Best Wall Stickers

عمران نقوی کا نعتیہ منظرنامہ

ڈاکٹر سیّد شبیہ الحسن۔ لاہور




عمران نقوی کا نعتیہ منظرنامہ



اس کائنات رنگ و بو میں تخلیق ہونے والی ہر شے اپنی نوعیت اور اہمیت کے اعتبار سے مفید اور کارآمد ہے۔ تاہم یہ امر صاحبانِ فہم و ذکا کے لیے موجب امتنان ہے کہ ہر تخلیق دوسرے سے مختلف ہے بلکہ بعض کو بعض پر فضیلت بھی حاصل ہے۔ ہر پتھر اس قابل نہیں ہوتا کہ اسے حجرِاسود کی طرح بوسہ دیا جائے۔ اگر عمیق نگاہی سے اس فلسفے پر غور کیا جائے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ ہر شے کسی نہ کسی نسبت سے دائمی عظمت کی حامل ہوتی ہے۔ ہمارا اختصاص یہ ہے کہ ہمیں حضور اکرم حضرت محمدﷺ سے خصوصی نسبت ہے اور یہی وہ نسبت ہے جس نے ہماری ابتدا کو ہماری انتہا سے ملا دیا ہے۔
ہمیں نسبت ہے ختم الانبیا سے
ہماری ابتدا ہے انتہا سے
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہر شے کا خالق ایک ہی ہے تو ان مخلوقات میں فضیلت کا معیار کون طے کرے گا۔۔۔؟ خالق یا مخلوق؟ صاحبان دانش اس امر پر متفق ہوں گے کہ خالق مخلوق کی ہر ادا سے واقف ہوتا ہے لہٰذا معیار فضیلت بھی وہی طے کرے گا۔ اگر اسی بات کو شاعرانہ پیرائے میں ادا کیجیے تو کہا جائے گا کہ محبوب کو عاشق کی ایک ایک ادا کی خبر ہوتی ہے اور وہی عاشق اور بوالہوس کے مابین حد امتیاز طے کرتا ہے لیکن اسے کیا کہیے کہ اس کائنات میں ایک ایسا موقع بھی آجاتا ہے جب خالق خود اپنی تخلیق کا عاشق بن کر اسے محبوب بنانے پر مصر ہو جاتا ہے اور کمال ہے کہ محبوبِ خدا بننے والا اپنا سرِتسلیم خم کرکے اپنے عبد ہونے کا اعلان کر دیتا ہے۔ اس عبد خاص کو اللہ تعالیٰ نے محض لاثانی و لافانی ہی نہیں سنایا بلکہ اس جلیل القدر ہستی کو یہ فضیلت بھی عطا کی کہ جو اس ذات گرامی سے منسلک ہوجاتا ہے وہ بھی لافانی ہو جاتا ہے۔ اس راز کو پالینے کے بعد شعر و ادب کے پرستار عمران نقوی بھی کو چۂ نعت میں سر کے بل حاضر ہوگئے ہیں۔ اس طرح مدحتِ سرکار کے نتیجے میں وہ دار ابقا میں داخل ہوگئے ہیں۔ بقول عمران نقوی:
ان کی رحمت سے ہوں میں اہلِ بقا میں ورنہ
چار سُو پھیلا ہوا رنگ فنا دیکھتا ہوں
عمران نقوی ایک زیرک صحافی کی حیثیت سے مقبول ہیں۔ انھوںنے اپنے عہد کے نامور تخلیق کاروں سے گفتگو کرکے اپنے عہد کے سیاسی، سماجی، مذہبی، شعری اور تہذیبی رویوں کو محفوظ کرنے کی سعی کی اور ’’حرفِ ملاقات‘‘ اور شرفِ ملاقات‘‘ جیسی کتابیں صاحبانِ علم و ادب کی خدمت میں پیش کیں۔ ایک اردو اور پنجابی شاعر کی حیثیت سے وہ اپنی شناخت منوا چکے ہیں۔ ’’خیمۂ شام‘‘ (اردو شعری مجموعہ) اور ’’کل دی گل اے‘‘ (پنجابی شعری مجموعہ) کے بارے میں معتبر ناقدین کی آرا ہمارے موقف کی تائید کے لیے کافی ہیں۔ اسی طرح ان کے ادبی کالموں کا مجموعہ حرفِ زارزیورِ طبع سے آراستہ ہوچکا ہے۔ آفتاب احمد نقوی مرحوم اور خورشیدگیلانی جیسی شخصیات کے حوالے سے بھی ان کی کتابیں منصئہ شہود پر آچکی ہیں اور اب انھوںنے اپنے افکار و نظریات کو باوضو کرکے نعتیہ مجموعہ ’’وجب الشکر علینا‘‘ پیش کردیا ہے۔ آئیے سب سے پہلے اس مجموعے میں شامل ناقدین کی آراء ملاحظہ فرمالیجیے۔ ڈاکٹر خور شید رضوی ’’خیر مقدم‘‘ کے عنوان سے رقم طراز ہیں:
۔۔۔ عمران نقوی کے ہاں نعت محض کارِ ثواب نہیں واردات اور سرگزشت ہے۔ خوش بو زور کرتی ہے تو منھ بند کلی کو کھلنا ہی پڑتا ہے۔ نسبت کی قوّت اور جذبے کا وفور عمران سے نعت کہلواتا ہے۔ یہ وفور اس کے ہاں کس حد تک زور کرتا ہے اس کا کچھ اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس مجموعے میں شامل نوے فی صد نعتیں پے بہ پے صرف تین ماہ کی مدت میں وارد ہوئیں اور اہل ذوق دیکھ سکتے ہیں کہ مشقِ سخن سے نہیں نقشِ احساس سے عبارت ہیں۔
(ڈاکٹر خورشید رضوی،خیر مقدم،مشمولہ وجب الشکر علینا عمران نقوی، لاہور، نگاہ پبلی کیشنز، ص۱۲)
ڈاکٹر تحسین فراقی ’’روشنی کا رزق‘‘ کے عنوان سے عمران نقوی کی نعت نگاری کے حوالے سے لکھتے ہیں:
وجب الشکر علینا میں عمران صاحب نے بڑی سہولت سے گہری باتیں کہنے کا اہتمام کیا ہے۔ یہ گہری باتیں انھوںنے تازہ اسلوب اور اعلیٰ ہنرمندی کے امتزاج سے کہیں ہیں۔ گو کہ اس مجموعے میں فنِ نعت کے اساتدہ سے فیض اندوزی اور الہام گیری بھی کہیں کہیں دکھائی دیتی ہے مگر یہ رنگ دھیما ہے اور تہ موج کی صورت میں ہے۔ ندرتِ اظہار اور اچھوتے اسلوب کے جابجا تیوروں سے اس مجموعۂ نعت کو نعت کے روایتی مجموعوں سے الگ پہچان بخشی ہے۔ بعض نعتوں کے مطالعے بڑے توانا اور پُرکشش ہیں اور بعض شعروں میں ضرب المثل بننے کی غیرمعمولی صلاحیت ہے۔
(ڈاکٹر تحسین فراقی، روشنی کا رزق، مشمولہ وجب الشکر علینا عمران نقوی، لاہور، نگاہ پبلی کیشنز، ص۱۹)
اس کتاب کے پبلشر اعجاز فیروز اعجاز، ’’توفیقِ خداوندی‘‘ کے عنوان سے رقم طراز ہیں:
عمران نقوی کی زیادہ تر نعتیں غزل کے پیرائے میں تخلیق ہوئی ہیں۔ کئی نعتوں کے مضامین قصیدے کے قریب تر ہیں۔ وفورِ جذبات، لب و لہجہ کی توانائی، لفظ و بیان کے استعمال کا سلیقہ، فکر انگیز مضامین اور محتاط اسلوب نے ان کی نعتوں کو ایسی منفرد حیثیت بخشی ہے کہ یہ مجموعہ تازہ کاری کا عملی نمونہ بن گیا ہے۔
(ڈاکٹر فیروز اعجاز، توفیقِ خداوندی، مشمولہ وجب الشکر علینا عمران نقوی، لاہور نگاہ پبلی کیشنز، ص۱۲)
ان معتبر ناقدین کی درج بالا آرا کے بعد عمران نقوی کی نعت گوئی کے حوالے سے مزید کچھ کہنا ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے۔ تاہم ان کی تمام نعتوں کے عمیق مطالعے کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ عمران نقوی کی نعتیں بنیادی طورپر درج ذیل چھہ امتیازی اوصاف سے مالامال ہیں۔
(الف) سرکارِ دوعالمﷺ سے والہانہ محبت و عقیدت۔
(ب) حضرت محمد مصطفیﷺ سے نسبت اور تعلق خاطر رکھنے والے احباب و اشیا کی پزیرائی۔
(ج) احترامِ رسالت مآبﷺ۔
(د) عصرِحاضر کے مصائب و آلام کا بیان اور رحمۃ للعالمینﷺ سے مدد کی التجا۔
(ھ) رسولِ اکرمﷺ کی سیرت کے لافانی اور روشن نقوش کو اُجاگر کرنا۔
(و) معطر اور معنبر اندازِ بیان۔
اس مختصر سے شذرے میں درج بالا چھہ خصوصیات کو بیان کرنا تو ممکن نہیں۔ تاہم سرِ دست عمران نقوی کی ان مختلف نعتوں کو ملاحظہ فرمایئے اور دیکھیے کہ انھوںنے کس طرح درج بالا اوصافِ حمیدہ کو اپنی نعتوں کا مرکز و محور بنایا ہے:
(۱)
اک حرفِ اُجالا مری تقدیر میںلکھ دے
مدحِ شہِ والا مری تقدیر میں لکھ دے
جب آنکھ کروں بند، کھلے شہرِ مدینہ
یہ خواب نرالا مری تقدیر میں لکھ دے
بے سوز و صدا ہوں میں کسی غار کے مانند
اک سوچنے والا مری تقدیر میں لکھ دے
ہو گنبدِ خضرا سے نمو کشتِ سخن کی
یہ سبز حوالہ مری تقدیر میں لکھ دے
روشن مرا ہر لفظ ہو مہتاب کی صورت
توصیف کا ہالہ مری تقدیر میں لکھ دے
(۲)
میرے یثرب کو جو اعزاز مدینہ ملتا
آمدِ سیّدِ لولاک کا مژدہ ملتا
دل سجاتا کبھی رستے میں بچھاتا آنکھیں
رہ میں نجار کا بے مثل قبیلہ ملتا
دھڑکنیں جب طلع البدر علینا لکھتیں
ظلمت شب میں دھنک رنگ اُجلا ملتا
ثبت ہوجاتے مرے دل پہ قدم ناقہ کے
رفعتِ عرشِ بریں سے مرا سینہ ملتا
قریۂ نور میں دن رات گزرنے لگتے
سایۂ سیّدِ ابرار میں جینا ملتا
اک مہاجر مرے گھر کو بھی فروزاں کرتا
سب کو جب عہدِ مواخات کا تحفہ ملتا
کعب وحسان کی صحبت میںگزرتے شب وروز
پیشِ سرور مجھے مدحت کا شبینہ ملتا
کوئی قول آپ کا مجھ سے بھی روایت ہوتا
لوحِ تاریخ میں میرا بھی حوالہ ملتا
جس گھڑی آپ تبسم سے اُجالا کرتے
کھلی آنکھوں سے مجھے اس کا نظارہ ملتا
کھینچتیں مسجدِ نبوی کی اذانیں مجھ کو
آپ کے قدموں کے پیچھے مجھے سجدہ ملتا
جاں ہتھیلی پہ لیے حاضرِ خدمت ہوتا
جب کسی غزوے میں شرکت کا اشارہ ملتا
ایک خوش بو مری نسلوں کی وراثت بنتی
میرے بچو کو جو حسنین کا صدقہ ملتا
موت آتی مجھے بخشش کی بشارت دینے
خاکِ طیبہ میں مجھے خلد کا گوشہ ملتا
کتنی صدیاں مرے لمحوں کو سلامی دیتیں
سب زمانوں سے جو افضل ہے زمانہ ملتا
(۳)
جبلِ نور پہ جب غارِ حرا دیکھتا ہوں
قریۂ سنگ میں اک پھول کھلا دیکھتا ہوں
ایک خوش بو مری سانسوں میں رواں ہتی ہے
مدحتِ سرورِ عالم کا صلہ دیکھتا ہوں
اُن کی رحمت سے ہوں میں اہلِ بقا میں ورنہ
چار سُو پھیلا ہوا رنگ فنا دیکھتا ہوں
زندگی آگ کے رستے کے سوا کچھ بھی نہ تھی
اک چمن زار سرِ کوہ صفا دیکھتا ہوں
ق
دونوں عالم ہیں مدینے کے رہینِ احسان
ہر طرف اس کی جھلک اس کی ادا دیکھتا ہوں
اک چٹائی ہے سرِ عرش بریں ضو افروز
طاقِ افلاک پہ مٹی کا دِیا دیکھتا ہوں
(۴)
پھر آج نعتِ نبی کا ہوا دِیا روشن
دیارِ جاں سے گزرنے لگی ہوا روشن
جوارِ مکہ میںجیسے ہوا حرا روشن
توُ کور چشموں پہ ہونے لگا خدا روشن
نسیمِ طیبہ سے آئی مراد کی خوش بو
لبوں پہ جب بھی ہوا حرفِ التجا روشن
جو روشنی لبِ دریا کی پیاس سے پھوٹی
تھا آلِ احمدِ مرسل کا سلسلہ روشن
دلوںمیںدِیپ جو اب تک ثنا کے جلتے ہیں
تو ہے یہ حضرتِ حسان کی ادا روشن
مرے نبی کے نقوشِ قدم کا ہے فیضان
فلک پہ ہے جو ستاروں کا قافلہ روشن
(۵)
مدح سرکار میں گزاری ہے
زندگی اس لیے بھی پیاری ہے
ایک موسم ہے اشک باری کا
اور سب موسموں پہ بھاری ہے
ذکرِ شہ میں سخن چھڑا تھا کبھی
اب یہی گفتگو ہماری ہے
سج رہی ہے درود کی محفل
لوگ کہتے ہیں سانس جاری ہے
ہم ترے نقشِ پا پہ چلتے ہیں
اس لیے روشنی ہماری ہے
اک عطا ہے مدینے والے کی
یہ جو مدحت میں تازہ کاری ہے
نعت تکمیل پا گئی عمران
کس قدر لطفِ ذات باری ہے
عمران نقوی کا اسلوب ان کی شخصیت کا غماز ہے۔ سادگی، سلاست اور اخلاص ان کے پُرتاثیر اسلوب کا منظرنامہ مرتب کرتے ہیں۔ طویل و مختصر ہر مزاج کی بحر میں ان کی طبیعت اپنے صناعانہ جوہر دکھاتی ہے۔ وہ لکھنوی شعرا کی طرف صنائع بدائع کی نزاکتوں سے تو کماحقہ آگاہ نہیں ہیں تاہم انھوںنے علم بیان و بدیع کے معروف اراکین سے خوب خوب کام کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نقوی صاحب نے آیات و احادیث سے بھی کماحقہ استفادہ کیا ہے۔ آپ ان کی نعتوں کی درج ذیل تراکیب و مرکبات ملاحظہ فرمایئے اور دیکھیے کہ عمران نقوی نے کس طرح فنی تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی نعتوں میں اپنے تخلیقی جوہر نمایاں کیے ہیں خاکِ پا، سرِ مژگاں، دل مضطر، قصدِ سخن، جبلِ نور، شہرِ انوار، اشک ندامت، سُوئے مدینہ، گنبدِ خضرا، گل جاں، قریۂ سنگ، مدحتِ سرورِ عالم، اہلِ بقا، سرِ کوہِ صفا، رنگِ فنا، دیارِ جاں، رہینِ احساں، طاقِ افلاک، سرِ عرش بریں، جوارِ مکہ، حرفِ التجا، حرفِ تسلی، نقشۂ صحرا، ارض پاک، خیالِ خواجۂ بطحا، کشتِ تمنا، رنگ و بو، نگاہِ فیض، جمالِ شہرِنبی، کعبۂ دل، لوحِ زماں و مکاں، نگارخانۂ قصرِ شہاں، بہارِ عشقِ نبی، حلقۂ چارہ گراں، شاخِ خزاں، درِ قبول، آلِ عبا، عمرِ جاوداں، گلِ مراد، طلوعِ حسنِ بصیرت، فراتِ عصر، صبحِ اُمید، نقشِ سادہ، سالارِ کارواں، محبوبِ سبحانی، آیاتِ قرآنی، جمالِ طیبہ، راحتِ سائبان، درِ غارِ حرا، لوح، ادراک، فکر و نظر، ظلمتِ شب، ماہ تابِ مبیں، حسرتِ مدحتِ شہِ بطحا، گوشۂ چشمِ تر، قریۂ نور، کتابِ مبیں، سایۂ سیّدالابرار، عہدِ مواخات، لوحِ تاریخ، سحابِ مبیں، عرصۂ ہجر، شہرِ انوار، صبحِ مدحت، مدحِ شہِ والا، انبوہِ یاس، کشتِ سخن، صدق و صفا، ربّ دوعالم، نخلِ جاں، شاخِ ثنا، ساعتِ مہرباں، شہرِ انوار، نسیمِ طیبہ، کارِ فضول، آہنگ ثنا، رشکِ کہکشاں، صفحۂ دل، شہرِ رحمت، دلِ زار، اُسوۂ کامل، حسرتِ طیبہ، ورق زیست، ساعتِ فجر، اسیرِ نسیمِ طیبہ، عفو و رحمت، خواہشِ خلد، بریں، کارزارِ حیات، ریاضِ جنہ، فردوسِ سخن، موجِ کرم، صورتِ التماس، صفحۂ جاں، خلدِ نظر، داغِ عصیاں، مشعلِ عشقِ نبی، لطفِ حضوری، ہجومِ صحنِ حرم۔
اس معروضے کے آغاز میں راقم الحروف نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اس کائنات کی ہر تخلیق اپنے خالق کی ذہنی اپج کی آئینہ دار ہے۔ تاہم رسولِ اکرمﷺ موجبِ تخلیقِ کائنات ہیں اور ان سے منسلک ہوجانے والا غیرفانی ہوجاتا ہے۔ عمران نقوی نے اپنے افکار و اشعار کو رسولِ پاکﷺ سے منسوب کرکے انھیں دوام عطا کردیا ہے اور ان کے نعتیہ اشعار نے انھیں حیاتِ ابدی عطا کردی ہے۔ اس منزلت کے باوجود عمران نقوی گکا عاجرانہ موقف سینے اور مجھے اجازت دیجیے:
نعت کا حق ادا نہیں ہوتا
لاکھ حسنِ بیاں تلاش کروں
{٭}

عمران نقوی کا نعتیہ منظرنامہ عمران نقوی کا نعتیہ منظرنامہ Reviewed by WafaSoft on September 08, 2019 Rating: 5

No comments:

Comments

Powered by Blogger.