Best Wall Stickers

ایک کم یاب نعتیہ انتخاب

پروفیسر محمد اقبال جاوید۔ گوجرانوالہ




ایک کم یاب نعتیہ انتخاب




اس مجموعے کا نام ’’نعتیہ کلام‘‘ ہے۔ اسے منشی محمد حسین صادق، ہیڈکلرک دفتر اخبار ’’زمیندار‘‘ لاہور نے مرتب کیا تھا، سن اشاعت ۱۳۳۵ھ/۱۹۱۱ء ہے اور ضخامت ۹۲؍صفحات ہے۔ سرورق پر تعارفی سطور یوں ہیں:
ہندوستان کے نام ور اور باکمال شعرا کی پُردرد اور دل آویز نعتوں کا لاجواب مجموعہ۔
انتساب میں مرتب لکھتے ہیں:
خاکسار اس متبرک اور پاکیزہ کلام کو جامع درجات ولایت، وارثِ کمالاتِ نبوت، دافعِ بدعات و ضلالت، عاملِ کتاب اللہ و السنت، قدوۃ الکاملین، زبدۃ العارفین عالی جناب حاجی حافظ صوفی سیّد جماعت علی شاہ صاحب نقش بندی، مجددی، علی پوری، ادام فیوضہم و برکاتہم کی خدمتِ بابرکت میں نہایت ادب و احترام سے نذر گزرانتا ہے۔
گر قبول افتد زہے عز و شرف
اس نعتیہ انتخاب میں فارسی کی کم اور اردو کی زیادہ نعتیں ہیں۔ بعض نعت گو معروف ہیں مگر اکثریت غیرمعروف ہے۔ فہرست میں زیادہ تر شاعروں کے تخلص دیے گئے ہیں۔ منظومات کی تعداد ۱۳۳ ہے۔ ابتدا میں سعدی شیرازیؒ کی ایک طویل حمد ہے اور آخر میں مولانا جامیؒ کا سلام بحضور سرورِکونینﷺ ہے۔ فہرست میں ہر نعت کا پہلا مصرع درج ہے۔ فہرست کو ایک نظر دیکھنے سے مرتب کے ذوق و شوق، تہذیب و ترتیب اور محبت و محنت کا پتا چلتا ہے۔ معروف شعرا کی بعض نعتیں ایسی ہیں جو اُن کے دست یاب نعتیہ کلام میں نہیں ملتیں۔ فہرست یوں ہے:
۱۔ شکر و سپاس دست و عزت خدائے را (سعدی)
۲۔ نشانِ کس نہ بُد پیش از محمد در جہاں پیدا (سعدی)
۳۔ اے بر تو صد ہزار درود و سلامِ ما ۔۔۔۔
۴۔ بسوئے مدینہ ہمی بری تو خجستہ بخت چو راہ را ۔۔۔۔
۵۔ و صلی اللہ علیٰ نور کز و شد نورہا پیدا (جامی)
۶۔ یہ جلوہ حق سبحان اللہ یہ نورِ ہدایت کیا کہنا (اکبر)
۷۔ اے موت ابھی اور ہے جینے کی تمنا (اکبر)
۸۔ ہوا مقبول عشقِ مصطفیٰ میں درد و غم میرا (یکتا)
۹۔ طفیل سرور عالم ہوا سارا جہاں پیدا (کافی)
۱۰۔ جس کے سر تاج ہو شفاعت کا (حفیظ)
۱۱۔ مانا کہ انبیا میں ہر اک انتخاب تھا (حافظ)
۱۲۔ زباں سے وصف ناممکن ہے احسانِ محمد کا (برق)
۱۳۔ کیوں نظر سوز نہ ہو جلوۂ یکتا تیرا (وفا)
۱۴۔ اوصاف میں وہ نورِ خدا جب یگانہ تھا (درس سندھی)
۱۵۔ واہ کس شان سے محبوب ہمارا نکلا (امیر)
۱۶۔ جہاں میں شکل احمد بن کے وہ نورِ قدیم آیا (سرور)
۱۷۔ ترا رُتبہ ہے یا احمد مقام اللہ اکبر کا (فیض)
۱۸۔ لوگ جانے لگے سب عرب کی طرف جوش سودا مرا سر اُٹھانے لگا (حمید)
۱۹۔ جب کہ وہ ماہِ مدینہ جلوہ گر ہوجائے گا (خلیل)
۲۰۔ جو ہو موت بے زیارت تو ہو بالقضا رضینا (حافظ)
۲۱۔ خواب میں زلف کو مکھڑے سے ہٹا لے آجا (بیان)
۲۲۔ وصف لکھتا ہوں نبی کے حسنِ عالمگیر کا (لطف)
۲۳۔ اللہ رے حسن احمد عالی وقار کا (اکبر)
۲۴۔ وصف کوئی لکھے گا کیا اُن کا (نسیم)
۲۵۔ گئے دونوں جہاں جو نظر سے گزر تیری شان کا کوئی بشر نہ ملا (اکبر)
۲۶۔ جب سے تیرا عشق دل میں کارگر ہونے لگا (اکبر)
۲۷۔ کبھی رہتا تھا غم مجھ کو فلک کی کج ادائی کا (مولوی محمداحسان صاحب)
۲۸۔ پھر اُٹھا ولولہ باد مغیلانِ عرب (رضائی)
۲۹۔ یارب رسولِ پاک کا دیدار ہو نصیب (وفا)
۳۰۔ جب تلک تھا چہرہ نورِ محمد پر نقاب (وفا)
۳۱۔ ہم کو حاصل ہے مدینہ میں فضائے جنت (لطف)
۳۲۔ ہجر شہِ کوثر میں پروتا تھا گہر رات (اکبر)
۳۳۔ کبھی لوح فلک پر ہے رسول اللہ کی صورت (مہر)
۳۴۔ چل مدینے وقت تو نے ہند میں کھویا بہت (امیرمینائی)
۳۵۔ اے خامۂ اعجاز رقم قصد ہے کیا آج (عزیز)
۳۶۔ ہے کعبہ ایماں رُخِ نیکوئے محمد (عزیز)
۳۷۔ لکھ لکھ کے وصفِ شاہ سنائوں میں کس طرح (عزیز)
۳۸۔ بن کے بلبل ہم نے باغ دہر ڈھونڈا شاخ شاخ (سرور)
۳۹۔ عطر بوئے مصطفیٰ ہر گل سے مہکا شاخ شاخ (اکبر)
۴۰۔ چہ شدا ر بہ ہند فتادہ ام خبرش صبا بمن آورد (وحشت)
۴۱۔ مرحبا عرشِ نبوت کا دلارا خورشید (طالب)
۴۲۔ نشانے ست اعلیٰ ز شانِ محمد (ذبیح)
۴۳۔ گیسو رُخِ روشن سے سرک جائے محمد! (اکبر)
۴۴۔ ہے ذرّہ والشمس اگر رُوئے محمد (شہیدی)
۴۵۔ دکھلا دو منھ خدارا یامصطفیٰ محمد! (احمد)
۴۶۔ ہر وقت دل کو رہتی ہے خیرالبشر کی یاد (متین)
۴۷۔ تھے جن و شیاطین سلیماں کے مسخر (بیدل)
۴۸۔ محبوب ہے کیا صلِ علیٰ نامِ محمد (بیدل)
۴۹۔ اللہ غنی رُتبۂ والائے محمد (اکبر)
۵۰۔ نہ ہو کیوںکر افضل ہمارا محمد (داغ)
۵۱۔ یوں تو کر چھوڑا ہے لاکھوں نے فلیتا تعویذ (عامل)
۵۲۔ نگاہِ عاشق کی دیکھ لیتی ہے پردۂ میم کو اُٹھا کر (ڈاکٹرمحمداقبال ایم اے)
۵۳۔ یامحمد! نام تیرا بر زباں ہے بار بار (سرور)
۵۴۔ دکھا رہی ہے دعائے خلیل اثر اپنا (ظفر علی خاں بی اے)
۵۵۔ بھروسا ہے مجھے بخشش کا حضرت کی شفاعت پر (لطف)
۵۶۔ الٰہی دل میں عشق احمد مختار پیدا کر (ممتاز)
۵۷۔ زباں ہے جب تک دہن میں گویا تو نعتِ خیرالورا بیاں کر (شہرت)
۵۸۔ کر چکا کونین حق جس حسن یکتا پر نثار (قاسم)
۵۹۔ صبا مدینے میں گر تو جائے تو پہلے سجدہ بآستاں کر (سرور)
۶۰۔ مانتے حضرت ہیں سرور کی تمنا بار بار (سرور)
۶۱۔ دل ہوا بے چین رُوئے مصطفیٰ کو دیکھ کر (متین)
۶۲۔ کیوں نہ غش کھائوں جمالِ مصطفیٰ کو دیکھ کر (لطف)
۶۳۔ بہتر ہے قمر سے رُخِ زیبائے پیمبر (بشیر)
۶۴۔ ہوا ہے حاضر غلام سرور تمھارے روضہ پہ سر جھکا کر (سرور)
۶۵۔ پیتے ہیں ز بس خونِ جگر ہجر میں ہم روز (سرور)
۶۶۔ کس طرح ہوگا گزارا چشم تراب کے برس (اکبر)
۶۷۔ یاالٰہی ہو مدینے کا سفر اب کے برس (اکبر)
۶۸۔ جیتے جی روضۂ اقدس کو نہ دیکھا افسوس (لطف)
۶۹۔ کر چکا دل خنجرِ ہجر پیمبر پاش پاش (لطف)
۷۰۔ کیوں نہ ہو باغ و بہار دین و دنیا باغ باغ (بیان یزدانی)
۷۱۔ ہے رُخِ گلگوں قدِ موزوں کا چرچا باغ باغ (بیان یزدانی)
۷۲۔ نہ پڑھوں احمد مقبول کی کیوںکر تعریف (لطف)
۷۳۔ تک رہے ہیں حشر میں سب میرے مولا کی طرف (اکبر)
۷۴۔ اے رُخِ زیبات تصویروں ہائے خلیل (منشی سراج الدین احمد)
۷۵۔ بلوحِ دل منقش اُلفتِ خیرالوریٰ دارم (منشی)
۷۶۔ کے بود یارب کہ رودر یثرب و بطحا کنم (جامی)
۷۷۔ وہ دن خدا کرے کہ مدینہ کو جائیں ہم (احمد)
۷۸۔ تم شاہِ ختم المرسلیں اور بندگانِ زار ہم (سرور)
۷۹۔ تا کے از ہجر رسول اللہ واویلا کنم (سرور)
۸۰۔ وہ شمع اُجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں (ظفر علی خاں بی اے)
۸۱۔ نذر کو سب لا رہے ہیں لعل و گوہر ہاتھ میں (ایضاً)
۸۲۔ کہاں یہ شان کہاں یہ وقار پھولوں میں (نجیب)
۸۳۔ خواب راحت تا کجا یارحمۃً للعالمیں (ذبیح)
۸۴۔ تو جانِ پاکی سر بسر نے آب و خاک اے نازنیں (جامی)
۸۵۔ عارض است ایں یا قمر یا لالۂ حمر است ایں (جامی)
۸۶۔ یارب بسوئے وادئ یثرب سفر کروں (۔۔۔۔)
۸۷۔ سب بولتے ہیں آپ کو سجدہ روا نہیں (۔۔۔۔)
۸۸۔ ہوتا ہے سدا ذکر خدا کا مرے دل میں (اکبر)
۸۹۔ اے چراغ آسماناں رحمتِ حق بر زمیں (اکبر)
۹۰۔ ترے پیغام بھی اللہ کو کیا پیارے ہیں (حافظ)
۹۱۔ محمدمصطفیٰ گنج سعادت کے امیں تم ہو (ظفرعلی خاں بی اے)
۹۲۔ بلب مسیح شفائے او (درس سندھی)
۹۳۔ از دل و دیں چہ آورم ہدیۂ رونمائے تو (طاہر)
۹۴۔ شہنشہے کہ شہاں سر نہا دہ بردرِ اُو (شاکر)
۹۵۔ زہے شان نشان او کہ سالم بگزر نداز پل (تمنا)
۹۶۔ اے دل و دیدہ ہر دو خانۂ تو (جامی)
۹۷۔ یامحمد! ہست قرآں رُوئے تو (جامی)
۹۸۔ محمد رحمت حق ہے پیمبر ہو تو ایسا ہو (۔۔۔۔)
۹۹۔ ہر شب منم فتادہ بہ گرد سرائے تو (خسرو)
۱۰۰۔ نرگس اندر باغ حیراں از نگاہِ مست تو (جامی)
۱۰۱۔ دیدہ جائے تو یارسول اللہ (اعظم)
۱۰۲۔ آنکھوں میں ہے گھر دل میں مرے جائے مدینہ (۔۔۔۔)
۱۰۳۔ کیا ہے چشم میگون نبی نے مجھ کو مستانہ (کوکب)
۱۰۴۔ یہ تمنا ہے رب اکرم سے (مولوی نذیراحمدایل ایل ڈی)
۱۰۵۔ مدینے جا کے ہم آنسو بہائیں اپنی آنکھوں سے (وجاہت حسین)
۱۰۶۔ آج یثرب سے نسیمِ سحری آتی ہے (خواجہ دل محمد ایم اے)
۱۰۷۔ رُخِ پُرنور سے زلفوں کو ہٹا لے ساقی (اکبر)
۱۰۸۔ جمالِ نبی کی ثنا ہو رہی ہے (اکبر)
۱۰۹۔ قرآں کی کیسی دل کش تفسیر ہو رہی ہے (شائق)
۱۱۰۔ غم اس کی جدائی کا مجھے شام و سحر ہے (رفیقی)
۱۱۱۔ فرقت میں جاں بلب ہے یہ بیمارِ مصطفیٰ! (اوج)
۱۱۲۔ مرا مدینہ میں یارب مقام ہوجائے (کرم کریم)
۱۱۳۔ بہ ریاضِ آفرینش چہ بہارِ آفرینی (ضیا)
۱۱۴۔ یارسول اللہ! حبیب خالقِ یکتا توئی (شمس تبریز)
۱۱۵۔ یاحبیب الالٰہ خذ بیدی (مضطر)
۱۱۶۔ شانِ احمد اور ہے یوسف کا رُتبہ اور ہے (حافظ ظفرعلی)
۱۱۷۔ ہر گل ہے جلوہ گاہ محمد کے نور کی (اکبر)
۱۱۸۔ سر میں وحشت مرے کچھ ایسی سمائے تو سہی (اکبر)
۱۱۹۔ ہے تری اس چاندنی صورت پہ قرباں چاندنی (اکبر)
۱۲۰۔ سیّد اروئے والضحیٰ داری (اکبر)
۱۲۱۔ عجب مطبوع و موزونی عجب شوخ دل آرائی (جامی)
۱۲۲۔ اے بذاتِ تو مزین مسند پیغمبری (بوالمعالی)
۱۲۳۔ مرحبا سیّد مکی مدنی العربی (قدسی)
۱۲۴۔ رُخِ پُرنور سے زلفوں کو ہٹالے ساقی (اکبر)
۱۲۵۔ عشقِ حضرت کی چھری دل پہ جو چل جاتی ہے (حافظ)
۱۲۶۔ یانبی اب تو بُری حالت ہے اس رنجور کی (ممتاز)
۱۲۷۔ گنہ پر جو روتی ہے اُمت تمھاری (خلیل)
۱۲۸۔ جو رخسار شہ پر نظر جائے گی (نسیم)
۱۲۹۔ ہے جلوہ نما آنکھوں میں تنویر کسی کی (حافظ)
۱۳۰۔ ہے آنکھ سوئے کوئے پیغمبر لگی ہوئی (غریب)
۱۳۱۔ کسی کو مرض سے شفا چاہیے (حافظ)
۱۳۲۔ درِ مصطفیٰ سنگِ موسیٰ نہیں ہے (بیان)
۱۳۳۔ یانبی اللہ! السلام علیک (جامی)
گم نام اور معروف شعرا کی نعتوں سے منتخب کچھ اشعار:
ہوا مقبول عشقِ مصطفی میں درد و غم میرا
حروفِ اوّلِ قرآں کی صورت ہے الم میرا


(یکتا)
جمالِ حسن میں رعنا، کمال خلق میں یکتا
کوئی پیدا ہوا ایسا نہ ہو وے گا یہاں پیدا


(کافی)
نسبت نہیں مگر ہے سمجھنے کو اک مثال
گل تھا اگر وہ رُخ تو پسینا گلاب تھا


(حافظ)
نہیں شمس و قمر بالذات روشن بامِ گردوں پر
یہ صدقہ ہے فقط رُخسارِ تابانِ محمد کا


(برق)
ہے تجلی تری سرمایۂ نازِ بینش
مردمِ دیدۂ ہستی ہے سراپا تیرا


(وفا)
گئے فرش زمیں سے جب فلک پر سرور دوراں
قدم بوسی کی خاطر دوڑ کر عرشِ عظیم آیا


(سرور)
وصف لکھ لکھ کر نبی کے روئے پُرتنویر کا
میں مفسر ہوگیا والشمس کی تفسیر کا


(لطف)
٭حسن یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشت زناں
سر کٹاتے ہیں ترے نام پہ مردانِ عرب


(رضائی)
٭۔ یہ شعر احمد رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ (ادارہ)
اے خامۂ اعجاز رقم قصد ہے کیا آج
کس وادئ ایمن کی طرف رُخ ہے ترا آج
ہر رشحہ ترا تاب میں ہے عزتِ اختر
ہر نقطہ ترا نور میں ہے مہ سے سوا آج
ہر دائرہ خورشید سے بڑھ کر ہے درخشاں
ہو تیری کشش میں ہے شعاعوں کی ضیا آج
منظور ہے کس مشرقِ انوار کی توصیف
ظاہر ہے تری چال سے اک صدق و صفا آج
٭
خورشید رسالت ہے اگر چہرۂ انور
تار خطِ خورشید ہے ہر موئے محمد(عزیز)
فیض یاب رنگ و بوئے احمدی ہے سربسر
پھول جو ہے گلشن دنیا میں پھولا شاخ شاخ


(سرور)
بس گئی بوئے محمد چارسُو گلزار میں
نورِ احمد غنچہ و گل بن کے پھوٹا شاخ شاخ(اکبر)
ہر وقت دل کو رہتی ہے خیرالبشر کی یاد
منزل ہے سخت کیوں نہ ہو زادِ سفر کی یاد


(متین)
کوئی بھی ثانی نہ پایا سرزمیں پر آپ کا
یانبی سارا زمانہ ہم نے ڈھونڈا بار بار


(سرور)
مدینے کی طرف پہنچوں، قدم ہیں ضعف سے لرزاں
مرے پائوں میں یارب طاقتِ رفتار پیدا کر


(ممتاز)
بار بار اپنی چمک دکھلائی برق آہ نے
فرقت احمد میں ابرِ چشم برسا بار بار


(سرور)
گل ہے تو گلبن ہے تو، زینت دہِ گلشن ہے تو
تجھ سے رنگیں پتی پتی، تجھ سے زیبا باغ باغ


(بیاں)
غم اس کی جدائی کا مجھے شام و سحر ہے
یثرب کا جو سورج ہے وہ بطحا کا قمر ہے
ہیں شافع محشر وہ شہنشاہِ دوعالم
اُمت کو بھلا کس لیے محشر کا خطر ہے


(رفیقی)
فرقت میں جاں بلب ہے یہ بیمارِ مصطفی
کاش آئے ہاتھ شربت دیدارِ مصطفی


(اوج)
یہ سو سال قبل کا ایک نعتیہ انتخاب ہے، تب اور اب کی نعتوں میں وہی فرق ہے جو نظم اور غزل میں ہے، وہ بنیادی طورپر نظم کا دور تھا اور عہدِحاضر غزل کا دور ہے۔ نظم میں ایک ہی بات کو پھیلا کر بیان کیا جاتا ہے جس سے وہ بات، بے کیف سی ہوجاتی ہے جب کہ غزل میں فکری تموج کو قطرے میں سمیٹنے کی سعی کی جاتی ہے۔ یہی بلیغانہ انداز غزل کے ایک شعر کو کئی نظموں کے مقابل لاکھڑا کرتا ہے۔ حق یہ ہے کہ غزل کا شجر وحدتِ خیال کی بنا پر دل کی دھڑکن کا ساتھ دیا کرتا ہے کہ وہ سوزِ دروں کی آنچ سے لفظوں میں ڈھلتا ہے اور:
وہ نغمہ خام ہے وہ مغنی ہے ناتمام
جو سوزِ دل کو سازِ رگِ جاں نہ کرسکے
غزل، کائنات کو نوکِ مژہ پر تولنے کا عمل ہے، چوںکہ دور غزل کا ہے اور غزل فکری رفعت کو اظہار کی بلاغت سے نوازتی ہے اس لیے دورِ حاضر کی نعتوں میں بھی تاثر موجود ہے۔
زیرنظر انتخاب میں نعتیں گو غزل کی ہیئت میں ہیں مگر اُن پر نظم کا رنگ غالب ہے۔ پُرگوئی اور بسیارنویسی کا نتیجہ ہے کہ قاری کا ذوقِ سلیم افسردہ ہوکر رہ جاتا ہے اور آمد پر بھی آورد کا گمان گزرتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ قوافی آئے نہیں لائے گئے ہیں اور فراٹے بھرتا ہوا قلم، بعض مقامات پر احتیاط کے تقاضے نظرانداز کرتا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، اس بے غبار صداقت کو بھی ماننا پڑتا ہے کہ ایک صدی قبل کے مسلمان کی علمی اور دینی حیثیت مسلّمہ تھی، وہ شرافتِ اخلاق، عصمتِ نظر اور سعادتِ انسانیت کے اعتبار سے ہم مسلمانوں سے کہیں رفیع و وقیع تھا کیوںکہ وہ عمل کی صالحیت کا دور تھا جب کہ آج لفظی خوش نمائیوں نے قلبی نکھار اور فکری وقار کو دھندلا رکھا ہے:
معنی ہیں معدوم، تحریریں بہت
ہے عمل مفقود، تقریریں بہت
بغض دل میں، منھ پہ تعریفیں بہت
کفر دل میں لب پہ تکبیریں بہت
ایک اہل درد ہی ملتا نہیں
ورنہ دردِ دل کی تدبیریں بہت
سچ یہ ہے کہ ہم صرف فنی اعتبار سے اشعار کو پرکھ سکتے ہیں، شاعر کی نیت کے خلوص، نگاہ کی آرزو، دل کی دھڑکن اور روح کی لرزش کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ کیوںکہ وہ لفظ ابھی ایجاد ہی نہیں ہوئے جو درد کی چہک اور اشکوں کے تبسم کو زنجیر کرسکیں۔
سینے میں وہ کچھ اور ہے، لفظوں میں ہے کچھ اور
غم کے کئی انداز بیاں میں نہیں ملتے
{٭}

ایک کم یاب نعتیہ انتخاب ایک کم یاب نعتیہ انتخاب Reviewed by WafaSoft on September 17, 2019 Rating: 5

No comments:

Comments

Powered by Blogger.