Best Wall Stickers

نقیبِ عشقِ رسول ﷺ۔۔۔ حافظ مظہرالدین

عزیزؔ احسن۔ کراچی



نقیبِ عشقِ رسول ﷺ۔۔۔ حافظ مظہرالدین



نعتیہ شاعری جس اعلیٰ سنجیدگی (higher seriousness) کی متقاضی ہے اس کے لیے شاعر کا اپنے موضوع (نعتیہ شاعری کی نزاکتوں) سے آگاہ ہونا ،اسلوب میں متانت اورلطافت، بیان میں شائستگی اور فنی خلوص پیدا کرنا ضروری ہے۔علاوہ ازیں اظہار میں شعری جمالیات کا خیال رکھتے ہوئے افصح العرب جناب محمد رسول اللہﷺ کی مدح میں خامہ فرسائی کی سعی کی جائے اور جذبے کی صداقت برقرار رکھی جائے تو بقول غالب :
شعر خود خواہشِ آں کرد کہ گردد فن ما
حافظ مظہرالدین کے نعتیہ کلام میں جملہ خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ان کے کلام کی سب سے اہم صفت یہ ہے کہ ہر لفظ کے عقب میں سوزِ دل ، عشقِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیم کی حرارت اور فنی خلوص کے رنگ جھلکتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
کائنات کا سارا نظام نوری نظام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا تعارف بھی اسی حوالے سے کروایاہے :
سیماب اکبرآبادی نے آیۂ نور کا ترجمہ کچھ اس طرح نظم کیا ہے:
ہے خدا کے نور سے ارض و سما میں روشنی
اور یہ ہے اک مثالِ (خاص) اس کے نور کی
جیسے ہو اک طاق ،اور اس میں چراغِ (پر ضیا)
ہو چراغ اک شیشے کی قندیل میں رکھا ہوا
اور وہ شیشہ ستارے کی طرح ہو ضو فشاں
(تیل سے)زیتون کے جو ہے مبارک ( بے گماں)
جل رہا ہے (وہ چراغِ عظمت و جاہ و شرف)
جس کا رخ مشرق کی جانب ہے نہ مغرب کی طرف
تیل اس کا جیسے دینے کو ہے خود ہی روشنی
چاہے آگ اس سے نہ ہو مس (از رہِ پاکیزگی)
نور پر ہے نور،یعنی روشنی پر روشنی
جس کو وہ چاہے دکھائے راہ اپنے نور کی٭۱
اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنے نور کی مثال دے کر اپنی ذات کا تعارف کروایا ہے وہیں اپنے نبی حضرت محمد مصطفیﷺ کا تعارف بھی ’’نور‘‘ ہی کے حوالے سے کروایا ہے۔سورۂ مآئدہ کی آیت کا ترجمہ ہے:
بے شک تمھارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور کتابِ روشن۔۱۵:۵٭۲
تفسیری حاشیے میں مولانا نعیم مرادآبادی نے وضاحت کی:
سیّدِ عالمﷺ کو نور فرمایا گیا کیوں کہ آپ سے تاریکیِ کفر دُور ہوئی اور راہِ حق واضح ہوئی۔
یہاں اس مثال سے واضح ہوا کہ ایک نور اللہ کا ہے ، ایک نور اس کے نبی کا۔ چناںچہ ایک نور ’’واجب الوجود‘‘ اور دوسرا نور ’’ممکن الوجود‘‘ کے نام سے پہچاناگیا۔ حقیقتِ محمدیہ کے اس رمز کو سمجھ کر ہی حافظ مظہرالدین نے کہا:
رسول میں ہیں خدا کے جلوے،خدا کا جلوہ حجاز میں ہے
وہی ہے رنگِ رخِ حقیقت، جو رنگ حسنِ مجاز میں ہے٭۳
یہی وجہ ہے کہ حافظ مظہرالدین نے برملا خرد کی نارسائی کا اعلان کرتے ہوئے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے۔وہ کہتے ہیں:
خرد سمجھے گی کیا مفہوم سرِّ ’من رآنی‘‘ کا
خرد کی دسترس تو حلقۂ لفظ و بیاں تک ہے٭۴
اس شعر میں اس حدیث کی تلمیح آئی ہے جس میں آقائے نامدار جنابِ محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا تھا، ’’من رآنی فقد را الحق‘‘جس نے مجھے دیکھا اس نے حق دیکھا‘‘۔ اس حدیث کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ جس نے مجھے دیکھا اس نے مجھے ہی دیکھا۔دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جس نے مجھے دیکھا اس نے حق (اللہ تعالیٰ) کو دیکھا۔ دونوں مفاہیم اہلِ علم اور اہلِ تصوف میں رائج ہیں۔ حافظ صاحب نے متصوفانہ مفہوم کی طرف اشارہ کیا ہے کیوں کہ یہی ان کی روحانی واردات اور عرفانِ حق کا تقاضا تھا۔اسی مفہوم کا ایک اور شعر:
حق کا مفہوم ہے معنیٰ اُن کا
حق کی تصویر ہے صورت اُن کی٭۵
اس شعر میں معنیٰ [مجرد Abstraction ] اور صورت[مادی شئےConcrete ] کے تضاد سے بھی لطف پیدا کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا نور صورت سے پاک ہے نبی کا نور صورت میں جلوہ پیدا کررہا ہے۔ اسی متن کا ایک اور شعر دیکھیے:
جمالِ حق کا ہے آئینہ ذاتِ پاکِ نبی
جو ان کو دیکھ لے وہ آدمی خدا سے ملے٭۶
انسان کی روح ’’امرِ رب‘‘ ہے ۔اللہ نے خود ہی مٹی کے جسم میں روح پھونکی تھی۔’’نفخ‘‘ روح کے بارے میں قرآنِ کریم میں متعدد بار ذکر ہوا ہے، مثلاً سورۂ السجدہ میں ہے:
ثُمَّ سَوّٰئہُ وَنَفَخَ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِہٖ (السجدہ :۹)
پھراس کی نوک پلک سنواری اور پھونکی اس میں اپنی روح۔٭۷
اللہ تعالیٰ کی ذات پاک نور ہے تو اس کا امر بھی نور ہے اس لیے یہ امر بھی ممکن الوجود نور کی شکل میں ہے۔اب نور کے تین درجے متعین ہوئے۔ایک اللہ تعالیٰ کا ذاتی نور جو واجب الوجود ہے۔دوسرا نورمحمدمصطفیٰﷺ کا نورجس کی تخلیق سب سے پہلے ہوئی،تیسرا وہ جزوی نورجوآدم علیہ السلام کے جسم میں بصورتِ ’’امر‘‘ پھونکا گیا۔آدم علیہ السلام اور ان کی ذریت کے جسدِ خاکی میں پھونکی جانے والی روح (امرِ رب) بھی اسی نور کا جزو ہے جو نور اللہ تعالیٰ نے پہلے پہل تخلیق فرمایا تھا، جس کی طرف حدیث شریف میں ’’اَوَّلُ ماَ خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ‘‘(یعنی پہلی چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی وہ میرا نور ہے، سر دلبراں،سید محمد ذوقیؔؒ) کے الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے۔
حضورﷺ کے نور کی تخلیق، تخلیقِ اوّل تھی ،اس ضمن میں حدیثِ جابر رضی اللہ عنہ معروف ہے۔ امام نبہانی نے جواہر البحار میں لکھا ہے :
حدیثِ جابرؓ ہے ’اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے حضور نبیِ اکرمﷺ کی روح منور کو پیدا فرمایا پھر عرش و کرسی اور لوح اور عالم پست و بالا (وغیرہ تمام اشیا کو اس روح مقدس سے پیدا فرمایا) اور حدیثِ پاک میں ان اشیا کی تخلیق کی ایسی واضح ترتیب بیان کردی گئی ہے کہ اس میں کوئی اشکال نہیں رہا کہ تمام اشیا حضور نبی اکرمﷺ کی فرع ہیں اور آپ ان کی اصل ہیں۔٭۸
کائنات میں ایک اصول کارفرما ہے۔ ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ کل شیئٍ یرجع الیٰ اصلہٖ یہی وجہ ہے کہ انسان کا جزوی نور(روح) بھی کلی نور سے اتصال کا خواہش مند رہتا ہے۔تب ہی تو صوفیانہ شاعری میں فراق کا شکوہ جا بجا ملتا ہے۔
بشنو از نے چوں حکایت می کند
وزجدائی ہا شکایت می کند
(مولاناجلال الدین رومی)
بانسری سنو کس طرح اپنی کہانی بیان کررہی ہے ۔وہ اپنی اصل سے جدائی کی شکایت کررہی ہے۔
غالب نے کہا:
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
یہ شکوہ شکایت اس لیے ہے کہ نورِ امر(روح) اپنی نچلی سطح پر رہنے کے لیے آمادہ نہیں اسے صعود چاہیے کیوں کہ وہ اپنی اصل اور کل کی طرف لوٹنا چاہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے رسولِ اکرم جنابِ محمد مصطفیٰﷺ کی شکل میں ’’نور‘‘ کی اوّلین تخلیق فرمائی اور اسے انسانی صورت عطا فرما دی۔ اس حقیقت کو غالب نے اس طرح بیان کیا:
منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی
قسمت کھلی ترے قد و رخ سے ظہور کی
یہی وجہ ہے کہ اللہ ربّ العزت نے حضورِ اکرمﷺ کی ذاتِ اقدس کو انسانوں کے لیے منبعِ محبت بنادیا۔ انسانی دنیا میں تمام سعید روحیں اللہ سے محبت کے تقاضے پورے کرنے کے لیے رسول اللہﷺ کی محبت میں مبتلا ہوتی ہیں۔کیوں کہ نورِ کل کی طرف صرف اسی واسطے سے سفر طے ہوسکتا ہے۔اقبال نے اس حقیقت کا بیان اس طرح کیا :
ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو
آں کہ از خاکش بروید آرزو
یا زِ نورِ مصطفٰے اُو را بہاست
یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفیٰ است
(اے مخاطب، زندہ رود!) تو جہاں کہیں بھی رنگ و بو کی دنیائیں دیکھ رہا ہے۔ ہر جہان جس کی خاک سے آرزوئیں [کمال حاصل کرنے کی تمنائیں] جنم لے رہی ہیں۔یا تو اس کی قیمت [اور چمک دمک] نورِمصطفوی کے طفیل قائم ہوچکی ہے یا وہ نورِ مصطفیٰﷺ کی تلاش میں سرگرداں ہے۔٭۹
حافظ مظہرالدین کے کلام میں نورِ مطلق سے اتصال کے لیے تڑپ اور عشقِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی وہ حرارت محسوس ہوتی ہے جو حقیقتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے ادراک کی غماز ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا شعرِ عقیدت اس حقیقی تڑپ کا نمائندہ شعرِ عقیدت ہے جس کا اظہار محض شعری آمد کی لمحاتی واردات میں نہیںہو سکتا۔یعنی یہ نعتیہ شاعری ایک مسلسل قلبی تعلق، ہمہ وقتی لگاؤ اورشب و روز کی ریاضتِ فکر و فن کے نتیجے میں ظہور میں آئی ہے۔کسی تحریک، کسی موسمی لہر، کسی لمحاتی غرض یا کسی جذبۂ نمائش کے طور پر ایسی شاعری کا نہ تو مافیہِ بنت میں آسکتا ہے اور نہ ہی اسلوب پیدا ہوسکتا ہے۔گویا اس شاعری کا محرک اول و آخر صرف ایک جذبہ ہے ، جذبۂ عشقِ مصطفیٰﷺ ۔رومی ؒ نے کہا تھا:
مرحبا اے عشقِ خوش سودائے ما
اے طبیبِ جملہ علتہائے ما
یہی عشق، حافظ مظہرالدین کی جملہ علتوں کا طبیب ہے اور اس عشق کی منزل نورِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے اتصال کی آرزو کی تکمیل ہے۔اس لیے شاعرکا سب سے پہلا دعویٰ تو احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں یہ ہے:
مقصدِ بزمِ کن فکاں ہیں حضور
وجہِ تخلیقِ دو جہاں ہیں حضور٭۱۰
پھر کہتے ہیں :
حسنِ تخلیق و باعثِ تخلیق
نازشِ دو جہاں، قرارِ حرم٭۱۱
حقیقتِ محمدیﷺ کے ادراک کے بغیر یہ بات اظہار میں آنا ممکن تو ہے، صرف علم کی بنیاد پر بھی یہ کہا جاسکتا ہے۔ لیکن حافظ مظہرالدین کے کلام کی اثریت ظاہر کررہی ہے کہ یہ بات کلیم کے روحانی مشاہدات کاحصہ بھی بن چکی ہے۔ حضورِ اکرمﷺ کے اس مقامِ بلند تک عقل کی نارسائی نے بہت سے لوگوں کو بھٹکایا۔کچھ نے حضورِ اکرمﷺ کی مثال پیدا کرنے پر اللہ کی قدرت کے دلائل دینے کی کوشش کی تاکہ حضورِ اکرمﷺ کی یکتائی کی حقیقت کو چھپایا جاسکے تو کسی نے ’’مقصودِ کائنات‘‘ کے تصورمیں حضورِ اکرم کے ساتھ کچھ اور ہستیوں کو جوڑنے کی سعی کی۔یہ دونوں رویے افراط و تفریط کے ذیل میں آتے ہیں۔حافظ مظہرالدین کا دینی علم اور حقائق کا ادراک اتنا کامل تھا کہ وہ افراط و تفریط سے بچ کر اپنی بات بڑے واضح انداز اور شاعرانہ اسلوب میں بیان کرتے ہوئے حضورِاکرمﷺ ہی کو وجہ تخلیقِ عوالم قرار دیتے رہے۔ایک اور شعر دیکھیے:
ترے ظہور سے پھیلے ہیں سرمدی جلوے
تجلیات کا عالم ترے ظہور سے ہے٭۱۲
حقیقت کے اسی ادراک نے انھیں عشق کی منزلیں طے کروادیں تو وہ پکار اُٹھے!
مرے رنگِ نعت میں ہے مرے دل کا سوز شامل
بہ زبانِ شعرو نغمہ مرا عشق بولتا ہے٭۱۲
بہ زبانِ شعر و نغمہ شاعر کے ’’عشق‘‘ کی پکار کا یہ اسلوب کوئی معمولی اسلوب نہیں ہے۔ حافظ مظہرالدین کی شاعری میں ان کا عشق ضور ریز ہے اور اس کی حرارت قاری کو بھی محسوس ہوتی ہے۔
ایک عاشقِ صادق کی پکار کیا ہے، ملاحظہ ہو:
وہ سودائی ہوں جس کو ان کے بام و در سے نسبت ہے
وہ دیوانہ ہوں جس کا ربط ان کے آستاں تک ہے٭۱۴
یہی دیوانگی ہے جس نے حافظ مظہرالدین کو عشق کا پروانہ بنا دیا اور فرزانگی کے نکات شعری پیکر میں ڈھل کر ان کے قلم سے قرطاس پر بکھرنے لگے۔اس مرحلے پر وہ بھی اقبال کی طرح ’’خرد‘‘ کی کور چشمی کا حوالہ دے کر ’’اہلِ دل‘‘ (اہلِ عشق،اہلِ جنوں اور اہلِ حال) کی بصیرتوں کے احوال بیان کرنے لگے :
خِرَدْ اب بھی اسیرِ ظلمتِ اوہامِ باطل ہے
نظر ہم اہلِ دل کو جلوۂ حسنِ تمام آیا٭۱۵
اب شعر کے اساسی نکتے کی روشنی میں حافظ صاحب کے کلام کی خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں۔الیٹ نے کہا تھا:
when we are considering poetry we must consider it primarily as poetry and not as another thing.
شاعری پر بنیادی طور پر محض شاعری کی حیثیت سے غورو خوض کرنا چاہیے کسی اور شے کی حیثیت سے نہیں۔٭۱۶
یہی وہ نکتہ ہے جس پر مطلوبہ توجہ صرف نہ کرنے کے باعث اردو کی نعتیہ شاعری آج تک نقادانِ ادب کی نظر میں بہت ہلکی اور غیر ادبی شاعری رہی ہے۔نعتیہ شاعری کو بطور فن محسن کاکوروی نے اپنایا اور کمال تک پہچادیا لیکن ان کے بعد جن لوگوں نے نعتیہ شاعری میں دلچسپی لی ان میں سے بیشتر اس موضوع کو جزوقتی توجہ ہی دے سکے۔بعض استثنائی ناموں کو چھوڑ کر بیشتر ایسے شعراء نعت کہنے کی طرف مائل ہوئے جن کا کوئی ادبی مقام نہ بن سکا۔
الحمدللہ! ہمارے عہد میں نعتیہ شاعری کی طرف رجوعِ عام کی صورت پیدا ہوئی تو بعض ایسے شعرا بھی شعرِ عقیدت کہنے کی طرف مائل ہوئے جن کی ادبی ساکھ قائم ہوچکی تھی۔ حافظ مظہرالدین ان نعت نگاروں میں ہیں جن کی ادبی حیثیت ، ان کی نعت نگاری ہی کے باعث مسلم ہے۔ پاکستان میں نعتیہ شاعری کا غلغلہ تو ضیاء الحق کے دور سے بلند ہوا لیکن حافظ صاحب کے نعتیہ نغموں کی گونج تو اس دور سے بہت پہلے سنائی دینے لگی تھی۔
شاعری میں زبان کی فصاحت، بیان کی دل کشی، فنی مہارت اور شعری بحور و اوزان میں پوشیدہ نغمگی (Internal Symphony)کا مظاہرہ ہی کسی شاعری کو لائق مطالعہ بناتا ہے اور الحمدللہ! حافظ صاحب کے کلام میں یہ تمام خوبیاں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔
فصاحت کے ضمن میں عابد علی عابد کی رائے ہے :
جس چیز کو انگریزی میں مطابقتِ الفاظ و معانی Concordance of substance with expression کہتے ہیں اسے مشرق کے نقادوں نے فصاحت کہا ہے۔ اگر یوں کہہ دیا جائے کہ فصاحت موزوں الفاظ کے انتخاب کا نام ہے تو بھی نادرست نہ ہوگا۔٭۱۷
اس معیار کی کی روشنی میں جب ہم حافظ مظہرالدین کے کلام کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کا بیشتر کلام فصاحت سے لبریز ہے۔مثلاً:
جو حُسن میرے پیشِ نظر ہے اگر اسے
جلوے بھی دیکھ لیں تو طوافِ نظر کریں٭۱۸
اس شعر میں حضورِ اکرمﷺ کے حُسن کی یکتائی کا ذکر ہے۔یہاں ’’جلوے‘‘ کا لفظ کائنات کی تمام خوب صورتیوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔یعنی کائنات کی تمام خوب صورتیوں کو بینائی میسر آجائے تو وہ بھی شاعر کی نظر کا طواف کریں کیوں کہ ’’حُسنِ‘‘ یکتا ان جلوؤں سے پوشیدہ اور شاعر کی نظر میں پیدا ہے۔فیض احمد فیضؔ نے مجازی محبوب کے لیے کہا تھا :
وہ تو وہ ہے تمھیں ہوجائے گی الفت مجھ سے
اک نظر تم مرا محبوبِ نظر تو دیکھو!٭۱۹
حافظ مظہرالدین کے شعرکا فیض کے درجِ بالا شعر سے موازنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ’’شعر عقیدت‘‘ کے لیے جس ادبی اسلوب کی ضرورت تھی، شاعر نے اس کا بھرپور خیال رکھا ہے۔اور دیکھیے:
نَفَسْ کی آمد و شد کا حیات نام نہیں
وہ زندگی ہے جو گزرے میانِ کوئے رسول
بہارِ گلشنِ عالم ہے ان کے جلوؤں سے
گلوں میں رنگِ نبی ہے چمن میں بوئے رسول٭۲۰
ان اشعار میں خیال کی ترسیل کے لیے جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ انتہائی موزوں ہیں۔ نحوی ترتیب بھی قواعد کے خلاف نہیں ہے۔تعقیدِ لفظی بھی نہیں ہے اور غرابت بھی نہیں ہے۔ اس لیے یہ کلام ترتیب الفاظ کی موزونیت کے باعث فصیح کہلائے گا۔علاوہ ازیں ان اشعار میں ایک موجود ادبی روایت اور معروف نعتیہ آہنگ کی ہم رنگی بھی ہے۔ اسی زمین میں بیدم وارثی کی بڑی مشہور نعت ہے:
عدم سے لائی ہے ہستی میں آرزوئے رسول
کہاں کہاں لیے پھرتی ہے جستجوئے رسول
حافظ مظہرالدین نے اسی زمین کو اختیار کیا اور اپنے مزاج کی انفرادیت، اسلوب کی شناخت اور بیان کی طرفگی کو برقرار رکھا۔ نورِ مصطفیٰﷺ کے علمی عرفان اور روحانی مشاہدوں کے باعث اہلِ دل اور اہلِ حال نعت گو شعرا نے قصیدہ ہائے نور لکھے ہیں۔احمد رضا خاں بریلوی کا معروف قصیدہ ہے جس کا مقطع ہے:
اے رضاؔ یہ احمدِ نوری کا فیضِ نور ہے
ہوگئی میری غزل بڑھ کر قصیدہ نور کا٭۲۱
حافظ مظہرالدین نے بھی اسی زمین میں اشعار کہے ہیں اور یہاں بھی ان کا منفرد لہجہ اور اسلوب نمایاں ہے:
یہ بھی فیضانِ کرم ہے یہ بھی صدقہ نور کا
دامنِ دل میں لیے بیٹھا ہوں جلوہ نور کا
ان کی بزمِ ناز ہے یا ایک حلقہ نور کا
رشکِ صد خورشید ہے اک اک ستارہ نور کا٭۲۲
حافظ صاحب نے اعلیٰ حضرت کی اتباع میں زیادہ تر مطلعے کہے ہیں۔ درجِ بالا دونوں مطلعوں میں بیان کی فصاحت دل موہ لینے والی ہے۔دوسرے مطلعے میں تلمیح ہے۔حضورِ اکرمﷺ نے فرمایا تھا، ’’اصحابی کا لنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم‘‘ (میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں جس کی پیروی کروگے ، ہدایت یاب ہوگے)۔ اس مطلعے میں نور کے حوالے سے ایک اور حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ اللہ کا واجب الوجود نور، نبی کا ممکن الوجود نور اور اس نور سے جو مستنیر ہوا وہ بھی نور ہی کے تلازمے سے متصف ہوگیا۔ ہدایت بھی نور ہے اس لیے اس کے لیے دنیا کی کثافت کی ظلمت میں ’’ستاروں‘‘ ہی کی مدد سے راستہ دیکھا جاسکتا ہے۔ چناںچہ ممکن الوجود نور کے ذیل میں ’’ستاروں‘‘ کی مثال انتہائی معنی خیزہے۔حافظ صاحب نے اس مطلعے میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ بیان کی لطافت اور روانی کے لیے ایک اور نعت کے چند اشعار ملاحظہ ہو ں:
جب تک بدن میں جان، دہن میں زباں رہے
لب پر ثنائے خواجۂ کون و مکاں رہے
کیف آفریں جمالِ شہِ مرسلاں رہے
پیہم نبی کا ذکر، نبی کا بیاں رہے
جاری رہے حضور کی مدحت کا سلسلہ
جب تک جیوں یہ نور کا چشمہ رواں رہے
اعجاز ہے یہ سرورِ عالم کی نعت کا
میں پیر ہوگیا مرے نغمے جواں رہے٭۲۳
آخری شعر میں شاعرانہ ’’تعلّی‘‘رقم ہوئی ،لیکن حافظ مظہرالدین کے کلام سے متبادر ہوگا کہ یہ بھی مبالغہ نہیں حقیقت ہے۔
حافظ صاحب نے تلمیحات میں براہِ راست قرآن و احادیث کے حوالے کم دیے ہیں لیکن لفظوں کے دروبست اور بیان کی ایمائی کیفیت سے تلمیح واضح کردی ہے۔جیسا کہ ہم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے شعر نقل کیا جس میں صرف ’’نور‘‘ کے تلازمے سے ’’ستاروں‘‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے حدیثِ مبارک کی طرف رہنمائی کی گئی تھی۔درجِ ذیل شعر میں آیۂ قرآنی کی طرف بھی ایسا ہی اشارہ موجود ہے:
گناہ گار کو مطلوب ہے اگر رحمت
گناہ گار خجل ان کے روبرو ہوجائے٭۲۴
سورۂ نساء کی آیت نمبر ۶۴ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَآؤُکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَلَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا۔
اور اگر یہ لوگ جب ظلم کربیٹھے تھے اپنی جانوں پر تو آجاتے[اے نبی] تمھارے پاس اور معافی مانگتے اللہ سے اور مغفرت کی درخواست کرتے ان کے لیے رسول بھی تو یقینا پاتے وہ اللہ کو بڑا معاف کرنے والا۔٭۲۵
درجِ بالا شعر میں کتنے بلیغ انداز میں مغفرت طلبی اور حضورِ اکرمﷺ کی بارگاہ میں حاضری کی شرط کو دو لفظوں میں سمودیا گیا ہے، ’’خجل‘‘ اور ’’روبرو‘‘۔ظاہر ہے گناہگار جب یہ احساس کرے گا کہ اس سے اس کی اپنی ہی جان پر ظلم ہوگیا ہے تو و ہ نادم ہوگا، ندامت اسے مغفرت طلبی کی طرف مائل کرے گی۔ پھر وہ حضورِ اکرمﷺ کے در تک پہنچے گا اور ندامت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرے گا۔یہ عمل جب حضورِ اکرمﷺ کے ’’روبرو‘‘ (حضور اکرم کی دنیا میں بنفسِ نفیس موجودگی کی صورت میں ان کے دربار میں حاضر ہوکر، اورآج حضورِ اکرمﷺ کے روضۂ انور کے سامنے) ہوگا تو یقینا رحمۃ للعالمین علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کے لیے اللہ سے مغفرت کی درخواست فرمائیںگے اور اللہ تعالیٰ اس عمل سے خوش ہوکر گناہ گارپر اپنی ’’رحمت‘‘ کا در کھول دے گا، یعنی اس کی مغفرت فرمادے گا!
اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی نے بھی اس متن کو چھیڑا ہے۔ان کا شعر ہے:
مجرم بلائے آئے ہیں جآؤکَ ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے٭۲۶
اس شعر میں تلمیح کے لیے قرآن کریم کی آیتِ کریمہ کا حوالہ موجود ہے جو صنعتِ اقتباس کا کرشمہ ہے۔ تلمیح یہاں مضبوط ہے لیکن حافظ مظہرالدین کے شعر کی ایمائیت نے شعریت میں اضافہ کردیاہے۔ تلمیحاتی اشاروں کے حوالے سے ہر متن(Text) میں بین المتنیت (Intertextuality) کے شواہد موجود ہوتے ہیں۔ احمد رضا خان صاحب نے شعر کی تلمیح کی گرہ خود کھول دی ہے، جب کہ حافظ مظہرالدین نے کوئی تلمیحی اشارہ نہیں کیا ہے۔ لیکن ان کے دو الفاظ (خجل اور روبرو) کی معنویت نے تلمیح کی طرف متوجہ کردیا۔ نعتیہ شاعری میں متن کی بنت میں جتنی تلمیحات سما سکتی ہیں، شاید کسی اور شاعری میں نہ سما سکیں۔ یہ شاعر کے خلاق ذہن پر منحصر ہے کہ وہ کس تلمیح کو’’ شعر‘‘ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ میں نے شعر کی تلمیحاتی شان جانتے ہوئے ہی حافظ مظہرالدین کے شعر کا متنی رشتہ اعلیٰ حضرت کے شعر سے جوڑنے کی کوشش کی ہے اور میں حافظ صاحب کے شعر کو ’’شعریت‘‘ کے تناظر میں بہتر درجے کا شعر قرار دیتا ہوں۔خیال سے خیال کی ضو ریزی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ایک مضمون کے ہزارہا اشعار مل جاتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ بعد کے شاعر نے اپنے پیش رو کے خیال کو کتنی وسعت دی؟ اور شاعرانہ جست کے ذریعے وہ کتنا آگے گیا۔
بین المتنیت (Intertextuality) کا ذکر کرتے ہوئے ، ایک اور بات کی طرف دھیان گیا۔ روسی ہیئت پسندوں نے ادب میں اجنبیانے(Defamiliarisation) کے عمل پر زور دیا ہے۔ان کے نزدیک شاعری [یا ادب] میں تجربے کی تازگی کی بازیافت کا عمل ضروری ہے۔حافظ مظہرالدین کے جس شعر میں تلمیح بہت پوشیدہ ہے۔اس میں تلمیح کو سمجھنے کے لیے کوئی اشارہ نہیں ہے۔متن کی بنت کا یہ عمل میرے نزدیک اجنبیانے (Defamiliarisation) کا عمل ہے۔اس تکنیک سے شعر میں شعریت کا اضافہ تو ہوا ہے ، ایک قسم کا ابہام بھی پیدا ہوا۔کیوں کہ مذہبی شاعری میں کوئی بات بلا سند بیان میں نہیں آسکتی اور شعر میں حوالہ دینے کا واحد طریقہ ’’تلمیح‘‘ کا استعمال ہے۔ لیکن تجربہ پسند شاعر اپنے متن کو اس طرح تشکیل دیتے ہیں کہ بغیر حوالے کے بھی باذوق روایت آشنا قاری شعر کی معنویت تک رسائی حاصل کرلے!حافظ مظہرالدین نے شعر میں ابہام رکھنے کے باوجواپنی بات اس طرح کی ہے کہ قاری کا ذہن شعر کے مفہوم میں تلمیحی اشارے تک پہنچ جاتا ہے۔ تجدیدِ متن کی یہ ایک اچھی مثال ہے۔
ایک شعر کی معنیاتی گرہ کھولنے کی میری اس کوشش کے ذریعے مجھے اس بات پر زور دینا مقصود ہے کہ نعتیہ شاعری کے تخلیق کار اور نقاد کو بیانیے کی غیر مؤثر سادگی اور فن گریز رویے کے ماحول سے نکالنے کے لیے ایسی شعری مثالیں پیش نظر رکھنی چاہئیں۔عفو کے مضمون کا ایک اور شعر ملاحظہ ہو:
اُن سے کوئی جو طالبِ عفوِ گناہ ہو
ممکن نہیں کہ دیر ہو عفوِ گناہ میں٭۲۷
خیال، عمل کے لیے بیج کا حکم رکھتا ہے۔پہلے خیال آتا ہے پھر عمل کی صورت نکلتی ہے۔خیال کی پاکیزگی کے لیے افکار کی پاکیزگی ضروری ہے۔افکار کی پاکیزگی کے لیے فکر کا تابعِ وحیٔ ربانی ہونا لازمی ہے۔فکر جب وحیٔ ربانی کی بتائی ہوئی ڈگر پر چل پڑتی ہے تو انسان کی سیرت کے جوہر کھلتے اور کردار میں راست بازی کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔اسی راست بازی سے سیرت کی تعمیر ہوتی ہے۔ اس خیال کو شعری قالب میں کس ڈھنگ سے ڈھالاگیا ہے کہ روح بھی داد دینے لگتی ہے:
خالقِ سیرت و کردار ہیں تیرے افکار
ضامنِ عدل و مساوات ہے تیری تعلیم٭۲۸
یہاں ایک اہم نکتہ پیش کرتا چلوں۔کچھ لوگوں نے نعتیہ شاعری کو ضمیروں کے قضیے میں مبتلا کررکھا ہے۔وہ شاعری میں آپ جناب کے علاوہ کچھ لکھنا نہیں چاہتے اور اردو کے لفظ’’تو‘‘، ’’تیرا‘‘ وغیرہ کی مذمت کرتے ہیں۔بات صرف ادب کی نہیں زبان کے استعمال کی ہے۔محبوبِ ربّ العالمین کے لیے غزل کے پیرائے میںلکھی ہوئی نعتوں میں کہیں تو یہ پابندی نبھ جاتی ہے اور کہیں بہت مشکل ہوجاتی ہے۔درجِ بالا شعر میں تیرے افکار، تیری تعلیم وغیرہ کے الفاظ آئے ہیں، لیکن ان الفاظ کو پڑھ کر کوئی بھی صائب الفکر انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ حضورِ اکرمﷺ کی شان کے استخفاف کا باعث بنے ہیں۔بات لفظوں کے برتنے کی ہے۔شاعری کے تقاضے اور ہوتے ہیں، نثر کے تقاضے اور۔اس لیے میں حافظ مظہرالدین کے اس شعر کے حوالے سے صرف اتنا کہہ کر آگے بڑھنا چاہوںگا کہ نعتیہ شاعری میں ضمیروں کے استعمال کو تنازُع کا باعث نہیں بننا چاہیے ۔کیوںکہ حقیقی شاعر کسی لفظ کو برتنے کے لیے کسی خاص لغوی نصاب کا پابندنہیں ہوسکتا۔ اس ضمن میں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ قدماء آج کے مسلمان سے بہتر مسلمان اور آج کے نعت گو شعرا سے زیادہ ادب آداب سے واقف تھے۔حافظ مظہرالدین اور دیگر اساتذہ نے اگر قدماء کی تقلید کی ہے تو آج ان کی تقلید کرنے والوں کو مطعون نہیں کیا جاسکتا۔
حافظ مظہرالدین کا زورِ بیاں ان کی نظموں میں کھل کر سامنے آتا ہے۔انھوںنے ’’سفر نامۂ حجاز‘‘ مثنوی کی ہیئت میں نظم کیا ہے۔ یہ مثنوی بڑی رواں دواں بحر (بحرِ ہزج مسدس اخرب محذوف، مفعول، مفاعلن فعولن )میں ہے۔ محسن کاکوروی نے اس بحر کو خوب برتا ہے۔ ان سے قبل پنڈت دیا شنکر نسیم نے اس بحر میں ’’گلزارِ نسیم‘‘ لکھی تھی۔ وہ لکھتے ہیں:
کیا لطف جو غیر پردہ کھولے
جادو وہ جو سر پہ چڑھ کے بولے
غم راہ نہیں کہ ساتھ دیجے
دکھ بوجھ نہیں کہ بانٹ لیجے
انسان و پری کا سامنا کیا
مٹھی میں ہوا کا تھامنا کیا
آتا ہو تو ہاتھ سے نہ دیجے
جاتا ہو تو اس کا غم نہ کیجے
ہوتا ہے وہی خدا جو چاہے
مختار ہے جس طرح نباہے
محسن کاکوروی نے اسی بحر میں مثنوی کے پھول کھلائے اور فن کو کمال تک پہنچادیا۔
آنکھوں کو تلاشِ جلوۂ رب
کانوں میں صدا ئے نَحْنُ اَقْرَبْ
آیا سوئے بزمِ لِیْ مَعَ اللہ
آئینے میں جیسے پرتوِ ماہ
نزدیکِ خدا حضور پہنچے
اللہ اللہ دور پہنچے
تھی اوج پہ شانِ مصطفائی
دکھلاتی تھی بندگی خدائی
یہ مثنویاں تو موضوع کی تعیین کے ساتھ نہیں تھیں اور اگر تھیں بھی تو اِن میں تخئیل کے لیے پرواز کی گنجائش تھی۔ لیکن ’’سفر نامہ‘‘ کچھ بیانیہ قسم کی شاعری کا متقاضی تھا۔بیانیہ شاعری میں امیجری کی گنجائش صرف اعلیٰ تخلیقی صلاحیت رکھنے والے فن کار ہی نکال سکتے ہیں۔روسی ماہرِ نفسیات وائیگا ٹسکی (Vygotsky) کا کہنا ہے کہ تخلیقی سوچ تخئیلی(Imaginative) ہوتی ہے۔ تخلیق کار کی خود آگہی اور خود اعتمادی اپنے غیرشعوری محرکات کی عطا کو ثمر بار بنانے کے لیے عام تعقلات سے ہٹ کر متضاد رویوں سے ایک ایسی ان جانی اور انوکھی راہ تلاش کرتی ہے جو تحیر اور سرخوشی پر منتج ہو‘‘(۲۹)۔ حافظ مظہرالدین نے بھی سفر نامۂ حجاز منظوم کرنے میں تحیر اور سرخوشی کے عناصر سے وجد آفریں ماحول پیدا کیا ہے۔ انھوںنے بڑی سرشاری کی کیفیت میں یہ سفر نامہ نظم کیا۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
میں اپنی ہی دھن میں گارہا تھا
کونین کو وجد آرہا تھا
نغمات تھے لب پہ عاشقانہ
جبریلؑ کی لَے تھا ہر ترانہ
ویرانۂ قاف و کوہِ الوند
تھی زیست کی راہ جس جگہ بند
ڈرتا نہیں آدمی بلا سے
دے ان کا کرم اگر دلاسے
رحمت ہو حضور کی جو یاور
ہوتا ہے سفر ،حضر سے بہتر
صدقے میں رسولِ دوسرا کے
دیکھے ہیں مزار انبیا کے
دیکھی ہے وہ مسجدِ امیہ
یحییٰؑ کا ہے جس میں پاک روضہ
منزل کے قریب تھا مسافر
با حالِ عجیب تھا مسافر
دنیا تھی خیال میں نرالی
روضے کا جمال، شہ کی جالی
چھوٹے رہِ شوق کے مشاغل
تھا سامنے میرے حُسْنِ منزل٭۳۰
حافظ مظہرالدین کے سفر نامے کے سات بند ہیں۔ہم نے پانچ بندوں سے منتخب اشعار نقل کردیے ہیں۔ ان اشعار سے شاعر کی قادرالکلامی کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ان میں زبان کا لوچ بھی ہے، روانی بھی ہے اور حقیقت کو متخیلہ کی مدد سے بیان کرنے میں جو تاثراتی اسلوب بن سکتا ہے وہ بھی اپنی پوری سج دھج سے نمایاں ہورہا ہے۔اس مثنوی کا ساتواں حصہ ’’نعت‘‘ پر مشتمل ہے ۔ اس نعت میں الفاظ کا دروبست، فکر کی جولانی، تلمیحات کی ضوریزی اور قدرتِ کلام دیدنی ہے۔فیضی ؔ کا ایک مشہور نعتیہ شعر ہے:
اُمِّیْ و دقیقہ دانِ عالم
بے سایہ و سائبانِ عالم
حافظ مظہرالدین کی مذکورہ نعت کے بیشتر اشعار میں بھی ایسا ہی فنی دروبست ہے کہ کم سے کم الفاظ میں جہانِ معانی پیدا کیا گیا ہے:
اے سیّدِ سروارنِ عالم
ہادیٔ پیمبرانِ عالم
مقصودِ حیات، نازِ تخلیق
منشائے وجود، رازِ تخلیق
دانندۂ وحیٔ آسمانی
شاہنشۂ ملکِ جاودانی
مفہومِ رموزِ ’’من رآنی‘‘
معنیٔ بقا و غیر فانی
سلطانِ جہانِ خوش جمالاں
حامیٔ و انیسِ خستہ حالاں٭۳۱
ان اشعار میں صرف الفاظ کی نشست اور موزونیت کی لمعہ ریزی نے ہی شاعر کے لہجے کو قابلِ رشک بنا دیا ہے۔ عربی مقولہ ہے ’’خَیْرَالْکَلَامِ مَا قَلَّ وَدَلَّ‘‘(بہترین کلام وہ ہے جو مختصر اور مراد کو ظاہر کرنے والا ہو)۔اچھی شاعری پر یہ کہاوت پوری اترتی ہے۔درجِ بالا اشعار بھی تقلیلِ الفاظ میں تکثیرِ معانی کی اچھی مثال کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں۔ محسن کاکوروی نے بھی جہاں نعتیہ اشعار کہے ہیں ان میں یہی التزام رکھا ہے کہ نبوی صفات خوب صورت الفاظ میں نگینوں کی طرح ضو دینے لگی ہیں۔ محسن کے ہاں بھی الفاظ کی موزونیت نے اشعار میں جان ڈال دی ہے۔ مثلاً:
محبوبِ خدا نبیٔ مرسل
صبحِ دو مینِ روزِ اول
شاہنشہِ انبیا محمد
تاجِ سرِ اصفیا محمد
مقصودِ ازل اجل و اعلیٰ
منظور حضور حق تعالیٰ
سلطانِ فلک حشم محمد
مہرِ عرب و عجم محمد
محسن کاکوروی کے ان اشعار کے ساتھ اگر حافظ مظہرالدین کے مقتبس بالا اشعار ملا دیے جائیں تو شناخت کرنا مشکل ہوجائے کہ کونسے اشعار محسن کوروی کے ہیں اور کون سے حافظ مظہرالدین کے۔ایک بڑے شاعر کے لہجے اور اسلوب کو اس طرح اپنالینے کی صلاحیت کہ شناخت مشکل ہوجائے، انتہائی درجہ مشق و مُزَاوَلَت کے بعد حاصل ہوتی ہے۔اس تقابلی اشارے سے حافظ مظہرالدین کی فنی ریاضت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
ایک شعر معراج کے حوالے سے بھی ملاحظہ فرما لیجیے:
ورائے عرش بلانے میں راز یہ بھی تھا
کہ اس جہاں کی بھی مخلوق دلربا سے ملے٭۳۲
اس شعر میں معراج کے حوالے سے ایک اہم نکتہ بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے عیسیٰ علیہ السلام تک ہر نبی سے اپنی وحدانیت کا اعلان کروایا لیکن کسی کو براہِ راست اپنا جلوہ نہیں دکھایا۔ آخری پیغام کی ترسیل جنابِ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے ذریعے ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول(ﷺ) کو اپنا دیدار کروادیا ۔مقصد یہ تھا کہ مخلوق تک جو خبراب تک وحیِ ربانی کے توسط سے پہنچ رہی تھی اور پہنچائی جارہی تھی، اسے نبیٔ آخرالزمان(ﷺ) اپنے مشاہدے کی بنیاد پر عام کریں۔ اب اس تناظر میں اس شعر پر غور کرتے ہیں تو پرت پرت معانی کھلتے جاتے ہیں۔مثلاً
٭اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی علیہ السلام کو معراج پر اس لیے بلوایا کہ عالمِ بالا کی مخلوق بھی ان سے ملے یا ان کا مرتبہ پہچان لے۔
٭اگر ’’اس جہاں‘‘ کا اطلاق ’’دنیا‘‘ پر کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ حضورِ اکرمﷺ جو اپنی دنیاوی زندگی میں اسی جہان کی مخلوق کے طور پر پہچانے جارہے تھے، وہ ، اس دنیا میں رہتے ہوئے پہلے اور آخری ’’انسان‘‘ کی حیثیت سے ’’دلربا‘‘ (اللہ تعالیٰ) سے مل لیں۔
٭معراج میں حاصل ہوجانے والی رفعتوں کے طفیل دنیاوی مخلوق (اس جہاں کی مخلوق) رسولِ اکرمﷺ کے اس ارشاد کو اچھی طرح سمجھ سکے ’’من رآنی فقد را الحق‘‘ (جس نے مجھے دیکھا اس نے حق دیکھا)۔یعنی معراج کے بعد حضورِ اکرمﷺ سے ملنے والے لوگ، نبی کی دل رُبائی (محبوبیت) سے بھی واقف ہوجائیں۔
اس طرح غوروفکر سے اس شعر میں معانی کا ایک جہان آباد نظر آئے گا۔بڑی شاعری کی ایک جہت یہ بھی ہوتی ہے کہ مفہوم کے تعین میں صرف یک رُخی تفہیم کو دخل نہ ہو۔ اس اعتبار سے حافظ مظہرالدین کی شاعری میں بڑی شاعری کاجوہر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
حافظ مظہرالدین کی قادرالکلامی کا اندازہ اس بات سے بھی ہوسکتا ہے کہ انھوںنے نظم کے لیے بیش تر کلاسیکی اصناف کا استعمال کیا ہے۔’’دیارِ حرم‘‘ کے عنوان سے انھوں نے ترکیب بند لکھا ہے۔اس ترکیب بند میں قصیدے اور غزل کی طرح ہر بند کا پہلا شعر ’’مطلع‘‘ ہے، بقیہ اشعار کے دوسرے مصرعے میں قافیے کی پابندی ہے۔اس ترکیب بند کے آٹھ بند ہیں۔ اس میں سرزمین حجاز بالخصوص مکۃ المکرمہ اور حرمِ مدینہ منورہ کے مقامات سے شاعرانہ مکالمہ کیا گیا ہے۔یہ شاعرانہ مکالمہ جذبات کے تموج ، خیال کی بلندی ،بیان کی فصاحت ،لہجے کی لطافت اور اظہار کی خوب صورتی کے باعث نعتیہ شعری کائنات میں ایک جدا گانہ شہابِ ثاقب بن گیا ہے۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:
سلام تجھ پہ ہو اے سرزمینِ ملکِ حجاز
کہ تو ہے رحمتِ رب جہاں سے سر افراز
ہیں جذب خاک میں تیری حضور کے آنسو
لٹائے تجھ پہ شہِ دیں نے سجدہ ھائے نیاز
تری ہواؤں میں پھیلی ہے بوئے زلفِ رسول
تری فضاؤں میں ہے قلبِ مصطفیٰ کا گداز
ترا جہان ہے معمور عشق و مستی سے
تری نگاہ نے دیکھا جمالِ شاہِ حجاز
تجھے نصیب ہوئے نغمہ ہائے سازِ الست
سنی ہے تونے خدا کے حبیب کی آواز
تجھی پہ اترا ہے خالق کا آخری پیغام
تھی بام و در پہ ترے جبرئیلؑ کی پرواز
مقامِ بدر وحنین واحد ترے جلوے
ہے جن سے سینے میں گرمی، ہے جن سے دل میں گداز
یہیں صحابہ کی سعیِ عمل ہوئی مشکور
یہیں تھا عشقِ جنوں خیز غلغلہ انداز
یہیں قبولِ درِ حق ہوئی دعائے حضور
مثال بن گئی خدامِ شاہ کی تگ و تاز
یہیں پہ آیا نظر خیلِ کفر کا انجام
یہیں سے نصرت اسلام کا ہوا آغاز٭۳۳
خیال کی پرواز کا یہ عالم صرف پہلے بند میں ہے تو اگلے بندوں میں کیا ہوگا، اس کا اندازہ ازخود لگایاجاسکتاہے۔سرزمینِ حجاز کے ذکرمیں مکۃ المکرمہ کے مقامات مقدسہ مثلاً مولدِ شاہِ دیںﷺ، غارِ حرا ،حرمِ کعبہ، صفا و مروہ اور منٰی اور مدینہ منور ہ میں روضۂ رسو ل اکرمﷺ اور جنت البقیع کا حوالہ بالخصوص آیا ہے۔ ایک بند میں حضورِ اکرمﷺ کے حضور استغاثہ پیش کرنے کی بھی سعی کی گئی ہے۔ ترکیب بند کے اس حصے کو اس ترکیب بند کی روح قرار دیا جاسکتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
شفیعِ حشر! گنہ گار پر بھی ایک نظر
گناہ گار بھی ہے آج حاضرِ دربار
ہوں داد خواہ کہ مغموم و سوگوار ہوں میں
ہے دل شکستہ، جگر ٹکڑے ٹکڑے، سینہ فگار
زبان کھل نہیں سکتی کہ ہے مقامِ ادب
یہ بارگاہِ مقدس، یہ آپ کا دربار
جو دل میں درد ہے وہ قابلِ بیاں بھی نہیں
جو داغ سینے میں ہیں کس طرح ہو ان کا شمار؟
حضور! آپ پہ ظاہر ہے حالِ قوم و وطن
حضور! جانتے ہیں آپ غیب کے اسرار
حضور! ایک توجہ کہ وقتِ نصرت ہے
حضور! ہوگئے دنیا میں ہم ذلیل و خوار
کرم کی ایک نظر ہو تو سب بدل جائے
نظامِ گردشِ دوراں، نظامِ لیل و نہار٭۳۴
استغاثہ پیش کرنے کے سلسلے میں بعض لوگوں کو اعتراض ہوتا ہے کہ حضورِ اکرمﷺ کی بارگاہ میں کیوں پیش کیا جائے؟براہِ راست رب تعالیٰ کی خدمت میں درخواست کیوں نہ کی جائے تو اس سلسلے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا تعارف بھی بنی نوعِ انسان سے براہِ راست نہیں کروایا ہے ۔اس نے بھی جب اپنی ’’احدیت‘‘ کی پہچان کروانے کے لیے سورۂ اخلاص نازل فرمائی تو پہلا لفظ’’قل‘ ‘ رکھاجورسول اکرمِﷺ سے مخاطبہ تھا۔ علاوہ ازیں ’’جآؤُکَ‘‘ والی آیت بھی ذہن نشین رہے۔ مغفرت طلبی کے لیے حضور کے دربار میں حاضری کا حکم ہے۔استغاثے میں اپنے گناہوں پر ندامت اور مغفرت طلبی کا مقصدپنہاں ہوتا ہے۔
دوسرا اعتراض اس مصرعے پر ہوسکتا ہے ع حضور!جانتے ہیں آپ غیب کے اسرار تو اس ضمن میں عرض ہے کہ اللہ ربّ العزت نے قرآنِ پاک میں فرمایا ہے:
وَمَا ھُوَ عَلَی الْغَیْبِ بِضَنِیْنِ (۲۴:۸۱)
اور نہیں ہے یہ( رسول)غیب (کی بات بتانے میں)ذرا بھی بخیل۔٭۳۵
مولانا شبیر احمد عثمانی اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
یعنی یہ پیغمبر ہر قسم کے غیوب کی خبر دیتا ہے ماضی سے متعلق ہوں یا مستقبل سے ۔ یا اللہ کے اسما و صفات سے یا احکامِ شرعیہ سے یا مذاہب کی حقیقت و بطلان سے یا جنت و دوزخ کے احوال سے یا واقعاتِ بعدالموت سے اور ان چیزوں کے بتلانے میں ذرا بخل نہیں کرتا نہ اجرت مانگتا ہے۔ نہ نذرانہ ، نہ بخشش۔٭۳۶
اس لیے حضورِ اکرمﷺ کی ذاتِ ستودہ صفات کو ’’اسرارِ غیب‘‘ کا دانندہ کہنا کوئی ’’شرک‘‘ کی بات نہیں ، ایک حقیقت کا اظہار ہے۔
حافظ مظہرالدین کی شاعری میں شعری اسالیب کی رنگارنگی بھی ہے اوران کے اشعار سے عقائد کی ضو بھی پھوٹ رہی ہے،عشق کی تپش بھی محسوس ہوتی ہے اور سلامت روی کا انداز بھی جھلکتا ہے۔حضرت بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
اِنَّ خُلُقَ نَبِیِّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ الْقُرْاٰنُ۔
وہ تمام اخلاق و اوصافِ حمیدہ جو قرآن مجید میں بیان کیے گئے ہیں آپ میں بدرجۂ اتم موجود تھے۔٭۳۷
اس حدیث کا مفہوم پیشِ نظر رکھ کر ذرا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:
مری نگاہ میں قرآن کا ہے یہ مفہوم
ہے لفظ لفظ جمالِ حضور کی تفسیر٭۳۸
حافظ صاحب نے بعض تلمیحات بہت خوب صورتی سے برتی ہیں۔ ایسی ہی تلمیح کی ایک مثال ملاحظہ ہو:
قلم نے پہلے پہل نامِ پاک لکھا تھا
اسی سے شان بڑھی لوح اور قلم کی ہے٭۳۹
اس شعر میں ایک حدیثِ پاک کی طرف اشارہ ہے ۔ علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے حاکم، بیہقی اور طبرانی سے ایک حدیث روایت کی ہے جس کی رو سے حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی خطا معاف کروانے کے لیے محمدﷺ کا واسطہ دیا تو اللہ تعالیٰ کے استفسار پر انھوں نے فرمایا تھا:
جب تونے میرے پتلے کو اپنے دستِ قدرت سے بنایا اور جان آفرینی کی، میں نے سر اُٹھا تو دیکھا کہ عرشِ اعلیٰ کے ستونوں پر لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا ہے۔تو میں نے جان لیا کہ جس ذات اقدس کا نام نامی تیرے اسمِ گرامی کے ساتھ مکتوب ہے یقینا وہ تیری بارگاہ میں دیگر ساری مخلوق سے اعلیٰ و محترم ہوگا۔٭۴۰
ظاہر ہے آدم علیہ السلام کے جسم اقدس میں روح آنے کے فوراً بعد جس نام سے وہ آگاہ ہوئے وہ نامِ ’’محمدﷺ‘‘ کا تھا، اور یہ بھی ظاہر ہے قلم نے ہر تحریر سے قبل اسی نام کو اللہ کے نام کے ساتھ لکھا تھا۔شاعر نے اسی لیے لوح و قلم کی شان بڑھنے کا ذ کر کیا کہ لوح پر پہلی تحریر بھی اسمِ ’’محمدﷺ‘‘ کی تھی اور اس قلم کی بھی پہلی نگارش وہی تھی۔
انسانوں نے جنابِ نبیِ کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی مدح بیان کرنے کی کوششیں تو بہت کیں لیکن ہمیشہ عجزِ فن کا اظہار کرنے پر مجبور ہوئے۔ حافظ مظہرالدین کہتے ہیں:
سخن وروں نے بہت زاویے کیے ایجاد
نہ ہوسکی ترے حُسن و جمال کی تفسیر٭۴۲
ہمارے عہد کی گمراہیوں میں سے ایک یہ ہے کہ بعض حلقے قرآنِ کریم کو سمجھنے کے لیے حدیث کی ضرورت سے استغنا کا پیغام دینے کی کوششیں کررہے ہیں۔حدیث کی حجیت کو چیلنج کیا جارہا ہے۔ حافظ مظہرالدین نے اس مسئلہ کو ایک شعر کے توسط سے روشن کرنے کی کوشش کی ہے:
اب سمجھنا ہے آسان قرآن کا
شارحِ وحی تیری زباں بن گئی٭۴۲
’’ختمِ نبوت‘‘ کا تصور، دینِ اسلام کی تکمیلیت کا اعلان نامہ بھی ہے اور نبیِ کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی عظمت کی علامت بھی۔ دین مکمل ہونے کے بعد ، انسانیت کے لیے ،کسی اور پیغام کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ اسی لیے اب کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ نبیِ کریم جنابِ محمد مصطفیﷺ کے بعد بھی کوئی ایسی ہستی ہے جس کا حکم ایسا ہی واجب العمل ہو جیسا کہ نبی کا ہوتا ہے ۔ اب تو قرآن و حدیث کی روشنی میں امت کا ہر وہ فرد جو علمِ دین میں راسخ ہو ، پیش آمدہ مسائل میں اُمتِ مسلمہ کی رہبری کا فریضہ انجام دے سکتا ہے۔ انگریز وں نے متحدہ بھارت میں ایک جعلی نبی پیدا کردیا جس نے جہاد کی فرضیت کو ساقط کرنے کی ناپاک کوشش کی۔اس ناپاک انسان کے دعوئ نبوت کے بعد شعرائے کرام نے ایسے اشعار کہنا اپنے اوپر لازم کرلیا جو اعلانِ ختمِ نبوت کا اشاریہ بن سکیں۔ حافظ مظہرالدین نے بھی اس مسئلے پر لکھا ہے:
ختم ہے سلسلۂ وحی و نزولِ جبریلؑ
کوئی پیغام نہ آیا ترے پیغام کے بعد٭۴۳
دینِ اسلام کی تکمیلیت کے اعلان کے بعد جب رسول اللہﷺ نے وصال فرمایا تو دین کے نظری اور عملی (Theoretical and Practical) دھانچے کی حفاظت کی تمام تر ذمہ داری رسول اللہﷺ کے صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے بہ حسن و خوبی سنبھالی۔ اس لیے نعت گو شعرا اپنی نعتوں میں رسول اللہﷺ کے تذکرے کے ساتھ ہی آپ کے ساتھیوں کا ذکر بھی ضروری سمجھتے ہیں۔حلقہ بگوشانِ رسولِ اکرمﷺ کے ذکر کی ترغیب سے مملو شعر ملاحظہ ہو:
آ کریں حلقہ بگوشانِ نبی کی باتیں!
کہ ہے جاں بخش بہت ذکرِ ندیمانِ جمال٭۴۴
اس شعر کی معنویت پر غور کریں تو بہت سے نکتے سامنے آتے ہیں، مثلاً:
٭ شاعر نے براہِ راست صحابہ کرام کے ذکر کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ ’’حلقہ بگوشاں‘‘ کی ترکیب استعمال کرکے اس مفہوم کو وسعت دے دی۔نبیِ کریمﷺ کا ’’حلقہ بگوش‘‘ ہونے کا مطلب ہے ، آپ کی پیروی میں کامل انسان۔جس طرح غلام اپنے آقا کے حکم کے تابع ہوتا ہے بالکل اسی طرح نبی کریم کی تعلیمات کو اپنانے والا ہر شخص آپ کا حلقہ بگوش ہے۔ اس میںزمانی قید بھی نہیں ہے۔
٭ نبی کی ذات کے لیے شاعر نے ’’جمال‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔اس جمال کی تشریح کے لیے دفتر درکار ہیں۔ مختصراً یہ عرض کیا جاسکتا ہے کہ حضورِ اکرمﷺ کی ذات کے صوری اور معنوی (اسوۂ حسنہ) محاسن کو کسی ایک لفظ کے ذریعے اجاگر کرنے کے لیے ’’جمال‘‘ سے زیادہ موزوں لفظ ذہن میں نہیں آتا۔
٭ شاعر نے صحابہ کرام رضوان اللہِ تعالیٰ اجمعین کے لیے ’’ندیمانِ جمال‘‘ کی ترکیب استعمال کی ہے۔ یعنی حسنِ مجسم کے ساتھی۔حسنِ تمام کے ساتھیوں کے لیے بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ سب صحبتِ سیّد المرسلین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے باعث ’’جمیل‘‘ بن گئے ۔
٭ شاعر نے ندیمانِ جمال کے تذکرے کو ’’جاں بخش‘‘ کہا ہے اور ’’جاں بخشی‘‘ کے تاثر کو دوبالا کرنے کے لیے ’’بہت‘‘ کا لاحقہ بھی لگایا ہے۔’’جاں بخش‘‘ کسے کہتے ہیں۔۔۔ زندگی بچانے والی شئے کو جاں بخش کہتے ہیں۔جیسے زندگی بچانے والی دواؤں کو ''Life Saving Drugs" کہتے ہیں۔کوئی ایک فرد یا افراد کا گروہ اسی صورت میں ’’جاں بخش‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے جب اس میں جاں بخشی کے تصور کی عملی تجسیم کا جوہر پایا جائے۔
٭ اب ذرا سوچئے مسلمان کی جان کس طرح بچائی جاسکتی ہے۔یہاں انسان کی نامیاتی زندگی کے بجائے نظریاتی زندگی کی بات ہے۔ نظریاتی زندگی برقرار رکھنے کے لیے ’’اسلام‘‘ کے عملی مفہوم کو سمجھنے اور اس کو نظامِ حیات کے طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے عملی نمونہ درکار ہے۔
٭ نبی علیہ السلام کے علاوہ دنیا کا کوئی انسان ’’معصوم‘‘ نہیں ہے۔’’ندیمانِ جمال‘‘ محفوظ عن الخطا ضرور ہیں، معصوم نہیں۔نبی کے بعد قیامت تک آنے والے انسان معصوم نہیں ہوںگے۔اس لیے نظریاتی زندگی قائم رکھنے کے لیے ایسی مثال موجود ہونا ضروری ہے جس میں وحیِ ربانی کی جاری مدد کے بغیر(یعنی تکمیل دین کے بعد) صرف قرآن و سنت کے متعین کردہ اصولوں کی روشنی کافی ہو۔ندیمانِ جمال یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے ایسا ہی نظام قائم کرکے دکھایا ۔اس ضمن میں اقبال سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے جو کہتے ہیں:
اسلام کی آفرینش، عقلِ استقرائی کی آفرینش ہے۔اسلام میں نبوت اپنی تکمیل کو پہنچی ہے کیوں کہ اس نے اپنے ہی خاتمے کی ضرورت کو محسوس کرلیا ہے۔اس میں یہ ادراک گہرے طور پر موجود ہے کہ زندگی کو ہمیشہ بیساکھیوں کے سہارے پر نہیں رکھا جاسکتا اور یہ کہ ایک مکمل خود شعوری حاصل کرنے کے لیے انسان کو بالآخر اس کے اپنے وسائل کی طرف موڑدینا چاہیے۔٭۴۵
٭ نظریاتی زندگی (جو مسلمان کی اصل زندگی ہے)صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے پیش کردہ اس عملی نمونے کی تجدید کی صورت میں قائم رہ سکتی ہے جونبی علیہ السلام سے بلاواسطہ سیکھا گیا ۔شاعر نے اسی لیے ’’ندیمانِ جمال‘‘ کے تذکرے کو ’’جاں بخش‘‘ کہا ہے۔
٭ شعر میں ایک لفظ ’’ذکر‘‘ آیا ہے۔ ذکر کے لیے اللہ رب العزت نے فرمایا ہے:
وَّذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔
اور نصیحت کرتے رہیں یقینا یہ نصیحت ایمان داروں کو نفع دے گی۔٭۴۶
شعر چوںکہ اردو میں لکھا گیا ہے اس لیے اردو لغات سے بھی ’’ذکر‘‘ کے معانی جان لیتے ہیں:
ذِکْرْ(کس ذ،سک ک)امذ نیز امث[قدیم]
۱۔ زبان سے یاد کرنا‘بیان کرنا‘چرچا کرنا‘تذکرہ ‘ یاد آوری۔
۲۔ یادِ خدا، اللہ کی حمد و ثنا، تسبیح و دعا۔
۳۔ (تصوف) جس چیز کے توسط سے مطلوب یاد آوے، عام اس سے کہ وہ اسما یا فعلاً یا رسماً یا جسماً یا جسمانیۃً حاصل ہو،نسیان کی ضد۔
۴۔ کسی چیز کو محفوظ کرلینا، کسی بات کا دل میں مستحضر کرلینا، حفاظت کرنا۔٭۴۷
اب شعر کے معنی یہ ہوںگے کہ نظامِ حیات کو علیٰ منہا ج النبوۃ ، جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے قائم کرکے دکھا یا، وہی نظام تمھارے لیے یاد رکھنے کے قابل ہے جس میں ’’حیات بخشی‘‘ کا عنصر صرف اس لیے ہے کہ اس میں نبی علیہ السلام کی لائی ہوئی شریعت سے سرِ مو انحراف نہیں کیا گیا۔یاد رہے کہ یہی ذکر نبی کی حیاتِ طیبہ کے عملی مظاہرے کا سبب بنے گا۔اردو لغت کے معنی نمبر ۳ پر غور کرنے سے یہ بات زیادہ واضح ہوسکتی ہے۔یہ نصیحت اہلِ ایمان کو ہمیشہ فائدہ دے گی۔
ایک شعر کے معنیاتی دائرے کی ضور یزی کی وسعتوں کا احاطہ کرنے کی تھوڑی سی کوشش میں ہم کچھ دور نکل آئے۔پھر بھی شعر کے بہت سے گوشے ایسے ہیں جن پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔
اسی نعت میں حافظ مظہرالدین نے ایک اور شعر لکھا ہے:
مانگ اللہ سے اندازِ نگاہِ صدیق
کوئی آساں نہیں سرکار کا عرفانِ جمال٭۴۸
اس شعر میں بات اور واضح ہوگئی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے سردار، افضل البشر بعد الانبیاء بالتحقیق سیّدنا ابو بکر ن الصدیق کو جیسا ’’جمالِ نبوت‘‘ کا عرفان حاصل ہوا ، وہ کسی اور کو نہیں ہوا، اس لیے اگر مسلمان کو حضورِ اکرمﷺ کی ذات اور آپ کے اسوۂ حسنہ کا عرفان حاصل کرنا ہے تو وہ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی طرح کا عرفانِ رسالت حاصل کرنے کی تمنا اور دعا کریں۔اقبال نے کہا تھا:
معنیِ حرفم کنی تحقیق اگر
بنگری با دیدۂ صدیق ؓاگر
قوتِ قلب و جگر گردد نبی
از خدا محبوب تر گردد نبی
اگر [اے مخاطب!]تو میری بات کی تحقیق کرے گا اور حضور صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی آنکھ سے نبوت و رسالت کا حسنِ تمام (نبی کا جمال) دیکھے گا تو تجھے معلوم ہوگا کہ نبی کی ذات ہی تیرے قلب و جگر کی قوت ہے اور یہ جان کر تجھے نبی کی ذات سے ،اللہ کی محبت سے بھی بڑھ کر محبت ہوجائے گی (کیوں کہ اللہ کا حسن مخفی ہے اور نبی کا حسن ظاہر)٭۴۹
اسی نعت میں حافظ مظہرالدین نے خانوادۂ رسولﷺ کی محبت کا پیغام بھی دیا ہے کہ نبی سے ان کی قرابت کا یہی تقاضا ہے ۔پھر ان ہستیوں نے دین کی تنفیذ اور عملی مظاہرے میں خلافتِ راشدہ کی مکمل حمایت کرکے آنے والے زمانوں کے لیے دین کے ڈھانچے کو اصل صورت میں برقرار رکھنے میں مدد دی ہے۔شعر ملاحظہ ہو:
حیدر و فاطمہ ہیں باغِ محمد کی بہار
ہیں حسین اور حسن سنبل و ریحانِ جمال٭۵۰
حافظ مظہرالدین کو یہ اختصاص بھی حاصل ہے کہ انھوں نے اردو کے علاوہ فارسی میں بھی طبع آزمائی کی ہے ۔ ان کی تخلیقات میں فارسی زبان کے ’’سبکِ ہندی‘‘ کا رچاؤ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ایک نعت ملاحظہ ہو:
مصحفِ روئے تو قرآنِ من است
ایں صحیفہ دین و ایمانِ من است
حجتے بر دین و ایمانِ من است
شکرِ حق در نعت دیوانِ من است
آتشِ عشقِ تو در جانِ من است
شعلہ در دامن نیستانِ من است
(یا رسول اللہﷺ !)آپ کا روئے انور ہی میرا قرآن ہے۔یہی صحیفہ میرا دین و ایمان ہے۔ میرے دین اور ایمان کے لیے ایک حجت میرا دیوان ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ یہ دیوان مبنی پر نعتِ مصطفیٰﷺ ہے۔
پارہ پارہ جیب و دامانِ من است
ایں عجب در عاشقی شانِ من است
شہرِ محبوبی کہ ایمانِ من است
قبلۂ دل، کعبۂ جان من است
عظمتِ کونین قربانِ من است
فقرِ تو سرمایۂ جانِ من است
بیں کہ تشنہ کشتِ ویرانِ من است
اے سحابِ لطف! اے ابرِ کرم
(یارسول اللہﷺ!)آپ کے عشق کی آگ میری روح میں ہے۔ میرے نیستاں کے دامن میں [آتشِ عشق ] کے شعلے ہیں۔ عاشقی میں میری عجیب شان ہوگئی ہے کہ میرا گریبان اور دامن ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ہے۔ ایک محبوب (رسول اللہﷺ) کا شہر میرے دل کا قبلہ، جان کا کعبہ اور میرا یمان ہے۔
آپ کا فقر میری جان کا سرمایہ ہے [اس لیے] دو نوں جہان کی عظمتیں مجھ پر قربان ہیں۔ اے لطف کے سحاب ‘اے کرم کے ابر، آپ ملاحظہ فرمائیے کہ میری کھیتی پیاسی اور اجڑی ہوئی ہے۔
کارواں در راہ و من در منزلے
ہر نشانِ جادہ اش جانِ من است
می نوازد ہر زماں با جلوۂ
بندہ پرور شانِ سلطانِ من است
از فیوضِ نعتِ ختم المرسلیں
آسماں گرداں بر ایوانِ من است
قافلہ راہ میں ہے اور میں ایک منزل میں۔اس قافلے کے گزرنے سے بننے والی پگڈنڈی ہی میری جان ہے۔
میرے بادشاہ [محمد مصطفٰےﷺ ]کی شان یہ ہے کہ وہ ہر زمانے میں اپنے جلوے سے نوازتے رہنے کی صورت میں بندہ پروری کا مظاہرہ فرماتے ہیں۔
جنابِ ختم المرسلینﷺ کی نعت لکھنے کا فیضان ہے کہ آسمان میری بیٹھک کے گرد چکر لگا رہا ہے۔ ٭۵۱
یہ ہے نعتیہ شاعری کا وہ ارژنگ جو اردو اور فارسی زبانوں میں حافظ مظہرالدین کے تخلیقی وجدان نے سجایا ہے۔ اس شاعری میں ،نعتیہ شاعری کے ادبی پہلوؤں اور شرعی تقاضوں کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔
ادبی اور شرعی تقاضوں کے حوالے سے یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ حافظ صاحب کے کلام میں، بشری کلام ہونے کے ناتے، کچھ اسقام بھی پائے گئے ہیں جن کی نشاندہی ضروری ہے۔
٭حافظ صاحب نے کہیں کہیں مدینہ منورہ کے لیے ’’یثرب‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جو ممنوع ہے۔ حفیظ تائب نے ایک شعر میں اس کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے۔
حکمِ نبی ہے جو اسے یثرب پکار لے
توبہ کے بعد وہ کہے دس بار طیَّبہ٭۵۲
٭اسی طرح ہمارے ادب میں فارسی کی تقلید میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت کو نام کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے ۔جو لغوی اعتبار سے مناسب نہیں ہے۔ وہ لفظ ہے ’’کبریا‘‘۔قرآنِ کریم میں کبریا دو جگہ استعمال ہوا ہے :
لَکُمَا الْکِبْرِیَآئُ فِی الْاَرْضِط
اور تم دونوں کو(زمین میں) بڑائی مل جائے۔ ٭۵۳
وَلَہُ الْکِبْرِیَآئُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِص وَھُوَالْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔
تمام بزرگی اور بڑائی آسمانوں اور زمین میں اسی کی ہے اور وہ غالب اور حکمت والا ہے۔٭۵۴
ان آیات میں’’کبریا‘‘صفت کے طورپر مذکورہے۔کسی نام کے لیے نہیں۔تفسیراحسن البیان میں صحیح مسلم ،کتاب البر، بابِ تحریم الکبر، کے حوالے سے ایک حدیثِ قدسی نقل کی گئی ہے جس میں ’’کبریا‘‘ بڑائی کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے:
اَلْعَظْمَۃُ اِزَارِیْ َوالْکِبْرِیَآئُ رِدَآئیْ۔
عظمت میری ازار اور بڑائی میری چادر ہے۔٭۵۵
میر تقی میرؔ نے بھی یہ لفظ انہی معنی میں استعمال کیا ہے:
میرؔ ناچیز مشتِ خاک اللہ
ان نے یہ کبریا کہاں پائی٭۵۶
اس کے برعکس حافظ مظہرالدین کے کلام میں بھی کہیں کہیں ’’کبریا‘‘ اللہ کے نام کے طورپر استعمال ہوا ہے جو مناسب نہیں ہے۔
٭ ایک شعر ہے:
شہِ کونین کی نازک بدنی کے صدقے
دل و جاں سیّدِ مکی مدنی کے صدقے٭۵۷
اس شعر میں ’’نازک بدنی‘‘ انتہائی درجہ سوقیانہ ترکیب ہے۔کسی عام مرد کو بھی اگر نازک بدن کہا جائے تو یہ اس کی مردانہ وجاہت کے منافی ہوگا۔چہ جائے کہ حضورِ اکرمﷺ کے لیے ایسی بات کہی جائے۔
{}لیکن ان تسامحات کی نشان دہی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ حافظ مظہرالدین نے خاص طور پر کوئی غلطی کی ہے۔یہ اغلاط تو ہمارے ادب کا حصہ ہیں اور اس میں بڑے بڑے جغادری شعرء کے نام آتے ہیں۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ حافظ مرحوم کے حینِ حیات کوئی ان معاملات کی نشان دہی کرتا تو وہ جواب دے دیتے:
ایں گناہیست کہ در شہرِ شما نیز کنند
بہرحال اس مضمون کے قاری اور مستقبل کے نعت گو کے لیے یہ نکات گرہ میں باندھ لینے کے قابل ہیں اس لیے یہاں کچھ اشارے کردیے۔
اب چند ایسے اشعار نقل کیے جاتے ہیں جن میں تغزل ،سوزِ عشقِ نبوی، زبان و بیان کی خوبیاں اور شعری حسن موجود ہے:
اے چارہ سازِ دردو الم! چشمِ التفات
میری حیات، دردو الم ہوکے رہ گئی٭۵۸
٭
دیکھ لیتا ہوں تصور میں جو دربارِ رسول
مجھ کو بے پردہ نظر آتے ہیں انوارِ رسول
جز نبی کون ہے دانندۂ اسرارِ خدا
جزخدا کون ہے دانندۂ اسرارِ رسول
دیکھ! ویران نہ ہوجائے محبت کا جہاں
جاگ ! اے جذبۂ سرشارِ فداکارِ رسول٭۵۹
٭
میں یہ کیوں یقین کرلوں کہ وہ رَہ نجات کی ہے
کہ جہاں نظر نبی کا کوئی نقشِ پا نہ آئے٭۶۰
٭
حُکْم تیرا حُکْمِ داور، فعل تیرا فعلِ حق
قول تیرا موجِ کوثر، بات تیری انگبیں٭۶۲
٭
جب صانعِ قدرت نے حسیں نقش بنائے
اے خسروِ خوباں! تجھے شہکار بنایا٭۶۲
٭
شکرِ خدا کہ اُمتِ خیرالوریٰ میں ہوں
خوش بخت ہوں کہ میرے پیمبر حضور ہیں٭۶۳
٭
راہِ نبی میں غیر پہ تکیہ حرام ہے
اے عشق آ کہ بے سروساماں سفر کریں٭۶۴
نعت دعوت الی الخیر کی ترغیب کا ذریعہ بھی ہے۔دین کی عملی صورت نمایاں کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اُمت کو بڑی خوش اسلوبی سے اپنی اصل یعنی دین کے اصلی مظاہر کی طرف لوٹنے کی دعوت دی جائے۔حافظ مظہرالدین نے بھی عشق کی سرشاری کے ساتھ ، نعرۂ مستانہ لگاتے ہوئے دعوت الی الخیر دی ہے:
غم کی کیفیتوں سے کیا حاصل
حلقۂ صاحبِ سرور میں آ
عقل کی قیل و قال میں نہ الجھ
غیب کو چھوڑ کر حضور میں آ
دامِ بوجہل و بولہب سے نکل
شاہِ کونین کے حضور میں آ
عشقِ صدیق و سوزِ روح، بلال
پردۂ غیب سے ظہور میں آ٭۶۵
٭
آکہ آغاز نئے دور کی تمہید کریں
ذرّے ذرّے کو حریفِ مہ و خورشید کریں
عشق کے نور سے دنیا میں اجالا کردیں
بوذر و خالدؓ و فاروق کی تقلید کریں
صدق و اخلاص و یقیں کا وہ سبق دہرائیں
جس کو سن کر لبِ جبریل بھی تائید کریں
کارواں لے کے سوئے منزلِ جاناں دوڑیں
وقت اگر ساتھ نہ دے، وقت کی تجدید کریں٭۶۶
یہ ایسی ہی دعوت ہے جیسی غالب نے اپنے ایک مصرع میں دی تھی:
بیا کہ قاعدۂ آسماں بگردانیم
آ کہ ہم آسمان کی گردش کے قاعدے کو [جو ہمارے موافق نہیں ہے]بدل ڈالیں [اور یوں اپنے مقاصد حاصل کریں]٭۶۷
اقبال کا تو پورا کلام ہی دعوتِ فکر وعمل کا استعارہ ہے اس لیے اگر حافظ مظہرالدین کے درجِ بالا اشعار کو پیامِ اقبال کی تجدیدی کاوش قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
چھوٹی بحر میں شعر گوئی ہمیشہ سے مشکل رہی ہے ۔کیوںکہ ایسی بحر میں شاعرکو بہت کم لفظوں میں اپنی بات کہنی پڑتی ہے۔ شعرا ایسی بحروں میں اشعار کہہ کر اپنی قادرالکلامی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔لیکن کامیابی کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔حافظ مظہرالدین کی ایک نعتیہ غزل ایسی ہے جسے میں یہاں مکمل نقل کرنا چاہتا ہوں:
ظلمتِ غم ہے میری شب
اک جلوہ اے ماہِ عرب
ہم عجمی وہ شاہِ عرب
عشق ہے کیا آزاد نسب
دامن بھی بھردے میرا
بخشنے والے ذوقِ طلب
وجہ اللہ صورت تیری
قرآں تیری جنبشِ لب
کیا عرشی اور کیا فرشی
سب تیرے خدامِ ادب
لاکھوں درود اور لاکھوں سلام
بھیج اُن پر پیہم یا رب!٭۶۸
یہ مختصر بحر بحرِ متدارک مثمن مخبون مسکن محذوذ ہے۔اس میں فعلن فعلن فعلن فع کے وزن پر ہر مصرع ہوتا ہے اور بیت میں اس کی تکرار ہوتی ہے۔ کم لفظوںمیں معنیاتی ضوپاشیاں اور لمعہ ریزیاں حافظ مظہرالدین کی درجِ بالا نعت میں محسوس کی جاسکتی ہیں۔
آخر میں کچھ ایسے اشعار پیش کرتا چلوں جن سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ نعت گوئی حافظ مظہرالدین کے لیے کیا ہے؟ اور یہ کہ انھوں نے اس فن کو کیسے اپنایا ہے۔
ہوئی تقسیم جب صبح، ازل کونین کی نعمت
مرے حصے میں حبِ ساقیٔ کوثر کا جام آیا٭۶۹
اسی بارگاہ میں ہے مرا عشق نغمہ پیرا
جہاں عقلِ خود نما کو نہیں اذنِ لب کشائی٭۷۰
٭
اے ناشناسِ لذتِ سوزو گدازِ عشق!
آ مجھ سے سن لذیذ حکایت حضور کی٭۷۱
لذت عجیب مدحِ شہِ بحر و بر میں ہے
اک کیفِ مستقل مرے قلب و جگر میں ہے٭۷۲
صرف ان چند اشعار ہی سے یہ ظاہرہوجاتا ہے کہ شاعر کا حضورِ اکرمﷺ سے تعلق قلبی، روحانی اور مستقل نوعیت کا ہے اوریہی گرمیٔ نشاطِ تصور اسے نغمہ سنجی پر اُکسا رہی ہے۔
غالب وہ خوش نصیب شاعر ہے کہ بادہ خوار ہونے کے باوجود اس کے کلام کی حرارت شعرائے حمد و نعت کو اتنی متاثرکرتی ہے کہ وہ حمد و نعت کے پورے پورے دیوان غالب کی زمینوں میں مرتب کردیتے ہیں۔بہت سے معروف نعت گو شعرا نے غالب کی زمینوں میں نعتیں کہی ہیں۔ احمد رضا خاں بریلویؒ کی بڑی مشہور نعت ہے:
پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفٰے کہ یوں
کیف کے پر جہاں جلیں کوئی بتائے کیا کہ یوں٭۷۳
فاضلِ بریلوی کا یہ مقطع، غالب کی غزل کی زمین میں ہے۔غالب نے کہا تھا:
جو یہ کہے کہ ریختہ کیوں کہ ہو رشکِ فارسی
گفتۂ غالب ایک بار، پڑھ کے اسے سنا کہ یوں٭۷۴
غالب کے مقطع کی روشنی میں فاضلِ بریلوی کا مقطع نعت کے حوالے سے اسی قسم کا تعلّی آمیز ہے ۔جس طرح غالب نے اظہارِ تعلّی کیا اور اپنے کلام کو فارسی کے مقابلے میں برتر ظاہر کیا اسی طرح اعلیٰ حضرت نے نعتیہ شاعری میں اپنے سخن میں شعریت و شریعت کے امتزاج پر فخر کیا۔ وہ کہتے ہیں:
جو کہے شعرو پاسِ شرع دونوں کا حسن کیوں کر آئے
لا اسے پیشِ جلوۂ زمزمۂ رضاؔ کہ یوں٭۷۵
حافظ مظہرالدین نے بھی غالب کی اسی زمین کو اپنا یا اور دوشعر اتنے غضب کے کہہ دیے کہ ایوانِ نعت میں سدا ان کی گونج محسوس ہوتی رہے گی:
سوچ میں تھے الم نصیب کیسے سکوں سے ہوں قریب
میں نے درودِ پاک انھیں پڑھ کے سنا دیا کہ یوں
جو یہ کہیں کہ فقر کی شان میں دل کشی کہاں
اُن کو درِ رسول کا مجھ سا گدا دکھا کہ یوں٭۷۶
ان دونوں اشعار میں زباں زدِ عام ہوجانے کی خوبی موجود ہے۔آخر ی شعر میں تو شانِ فقر میں شاعر کی اپنی عاجزی کا اظہار، کما ل کو پہنچ گیا ہے۔
حافظ مظہرالدین کے کلام کا یہ سرسری مطالعہ پیش کرتے ہوئے مجھے احسا س ہورہا ہے کہ میں نے بساط بھر گفتگو کرلی ہے ۔اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اختتامی سطور میں احسان دانش اور محمد ایوب غنی سے مستعار لوں۔احسان دانش لکھتے ہیں:
میں نے پاکستان میں بہت کم لوگ حافظ مظہرالدین صاحب جیسے رقیق القلب اور عاشقِ رسول دیکھے ہیں اور دیکھا جائے تو نعت کا حق عاشقِ رسول ہی کو پہنچتا ہے اور وہی کلام دلوں میں گداز اور پلکوں پر بادلہ لگاتا ہے۔
جو لوگ مشق و مزاولت کے بل پر نعت کہتے ہیں، وہ فنی طور پر خواہ کتنی ہی بلندکیوں نہ ہو،دل کے دروازے پر دستک نہیں دیتی، سماعت سے الفاظ اچٹتے چلے جاتے ہیں،مگر دل سے ایک مصرع بھی کہا جاتا ہے تو اس کے تاثر سے پہلے تو شاعر خود ڈھیر ہوجاتا ہے اور پھر اس تاثر اور سوز کی کرنیں دوسروں تک مار کرتی ہیں۔۔۔ حافظ مظہرالدین صاحب کی ایک ایک نعت پر لکھا جائے تو دفتر ہوسکتا ہے۔٭۷۷
محمد ایوب غنی لکھتے ہیں:
دنیائے شعرو شاعری میں نعت کو بعض نادان، مدِ فاضل تصور کرتے ہیں اور اس لیے ان کے نزدیک نعت کے فنی قواعد و محاسن کا لحاظ ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف فن کی توہین و تخریب کے مترادف ہے بلکہ خود نعت کی عظمت و پاکیزگی کے پیشِ نظر ایک طرح کی بے ادبی و گستاخی ہے۔ محبوب کے حضور ہر پیش کش حسین و متوازن انداز میں پیش کی جانی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ فن کا منصب تحسین و تزئین ہی ہے۔حافظ صاحب کی نعتیں الحمدللہ! فنی اعتبار سے بھی بے داغ ، حسین اور مزین ہوتی ہیں۔٭۷۸
ان وقیع آرا کی روشنی میں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حافظ مظہرالدین کے کلام کی تفہیم اور اس کے ادبی محاسن کی نشان دہی میں میری کوشش کے حوالے سے میرتقی میرؔ مجھے یہ کہہ کر متنبہ کررہے ہوں:
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا٭۷۹
مآخذ و منابع
٭۱۔ القرآن (سورۂ نور:آیت) ۳۵:۲۴ وحیِ منظوم، سیماب اکبرآبادی۔
٭۲۔ القرآن ۱۵:۵ (کنزالایمان) ٭۳۔ جلوہ گاہ، محمد حافظ مظہرالدینؒ، ص ۱۰۰
٭۴۔ ایضاً ص ۱۰۱ ٭۵۔تجلیات، حافظ مظہرالدین، ص ۶۷
٭۶۔ بابِ جبریل ، حافظ مظہرالدین، ص ۴۶ ٭۷۔القرآن ۹:۳۲
٭۸۔ میلا د النبیﷺ ، ڈاکٹر طاہرالقادری، ص ۱۸۲ ٭۹۔جاوید نامہ، علامہ اقبال
٭۱۰۔ تجلیات، ص ۱۰۰ ٭۱۱۔ ایضاً ص ۱۳۸ ٭۱۲۔ایضاً ص ۶۵
٭۱۳۔ ایضاً ص ۱۲۲ ٭۱۴۔جلوہ گاہ، ص ۱۰۱ ٭۱۵۔تجلیات، ص ۵۳
٭۱۶۔ The Meaning of Criticism, Kalimuddin Ahmad (First Edition,1982,National Book Foundation Islamabad) Page 21
٭۱۷۔ کشاف تنقیدی اصطلاحات، ٭۱۸۔تجلیات، ص ۹
٭۱۹۔ نسخہ ہائے وفا، فیض احمد فیض، ص ۲۷۶ ٭۲۰۔جلوہ گاہ، ص ۵۹
٭۲۱۔ حدائق بخشش ٭۲۲۔تجلیات، ص ۱۱۲ ٭۲۳۔بابِ جبریل ص ۵۹
٭۲۴۔ تجلیات، ص ۱۵۵ ٭۲۵۔القرآن ۶۴:۴ ٭۲۶۔حدائق بخشش
٭۲۷۔ بابِ جبریل ، ص ۹۱ ٭۲۸۔تجلیات، ص ۹۶
٭۲۹۔ امیجز کی جمالیات، رؤوف نیازی، اجمال، کراچی، شمارہ۔۲، ص۱۱
٭۳۰۔ جلوہ گاہ، ص ۳۰ ٭۳۱۔ایضاً ص ۳۱ ٭۳۲۔بابِ جبریل ، ص ۴۵
٭۳۳۔جلوہ گاہ، ص ۱۴۷ ٭۳۴۔ایضاً ص ۱۵۱ ٭۳۵۔القرآن ۲۴:۸۱
٭۳۶۔تفسیرِ عثمانی ص ۷۸۰ ٭۳۷۔صحیح بخاری ٭۳۸۔جلوہ گاہ ، ص ۹۵
٭۳۹۔بابِ جبریل ، ص ۵۲
٭۴۰۔خصائص الکبریٰ،(جلال الدین سیوطی) جلد ۱، ص ۵۱
٭۴۱۔جلوہ گاہ، ص ۹۶ ٭۴۲۔ایضاً ص ۱۰۸ ٭۴۳۔تجلیات، ص ۳۱
٭۴۴۔بابِ جبریل ،ص ۴۸
٭۴۵۔مسلم ثقافت کی روح، علامہ اقبال، (ترجمہ: ڈاکٹر وحیدعشرت،تجدیدِ فکریات) ص ۱۵۵
٭۴۶۔القرآن ۵۵:۵۱ ٭۴۷۔اردو لغت، اردو لغت بورڈ، کراچی۔
٭۴۸۔بابِ جبریل ، ص ۴۹ ٭۴۹۔رموزِ بیخودی، علامہ اقبال، ص ۱۶۳
٭۵۰۔بابِ جبریل، ص ۴۹ ٭۵۱۔تجلیات، ص ۷۴
٭۵۲۔وسلموا تسلیما، حفیظ تائب، ص ۱۰۳
٭۵۳۔القرآن ۷۸:۱۰ ٭۵۴۔قرآن ۳۷:۴۵ ٭۵۵۔تفسیر احسن البیان، ص ۱۱۷۵
٭۵۶۔کلیاتِ میر ٭۵۷۔ بابِ جبریل، ص ۵۴ ٭۵۸۔ایضاً ص۱۴۷
٭۵۹۔ایضاً ص۱۳۹ ٭۶۰۔ایضاً ص ۶۲ ٭۶۱۔ایضاً ص ۱۵۰
٭۶۲۔ایضاً ص ۱۵۴ ٭۶۳۔ایضاً ص ۱۵۹ ٭۶۴۔تجلیات، ص ۱۰
٭۶۵۔ایضاً ص ۱۴ ٭۶۶۔ایضاً ص ۱۵ ٭۶۷۔کلیاتِ فارسی، غالب، ص ۵۰۲
٭۶۸۔جلوہ گاہ ، ص۱۰۷ ٭۶۹۔تجلیات، ص ۵۳ ٭۷۰۔ایضاً ص ۵۱
٭۷۱۔ایضاً ص ۱۴۵ ٭۷۲۔جلوہ گاہ، ص ۹۰ ٭۷۳۔حدائق بخشش، ص ۸۴
٭۷۴۔دیوانِ غالب ٭۷۵۔حدائقِ بخشش ٭۷۶۔تجلیات، ص ۴۰
٭۷۷۔جلوہ گاہ، ص ۸ ٭۷۸۔تجلیات، ص ۷ ٭۷۹۔کلیاتِ میر، جلد ۱، ص ۱۸۲
{٭}

نقیبِ عشقِ رسول ﷺ۔۔۔ حافظ مظہرالدین نقیبِ عشقِ رسول ﷺ۔۔۔ حافظ مظہرالدین Reviewed by WafaSoft on September 08, 2019 Rating: 5

No comments:

Comments

Powered by Blogger.