ڈاکٹر ریاض مجید۔ فیصل آباد
سیّد ابوالخیر کشفی کی شخصیت کی کئی جہتیں ہیں استاد، شاعر، ناقد، بچی کچھی مگر مہنگی قدروں کے امین اور محبت کرنے والے مشفق انسا ن۔۔۔ اُن کے گھر سے لے کر مدینہ منورہ تک میری اُن سے کئی ملاقاتیں ہیں جن کی یادیں میری زندگی کا سر ما یہ ہیں اِن ملا قاتوں میں برادرم حفیظ تائب بھی شامل تھے۔ نجی ملاقاتوں سے محفلوں تک کے مکالموں میں کشفی صاحب کی گفتگو کی دل آویزی، جذب اور درد مندی خصوصاً نعتیہ مضامین افکار کے حوالے سے بہت سے رموز و مسائل میں ان کا انشراح صدر، ذوقِ سلیم اور ملکۂ تفہیم قابلِ رشک تھا اُن کی ادبی شخصیت میں کئی قرینے لَو دیتے تھے۔ خاندانی علمی پس منظر، گہرا مطالعہ اور مطالعے کے ساتھ غو ر و فکر کی عادت، وسیع المشربی کے ساتھ قرآن و سیرت سے استفادے کی عطا، ایک برکت بخش توازن، طریقت کے مسائل میں شریعت کی تحفیظ اور عقیدت کے اظہار میں عقیدے کی پاسداری۔۔۔ کئی پہلوئوں سے وہ ایک نایاب شخصیت تھے۔ شعر و شاعری کے رَچے ہوئے شعور کے سبب وہ بعض علمی اور مشکل فقہی مسائل کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بھی ہمیشہ ایک محبت آمیز سلیقے کو ملحوظ رکھتے تھے، تنقیداتِ نعت کے حوالے سے اُن کی تحریریں ہمارے نعتیہ ادب کا قیمتی سر مایہ ہیں اور نئے ناقدین کے لیے رہنما خطوط و نکات کی حامل، جن سے ہر آنے والے دور میں استفادہ کیا جائے گا۔
اُن کے تنقیدی مضامین ( اور مختلف کتابوں اور شاعروں کے حوالے سے دیباچوں اور فلیپ کی صورت) میں بعض ایسے نکات نظر آتے ہیں جو حمد و نعت، سیرتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شعر و ادب کے صالح رویوں کے مطالعات میں افکار کو آگے بڑھانے کے امکانات لیے ہوئے ہیں اُن کی تحریریں پڑھتے ہوئے جہاں قلب کو روشنی ملتی ہے وہاں ذہن کو بھی فکری اور تخلیقی سطح پر مہمیز ملتی ہے اور آگے بڑھنے اور کچھ کرنے کی تحریک ہوتی ہے۔
ضرورت اِس امر کی ہے کہ اُن کی نثری تحریروں کو قرینے سے یک جا کرکے شائع کیا جائے نیز اُن کی شخصیت اور فکر و فن کے بارے میں اہلِ علم کے تاثرات اور مضامین کی جمع آوری کی جائے اِس سے جہاں ایک طرف اُن کے تنقیدی اثاثے کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوگا وہاں تنقیداتِ نعت کے بارے میں کئی نئے مباحث اور مکا لموں کی صورت بھی پیدا ہو گی۔
۔۔۔اس بات کی وضاحت کے لیے ’’نعت رنگ‘‘ کے اشاریہ ( شمارہ: ۱تا ۲۰) میں کشفی صاحب کے مضامین پر ایک نظر ڈالیں تو گوشوارہ یوں بنتا ہے:
٭ اُردو میں نعت کا مستقبل، شمارہ ۳
٭ نعت اور گنجینۂ معنی کا طلسم، شمارہ ۴
٭ نعت کے عناصر ( ایک طویل مطالعے کی تلخیص)، شمارہ ۵
٭ نعت کے موضوعات، شمارہ، ۶
٭ غزل میں نعت کی جلوہ گری، شمارہ ۹
٭ نعت گوئی اور سیرت و نعت کی محافل کا مطالعہ، اعلیٰ تعلیم میں، شمارہ ۱۲
٭ نعت کے جگنوئوں کے تعاقب میں ماضی کا سفر، شمارہ ۱۵
٭ نعت کے جگنوئوں کے تعاقب میں، شمارہ ۱۷
یہ مضامین تنقیدِ نعت کے باب میں افکار کی نادرہ کاری سے لبر یز ہیں۔ کشفی صاحب نے جن بنیادی مباحث و مسائل پر قلم اُٹھایا ہے۔ یہ تحریریں قارئین نعت کے لیے عمومی طورپر اور گزرے سالوں میں وقفوں وقفوں سے لکھی گئیں مگر یہ آج بھی غور و فکر کو مہمیز دیتی ہیں آنے وا لے زمانوں کی گرد بھی اُن کی تخلیقی تابناکی کو دھندلا نہ سکے گی کشفی صاحب اپنی تنقید کو بھی کئی جگہوں پر تخلیق کی سطح پر لے گئے ہیں۔ یہ اُن کے اسلوب کا کمال ہے۔
عصرِ حاضر میں نعت کے روز افزوں ذوق اور تخلیقی وفور نے کامیاب منزلیں طے کی ہیں۔ نعت کے موضوع کو فکری و فنی حوا لوں سے ایک باقاعدہ فن کا درجہ دینے میں جن نعت کاروں کی سعی جمیلہ نے مؤثر اور معتبر نتائج پیدا کیے ہیں، ان میں کشفی صاحب کا نا م اور کام معاصر نعت کے تنقیدی منظر نامے میں ایک روشن حوالے کا درجہ رکھتا ہے۔ اُن کے مذکورہ بالا مضامین پر نظر ڈا لنے سے اس باب میں اُن کی تخلیقی اپچ اور نادرہ کاری کا اندا زہ ہوتا ہے۔ انھوں نے نعتیہ امور مسائل اور نکات و معاملات کو، شائستگی اور علمی انداز سے وا ضح کر نے کی خیر افزا کوششیں کی ہیں۔ شائستگی اُن کے لب و لہجہ اور زبان و بیان میں تھی جس کے پس منظر میں اُن کے حسب و نسب کی صدیوں پر محیط علمی وراثت جگمگا رہی ہے اور ’’علمی انداز‘‘ ان کے مطالعے اور گہرے غور و فکر کی وہ عادت تھی جس کے عقب میں اُن کی تعلیم و تربیت، مطالعہ اور مشاہدہ کار فرما تھا۔ انھوں نے چند مضامین میںنعتیہ رموز و مسائل کے کئی پہلوئوں میں راہنمائی کا سامان فراہم کیا ہے کئی نکات جنھیں بے بنیاد اور بے جہت مناظرہ بازی نے اُلجھا دیا تھا انھوںنے علمی استدلال سے اُن کے خد و خال واضح کیے۔ کئی مسائل کو بے ثمر مذاکرات کے گردو غبار سے نکال کرمبہم بحث کوعلمی مکالمے کی صورت دی۔ تنقیداتِ نعت کے باب میں کشفی صاحب کے افکار معاصر نعتیہ منظر نامے کا ایک اہم اور قابلِ توجہ اثاثہ ہے۔ ہمارے ہاں نعتیہ کتابوں، شاعروں پر عام تنقیدی مضامین ملتے ہیں۔ مگر نعت کے فکر و فن پر ایسے مضامین کم کم ہیں جن مین نعت کے تخلیقی محرکات، فنی مدارج اور محاسن فکری کی ارفعیت کو اس صنف کے احترا م و آداب اور تمجیدی (Celestial) شکوہ کے صحیح علمی و تنقیدی تناظر میں دیکھا گیا ہے۔
کشفی صاحب کی تحریریں نعتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے آداب و احترا م کے قرینوں سے عبارت ہیںاور صنفِ نعت کے اعلیٰ ذوق کی آبیاری کرتی ہیں۔ یہ قارئینِ نعت سے زیادہ نعت کاروں ( نعت کے شاعروں، ناقدوں، نعت خوانوں، نعتیہ مجالس کاا نعقادکرنے والوں، نعتیہ گلدستوں اور انتخابات مرتب کرنے والوں، نعت کے باب میں خصوصی شمارے شائع کرنے والے مدیروں ) کی ذہنی تربیت اور انھیں نعت کے سفر میں راست رورکھنے کا فر یضہ سرانجام دیتی ہیں۔ کشفی صاحب کی تنقیدات تازہ امکانات کے دَر وا کرتی ہیں۔ میں نے انھیں جب بھی پڑھا ہے مجھے سوچ بچار اور تخلیقِ نعت کے کئی نئے زاویوں سے آشنائی حاصل ہو ئی ہے۔
ہے آج بھی آنکھ میں جو نم کشفی کا
تا عمر رہے گا یوں ہی غم کشفی کا
کس طور رَواں رہا دل آویزی سے
’’تنقیدِ نعت‘‘ میں قلم کشفی کا
{٭}
ڈاکٹر سیّدابوالخیر کشفیؒ : ایک اہم نعت شناس
سیّد ابوالخیر کشفی کی شخصیت کی کئی جہتیں ہیں استاد، شاعر، ناقد، بچی کچھی مگر مہنگی قدروں کے امین اور محبت کرنے والے مشفق انسا ن۔۔۔ اُن کے گھر سے لے کر مدینہ منورہ تک میری اُن سے کئی ملاقاتیں ہیں جن کی یادیں میری زندگی کا سر ما یہ ہیں اِن ملا قاتوں میں برادرم حفیظ تائب بھی شامل تھے۔ نجی ملاقاتوں سے محفلوں تک کے مکالموں میں کشفی صاحب کی گفتگو کی دل آویزی، جذب اور درد مندی خصوصاً نعتیہ مضامین افکار کے حوالے سے بہت سے رموز و مسائل میں ان کا انشراح صدر، ذوقِ سلیم اور ملکۂ تفہیم قابلِ رشک تھا اُن کی ادبی شخصیت میں کئی قرینے لَو دیتے تھے۔ خاندانی علمی پس منظر، گہرا مطالعہ اور مطالعے کے ساتھ غو ر و فکر کی عادت، وسیع المشربی کے ساتھ قرآن و سیرت سے استفادے کی عطا، ایک برکت بخش توازن، طریقت کے مسائل میں شریعت کی تحفیظ اور عقیدت کے اظہار میں عقیدے کی پاسداری۔۔۔ کئی پہلوئوں سے وہ ایک نایاب شخصیت تھے۔ شعر و شاعری کے رَچے ہوئے شعور کے سبب وہ بعض علمی اور مشکل فقہی مسائل کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بھی ہمیشہ ایک محبت آمیز سلیقے کو ملحوظ رکھتے تھے، تنقیداتِ نعت کے حوالے سے اُن کی تحریریں ہمارے نعتیہ ادب کا قیمتی سر مایہ ہیں اور نئے ناقدین کے لیے رہنما خطوط و نکات کی حامل، جن سے ہر آنے والے دور میں استفادہ کیا جائے گا۔
اُن کے تنقیدی مضامین ( اور مختلف کتابوں اور شاعروں کے حوالے سے دیباچوں اور فلیپ کی صورت) میں بعض ایسے نکات نظر آتے ہیں جو حمد و نعت، سیرتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شعر و ادب کے صالح رویوں کے مطالعات میں افکار کو آگے بڑھانے کے امکانات لیے ہوئے ہیں اُن کی تحریریں پڑھتے ہوئے جہاں قلب کو روشنی ملتی ہے وہاں ذہن کو بھی فکری اور تخلیقی سطح پر مہمیز ملتی ہے اور آگے بڑھنے اور کچھ کرنے کی تحریک ہوتی ہے۔
ضرورت اِس امر کی ہے کہ اُن کی نثری تحریروں کو قرینے سے یک جا کرکے شائع کیا جائے نیز اُن کی شخصیت اور فکر و فن کے بارے میں اہلِ علم کے تاثرات اور مضامین کی جمع آوری کی جائے اِس سے جہاں ایک طرف اُن کے تنقیدی اثاثے کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوگا وہاں تنقیداتِ نعت کے بارے میں کئی نئے مباحث اور مکا لموں کی صورت بھی پیدا ہو گی۔
۔۔۔اس بات کی وضاحت کے لیے ’’نعت رنگ‘‘ کے اشاریہ ( شمارہ: ۱تا ۲۰) میں کشفی صاحب کے مضامین پر ایک نظر ڈالیں تو گوشوارہ یوں بنتا ہے:
٭ اُردو میں نعت کا مستقبل، شمارہ ۳
٭ نعت اور گنجینۂ معنی کا طلسم، شمارہ ۴
٭ نعت کے عناصر ( ایک طویل مطالعے کی تلخیص)، شمارہ ۵
٭ نعت کے موضوعات، شمارہ، ۶
٭ غزل میں نعت کی جلوہ گری، شمارہ ۹
٭ نعت گوئی اور سیرت و نعت کی محافل کا مطالعہ، اعلیٰ تعلیم میں، شمارہ ۱۲
٭ نعت کے جگنوئوں کے تعاقب میں ماضی کا سفر، شمارہ ۱۵
٭ نعت کے جگنوئوں کے تعاقب میں، شمارہ ۱۷
یہ مضامین تنقیدِ نعت کے باب میں افکار کی نادرہ کاری سے لبر یز ہیں۔ کشفی صاحب نے جن بنیادی مباحث و مسائل پر قلم اُٹھایا ہے۔ یہ تحریریں قارئین نعت کے لیے عمومی طورپر اور گزرے سالوں میں وقفوں وقفوں سے لکھی گئیں مگر یہ آج بھی غور و فکر کو مہمیز دیتی ہیں آنے وا لے زمانوں کی گرد بھی اُن کی تخلیقی تابناکی کو دھندلا نہ سکے گی کشفی صاحب اپنی تنقید کو بھی کئی جگہوں پر تخلیق کی سطح پر لے گئے ہیں۔ یہ اُن کے اسلوب کا کمال ہے۔
عصرِ حاضر میں نعت کے روز افزوں ذوق اور تخلیقی وفور نے کامیاب منزلیں طے کی ہیں۔ نعت کے موضوع کو فکری و فنی حوا لوں سے ایک باقاعدہ فن کا درجہ دینے میں جن نعت کاروں کی سعی جمیلہ نے مؤثر اور معتبر نتائج پیدا کیے ہیں، ان میں کشفی صاحب کا نا م اور کام معاصر نعت کے تنقیدی منظر نامے میں ایک روشن حوالے کا درجہ رکھتا ہے۔ اُن کے مذکورہ بالا مضامین پر نظر ڈا لنے سے اس باب میں اُن کی تخلیقی اپچ اور نادرہ کاری کا اندا زہ ہوتا ہے۔ انھوں نے نعتیہ امور مسائل اور نکات و معاملات کو، شائستگی اور علمی انداز سے وا ضح کر نے کی خیر افزا کوششیں کی ہیں۔ شائستگی اُن کے لب و لہجہ اور زبان و بیان میں تھی جس کے پس منظر میں اُن کے حسب و نسب کی صدیوں پر محیط علمی وراثت جگمگا رہی ہے اور ’’علمی انداز‘‘ ان کے مطالعے اور گہرے غور و فکر کی وہ عادت تھی جس کے عقب میں اُن کی تعلیم و تربیت، مطالعہ اور مشاہدہ کار فرما تھا۔ انھوں نے چند مضامین میںنعتیہ رموز و مسائل کے کئی پہلوئوں میں راہنمائی کا سامان فراہم کیا ہے کئی نکات جنھیں بے بنیاد اور بے جہت مناظرہ بازی نے اُلجھا دیا تھا انھوںنے علمی استدلال سے اُن کے خد و خال واضح کیے۔ کئی مسائل کو بے ثمر مذاکرات کے گردو غبار سے نکال کرمبہم بحث کوعلمی مکالمے کی صورت دی۔ تنقیداتِ نعت کے باب میں کشفی صاحب کے افکار معاصر نعتیہ منظر نامے کا ایک اہم اور قابلِ توجہ اثاثہ ہے۔ ہمارے ہاں نعتیہ کتابوں، شاعروں پر عام تنقیدی مضامین ملتے ہیں۔ مگر نعت کے فکر و فن پر ایسے مضامین کم کم ہیں جن مین نعت کے تخلیقی محرکات، فنی مدارج اور محاسن فکری کی ارفعیت کو اس صنف کے احترا م و آداب اور تمجیدی (Celestial) شکوہ کے صحیح علمی و تنقیدی تناظر میں دیکھا گیا ہے۔
کشفی صاحب کی تحریریں نعتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے آداب و احترا م کے قرینوں سے عبارت ہیںاور صنفِ نعت کے اعلیٰ ذوق کی آبیاری کرتی ہیں۔ یہ قارئینِ نعت سے زیادہ نعت کاروں ( نعت کے شاعروں، ناقدوں، نعت خوانوں، نعتیہ مجالس کاا نعقادکرنے والوں، نعتیہ گلدستوں اور انتخابات مرتب کرنے والوں، نعت کے باب میں خصوصی شمارے شائع کرنے والے مدیروں ) کی ذہنی تربیت اور انھیں نعت کے سفر میں راست رورکھنے کا فر یضہ سرانجام دیتی ہیں۔ کشفی صاحب کی تنقیدات تازہ امکانات کے دَر وا کرتی ہیں۔ میں نے انھیں جب بھی پڑھا ہے مجھے سوچ بچار اور تخلیقِ نعت کے کئی نئے زاویوں سے آشنائی حاصل ہو ئی ہے۔
ہے آج بھی آنکھ میں جو نم کشفی کا
تا عمر رہے گا یوں ہی غم کشفی کا
کس طور رَواں رہا دل آویزی سے
’’تنقیدِ نعت‘‘ میں قلم کشفی کا
{٭}
ڈاکٹر سیّدابوالخیر کشفیؒ : ایک اہم نعت شناس
Reviewed by WafaSoft
on
September 26, 2019
Rating:
No comments: