عزیزؔ احسن۔ کراچی
حمیرا راحت کی دو نعتیہ نظمیں
شاعری جذبوں اور احساسات کے ملفوظی اظہار سے عبارت ہے۔یہ احساس کی شدت کو لفظوں میں قید کرنے کی کوشش کا نام ہے۔لیکن ہر شاعر اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوتا۔اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ یا تو شاعر کو احساس کی زبان نہیں آتی یا احساس کی شدت اس کو کچھ سمجھنے اور احساس کی لہروں کو قید کرنے سے قاصر رکھتی ہے۔ لیکن جذبہ سچا اور احساس شدید ہو تو شاعر کو نہ صرف الفاظ مل جاتے ہیں بلکہ وہ ان الفاظ میں شوق کی وہ حرارت منتقل کردیتا ہے جو اسے اظہار پر مجبور کرتی ہے۔وہ حرارت، عشق کی حرارت ہوتی ہے۔عشق، اپنے معبود سے، عشق اپنے معبود کے محبوب ﷺ سے، عشق محبوبِ ربّ العالمین کے شہر سے اور وہاں کے گلی کوچوں سے۔
حمیرا راحت کا عشق۔۔۔ سچا عشق ہے۔اس لیے ان کو اظہارپر قدرت حاصل ہوئی اور انھوں نے اپنے احساس کوزبان عطا کردی۔ان کا احساس، ذاتی احساس تھا، لیکن اظہار پاکر وہ عالم نسوانیت کا آفاقی احساس بن گیا۔جب عشق سچا ہو اور انسانی روح پر اس کی گرفت بہت زیادہ مضبوط ہوجائے تو اس کے اظہار میں آفاقیت کا عنصر پیدا ہوجاتا ہے۔
حمیرا راحت نے مدینہ منورہ میں ایک سڑک دیکھی جس کی حدود نے خودشاعرہ کو اپنی محدودات کا احساس دلایا، پھر جب احساس میں شدت پیدا ہوئی تو اس میں آفاقیت کا عنصر داخل ہوگیا۔ چناںچہ حمیرا نے سڑک کے دل میں اتر کر اس کی بے زبانی کو زبان دے دی۔
اس کے ساتھ ہی اسے ایک اذیت ناک صورتِ حال سے دوچار ہونا پڑا جب اسے کائنات کی مطلوب و مقصود ہستی کے قرب میں پہنچ کر بھی مواجہہ شریف تک پہنچ کر سلام عرض کرنے کی اجازت نہیں ملی!۔۔۔ یہاں اسے اس کی نسوانی حدود کا احسا س دلایا گیا۔۔۔ اور بے زبان سڑک کو زبان عطا کرنے والی شاعرہ نے اپنی شدتِ احساس کو ایسی زبان دی کہ اس کی عطا کردہ زبان میں ہر مسلمان زائرہ یہ سوال کرسکتی ہے۔اسلامی دنیا میں صرف انتظامی سطح پر کیے جانے والے اقدامات بھی ایک حساس عورت کو اسی سوال سے دوچار کرتے ہیں جس کا اظہار حمیرا راحت نے کیا ہے۔
مغرب میں نسائی تحریک (feminism) نے عورت کو مرد کے برابر لانے کی جدوجہد کی علامت بنادیا ہے۔یہ تحریک انیسویں صدی میں شروع ہوئی اور اب اس کے اثرات سیاست میں پھیلتے جارہے ہیں۔ان اثرات کو مسلمان محسوس تو کرسکتے ہیں لیکن انھیں روکنے میں وہ یقینا ناکام ہوچکے ہیں۔اسلامی ممالک میں عورت کے سیاسی کردار کا پھیلاؤ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام نے جس حد تک اس کے حقوق کی پاسداری پر زور دیا تھا، اس کے عملی مظاہر سامنے نہیں آسکے تھے جس نے بے چینی کی فضا پیدا کی اور اب نسائی آزادی کے نام پر مسلمان معاشروں میں بھی عورت، اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود سے باہر قدم نکالنے میں فخر محسوس کرنے لگی ہے۔
اردو ادب میں بھی نسائی تحریک کے اچھے اور برے دونوں قسم کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ لیکن حمیرا راحت ایک سچی مسلمان خاتون ہیں جنھیں صرف وہ حقوق چاہئیں جو دینِ متین نے انھیں دے رکھے ہیں۔حمیر اراحت کی دونوں نظمیں، نعتیہ ادب میں نسائی احساس کے ارتسام کی بہترین مثال پیش کرتی ہیں۔’’سڑک‘‘ ایک علامتی نظم ہے اور ’’خطا‘‘ برہنہ گفتاری کا احساساتی اظہاریہ ۔ہم اسے نسائی تحریک کے زیر اثر پیدا ہونے والے ادب کے تناظر میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔یہ نظم مزاحمتی ادب کا حصہ بھی بن سکتی ہے۔Male Chauvinism یا مرد کی برتری کے خلاف صدائے احتجاج کے تاثر کے ساتھ بھی پڑھی جاسکتی ہے۔
اگلے صفحات میں ہم ’’نعت رنگ‘‘ کے قارئین کے لیے مذکورہ دونوں نظمیں پیش کررہے ہیں۔خیال کی ندرت، اسلوب کی جدت اور ادبیت، اظہار کی پاکیزگی اور شدتِ احساس کی حرارت سے مملویہ دونوں نظمیں، نعتیہ ادب میں قابلِ قدر اضافہ ہیں۔
٭٭
سڑک
سڑک کی کیا حقیقت ہے
اک ایسا بے حس وبے جان سا رستا
کہ جو ہر اک مسافر کو ملادیتا ہے منزل سے
بس اس سے بڑھ کے اس کی کیا فضیلت ہے
مگر!میں جب مدینے میں تھی
تو سونے سے پہلے رات کو
ہوٹل کی کھڑکی سے
سڑک کو دیکھتی اور سوچتی
یہ ایک سیدھی سی سڑک جو میرے آقا کے
درِ اقدس پہ جاکر ختم ہوتی ہے
یہ ہے خوش بخت کتنی!!!
اس پہ چل کے روز لاکھوں لوگ روضے تک پہنچتے ہیں
وہ روضہ جو مری دنیا کے
سارے بادشاہوں کے خزانوں سے
زیادہ قیمتی ہے
ایک سورج ہے جو سب کو روشنی تقسیم کرتا ہے
وہ دکھ اور درد کے ماروں کو اَن ہونی خوشی تقسیم کرتا ہے
سڑک ہے ایسا پُل
جو دو کناروں کو ملاتا ہے
جہاں سورج، ستارے، ماہ اپنا سر جھکاتے ہیں
ادھر لاکھوں وہ پروانے ہیں
جو عشقِ نبی میں ہوکے دیوانے
ادھر کا قصد کرتے ہیں
سڑک سچ مچ مقدر کی سکندر ہے!!!
پھر اک دن یوں ہوا
میں سوچ میں گم تھی
مجھے ایسا لگا جیسے
کہ اس سیدھی سڑک کی دونوں آنکھیں
آنسوؤں سے بھرگئی ہوں
وہ اک نادیدہ غم سے ہوکے بوجھل کہہ رہی ہو
’’میں کہاں خوش بخت ہوں بی بی‘‘
مرے دکھ کو کسی نے آج تک جانا نہیں
میں کیسے سمجھاؤں
کہ میں تم سب کو لے جاتی ہوں ان کے در پہ
لیکن خود کبھی در تک نہیں پہنچی!
کہ میں تو روضۂ اقدس سے پہلے ہی
کہیں اپنا نشاں تک بھی
مٹا دیتی ہوں
رستے میں!!!
٭٭
خطا
’’تمھاری حد یہیں تک ہے‘‘
وہ عورت جس کے چہرے پر
فقط آنکھیں ہی دکھتی تھیں
بہت مغرور لہجے میں مجھے سمجھا رہی تھی
کیوں؟نہ جانے کیسے
وہ اک لفظ جس کا ورد
ساری زندگی کرتی رہی تھی
اس گھڑی بھی لب پہ میرے آگیا
اور اس نے مجھ کو گھور کر دیکھا
کہا کچھ بھی نہیں لیکن
نگاہیں صاف کہتی تھیں کہ
کیا لاعلم ہو اس بات سے
تم ایک عورت ہو
کوئی عورت درِ آقا کو
اندر جاکے چھوسکتی
نہ اس کو دیکھ سکتی ہے
دعا کے حرف اشکوں میں بھگو کر
روضۂ اقدس پہ رکھ دے
یہ نہیں ممکن
میں شُرطی ہوں ۔۔۔ مگر میں بھی نہیں
اس کی سنہری سبز آنکھوں میں
عجب غم ناک سی گہری نمی جاگی
جو میرے سامنے دیوار تھی
میں اس پہ اپنے ہاتھ رکھ کر رو پڑی
آقا۔۔۔ مرے آقا!
میں عورت ہوں
مگر اس میں مری اپنی خطا کیا ہے؟
{٭}
No comments: