ڈاکٹر سیّد یحییٰ نشیط۔ بھارت
دیارِ مغرب کے نعت گو شعرا میں
صفوتؔ علی کا مقام
’’رفعنالک ذکرک‘‘ کی صدا قرآن حکیم نے جب سے لگائی ہے، اللہ تعالیٰ کے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفیﷺ کا ذکر چہار دانگ عالم میں ہر زماں اور ہر زبان میں ہورہا ہے۔ یورپین ممالک کی ترقی یافتہ زبانوں سے لے کر افریقا اور آسٹریلیا کی غیرمتمدن اقوام کی اُجڈ اور غیرترقی یافتہ بولیوں تک میں اللہ کے رسولﷺ کا ذکر نہایت والہانہ اور عقیدت مندانہ انداز میں کیا جارہا ہے۔ کہیں اذانوں میں محمد رسول اللہ کی گونج ہے تو کہیں اوراد و اذکار میں نامِ رسولﷺ وردِ زبان ہے۔ کہیں محافل وجد و سماع میں ذکرِ رسولﷺ پر سر دھنے جاتے ہیں تو کہیں محافل میلاد مدحتِ رسولﷺ کے لیے سجائی جاتی ہیں۔ تسبیحات میں درود و سلام کا ورد ہوتا ہے تو نمازوں میں صلوٰۃ و سلام کا اہتمام۔ ذکرِ حبیبﷺ محلوں میں بھی ہے، کاشانوں میں بھی۔ خانقاہوں میں اللہ ھو کی ضرب کے ساتھ محمد رسول اللہ کا ذکر ہے تو مدارس میں قال اللہ و قال الرسول کی صدا۔ دشت و صحرا میں اسی کی بازگشت ہے تو گلزاروں اور کشت زاروں میں بھی اسی کی پکار۔ یادِرسولﷺ پہاڑوں پر بھی ہورہی ہے اور میدانوں میں بھی اسی کا آوازہ بلند ہے۔ سمندر کے سینے پر بھی انسان ذکرِ رسولﷺ میں رطب اللسان ہے تو بسیط فضائوں میں ہوائوں کے دوش پر بھی رسول اللہ کی یاد دلوں کا انبساط اور روح کی نشاط اور ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ فضائوں سے پرے خلائوں سے آگے فلک الافلاک سے بہت اوپر اللہ کے عرش پر بھی یادِ رسولﷺ میں صلوٰۃ و سلام کا ورد ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ثنائے محمدﷺ اور وصفِ حبیب سے دنیا کی کسی بھی زبان کا ادب ناآشنا نہیں۔ یہی وہ ذات ہے جس کا تذکرہ بالواسطہ یا بلاواسطہ ہر دو طرح سے ادبی دنیا کے لیے شان اور سبب عظمت بنا رہا ہے اور جس کے ذکر کی لذت انسانیت کی فلاح و کامرانی کی ضامن بنی، جس کی وجہ سے آپ کے نہ ماننے والے بھی آپ کی عظمت کے قائل رہے ہیں، انھوںنے والہانہ انداز میں آپ کی ثناگستری کو شعارِ حیات بنایا۔
ذکرِ حبیبﷺ اور ثنائے محمدیﷺ کا چسکا ہمارے ان شعرا کو بھی لگا ہے جو تارک الدیار ہیں اور مہاجرت اختیارت کرکے سمندروں پار دنیا میں جا بسے ہیں۔ یادِ رسولﷺ کے ذریعے ان شعرا نے آسودگی، دل بستگی اور اطمینانِ قلبی حاصل کی ہے۔ مہاجرت کی کلفتوں کو دُور کرنے اور غیروں کے درمیان اپنا تشخص قائم رکھنے کے لیے حضورﷺ سے اپنی قلبی وابستگی کا اظہار ان شعرا نے اپنے نعتیہ کلام میں مختلف انداز سے کیا ہے۔ گویا نعتِ رسولﷺ ان کے لیے مداوائے رنج و الم اور سامانِ نشاط و انبساط ہے۔ سمندروں سے اس پار دیارِ مغرب میں فروکش اردو شعرا کے نعتیہ کلام کے تجزیے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ عقیدت کی فراوانی ان کے یہاں باوجود مغرب پرستوں کے درمیان رہنے کے ویسی ہی ہے جیسے ہمارے برصغیر کے شعرا کے نعتیہ کلام میں پائی جاتی ہے۔ ہاں خیالات کا کچھ نیا پن جو مغربی افکار کی دین ہے، ان کے یہاں ضرور پایا جاتا ہے۔ ذیل میں براعظم امریکا میں کی جانے والی نعتیہ شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے صفوتؔ علی کے مقام کے تعین کی کوشش کی گئی ہے۔
نعت آپ کی مدحت طرازی کو کہتے ہیں۔ یہ فن حمدیہ شاعری کے بالمقابل زیادہ مشکل ہے۔ مدحتِ رسولﷺ میں نہ اسراف و تبذیر کی گنجائش ہے نہ استقصار کی۔ اس لیے شاعر کو ہر دو جانب سنبھلنا ہوتا ہے۔ مدحت عربی لفظ ہے۔ یہ مدح سے مشتق ہے اور عربی شاعری کے چار ارکان میں سے ایک ہے۔ ’’کتاب العمدہ‘‘ میں ابن رشیق نے مدحت طرازی کے اصول و ضوابط بیان کیے ہیں۔ مولانا شبلی نے اپنے مقالے میں ان کا خلاصہ اس طرح پیش کیا ہے:
۱۔ الفاظ گزیدہ اور شستہ ہوں۔ سوقیانہ الفاظ اور محاورے نہ آنے پائیں۔
۲۔ مدح میں زیادہ اشعار نہ ہوں۔
۳۔ مدح میں تفاوتِ مراتب کا لحاظ رکھا جائے۔
۴۔ زیادہ تر ذاتی اور اصلی اوصاف بیان کرنے چاہییں، جو اوصاف عارضی ہیں مثلاً دولت، جاہ و مال وغیرہ ان چیزوں کے ذکر کی ضرورت نہیں۔
ابن رشیق عارضی اوصاف کو سرے سے ترک کرنا نہیں چاہتے البتہ وہ ذاتی اوصاف کو مقدم رکھنے کے موئد ہیں۔ عربی شاعری میں شاہوں اور سلطانوں کی مدحت سرائی کے لیے یہ اصول اور ضوابط مرتب کیے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آقائے نامدار حضرت محمدﷺ کی مدح سرائی میں ان اصولوں کا التزام بدرجۂ اتم رہے گا کہ آپ تو شاہوں کے شاہ اور سلطانوں کے سلطان ہیں۔ ان خطوط کی روشنی میں جب دیارِ مغرب بالخصوص براعظم امریکا میں بسنے والے شعرا کی نعتیہ شاعری کو نقد کی کسوٹی پر پرکھاجائے تو مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
۱۔ شریعت و شعریت کا امتزاج
حسنِ شعری کا نام شعریت ہے۔ شاعری کو اگر جسم تسلیم کرلیا جائے تو شعریت اس کی روح ہے۔ شعریت کے بغیر شاعری مردہ جسم کے مانند ہے۔ وارداتِ حیات کی ترجمانی اگر شاعری ہے تو اس میں تخیل و جذبات کا وجود اس کی شعریت قرار دیا جائے گا۔ محب عارف اپنی اہم کتاب ’’شعریات: مسلک و معقولیت‘‘ میں شعریت کی یوں تعریف کرتے ہیں:
شعریت ایک معنوی دل کشی ہے۔ یہ ہماری جمالی جبلت کی اس شاخ کی تسکین کا باعث ہوتی ہے جو ذوقِ شعری کی روحِ رواں ہوتی ہے۔ ذوقِ شعری کے دراصل دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک تخلیقی، جو شاعر سے شعر کہلواتا ہے، دوسرا انفعالی، جو قاری کو شاعر کی تخلیق انگیز قلبی کیفیت میں کیف انگیز شرکت سے ہم کنار کراتا ہے۔
گویا شعر کی اثرآفرینی، جاذبِ توجہ اور دل میں سما جانے کی خوبی کا نام ’’شعریت‘‘ ہے۔ لیکن ہر شعر نہ تو جاذبِ توجہ ہوتا ہے نہ دل میں سماتا ہے۔ شعر میں یہ خوبی عود کر آنے کے لیے مندرجہ ذیل لوازمات کا ہونا ازحد ضروری ہے۔
۱۔ شاعر کے اپنے مشاہدات اور تخیل کی ہم آہنگی
۲۔ جذبے کی ترسیل کے لیے الفاظ کی پیکر تراشی
۳۔ طرزِ اظہار میں وارفتگی اور فطری پن
۴۔ دُور اذکار معنویت سے عاری الفاظ کا استعمال
۵۔ سادگی و پرکاری
۶۔ تنافر و نامانوسیت اور خلافِ قواعد جملوں سے اجتناب
۷۔ شعر میں اپنی بات کہنے کی بجائے ’’بولنے والے الفاظ‘‘ کا استعمال
۸۔ اظہارِ خیال کی برجستگی
۹۔ احساس کو برانگیختہ کرنے کا ہنر
۱۰۔ سلاست، نزاکت، جدت، روانی اور موزونیت
یہ سارے لوازمات پیکر شعر میں ڈھل جائیں تو شعریت عود کر آتی ہے اور اس کے حسن کو دوبالا کرتی ہے۔
تقدیسی شاعری میں بالعموم ان لوازمات کا نباہ ذرا مشکل ہوتا ہے۔ نعتیہ شاعری میں ان کے استعمال میں اور بھی زیادہ دقت پیش آتی ہے، اس لیے اس میں شعریت کا نہ پایا جانا بدیہی ہے۔ بقولِ محمد حسن عسکری:
بیش تر مذہبی شاعری کے ناکام رہنے کی ایک تاویل تو ہم یوں کرسکتے ہیں کہ شاعری کا تعلق عالم طبعی سے ہے اور مذہبی تجربات عالم طبعی سے ماورا ہیں۔ اس لیے شاعری سے ان تجربات کے اظہار کا کام لیا ہی نہیں جاسکتا۔
(محمدحسن عسکری:’’ مجموعہ‘‘ لاہور، ۱۹۴۴ء، ص۴۱۲)
شریعت، احکامِ الٰہی کو سنتِ رسولﷺ کے طریقے پر پورا کرنے کا نام ہے۔ شریعت معمولاتِ روحانیہ کی عملی تفسیر ہی نہیں، معاملاتِ دنیا کے عملی تجربات کے خدائی ضابطوں کا منشور ہوتی ہے۔ یہ مابعد الطبیعیاتی روحانی نظام کو انسانی زندگی کے مادّی نظام سے نہ صرف یہ کہ مربوط کرتی ہے بلکہ دونوں میں مطابقت و مماثلت پیدا کرتی ہے۔ شریعت ہمیشہ پاک و مطہر اور خیر و صالح خیالات کا سرچشمہ ہوتی ہے، وہاں لہویات و لغویات کا کوئی گزر نہیں۔ شریعت سعید جذبات کو تحریک دیتی ہے اور لطیف احساسات کو جگاتی ہے۔ وہ آدمی کو حسنات کا خوگر بناتی ہے اور قبائح سے دُور رکھتی ہے۔ غرضے کہ شریعت کلیتاً خیر ہی خیر ہے۔ نعت میں جب شریعت و شعریت یک جا ہوجائیں تو اس کا ہر شعر خیر و صداقت و حسن کا مرقع بن جاتا ہے۔ امریکا کے نعت گو شعرا کے یہاں ایسے حسین مرقع جابجا دکھائی دیتے ہیں۔
شمالی امریکا میں عبدالرحمن عبد پہلے نعت گو شاعر ہیں، جن کا حمد و نعت پر مشتمل کلام کتاب کی صورت میں شائع ہوا۔ ’’عرفانِ عبد‘‘ ان کے نعتیہ مجموعے کا نام ہے۔ نیویارک میں مقیم عبدالرحمن عبد دیارِغیر میں انوارِ حرم ذکر رسول کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ ان کا کلام پختہ سادگی و پرکاری کا حسین سنگم نظر آتا ہے۔ مؤدّت و محبتِ رسولﷺ ان کی نعتوں میں جابجا اپنا وجود منوا لیتی ہے۔ ان کی نعتوں میں مدحتِ رسولﷺ پابندِ شریعت دکھائی دیتی ہے۔ نہ ان کے یہاں عقیدت میں غلو ہے کہ شریعت سے منحرف ہوجائے نہ عشقِ رسولﷺ میں تنگ دامانی کا احساس ہوتا ہے۔ اپنی نعتوں میں انھوںنے عقیدت کے ساتھ شعری تقاضوں کو بھی نبھایا ہے۔ یہ چند نعتیہ اشعار ملاحظہ ہوں:
داستاں معتبر انھیں سے ہے
زندگی کی سحر انھیں سے ہے
عبدؔ اس لالہ زارِ ہستی میں
رنگ ہے جس قدر انھیں سے ہے
٭
عبدؔ تکمیل بیانِ مصطفی ممکن نہیں
شرح یہ ایسی ہے جس کی انتہا ممکن نہیں
ہیں محمد مظہر نورِ خدائے لم یزل
کرسکیں الفاظ اس کا حق ادا ممکن نہیں
صفوتؔ علی کی نعتیہ شاعری میں بھی شریعت و شعریت باہم یک جا ہوئے ہیں۔ نعت کے ایک شعر میں تو انھوںنے نعت کے لیے نامِ محمدﷺ ہی کو شعریت سے تعبیر کردیا ہے:
یہاں شعریت بس ہے نامِ محمد
یہ تعریف میں بے حساب آرہا ہے
گویا ذکرِ رسولﷺ میں تواتر صفوت علی کے نزدیک شعریت سے کم نہیں۔ اس لیے کہ شعریت شاعر کی جمالی جبلت کی تسکین کا باعث ہوتی ہے اور ذکرِ رسولﷺ تسکینِ قلب کا موجب ہوتا ہے۔ صفوتؔ نے عقیدت اور شعریت کو بھی یک جا کرنے کی کوشش کی ہے:
فقط نور ہیں وہ، ہمہ نور ہیں وہ
جسد تو یہ بن کر نقاب آرہا ہے
۲۔ اسالیب کا تنوع
طرزِ بیان اور طرزِتحریر کو اسلوب کہتے ہیں۔ شاعری میں طرزِسخن اسلوب کہلائے گا۔ کسی بات کو مختلف طورپر پیش کرنے یا ایک بات کو سو طرح سے بیان کرنے کی وجہ سے بیان میں حسن پیدا ہوجاتا ہے۔ طرزِبیان کے ایسے کئی اقسام ہوسکتے ہیں۔ ان کے سہارے شاعر اپنے کلام کو مؤثر اور حسین بنانے کا جتن کرتا ہے۔ نعت گو شعرا عقیدت کی فراوانی اور عشقِ رسولﷺ میں وارفتگی کی بنیاد پر گل ہائے مدحت میں اسالیبِ سخن کے رنگ بھر بھر کر گویا چمنستانِ نعت سنوارتے ہیں۔ اردو شاعری میں انیسؔایک مضمون کو سو طرح سے باندھنے کے لیے معروف ہیں۔ شعرائے نعت گو نے بھی اس طرز کو اپنایا ہے۔ حضرت مولانا مفتی اعظم احمد رضا خاں بریلوی نوراللہ مرقدہ کے یہاں اسالیب شعری کے کئی ابعاد پائے جاتے ہیں۔ انھوںنے واقعی نعت گوئی کے فن کو عقیدت و محبتِ رسولﷺ سے جوڑ کر بلندی پر پہنچا دیا ہے اور ایک غیرملتفت صنف کو مرکز التفات بخشا ہے۔ مولانا مرحوم کی تقلید میں برصغیر کے سیکڑوں نعت گو شعرا نے نعت میں طبع آزمائی کی ہے اور اپنی عقیدت، جذبات اور وارداتِ قلبیہ کو نعتیہ اشعار میں مختلف اسالیب کے سہارے بیان کیا ہے۔ دیارِ مغرب کے نعت گو شعرا کے یہاں بھی اسالیب کا تنوع پایا جاتا ہے۔ ظفر علی خاں نے ’’لولاک لما خلقت الافلاک‘‘ کی تصریح اپنے ایک شعر میں کچھ اس طرح کی ہے:
سب کچھ تمھارے واسطے پیدا کیا گیا
سب غایتوں کے غایتِ اُولیٰ تمھیں تو ہو
اب اس خیال کے مختلف ابعاد مہاجر شعرا کے یہاں ملاحظہ فرمایئے۔ حامد امروہی (امریکا) نے لولاک کے تصور کے کئی پہلو تراشے ہیں:
تخلیقِ کائنات کا منشا کہا گیا
دونوں جہاں کا ان کو اُجالا کہا گیا
٭
باعثِ ُکن فکاں مرے آقا
رونقِ دوجہاں مرے آقچا
٭
وجہِ کون و مکاں آگئے
صدرِ بزمِ جہاں آگئے
’’لولاک‘‘ کی وضاحت کے لیے حامد امروہوی نے ’’تخلیقِ کائنات کا منشا‘‘، ’’باعثِ ُکن فکاں‘‘، ’’رونقِ دوجہاں‘‘، ’’وجہِ کون و مکاں‘‘، ’’صدرِ بزمِ جہاں‘‘، ’’باعثِ عالمِ امکاں اور قصہ زیست کا عنوان، جیسی بامعنی اور پُراثرار تراکیب استعمال کی ہیں، جن میں عظمتِ رسولﷺ کی جھلک نمایاں ہے۔
محسن احسان نے لولاک کی ترجمانی کرتے ہوئے آپ کو ’’رونقِ دوعالم کے نگہباں‘‘ اور ’’سینۂ کونین میں رواں سانس کی وجہ، قرار دیا ہے۔ طلعت سلیم آپ کی ذات کو وجہ نمود شش جہات، زینت کون و مکاں کہتی ہیں۔ خواجہ محمد عارف لولاک کی تصریح الفاظ میں عود و عنبر کی خوش بو بسا کر کرتے ہیں:
بزمِ کونین مہکتی ہے انھیں کے دم سے
پیکر عطر کہو، ان کو گلِ تر لکھو
یوںکہو ان کی ہی رحمت ہے جہانوں کو محیط
سارے عالم کے وہی مرکز و محور لکھو
لیکن ان تمام شعرا سے ہٹ کر صفوت علی صفوتؔ نے اشارے کنائے میں آپ کی ذات کو وجود وجۂ وجود یعنی Cause اور Effect کے رشتے سے جوڑا ہے۔ اسے Principle of causality کہتے ہیں۔ اس میں کائنات کی تخلیق سے پہلے کے ان اصولوں کا ذکر ہے جن کی اطاعت اجسام کے لیے طے پائی۔ اسے صفوت نور احمد مجتبیٰ سے تعبیر کرتے ہیں کہ یہی وجہ تخلیقِ کائنات۔ آپ کے لیے یہ توجیہہ سائنسی فکر سے لگا کھاتی ہے۔ لیکن شاعر اس کی وضاحت نہیں کرتا اور اسے بعد میں بیان کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔
تو وہ نورِ احمدِ مجتبیٰ وہ الگ ہے عشق کی داستاں
یہ عبورِ وقت کی بات ہے وہ میں پھر کروں گا کبھی بیاں
صفوت نے اپنا یہ وعدہ ’’مثنویِ رسولﷺ‘‘ لکھ کر پورا کیا ہے۔ صفتِ لولاک کی طرح آپ کے وصفِ نور، رحمۃ للعالمینی صفت، سفرِ معراج، صحائفِ قدیمہ میں آپ کے متعلق پیشین گوئیاں اور سیرت کے مختلف واقعات کے بیان میں دیارِ مغرب کے اردو نعت گو شعرا نے مختلف النوع اسالیب اپنائے ہیں۔ یہ اسالیب کہیں تو واقعی جاذبِ نظر اور دل کش دکھائی دیتے ہیں، لیکن بعض جگہوں پر نظر ٹھوکر کھا جاتی ہے۔
۳۔ عصری مسائل
سائنسی ایجادات، تہذیبی گراوٹ، اخلاقی بدحالی اور انسانیت کی پستی نے زمین پر بسنے والے انسانوں کی زندگی میں پیچیدہ صورتِ حال پیدا کردی ہے۔ آدمیّت کا شیرازہ بکھر گیا ہے۔ حیوانیت اور بہیمانہ طرزِ زندگی کو ترقی اور تہذیبِ نو کے پُرفریب القاب دیے جارہے ہیں۔ سیاسی نظام جنگل راج بن کر عالمی سطح پر پھیلتا جارہا ہے۔ سلطانی / زمینی عذابوں کی قہرآلود مسموم فضائوں کو ختم کرنے کے لیے رحمتوں کا نزول ضروری ہے۔ اس لیے محسن احسان عالم انسانیت کی تیرہ بختی کا منظر بارگاہِ رسولﷺ میں یوں پیش کرتے ہیں:
شاہِ یثرب ہے عجب اُمتِ مرحوم کا حال
اب نہ احساس ہے باقی نہ مروّت باقی
اب ہر اک فرد ہے قید اپنے صنم خانے میں
اب محبت نہ صداقت نہ اخوت باقی
اب فقط فرقہ پرستی کی ہوا چلتی ہے
اب خدا ہے نہ خدا کی ہے اطاعت باقی
صفوت علی کی ’’مثنویِ رسولﷺ‘‘ میں البتہ عصری مسائل کا زاویۂ نگاہ تمام نعت گو شعرا سے مختلف نظر آتا ہے۔ وہ خود سائنس داں ہیں اور اُمت کے سائنسی علوم کی جانب مراجعت کے خواہاں ہیں۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اُمت کو علم سے دلچسپی نہیں رہی۔ ناخواندگی کا گراف اُمت میں بڑھتا جارہا ہے۔ اس دُکھ کا برملا اظہار وہ اپنی نعتیہ مثنوی میں یوں کرتے ہیں:
ابھی اُمت کی کثرت نام اپنا پڑھ نہیں سکتی
خلا کی دوڑ میں آگے تو ایسے بڑھ نہیں سکتی
بصیرت عالموں کی علم سے اب دُور رہتی ہے
مکمل روشنی میں بھی شبِ دیجور رہتی ہے
صفوت علی نے ملّی مسائل کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی مسائل کو اپنی نعتیہ شاعری میں پیش نہیں کیا اور نہ ہی قدرتی آفات، اچانک رونما ہونے والے حادثات، سماجی مناقشات اور عالمی سیاست کے پیدا کردہ مصنوعی مسائل کی وجہ سے ہونے والی پیچیدگیاں وغیرہ انسانی حیات سے جڑی پریشانیوں کا رونا صفوت نے اپنی نعتوں میں رویا ہے۔ نعت جیسی مقدس شعری ہیئت کو شاید وہ اس کا متحمل نہیں سمجھتے ہیں۔
۴۔ تاثرات نقوش (Impressionistic Paintings)
شاعری میں تاثرات نقوش کا ارتسام نہایت مشکل ہوتا ہے۔ کسی منظر، واقعے یا حادثے کو دیکھ کر اُمڈے ہوئے جذبات اور شدید احساسات سے تشکیل پانے والے تاثر کی شعر میں لفظی تصویر کھینچنے کا عمل تاثرات نقوش کہلاتا ہے۔ یہ عمل محاکاتی اور تجسیم کاری نیز پیکری بیانیہ (پیکریت) سے مختلف بھی ہوتا ہے اور بعض دفعہ ان کا ہم معنی۔ مصوری میں تاثرات نقوش ظل و نور کی مدد سے اُبھارے جاتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال پندرھویں صدی عیسوی کے اٹالین مصور لیوناردو۔ د۔ وھنچی کی مشہور پینٹنگ ’’لاسٹ سپر‘‘ (آخری ناشقہ) ہے۔ مصور نے اس تصویر میں عیسیٰؑ کے حواریوں کے اس وقت کے جذبات و کیفیات کی تصویرکشی کی ہے، جب آپ نے ان سے کہا تھا کہ ’’تم میں سے ہی ایک شخص مجھے گرفتار کروائے گا۔‘‘ ادب بالخصوص شاعری میں تاثراتی نقوش اُبھارنے کے لیے انتخابِ الفاظ ایک امتحان ہوتا ہے۔ الفاظ کی معنوی نزاکتوں اور لطافتوں کا خیال رکھتے ہوئے شاعری میں ان کا انتخاب ہو تو تاثراتی نقوش کا ارتسام سہل ہوتا ہے۔ وگرنہ شعر کا معنوی حسن اور تاثر غارت ہوجاتا ہے۔ شبلیؔ نے انیسؔ کے کلام میں ایسے نقوش تلاش کیے ہیں، مثلاً:
کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا
تھا موتیوں سے دامنِ صحرا بھرا ہوا
اور
شبنم نے بھر دیے تھے کٹورے گلاب کے
اوس اور شبنم اگرچہ ہم معنی ہیں، لیکن ان کے مناسب نشست سے دونوں مصرعوں کا جو تاثر اُبھر کر سامنے آیا ہے وہ دیدنی ہے۔
ہمارے نعت گو شعرا نے ایسے تاثراتی نقوش قائم کرنے کے جتن کیے ہیں۔ واقعۂ معراج، مسجد نبوی کے در و دیوار اور ہجرت و غزوات کے بیان میں بعض شعرا اپنے شدید جذبات و احساسات کا اظہار کرنے کے لیے ایسے مراحل سے گزرے ہیں جس کی وجہ سے ان کی نعتوں میں اثرآفرینی میں اضافہ ہوا ہے۔ ان شعرا کے یہاں بیان کی سادگی اور تراکیب کی غیرپیچیدگی تاثراتی نقوش اُبھارنے میں معاون ثابت ہوئی ہیں۔ طلعت سلیم کے یہاں تاثراتی نقوش کے نمونے ملاحظہ ہوں:
کیے تخلیق اللہ نے زمیں پر پھول بوٹے تتلیاں جگنو
کہ آپ آئیں تو رنگ و نور کی محفل سجائیں آپ کی خاطر
کھلائے جا بہ جا نرگس کے ڈھیروں پھول اس نے باغِ ہستی میں
خبر آئے! کہ آپ آئے تو وہ آنکھیں بچھائیں آپ کی خاطر
صفوت علی کی ’’مثنویِ رسولﷺ‘‘ میں ایسے تاثراتی نقوش کی وافر مثالیں مل جاتی ہیں۔ معراج کے سفر کی روداد بیان کرتے ہوئے وہ فلک اوّل کی کیفیت کی یوں تصویر کھینچتے ہیں:
جدھر سے آپ گزرے ہیں فلک کی سیج بدلی ہے
ستارے خود ہی آگے بڑھ کے چادر تان آئے ہیں
شعاعیں آپ کی یہ عرش بھی نہلائے جاتی ہیں
کہ ہم تک شمع محفل چشمۂ ایمان آئے ہیں
بسی جاتی ہے ذہنوں میں ہمارے نکہتِ مرسل
گلاب و یاسمین و خوش بوئے ریحان آئے ہیں
عطا روزِ ازل سے بس یہی خواہش ہوئی ہم کو
اس اک شرفِ نظر میں سب نکل ارمان آئے ہیں
ایسے تاثراتی نقوش ڈاکٹر سیّد تقی عابدی کے نعتیہ کلام میں اپنے وجود کو منوا لیتے ہیں۔ کینیڈا میں مقیم ڈاکٹر تقی عابدی کے نعت و منقبت کا مجموعہ ’’جوش مؤدّت‘‘ کے عنوان سے معروف ہے۔ آج سے بیس تیس برس قبل ان کا نعتیہ مسدس ’’وہ میرا نبی میرا نبی میرا نبی ہے‘‘ برصغیر میں کافی مقبول ہوا تھا۔ اس مسدس میں جوشِ مؤدّت و عقیدت کے ساتھ تاثر آفرینی کا ایک سیلِ رواں دکھائی دیتا ہے:
اسلام یہی ہے میرا ایمان یہی ہے
سنت ہے یہی اور میرا قرآن یہی ہے
کہتا ہے خدا عرش کا مہمان یہی ہے
جس نے کیا ہم سب کو مسلمان یہی ہے
قدسی کے لحن میں جو عجب خوش لقبی ہے
وہ میرا نبی میرا نبی میرا نبی ہے
۵۔ شخصی تداخل
نعتِ رسولﷺ میں شاعرانہ تعلّی کی مطلق گنجائش نہیں۔ کوئی شاعر اگر حسنِ عقیدت کے اظہار میں تعلّی سے کام لیتا ہے تو یہ مدحت طرازی نہ ہوگی بلکہ خودنمائی کے مترادف ٹھہرے گی۔ البتہ نبی سے اپنی نسبت استوار کرنے کے جذبے کا اظہار، تمنا، خواہش اور حسرت کے ساتھ اشعار میں نمایاں ہو تو یہ خودنمائی تعلّی میں نہیں شخصی تداخل (Personal Involvement) میں شمار ہوگی۔ یہ جذبہ حبِ رسولﷺ سے عود کر آتا ہے، اس لیے خیر و صالحیت کا مرقع ہوتا ہے۔ نعت میں اس طرح کا شخصی تداخل رسولِ عربی سے نسبت کو استوار کرتا ہے۔ یوں بھی شدتِ احساس تضرع و زاری اور کرب دروں رسولِ اکرمﷺ سے قلبی وابستگی کے غماز ہوتے ہیں۔ یہی عناصر نعت کے تاثر کو بڑھاتے ہیں۔ ان عناصر کے حامل نعتیہ اشعار میں اگر افکار کی گہرائی اور شریعت کا لحاظ بھی شامل ہوجائے تو ایسی نعتوں کا شمار خیرالحدیث میں ہوتا ہے۔ ہماری شاعری میں شخصی تداخل کی مثالیں پائی جاتی ہیں، لیکن ایسی مثالیں بہت کم پیش کی جاسکتی ہیں جن میں Personal Involvement کی سطح قلبی وابستگی اور وارفتگی شوق تک پہنچتی ہو۔ الا ماشاء اللہ بعض شعرا کی نعتوں میں یہ سطح بلند نظر آتی ہے۔ ان میں رِیا اور دکھلاوے کے برعکس فطری پن جھلکتا ہے۔ اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلوی نوراللہ مرقدہ،اقبال،ابوالخیرکشفی،مولاناظفرعلی خاں،صبیح رحمانی،حفیظ میرٹھی،بہزادلکھنوی، ماہرالقادری، محسن کاکوروی اور امیرمینائی جیسے نعت گو شعرا کے یہاں شخصی تداخل میں وارفتگی اور خودسپردگی کے جذبات اوج پر دکھائی دیتے ہیں۔ ’’مدینہ کی جوگن‘‘، ’’بلمامورے پیارے‘‘، ’’لاج رکھو‘‘، ’’راج دلارے‘‘، ’’پیا کی گلی میں چلی یہ جوگنیا‘‘ وغیرہ عنوانات کی نعتیں اس پر دال ہیں۔ دیارِ مغرب میں بسے شعرا کے کلامِ نعتیہ میں بھی شخصی تداخل کی مثالیں مل جاتی ہیں، جیسے:
کاش میں ہوتی، جہاں میں چودہ صدیاں پیش تر
مجھ کو بھی ہوتے میسر دیکھنے وہ ماہ و سال
آپ کے قدموںمیںجھک کر پیش میں کرتی سلام
آپ سے لے کر دعائیں کس قدر ہوتی نہال
(طلعت سلیم)
مجھے مل گئیں نعمتیں سب جہاں کی
مرا نام اُمت میں تیری لکھا ہے
میں نامِ محمد پہ قربان جائوں
مری روح کے واسطے یہ غذا ہے
(آغامحمدسعید)
لیکن صفوت کے یہاں Personal Involvement کی نادرہ کاری کچھ اور ہی رنگ پیش کرتی ہے:
دربارِ محمد ہے مری آنکھ کے اندر
بیٹھے ہوئے وہ صاف نظر آنے لگے ہیں
لو سانس بھی آہستہ کہ ٹوٹے نہ مرا خواب
سرکارِ دوعالم مرے پاس آنے لگے ہیں
٭
درود ان پہ پڑھ کرکے سو جائو صفوتؔ
انھیں دیکھنے ایک خواب آرہا ہے
بالآخر ڈھونڈ لیں گے محورِ نورِ خدا صفوتؔ
بالآخر نورِ احمد گرد اس محور کے دیکھیں گے
مندرجہ بالا مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ صفوت نے دیارِ مغرب کے نعت گو شعرا سے ہٹ کر بھی کچھ سوچا ضرور ہے اور اپنے نعتیہ کلام کی دیگر نعتیہ کلام سے علاحدہ شناخت کرانے کی کوشش کی ہے۔ معراج ناموں کی قدیم روایتوں سے لے کر عصرجدید کی نعتیہ شاعری میں تجربوں تک ان تمام روشوں سے ہٹ کر ’’مثنویِ رسولﷺ‘‘ دکھائی دیتی ہے۔ گویا شاعر بذاتِ خود نعتیہ ادب میں اپنی علاحدہ شناخت کے خواہاں ہیں۔ اگر صفوت اس راہ دودم پر استقلال کے ساتھ جمے رہیں اور تسبیح ریاضت کے دانوں کو مستقل پھیرتے رہیں تو یقینا دیارِ مغرب میں نعتیہ شاعری میں ان کی علاحدہ شناخت قائم ہوجائے گی اور ان کا قد بھی بلند ہوجائے گا۔ مستقبل کے اس تارک الدیار شاعر سے ہمیں اُمیدیں وابستہ رکھنی چاہیے۔
{٭}
No comments: