبان کے ملفوظات ہی حوالہ کے بہ طور پیش کیے ہیں اور اس پر ان کی ناراضی کی معقول وجہ ہے بھی نہیں کہ بہ قول شخصے:
آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
لیکن اگلے مرحلے میں تو ڈاکٹر و پروفیسر حضرات کی عروض دانی اور عروض فہمی پر گفتگو کا معاملہ درپیش ہے، لہٰذا دونوں مدرکانِ علمِ عروض سے بالخصوص اور پروفیسر یا ڈاکٹر کا سابقہ نہ رکھنے والے کامران جاوید عرفانی صاحب سے تو زیادہ لجاجت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ باللہ وللہ ’’سچ کہوںگا اور سچ کے سوا کچھ نہ کہوںگا‘‘۔ سو عرض ہے کہ عروضی معاملات میں اگر آپ تینوں حضرات مجھ سے متفق نہ ہوں، (جو ناگزیر بھی نہیں) تو براہِ کرم مجھے اپنے بداندیشوں میں شمار مت کیجے گا، کیوںکہ یہ سب کچھ اوّل تو طالب علمانہ کوشش کے تحت کر رہا ہوں، دیگر یہ کہ عروض کے طالب علموں یا عروض کے مستقبل قریب تحقیق کار کے لیے ریکارڈ کی درستی کے باعث ان معروضات کو پیش کرتا ضروری سمجھتا ہوں۔ اُمید ہے آپ صاحبان فراخ دلی اور ذہنی کشادگی سے کام لیںگے اور ان معروضات میں خامیوں کی صورت میں مجھ کم علم کی ڈاکٹرانہ و پروفیسرانہ رہنمائی فرمائیںگے۔ نیز یہ کہ آپ حضرات اس فنی و عروضی بحث میں ذاتیات سے ماورا ہوکر حصہ لیںگے، کیوںکہ میں بدقسمتی سے آپ تینوں مدرکان فن اور صاحبانِ علم سے ذاتی طورپر پہلی بار متعارف ہوا ہوں اور اپنی تقدیر سے شاکی ہوں کہ آپ سے سابقہ معرفت حاصل نہ کرکے اب تک آپ حضرات کے تبحر علمی سے کیوں محروم رہا۔ اس لیے ہم چاروں کا باہم دگر ذاتی یورش کا کوئی جواز ہے بھی نہیں۔ اللہ بس باقی ہوس!
سو اب ’’جان کی امان پا کر‘‘ اور سچ کے سوا کچھ نہ کہنے کا عہد کرکے خطوط میں شامل حضرات کے عروضی نکات کا جائزہ پیش خدمت ہے۔ بات پروفیسر عمران صاحب سے شروع کرتے ہیں۔ آپ نے لفظ (نہ) اور (کہ) کے عروضی یا تلفّظی استعمال کے بارے میں فرمایا:
نہ اور کہ کے بارے میں ان کے خیالاتِ عالیہ کی تردید کے لیے چند اشعار درج کرتا ہوں جن میں خط کشیدہ الفاظ کو اساتذہ نے دو حرفی استعمال کیاہے۔٭۱
اس ضمن میں آپ نے سند کے بہ طور محض اشعار اور شاعر کا نام پیش کرنے پر اکتفا کیا لیکن کہیں بھی عروضی قواعد کی مدد سے دونوں الفاظ (نہ/کہ) کے استعمال اور تلفظ کو ثابت نہیں کیا۔ لہٰذا آپ نے جن اساتذہ کے اشعار سند کے طورپر پیش کیے ہیں، میں خاکسار ان تمام اساتذہ کے چند اشعار مع آپ کے پیش کردہ اشعار کی تقطیع سے ان الفاظ کے دو حرفی کے بجائے یک حرفی استعمال کی اِمثال اور اسناد پیش خدمت کرتا ہوں:
آپ نے سند میں میر سوزؔ کا یہ شعر پیش کیا:
لے پھرا میں کہاں کہاں دل کو
نہ لگائے گیا جہاں دل کو
سوزؔ کے مزید اشعار پیش کرتا ہوں:
وہ ساعت کون سی تھی یاالٰہی
کہ جس ساعت دو چار اس سے ہوا تھا
میں کاش اس وقت آنکھیں موند لیتا
کہ میرا دیکھنا مجھ پر بلا تھا
نہ تھا اس وقت جز اللہ کوئی
ولے یہ سوز پہلو میں کھڑا تھا
نہ بھائی مجھے زندگی نہ بھائی
مجھے مار ڈالو، مجھے مار ڈالا
اگر وہ نہ آوے تمھارے کہے سے
تو منّت کرو، گھیرے گھیرے بُلا لو
اگرچہ خفا ہو کے وہ گالیاں دے
تو دم لے رہو، کچھ نہ بولو، نہ چالو٭۲
ایک ڈر تھا کہ جی بچے نہ بچے
دوسرے غم نے کھائی میری جان
نہ کہ بیٹھے ہو پائوں پھیلا کر
اپنے گھر جائو خانہ آباداں
پھر ہے نے زلف و خال زیر زلف
چار دن تو بھی کھیل لے چوگاں
ہوا دل کو میں کہتا کہتا دوانا
پر اس بے خبر نے کہا کچھ نہ مانا
گیا ایک دن اس کے کوچے میں ناگاہ
لگا کہنے چل بھاگ رے پھر نہ آنا
٭
گریباں میں ذرا منھ ڈال دیکھو
کہ تم نے اس وفا پر ہم سے کیا کی
گو کہتا ہے کہ بس بس چونچ کر بند
وفا لایا ہے دت، تیری وفا کی!
عدم سے زندگی لائی تھی بہلا
کہ دنیا جائے ہے اچھی فضا کی
جنازہ دیکھتے ہی سن ہوا دل
کہ ہے ظالم! دغا کی رے دغا کی
٭
سارا دیوانِ زندگی دیکھا
ایک مصرع نہ انتخاب ہوا
آہ ظالم نے کچھ نہ مانی بات
میں تو اپنا سا جی چلا گزرا
رات کو نیند ہے نہ دن کو چین
ایسے جینے سے اے خدا گزارا



جان کے کیا کروں بیاں احسان
یہ نہ ہوتا تو مر گیا ہوتا٭۳
آیئے پہلے صاحب تبصرہ کے پیش کردہ شعر کی تقطیع کر دیکھیں:
یہ بحرِ خفیف مسدس مخبون مقصور / محذوف یعنی ’’فاعلاتن مفاعلن فعلن‘‘ کی تقطیع سے مترشح ہوگا۔
لے پھرامیں کہاںکہاں دل کو
نہ لگائے گیاجہاں دل کو
فاعلاتن مفاعلن فعلن
فِعِلاتن مفاعلن فعلن
دراصل اس میں بحر میں چار زحافات آتے ہیں۔ (۱) خبن (۲) حذف (۳) قصر (۴)تشعیث ]جس سے درج ذیل اوزان حاصل ہوتے اور سب کا اجتماع جائز ہے۔ (۱) فاعلاتن مفاعلن فعلن (بہ سکون عین) (۲) فاعلاتن مفاعلن فعلن (بہ حرکت عین) (۳) فعلاتن مفاعلن فعلن / فعلن (۴)فعلاتن مفاعلن فعلان /فعلان[ اور مذکورہ بالا شعر میں خبن کا زحاف استعمال کیا گیا ہے جس سے (فاعلاتن) تبدیل ہوگیا (فعلاتن) میں اور یوں لفظ (نہ) کا ’’ہ‘‘ گر گیا۔ لہٰذا لفظ (نہ) یک حرفی استعمال ہوا ہے نہ کہ دو حرفی۔
اسی طرح دیگر اشعار کی تقطیع میں درج بالا زحافات کی شکل بھی دیکھی جاسکتی ہے، مثلاً:
ایک ڈر تھا کہ جی بچے نہ بچے
دوسرے غم نے کھائی مے ری جاں
فاعلاتن مفاعلن فعلن (بہ حرکت عین)
فاعلاتن مفاعلن فعلان
نہ کہ بیٹھے ہو پائوں پھیلا کر
فِعِلاتن مفاعلن فعلن
اپنے گھر جائو خانہ آباداں
اس شعر کی تقطیع سب سے پہلے پیش کردہ تقطیع کے برعکس ہے یعنی مصرع اولیٰ کی تقطیع پر ثانی اور ثانی پر اُولیٰ کی تقطیع کر دیکھی جاسکتی ہے۔
عروض دان، تمام اشعار کی تقطیع مندرجہ بالا چار زحافات کی روشنی میں کرسکتے ہیں اور اُمید ہے کہ محترم تبصرہ نگار بھی اسی قاعدہ پر پرکھ لیںگے کہ نہ /کہ ایک حرفی استعمال ہوئے ہیں یا دو حرفی۔ غور کریں تو خود میرسوزؔ (نہ / نا) کے فرق سے واقف تھے، لہٰذا درج ذیل شعر میں دیکھیے:
پھر ہے نے زلف و خال زیرِ زلف
چار دن تو بھی کھیل لے چوگاں
ملاحظہ فرمایئے سوز نے لفظ (نہ) کے بجائے مصرع اولیٰ میں (نے) استعمال کیا ہے۔ یعنی میرسوز نہ اور نے کے فرق کو جانتے تھے اور بشمول میرسوز تمام اساتذہ نے کہ/نہ کو یک حرفی ہی باندھا ہے۔ سوز کے دیگر اشعار میں بحر ہزج مسدس محذوف/ مقصور کارفرما ہے، جس کی تقطیع درج ذیل ہے:
وہ ساعت کو ن سی تھی یا الاہی
یہ تیرا عش ق کب کا آ ش نا تھا
مفاعی لن مفاعی لن فعولن
مفاعی لن مفای لن فعولن
کہ جس ساعت۔ دچاراس سے۔ ہوا تھا
کہاں کا جا۔ ن کو میری دھرا تھا
باقی تمام اشعار درج بالا تقطیع پر عرض کرکے دیکھے اور پرکھے جاسکتے ہیں، ملاحظہ ہوں:
میں کاش اس وقت آنکھیں موند لیتا
کہ میرا دیکھنا مجھ پر بلا تھا
نہ تھا اس وقت جز اللہ کوئی
ولے یہ سوز پہلو میں کھڑا تھا
ولے کیا آن تھی اللہ اللہ۔۔۔!
کہ جس غمزے سے چھاتی پر چڑھا تھا
گریباں میں ذرا منھ ڈال دیکھو
کہ تم نے اس وفا پر ہم سے کیا کی
تو کہتا ہے کہ بس بس چونچ کر بند
وفا لایا ہے، دت تیری وفا کی!
عدم سے زندگی لائی تھی بہلا
کہ دنیا جائے ہے اچھی فضا کی
جنازہ دیکھتے ہی سن ہوا دل
کہ ہے ظالم! دغا کی، رے دغا کی
محولہ بالا اشعار اور پوری غزل پر ذرا غور فرمایئے اور تقطیع کر دیکھیے! تمام کے تمام مصارع میں (کہ/نہ) ہر جگہ یک حرفی استعمال ہوئے ہیں اور سب کے سب میرسوز کے ہیں۔ اُسی میر سوز کے کہ جس کا شعر صاحبِ تبصرہ نگار نے بہ طور حوالہ و سند پیش کیا ہے۔ گویا ہمارے فاضل مبصر نے سوزؔ کے شعر کو بحرِ خفیف کے وزن (فاعلاتن مفاعلن فعلن) پر تقطیع تو ضرور کی، لیکن مصرع ثانی کے جزو (ابتدا) کو بھی ’’فاعلاتن‘‘ پر تقطیع کر گئے اور نہ/کہ جیسے الفاظ کو دو حرفی سمجھ لیا۔ اس ضمن میں ہمارے صاحبِ نظر تبصرہ نگار یعنی پروفیسر عمران، بحرِ خفیف کے زحاف (خبن) سے صرف نظر کر گئے۔ اس سلسلہ میں ان کے پیش کردہ حوالہ میں میرحسن کا شعر بھی مصرع اولیٰ کے جز (صدر) میں اسی زحاف کا آئینہ دار تھا، جو یہاں بھی علمِ عروض کا حوالہ دینے والے فاضل تبصرہ نگار کی نظر میں نہ آسکا، جس کی تقطیع درج کی جارہی ہے، ملاحظہ ہو:
نہ ملا وہ نفاق کے مارے
کیا کریں ہم وفاق کے مارے
نہ ملا وہ نفاق کے مارے
کیاکریںہم وفاق کے مارے
فعلاتن مفاعلن فعلن
فاعلاتن مفاعلن فعلن
گویا مذکورہ محولہ بالا شعر میں میرحسن نے بھی (نہ) کو یک حرفی ہی استعمال کیا ہے جوکہ درست استعمال ہے نہ کہ دو حرفی، کہ جو صریحاً غلط ہے اور شعر کو ناموزوں کرتا ہے۔ آیئے ان الفاظ کا استعمال میرحسن کے دیگر اشعار میں بھی دیکھتے ہیں:
جو چاہے آپ کو تو اسے کیا نہ چاہیے
انصاف کر تو چاہیے پھر یا نہ چاہیے
مجھ ایسا تجھ کو چاہے نہ چاہے عجب نہیں
تجھ سا جو چاہے مجھ کو تو پھر کیا نہ چاہیے
اب جیسے اک حسن سے ہنسے تھے تو ہنس لیے
پر اس طرح ہر ایک سے ٹھٹھا نہ چاہیے٭۴
یہ پوری غزل بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف / مقصور میں ہے۔ جس کی تقطیع، مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن۔
جوچاہے آپ کوتو اسے کیانہ چاہیے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
ملاحظہ کیجیے کہ پوری غزل کی ردیف (نہ چاہیے) میں لفظ (نہ) تقطیع کے مطابق یک حرفی شمار کیا جائے گا، نہ کہ فاضل تبصرہ نگار کے بہ قول دو حرفی۔
آیئے بحرخفیف میں کہ جس کا تفصیلی ذکر مع چاروں زحاف کے گزشتہ صفحات میں آچکا ہے اس بحر میں میرحسن کی پوری غزل کا تجزیہ کرتے اور الفاظ (نہ/کہ) کے استعمال کو پرکھتے ہیں۔ ملاحظہ فرمایئے:
ہم نہ نکہت ہیں، نہ گل ہیں، جو مہکتے جاویں
آگ کی طرح جدھر جاویں، دہکتے جاویں
اے خوشامست!کہ تابوت کے آگے جس کے
آب پاشی کے بدل مئے کو چھڑکتے جاویں
وقت اب وہ ہے کہ ایک ایک حسنؔ ہوکے بتنگ
صبر و تاب و خرد و ہوش کھسکتے جاویں
٭
عشق کا راز گر نہ کھل جاتا
اس قدر تو نہ ہم سے شرماتا
زندگی نے وفا نہ کی ورنہ
میں تماشا وفا کا دکھلاتا
سب یہ باتیں ہیں چاہ کی ورنہ
اس قدر تو نہ ہم پہ جھنجھلاتا
میں نہ سنتا کسی کی بات حسنؔ
دل جو باتیں نہ مجھ کو سنواتا٭۵
٭
حسن میں جب تئیں گرمی نہ ہو جی دیوے کون
شمعِ تصویر کے کب گرد پتنگ آتے ہیں
وقتِ رخصت دل نے اتنا ہی کہا رو کر کہ بس
اب پھر آنے کی مرے تو آرزو مت کیجیئو
ہمدم نہ پوچھ مجھ سے، غرض اک بلا ہے وہ
جو روبرو ہو اس کے سوجانے کہکیاہے وہ٭۶
ملاحظہ فرمایئے کہ میرحسن کی مشہور غزل بحر رمل مثمن مخبون محذوف / مشعث در تقطیع
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن / فعلان:
ہم نہ نکہت، ہیں نہ گل ہیں جو مہکتے جاویں
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
آگ کی طر۔ ح جدھر جا۔ و دہکتے۔ جاویں
جب کہ مقطع اور سر مقطع میں (کہ/نہ) کے الفاظ کو یک حرفی استعمال کیا گیا ہے۔
جب کہ محولہ بالا شعر (فرد) بحر رمل مثمن سالم محذوف میں ہے، یعنی:
وقتِ رخصت دل نے اتنا ہی کیا رو کر کہ بس
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
اب پھر آنے۔ کی مرے تو۔ آرزو مت۔ کیجیئو
جب کہ آخری شعر بحر مضارع میں ہے کہ جس کا حوالہ گزشتہ اوراق میں آچکا ہے یعنی مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن (ہمدم نہ پوچھ مجھ سے، غرص اک بلا ہے وہ)۔
آیئے اب موصوف تبصرہ نگارنے خواجہ میردردؔ کے جس شعر کا حوالہ دے کر (نہ /کہ) کو دو حرفی ثابت کیا ہے، اس شعر کا بھی تجزیہ کر دیکھیں۔ آپ نے درج ذیل شعر بہ طور سند پیش کرکے (نہ/کر) کو دو حرفی لفظ ثابت کیا ہے:
جگ میں کوئی نہ ٹک ہنسا ہوگا
کہ نہ ہنسنے میں رو دیا ہوگا
اس سلسلہ میں عرض ہے کہ یہاں بھی بحر خفیف کے زحاف (خبن) کی جلوہ گری نے فاضل مبصر کو التباس میں مبتلا کردیا۔ یعنی مبصر کی توجیہ کو اس شعر میں درست مان لیا جائے تو مصرع اُولیٰ میں (نہ) یک حرفی ثابت ہوتا ہے اور مصرع ثانی میں اگر (کہ) کو (کے) کے وزن پر رکھا جائے تو بھی اگلا لفظ یعنی (نہ) یک حرفی آتا ہے یعنی مبصر صاحب کا مقصد ہے ’’چت بھی میری پٹ بھی میری‘‘ کو بلا سند و استناد درست مان لیا جائے۔ آیئے اس ضمن میں حوالہ کے طورپر خواجہ میردردؔ کے ہی دیگر اشعار پیش کیے جائیں اور ان کا تجزیہ بھی کر دیکھ لیا جائے۔ درد کی غزل ملاحظہ فرمائیں کہ جس کی ردیف ہی (نہ تھا) پر مشتمل ہے:
قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دُور نہ تھا
پر ترے عہد کے آگے تو یہ دستور نہ تھا
باوجودیکہ پر و بال نہ تھے آدم کے
وہاں پہنچا کہ فرشتے کا بھی مقدور نہ تھا
محتسب آج تو میخانے میں تیرے ہاتھوں
دل نہ تھا کوئی جو شیشے کی طرح چور نہ تھا
نہ رہ جائے کہیں تو زاہدا محروم رحمت سے
گنہ گاروں میں سمجھا کر تو اپنی بے گناہی کو
نہ لازم نیستی اس کو نہ ہستی ہی ضروری ہے
بیاں کیا کیجیے اے دردؔ ممکن کی تباہی کو
٭
وحدت میں تیری حرف دوئی کا نہ آسکے
آئینہ کیا مجال تجھے منھ دکھا سکے
میں وہ فتادہ ہوں کہ بغیر از فنا مجھے
نقشِ قدم کی طرح نہ کوئی اُٹھا سکے
یارب یہ کیا طلسم ہے ادراک و فہم یاں
دوڑے ہزار آپ سے باہر نہ جاسکے
مستِ شراب عشق وہ بے خود ہے جس کو حشر
اے دردؔ چاہے لاے بخود پھر، نہ لاسکے٭۷
٭
تجھ سے کچھ دیکھا نہ ہم نے جز جفا
پر وہ کیا کچھ ہے کہ جی کو بھا گیا
میں نے تو ظاہر نہ کی تھی دل کی بات
پر مری نظروں کے ڈھب سے پا گیا
٭
تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا
برابر ہے دنیا کو دیکھا، نہ دیکھا
مرا غنچۂ دل ہے وہ دل گرفتہ
کہ جس کو کسو نے کبھو وا نہ دیکھا
تغافل نے تیرے یہ کچھ دن دکھائے
ادھر تو نے لیکن نہ دیکھا، نہ دیکھا
شب و روز اے دردؔ در پے ہو اس کے
کسو نے جسے یاں نہ سمجھا، نہ دیکھا
ان تمام اشعار میں (نہ/کہ) کو ہمارے فاضل تبصرہ نگار اور نکتہ دانِ علم عروض خود پرکھ لیںگے، کہ گزشتہ اوراق میں ان کی متعلقہ بحور کی تقطیع کردی گئی ہے۔ اب بعض درج ذیل شعر کی تقطیع کردی جاتی ہے جوکہ گزشتہ حوالوں میں نہیں ہے یعنی درج ذیل شعر کی:
نہ رہ جائے کہیںتوزا ہدا محرو م رحمت سے
مفاعی لن مفاعی لن مفاعی لن مفاعی لن
اور شعر دوم کے مصرع اولیٰ کی تقطیع کہ جس میں لفظ (نہ) دو بار آیا اور دونوں بار یک حرفی ہے:
نہ لازم نے س تی اس کو نہ پستی ہی ضروری ہے
مفاعی لن مفاعی لن مفاعی لن مفاعی لن
یہ شعر بحر ہزج مثمن سالم میں ہے اور اب دردؔ کے ہی ایک شعر سے میرسوزؔ کے حوالہ ہی کی طرح (نہ / نے) کا فرق حاضر ہے، یعنی:
نہ برق ہیں نہ شرر ہم نہ شعلہ نے سیماب
وہ کچھ ہیں پر کہ سدا اضطرار رکھتے ہیں٭۸
محترم تبصرہ نگار کے لیے میرسوزؔ کے گزشتہ حوالہ و سند والا شعر ہی کافی تھا کہ اب محولہ بالا میردردؔ کے شعر نے قول فیصل کا کردار ادا کردیا ہے۔ ملاحظہ فرمایئے کہ محولہ بالا شعر میں سہ بار (نہ) اور اس کے ساتھ ہی (نے) کا استعمال مترشح کرتا ہے کہ میردردؔ بھی جانتے تھے کہ اب (نہ) کا استعمال (دو حرفی) ہوگا اور شعر ناموزوں ہوجائے گا سو (نہ سیماب) کے بجائے (نے سیماب) استعمال میں لائے اور مزید یہ کہ مصرع ثانی میں لفظ (کہ) یک حرفی استعمال کیا۔ (تقطیع گزشتہ اوراق میں کی جاچکی ہے)۔
اب تبصرہ نگار کے پیش کردہ حوالہ جاتی شعر کا تجزیہ کرتے ہیں جو حفیظؔ جون پوری کا ہے نیز یہ کہ یہ خاکسار، حفیظؔ کے مزید اشعار سے ثابت کرے گا کہ (نہ/کہ) یک حرفی ہیں، ’’نا‘‘ کہ دو حرفی۔ تبصرہ نگار نے درج ذیل شعر بہ طور سند پیش کیا:
ٹھہری ہے اب تو آپ کے وعدے پہ زندگی
وہ زندگی کہ جان ہے جس سے عذاب میں
لہٰذا عرض ہے کہ یہ شعر بحر مضارع میں ہے (تقطیع پیش کی جاچکی ہے) اور خود فاضل تبصرہ نگار انصاف کریں کہ لفظ (کہ) کے حرفی ہے؟ آیئے اب یہ خاکسار حفیظؔ کی مشہور زمانہ غزل سے سند پیش کرنے کی جسارت کرتا ہے:
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھائوں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
میکشوں کو نہ کبھی فکر کم و بیش ہوئی
ایسے لوگوں کی طبیعت بھی غنی ہوتی ہے
پی لو دو گھونٹ کہ ساقی کی رہے بات حفیظؔ
صاف انکار میں خاطر شکنی ہوتی ہے٭۹
٭
دل اس لیے ہے دوست کہ دل میں ہے جائے دوست
جب یہ نہ ہو بغل میں ہے دشمن بجائے دوست
مٹنے کی آرزو ہے اسی رہگزار میں
اتنے مٹے کہ لوگ کہیں خاک پائے دوست
ہمارے پروفیسر موصوف اگر ٹھنڈے دل اور کشادہ دماغی سے فیصلہ کریں تو خاکسار نے حفیظ کی غزلیات سے بھی سند پیش کردی ہیں اور دیکھیں کہ (کہ/نہ) کو حفیظؔ کس طرح یک حرفی استعمال کررہے ہیں (تقطیع گزشتہ سے پیوستہ) آخر میں تبصرہ نگار موصوف پروفیسر صاحب کے پیش کردہ حوالہ جاتی شعر موسوم بہ ناصرؔکاظمی کے شعر کا تجزیہ نیز خاکسار کی طرف سے ناصرؔ کے مزید اشعار پیش کرکے بحث کو سمیٹنے کی کوشش کروںگا۔ (تلاش بسیار کے باوجود آزاد سہارن پوری کا کوئی دوسرا شعر دست یاب نہ ہوسکا، اس لیے آزاد کے حوالہ جاتی شعر کا ہی تجزیہ پیش کرسکوںگا)
سو پہلے پہل آزادؔ کے شعر کا تجزیہ کیے لیتے ہیں۔ فاضل پروفیسر صاحب نے آزاد کا درج ذیل شعر حوالہ کے طورپر پیش کیا۔ آیئے ملاحظہ فرمائیں:
نہ سمجھ مجھ کو رائیگاں نہ سمجھ
نہ سہی تیرے کام کا نہ سہی
لہٰذا محولہ بالا شعر میں بھی پروفیسر چوک گئے کہ مذکورہ شعر میں تو مصرع اولیٰ و ثانی دونوں کے ابتدائی رکن میں (خبن) کے زحاف کی کارفرمائی تھی، لیکن فاضل مبصر شاید عروض پر گرفت ڈھیلی کر گئے کیوںکہ اس شعر کی تقطیع تو اور زیادہ تکنیکی (technical) تھی، یعنی چار جگہ زحافات موجود تھے۔ تقطیع ملاحظہ فرمائیں:
نہ سمجھ مجھ کو رائیگاں نہ سمجھ
فِعِلاتُن مفاعلن فِعِلُنْ
نہ سہی تے ر کام کا نہ سہی
لہٰذا پروفیسر صاحب! انصاف کی نظر ڈالیے اور عروض کے سنجیدہ طالب علم یا مبتدی تحقیق کار کے لیے غلط یا غیرحقیقی تقطیع کی اٹکل پچو امثال یادگار چھوڑ جانے کے بجائے یا تو اپنے تسامحات کا کھلے دل سے اعتراف فرما لیجے یا مجھ کم علم اور عروض کے مبتدی طالب علم کے لیے رہنما بن کر میرے غلطی ہائے مضامین کی نشان دہی فرما کر ممنون فرمائیں۔
آیئے اب صاحب طرز شاعر ناصرکاظمی کے شعر کا تجزیہ اور مجھ ناچیز کی جانب سے ناصر کی مزید اشعار بہ طور امثال کا جائزہ لیں۔ پروفیسر صاحب نے بہ طور سند ناصر کا درج ذیل شعر پیش کیا، جس کی تقطیع بحر خفیف کے زحاف (خبن) کے بہ طور گزشتہ کئی اوراق اور محولہ بالا آزادؔ کے شعر میں دیکھی جاسکتی ہے۔
نہ ملا کر اُداس لو گوں سے
فِعِلاَتُنْ مفاعلن فعلن
حسن تیرا بکھر نہ جا ئے کہیں
فاعلاتن مفاعلن فِعِلُنْ
پروفیسر موصوف کے پیش کردہ حوالہ جاتی شعر میں (نہ) کے یک حرفی ہونے کا واضح اعلان ہے اور دونوں مصرعوں میں بہ بانگِ دہل ہے۔ آیئے ناصر کے کچھ اور اشعار خاکسار پیش کرتا ہے، ملاحظہ فرمایئے:
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوںگے کوئی ہم سا ہوگا
وہ ستارا تھی کہ شبنم تھی کہ پھول
ایک صورت بھی عجب یاد نہیں
دن کے ہنگاموں کو بے کار نہ جان
شب کے پردوں میں ہے کیاغورسے سن
آئنہ دیکھ کے حیران نہ ہو
نغمۂ آبِ صفا غور سے سن
عشق کو حسن سے خالی نہ سمجھ
نالۂ اہلِ وفا غور سے سن
یہ الگ بات کہ غم راس ہے اب
اس میں اندیشہ جاں تھا پہلے
اب وہ دریا نہ وہ بستی نہ وہ لوگ
کیا خبر کون کہاں تھا پہلے٭۱۰
قارئین کرام اور پروفیسر موصوف غور فرمائیں کہ ناصرکاظمی کے بہ طور حوالہ پیش کردہ تمام اشعار خاکسار نے نہایت عرق ریزی سے ایک ہی بحر میں تلاش کیے ہیں۔ یہ تمام اشعار بحر رمل مسدس مخبون محذوف / مقصور) اور مثعث محذوف/ مقصور میں منظوم ہیں۔ تقطیع درج ہے:
دائم آبا د رہے گی دنیا
فاعلاتن فِعِلاَتُنْ فعلن(بہ سکون عین)
ہم نہ ہوںگے کوئی ہم سا ہوگا
دن کے ہنگا م ک بے کا رن جان
فاعلاتن فعلاتن فعلان(بہ حرکت عین) ٭۱۱


ناصرؔکاظمی کے تمام مصرعے محولہ بالا تقطیع کے دونوں انداز پر پرکھے جاسکتے ہیں جو (نہ/کہ) کے یک حرفی ہونے پر دال ہیں، نہ کہ دو حرفی ہونے پر۔
محولہ بالا اسناد و امثال اور معروضات کے بعد یہ کج فہم اب پروفیسر ڈاکٹر منورغازی، مقیم (سعودی عرب) کے سامنے دست بستہ عرض کرتا ہے کہ خدا را! آپ بھی اور کامران جاوید عرفانی صاحب (محترم و مکرم) بھی نظر انصاف سے فیصل ہوں اور آئندہ صفحات میں آپ دونوں محترم حضرات کی آرا اور تبصرے پر تبصرہ مطلوب ہے، لہٰذا بہ قول غالبؔ پیشگی معذرت خواہی کا خواستگار ہوں کہ ’’ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طرف دار نہیں‘‘ (یہاں غالبؔ کے بجائے عارفؔ یعنی عارف منصور سمجھا جائے) نیز بہ قول غالبؔ، ناصحانہ نہیں، فدویانہ عرض ہے کہ ’’میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہے۔‘‘ عرض ہے کہ اوّل الذکر فاضل تبصرہ نگار صاحب نے کیوںکہ عروضی نکتہ دانی نہیں فرمائی تھی سو عروضی حوالہ جات اور اسناد سے انھیں قائل کرنے کی کوشش کی، لیکن آپ دونوں حضرات نے تو بہ طور خاص عروضی حوالہ جات اور امثال میں پیش کردہ اشعار کی تقطیع بھی فرمائی ہے، سو آپ کے حوالے سے محض آپ کی پیش کردہ تقطیع پر بات کرنی مقصود ہے۔ اُمید ہے پہلے حصے میں پیش کردہ سندی حوالہ جات سے آپ بھی اتفاق کریںگے یا بہ صورت دیگر مجھ کم فہم اور عروض کے مبتدی و ادب کے سنجیدہ طالب علم کے فروگزاشت اور تسامحات کی نشان دہی فرما کر ممنون و متشکر فرمائیں۔ اس سلسلہ میں پروفیسر ڈاکٹر منور غازی یوں رقم طراز ہیں:
’’خورشیدناظر صاحب نے۔۔۔ ثبوت کو پہنچی‘‘۔ مزید رقم طراز ہیں: یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ شاعر کو (وہ) کو (د) باندھنے کی اجازت ہے لیکن۔۔۔ یہی صورتِ حال الفاظ ’’نہ‘‘ اور ’’کہ‘‘ کے ساتھ یہ، جو، تو اور کئی دیگر الفاظ پر بھی صادق آتی ہے۔۔۔ خدائے سخن میرتقی میر کا صرف ایک شعر تقطیع کے ساتھ پیشِ خدمت ہے۔
(مکمل متن کے لیے ’’نعت رنگ‘‘ دیکھیے)
محترمہ پروفیسر ڈاکٹر موصوف نے میرؔ کے درج ذیل شعر کی تقطیع یوں فرمائی ہے:
تشنہ لب مر گئے ترے عاشق
نہ ملی ایک بوند پانی کی
فاعلن فاعلن مفاعی لن
فاعلن فاعلن مفاعی لن
شعر کی محولہ بالا تقطیع کے بعد ڈاکٹر صاحب نے چند سطور لکھ کر خود ہی فیصلہ فرما دیا اور میرؔ کے حوالہ سے نقش کالحجر نکتہ آفرینی بھی فرما دی، وہ مزید خامہ فرسا ہیں:
میری اس گزارش سے فن کا شعور رکھنے والے سبھی لوگ اتفاق کریںگے کہ وہ لفظ جو کسی شعر میں اپنے حقیقی وزن کے عین مطابق استعمال ہوا ہو اور جسے میرتقی میرؔ نے اس کے حقیقی وزن پر باندھا ہو اسے کون ناروا قرار دے سکتاہے۔
چلیے اچھا ہوا محولہ بالا سطور میں آپ نے خود میر کو ’’ثالث‘‘ بنا لیا ہے۔ گویا اگر میرؔ کے استعمالِ لفظی (نہ /کہ) کو میرؔ کے اشعار سے یک حرفی ثابت کر دیا جائے اور ڈاکٹر صاحب موصوف کی پیش کردہ تقطیع سے سند پیش کردی جائے تو یقینا پروفیسر ڈاکٹر موصوف فراخ دلی سے قبول کرلیںگے۔
تو آیئے! ڈاکٹر صاحب محترم کے پیش کردہ شعر کا عروضی تجزیہ کرتے ہیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے بحر متدارک اور بحرِ ہزج کے دونوں سالم ارکان یعنی فاعلن اور مفاعی لن بالترتیب کو بہ طور سند پیش کردہ شعر کا حقیقی وزن سمجھ لیا۔ حالاںکہ یہ اس کی غیرحقیقی تقطیع ہے۔ بہ قول مصنف ’’ارمغان عروض‘‘ یعنی کندن لال کندنؔ ’’غیرحقیقی تقطیع اسے کہتے ہیں کہ کوئی شعری پارہ صحیح بحر یا مزاحف بحر میں تقطیع نہ کیا گیا ہو بلکہ غیرعروضی ڈھنگ سے ارکان حاصل کرکے تقطیع کی گئی ہو تو وہ تقطیع غیرحقیقی زمرے میں آئے گی۔٭۱۲
گویا اگر کوئی اس شعر کی تقطیع (غیرحقیقی) فاعلاتن فعول مفعولن یا مفتعل مفتعل فعولن فع کرکے اس شعر کے وزن کا تعین کردے تو کیا محترمی ڈاکٹر پروفیسر منور غازی صاحب اسے قبول کرلیںگے۔ تقطیع حاضر خدمت ہے:
تشنہ لب مر گئے ت رے عاشق
تشنہ لب مرگئے ترے عا شق
فاعلاتن فعول مفعولن
مفتعل مفتعل فعولن فع
محترم ڈاکٹر صاحب نظر انصاف سے ملاحظہ فرمایئے اگر آپ کو دونوں غیرحقیقی تقطیع سے اتفاق ہے تو بتایئے کہ آپ کون سی ایک تقطیع قبول اور دوسری رد فرمایئے گا؟ اور اگر اپنی کی ہوئی تقطیع آپ کو حقیقی نظر آتی ہے تو براہِ کرم بحر کا نام ظاہر فرما کر تشنگانِ علم عروض کے طلبہ کی پیاس بجھایئے۔ اللہ اجر عطا فرمائے! اس پوری مشق کا ماحصل یہ ہے کہ میرؔ کا جو شعر ڈاکٹر صاحب موصوف نے بہ طور سند پیش کیا ہے وہ بحر خفیف کے اسی مزاحف وزن میں ہے، جس کی کافی تفصیل گزشتہ صفحات میں پیش کردی گئی ہے (تقطیع ملاحظہ فرما سکتے ہیں)۔
عالی قدر پروفیسر ڈاکٹر صاحب نے محض یہیں اکتفا نہیں کیا، بلکہ حفیظؔ جالندھری کا ایک اور شعر حوالہ کے طورپر پیش کرکے اس کی تقطیع کرکے لفظ (نہ) کے دو حرفی استعمال کو ثابت کرنے کی سعی بلیغ کی، مگر وہ یہاں بھی چوک گئے۔ آپ کی تقطیع اور شعر درج ذیل ہے:
تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمھیں بھلا سکے
مستفعلن مفاعلن مستفعلن مفاعلن
لطف کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے صاحب بحرالفصاحت مولوی نجم الغنی صاحب رام پوری کا حوالہ بھی سند کے طورپر پیش کردیا۔ تو ڈاکٹر موصوف سے عرض ہے کہ اوّل تو ایک مصرع سے کبھی بحر کا تعین نہیں ہوتا (یہ نکتہ استاذی محترم حضرت فدا ؔخالدی نے مجھ طالب علم کو عروض سکھاتے ہوئے ۸۰ء کی دہائی میں سمجھایا تھا) دوم یہ کہ ڈاکٹر صاحب نے صاحب بحرالفصاحت کا حوالہ تو بحر ہزج کے زحافات والے حصہ کا دیا ہے، مگر سند کے طورپر پیش کیے جانے والے مصرع کی تقطیع (بحر رجز) میں کی ہے۔ اور یوں بھی صاحب بحرالفصاحت نے پیش کردہ مصرع کو ایک زحاف (تسبیغ) کے ضمن میں مثالاً پیش کیا، جس سے پروفیسر صاحب کے حوالہ کا دُور سے بھی علاقہ نہیں۔٭۱۳
لطف کی بات یہ ہے کہ محترم ڈاکٹر پروفیسر صاحب نے پورے شعر کی تقطیع تو کی ہوگی مگر حفیظ جالندھری کا یہ مصرع، جو کہ ان کی غزل کا مطلع ہے، اس میں ڈاکٹر صاحب کے لیے ایک اور مسئلہ درپیش ہوا ہوگا، لہٰذا آپ نے محض ایک مصرع پیش کرنے پر اکتفا کیا۔ آیئے اصل صورتِ حال ملاحظہ فرمائیں:
ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آسکے
تم نے ہمیں بھلا دیا، ہم نہ تمھیں بھلا سکے٭۱۴
صورتِ احوال یہ ظاہر ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب نے جب مصرعِ اولیٰ کی تقطیع (اپنے تئیں حقیقی) کرکے دیکھی تو مصرع اولیٰ میں لفظ (بات) پر بات بنتی نظر نہ آئی، کیوںکہ یہ خالصتاً یا خالصاً تکنیکی و عروضی مسئلہ تھا، تو محض مصرع ثانی کو پیش کردیا۔ گویا درحقیقت ڈاکٹر صاحب نے غلط تقطیع کرلی، جب کہ اصل تقطیع یوں ہے:
ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آسکے
مفتعلن مفاعلان مفتعلن مفاعلن
ماحصل اس تقطیع کا یہ ہے کہ یہ بحر رجز مثمن مطوی مخبون ہے اور دوسرے رکن (حشو) میں ایک اور زحاف (اذالہ) کی کار فرمائی ہے جس سے (مفاعلن) (مفاعلان) ہوجاتا ہے، اس لیے یہ بحر رجز مثمن مطوی مخبون مذال کہلاتی ہے۔ اب اتنا دردِ سر کون پالتا۔ لہٰذا پہلے مصرع پر بات کرنے کے بجائے ڈاکٹر صاحب نے مصرع ثانی لے لیا اور محض لفظ (نہ) کو دو حرفی ثابت کرنے کے لیے اس کی تقطیع غیرحقیقی کر دکھائی گویا ’’مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا‘‘
اب ملاحظہ فرمایئے اگر ڈاکٹر صاحب مصرع اُولیٰ کی تقطیع اپنے وضع کردہ وزن میں کرتے تو کیا صورتِ حال درپیش ہوتی:
ہم ہی میں تھی نا کوئی بات یاد نہ تم کو آسکے
مستفعلن مفاعلن مستفعلن مفاعلن
عروضی تجزیہ کریں تو واضح ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب کی وضع کردہ بحر پر پہلا رکن تو پورا پورا اُترا اور دوسرے رکن سے خود ڈاکٹر صاحب خائف ہوگئے ہوںگے کہ ہائیں!! یہ کیا؟ دوسرا رکن تو (مفاعلن) ہے اور (نہ) یک حرفی آرہا ہے۔ مزید یہ کہ (بات) کی ’’ت‘‘ سے پہلے (نہ کوئی با) پہ وزن (مفاعلن) پورا ہوگیا۔ اب اگر ڈاکٹر صاحب مصرع اولیٰ کو بنیاد بنائیں تو مشکل میں پڑ جائیں اور اپنی وضع کردہ بحر سے ہی لفظ (نہ) یک حرفی ثابت کر بیٹھیں، جو یقینا ان کے پُرمغز مقالہ کے جواز کے خلاف ہوجاتا۔ سو محض دوسرا مصرع لے لیا اور تقطیع کر دکھائی۔ خاکسار کی اس طالب علمانہ مشق سے ڈاکٹر پروفیسر منور غازی صاحب اگر متفق نہ ہوں (جو ان کا حق بھی ہے) تو ازراہِ عنایت مجھ مبتدی کے ’’خضر عروض‘‘ بن جائیں، میں شاکر و ممنون ہوںگا۔
اب آخر میں جناب کامران جاوید عرفانی کے عروضی تجزیے کی طرف آتے ہیں۔ آپ نے بھی اپنے بھرپور عروضی مقالہ میں سارا زور الفاظ (نہ / کہ) کے دو حرفی ہونے پر صرف کیا ہے اور بیدلؔ، حالیؔ، غالبؔ اور دردؔ کے انھی اشعار کو (quote) کیا ہے کہ جس کی بحث میں اور بحر کے تعین میں، یہ خاکسار تمام بحور کا عروضی تجزیہ کرچکا اور (نہ/کہ) کو یک حرفی ثابت کرچکا ہے۔ اب اسی بحث کو یہاں چھیڑنا وقت اور صفحات کا ضیاع ہے، کیوںکہ محترمی کامران جاوید عرفانی نے بھی بحر خفیف کے مزاحف ارکان کو غلط طورپر سمجھا۔ لہٰذا آپ جناب کے لیے بھی گزشتہ صفحات کماحقہ مواد رکھتے ہیں، جس میں (نہ/کہ) کو یہ طالب علم غلط ثابت کر آیا ہے۔ آپ کو بھی ان معروضات پر اگر اعتراض ہو تو میری رہنمائی فرمایئے گا، ممنون ہوںگا۔ آپ کے لیے محض غالبؔ کا ایک مطلع جو آپ کے پیش کردہ حوالہ جاتی اشعار کی بحر ہی میں ہے پیش کرتا ہوں، اس کی تقطیع اپنی وضع کردہ تقطیع سے موازنہ کر لیجیے تو ان شاء اللہ خود کسی نتیجے پر پہنچ جایئے گا۔ غالبؔ کا مشہور شعر ہے:
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
اس کی تقطیع کیجیے اور نتیجہ خود اخذ کرلیجیے اور مصرع اولیٰ کے رکن اوّل کو اپنی وضع کردہ بحر کے رکن (فاعلاتن) پر عرض کرکے دیکھیے، اللہ نے چاہا تو عروضی غلطی نظر میں آجائے گی۔ البتہ خدائے سخن میرتقی میرؔ کے ایک شعر پر ضرور بات کروںگا جو آپ نے تقطیع کرکے دکھایا ہے۔ آپ جناب نے میرؔ کا مطلع بہ طور سند پیش کیا اور اس کی تقطیع بحر رجز مثمن سالم (مستفعلن مستفعلن مستفعلن مستفعلن) میں کر دکھائی اور چہ خوب کر دکھائی!! کیوںکہ اس طرح تقطیع کرنے پر آپ کے مقالہ کا جواز تحقیق یعنی لفظ (نہ) دو حرفی ثابت ہوتا تھا۔ عرض یہ ہے کہ حضور والا یہ پوری غزل اگر اپنی وضع کردہ بحر پر تقطیع کر دیکھیںگے تو اُمید قوی ہے کہ اپنی عروض دانی کے باعث خود ہی انصاف کرلیںگے کہ لفظ (نہ) یک حرفی ہے یا دو حرفی۔ مزید یہ کہ بحر کا تعین بھی کر لیجیے تو مہربانی فرما کر میری بھی تصحیح فرما دیجیے گا، بندہ شکرگزار ہوگا۔ دراصل اس کی حقیقی بحر، بحر مضارع ہے یعنی (مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن /فاعلات) یقین نہیں آتا تو دیوانِ میرؔ اُٹھایئے اور مذکورہ غزل کے تمام اشعار کا عروضی تجزیہ مع اپنی وضع کردہ غیرحقیقی بحر میں اس کی تقطیع بھی کر دیکھیے اور خاکسار کو دعائوں میں یاد رکھیے کہ بہ قول میرؔ ہمارا تو یہ حال ہے:
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
یہاں میں قارئین کرام اور عروض دان و مدرکانِ فن کے لیے اسی غزل کا محض ایک شعر مثالاً پیش کر رہا ہوں جس کی تقطیع جناب کامران جاوید عرفانی خود کرکے نتیجے پر پہنچ جائیںگے۔ شعر حاضر ہے:
گردن بلند کرتے ہی ضربت اُٹھا گئے
خنجر رکھے ہے اُس کا علاقہ گلو کے ساتھ٭۱۵
اب ذرا اس شعر کی تقطیع بحر رجز مثمن سالم میں کیجیے اور خود فیصلہ فرمایئے۔
مضمون کی بڑھتی طوالت دامن کش ہے، ورنہ ’’کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے‘‘ کے مصداق ابھی تبصرہ میں کی گئی بحث لفظ (وحی) پر بھی بات کی جاسکتی تھی۔ لیکن اس خاکسار نے مضمون کو صرف عروضی و فنی تجزیہ تک ہی محدود رکھا ہے (وحی) کے لفظ پر پھر کبھی اظہارِ رائے کروںگا۔ میرا یہ منصب نہیں کہ عروض کے ادنیٰ و مبتدی طالب علم ہونے کے ناتے اتنا بھی لکھ سکتا۔ بہرحال تینوں فاضل تبصرہ نگار حضرات کا کافی و شافی جواب، جواب آں غزل کے مصداق دینے کی کوشش کی ہے۔ تینوں قابلِ احترام ہستیوں سے دستہ بستہ معذرت خواہ ہوں کہ آپ کے تبحر علمی کے مقابل اپنی کم علمی کی کاغذ کی کشتی اور تنکوں کے پتوار لے کر اُتر پڑا اور وہ بھی مخالف بہائو میں۔ مگر تمام قارئین اور بالخصوص ’’نعت رنگ‘‘ کے اربابِ حل و عقد سے ضرور عرض کروںگا کہ مجھ اجہلِ عروض سے متفق نہ ہونے کی صورت میں رہنمائی اور معاونت ضرور فرمائیں اور میری ناپختہ تحریر کو نیز جواباً آنے والی تمام تحاریر کو من و عن شائع فرمائیں تاکہ ہم سب قیمتی آرا سے مستفید ہوں۔ یہ خاکسار اپنے اوپر ہونے والی ہر تنقید کو بہ صد شوق قبول کرتا اور غلطی کی نشان دہی کرنے والے ہر چھوٹے بڑے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور یہ کہ احباب میری اس روش سے خوب واقف ہیں سو وہ بھی کھل کر اظہارِ رائے کردیتے ہیں جس پر میں کبھی بُرا نہیں مناتا بلکہ شکرگزار ہوتا ہوں، کیوںکہ میرا ادبی ایمان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول پر ہے کہ جس میں آپ نے فرمایا:
’’خدا اس شخص کا بھلا کرے جو میرے عیوب کا تحفہ مجھے بھیجے۔‘‘
اور بہ قول ولی دکنی یہ بھی میرا ادبی اعتقاد ہے :
راہِ مضمون تازہ بند نہیں
تاقیامت کھلا ہے باب سخن
ڈاکٹر منور غازی صاحب نے تلفظ کے بارے میں مختلف لغات سے رجوع کرنے کا نہایت صائب مشورہ دیا ہے جو کہ لفظ ’’وحی‘‘ کے تلفظ کے ذیل میں ہے۔ سو اُمید ہے کہ فاضل ڈاکٹر صاحب درج ذیل سند برائے تلفظ (نہ /کہ) کے لیے نورُاللغات کو ضرور زیرِمطالعہ لائیںگے۔ جہاں لفظ (نے) کو کلمہ نفی کہا گیا ہے اور آتشؔ کا شعر بھی سند کے طورپر درج ذیل ہے:
مژگانِ یار تیر ہیں ابرو کمان ہیں
نے اس کماں کا مثل نہ اس تیر کا جواب٭۱۶
(نورُاللغات ص۱۰۲۱)
لہٰذا آتشؔ کے ہاں بھی (نے/نہ) کا فرق ملحوظِ نظر تھا، جب کہ دونوں کلمۂ نفی ہیں تو کیا باعث تھا کہ آتشؔ نے بھی نفی کے لیے ’’نے اور نہ‘‘ کے استعمال کو ملحوظ رکھا۔ یقینا وجہ صاف ظاہر ہے کہ (نے) دو حرفی لفظ ہے اور ایسے استعمال سے جو ڈاکٹر صاحب یا دیگر دونوں مبصرین کے مطابق (نہ) دو حرفی لفظ ہے تو ایسے استعمال سے شعر ناموزوں یا وزن و بحر سے خارج ہوجاتا۔ اس لیے آتشؔ جیسے صاحب نظر نے بھی اسے ملحوظِ نظر رکھا۔ مزید یہ کہ غالبؔ کے شعر:
رَو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
کے آئینے میں بھی خود کو پرکھا، سجایااور سنوارا جاسکتا ہے۔ وما علینا الا البلاغ المبین
حوالہ جات
٭۱۔ ’’نعت رنگ‘‘ شمارہ:۲۱، ص۵۲۰
٭۲۔ ’’نقوش‘‘ (غزل نمبر) مدیر محمد طفیل، ادارۂ فروغ اردو، لاہور، اکتوبر ۱۹۸۵ء
٭۳ ’’آبِ حیات‘‘، محمد حسین آزاد، سنگ میر پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۰ء
٭۴۔ ’’آبِ حیات‘‘، محمد حسین آزاد، ص۲۱۲، سنگ میر پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۰ء
٭۵۔ (بہ مطابق شمار نمبر۲) ص۳۴۔۳۴۔۳۷/۳۸
٭۶۔ (بہ مطابق شمار نمبر۲) ص۲۴۔۲۵۔۲۶،۲۷
٭۷۔ (بہ مطابق شمار نمبر۳) ص۱۶۳
٭۸۔ (بہ مطابق شمار نمبر۲) ص۲۹۳
٭۹۔ (بہ مطابق شمار نمبر۲) ص۲۵۵۔۲۵۶۔۲۵۷
٭۱۰۔ فن شعر و شاعری، پروفیسر حمیداللہ شاہ، مکتبہ دانیال، لاہور، ص۱۲۱۔ س۔ن
٭۱۱۔ بحرالفصاحت (حصہ دوم) مولوی نجم الغنی، ص۱۳۸، مجلس ترقی ادب، لاہور، دسمبر ۲۰۰۶ء
٭۱۲۔ میزانِ سخن، حمید عظیم آباد، ص۱۰۳، شیخ شوکت علی پرنٹر اینڈ پبلشر۔ س۔ ن
٭۱۳۔ ارمغانِ عروض، کندن لال کندن، ص۲۱، دارالنوادر، لاہور، ۲۰۰۵ء
٭۱۴۔ (بہ مطابق شمار نمبر۲) ص۱۶۹
٭۱۵۔ کلیاتِ میرؔ، مرتب عبدالباری آسی، ص۵۹۹
٭۱۶۔ نورُاللغات، ص۱۰۲۱
{٭}

آفتاب مضطر۔ کراچی آفتاب مضطر۔ کراچی Reviewed by WafaSoft on September 17, 2019 Rating: 5

No comments:

Comments

Powered by Blogger.