Best Wall Stickers

اردو نعت میں استغاثہ و استمداد کی روایت

ڈاکٹر محمد سہیل شفیق۔ کراچی




اردو نعت میں استغاثہ و استمداد کی روایت



نعت پر تحقیقی اور تنقیدی حوالے سے انفرادی سطح پر ٹھوس علمی کاموں کے ساتھ ساتھ جامعات میں ایم اے، ایم فِل اور پی ایچ۔ ڈی کی سطح پر کئی اہم مقالے سامنے آچکے ہیں۔ ہمارے پیش نظر بھی ایم فِل کی سطح کا ایک ایسا ہی مقالہ ہے۔ مقالہ نگار ہیں محمد یٰسین رازؔ، جن کا تعلق فیصل آباد سے ہے۔ انھوںنے ایم اے (اردو) اور ایم فِل (اردو) کی اسناد جی سی یونی ورسٹی فیصل آباد سے حاصل کیں۔ ایم فل اردو کی سند کے حصول کے لیے انھوںنے ’’اردو نعت میں استغاثہ و استمدادکی روایت‘‘کے موضوع پرمعروف اسکالر ڈاکٹر شبیر احمد قادری کی نگرانی میں تحقیقی مقالہ تحریر کیا۔ ۱۹۴؍صفحات پر محیط یہ مقالہ چار ابواب میں منقسم ہے
پیش لفظ میں مقالہ نگار لکھتے ہیں:
نعتیہ ادب سے دلچسپی کی بنا پر مجھے اگرچہ بہت سے نعت گو شعرا کو پڑھنے کا اس سے پہلے بھی اتفاق ہوا تھا مگر ایک خاص مقصد کے تحت نعت گو شعرا کا مطالعہ کرنے کا شرف اس مقالے کی وساطت سے حاصل ہوا۔ خصوصاً قدیم شعراء کے ساتھ جدید نعت گو شعرا اور ان کی نعتوں پر اہلِ علم کی آرا سے استفادہ کرنے کا موقع ملا تو نعت کی ایک وسیع اور منفرد دنیا مجھ پر عیاں ہوئی۔ اس سے ایک طرف تو میرے علم و نظر میں وسعتیں پیدا ہوئیں اور دوسری طرف نعتیہ ادب سے مزید دلچسپی کا خاطر خواہ سامان مہیا ہوا۔
باب اوّل کا عنوان ہے: استغاثہ و استمداد کا شرعی جواز۔ اس باب میں لفظ ’’استغاثہ‘‘ کی لغوی تحقیق، استغاثہ کی اقسام، استغاثہ بالقول، استغاثہ بالعمل، لفظ ’’استمداد‘‘ قرآنِ مجید کی روشنی میں، استغاثہ و استمداد احادیثِ مبارکہ اور عملِ صحابہ کی روشنی میں، سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا استغاثہ و استمداد، سیدنا قتادہؓ بن نعمان کا استغاثہ و استمداد، نابینا صحابی کا استغاثہ و استمداد، صحابی کا بارش کے لیے استغاثہ و استمداد، بعد از ممات استغاثہ و استمداد کا جواز کو زیرِبحث لایا گیا ہے۔
باب دوم کا عنوان ہے ’’اردو نعت میں استغاثہ و استمداد کی روایت‘‘ (۱۸۵۷ء تک)۔ اس باب میں تحریک آزادی سے قبل کے ان شعراء کو شامل کیا گیا ہے جن کے کلام میں ذاتی یا آشوبِ ملت کے حوالے سے استغاثہ و استمداد موجود ہے۔ اس باب کے ذیلی عنوانات یہ ہیں: نعت کا لغوی و اصطلاحی مفہوم، اردو میںنعت گوئی۔
تیسرے باب کا عنوان ’’اردونعت میں استغاثہ و استمداد کی روایت ‘‘(۱۹۴۷ء تک) ہے۔ چوتھا باب کا عنوان’’اردو نعت میں استغاثہ و استمداد کی روایت ‘‘(قیامِ پاکستان کے بعد) ہے۔ اس کے بعد ماحصل و نتائج اورماخذ و مراجع کی تفصیل دی گئی ہے۔
مقالہ نگار ابتدا میںاستغاثہ و استمداد کے بارے میں اسلامی نقطئہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اسلامی عقید ے کے مطابق استعانت، استمداد، استغاثہ، سوال اور طلب و ندا میں اللہ تعالیٰ ہی کی ذات معین و مغیث اور حقیقی مددگارہے اگر کوئی شخص قرآنِ کریم کی تعلیمات سے قطع نظر یہ عقیدہ رکھے کہ استغاثہ و استعانت اور ندا و طلب میں کوئی مخلوق اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر مستقل بنفسہ نفع و ضرر کی مالک ہے تو یہ یقینا شرک ہوگاخواہ وہ مدد طلب کرنا عالمِ اسباب کے تحت ہو یا فوق الاسباب، دونوں صورتوں میں ایسا شخص مشرک قرار پائے گا۔(ص۱)
مقالہ نگار نے اپنے موضوع پر قرآن و حدیث سے استدلال کرتے ہوئے متعدد آیات اور احادیثِ کریمہ اس سلسلے میں پیش کی ہیں۔ صحابہ کرام کے عمل سے بھی استشہاد کیا ہے۔
بعد از ممات استغاثہ و استمداد کے جواز کے بارے میں قرآن و سنت کی روشنی میں بحث کرتے ہوئے مقالہ نگار رقم طراز ہیں:
حیات بعد از موت یا قبر کی زندگی کی حقیقت قرآن و حدیث کی تعلیمات سے اسی طرح ثابت ہے جس طرح قیامت کے روز جی اٹھنا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:
کیف تکفرون باللّٰہ وکنتم امواتا فاحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم ثم الیہ ترجعون۔ (سورۃ البقرہ: آیت ۲۸ )
بھلا تم کیوںکر خدا کے منکر ہوگے حالاںکہ تم مردہ تھے اس نے تمھیں جلایا، پھر تمھیں مارے گا، پھر تمھیں جلائے گا، پھر اسی کی طرف پلٹ کر جائو گے۔
قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ میں دو زندگیوں کا بیان ہے۔ ایک وہ جو ہمیں عالمِ وجود میں آنے کے لیے عطا کی گئی اور دوسری موت کے بعد کی زندگی جو حیاتِ برزخی کہلاتی ہے۔ حیاتِ برزخی کا دورانیہ قبر میں سوال و جواب سے لے کر روزِ محشر پھونکے جانے والے صورِ اسرافیل تک طویل ہے۔
یہ ایک عام انسان کی حیاتِ برزخی کا معاملہ تھا، اب حدیثِ شہدا کے متعلق سورۃالبقرۃ کی ہی ایک آیتِ مبارکہ دیکھتے ہیں:
ولا تقولو لمن یقتل فی سبیل اللّٰہ اموات بل احیاء و لکن لاتشعرون۔ (آیت :۱۵۴)
اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انھیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمھیں خبر نہیں۔
اسی مضمون کو سورہ آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کیا ہے:
ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقون۔(آیت: ۱۶۹)
اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہر گز انھیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں۔
مزید لکھتے ہیں:
حیاتِ شہدا کے متعلق تو ہر مسلک کے پیروکار قائل ہیں۔ تاہم متعدد احادیثِ مبارکہ میں بھی کفار و مشرکین کی موت کے بعد زندگی کا ثبوت اور زندہ لوگوں کے کلام کو مرنے کے بعد سننے پر قدرت کا ثبوت پایا جاتاہے۔ غزوۂ بدر کے بعد سرورِ انبیاﷺ نے خود کفار و مشرکین میں سے قتل ہوجانے والوں کو نام بنام پکارا اور ان سے پوچھا:
ان قدوجدنا ما وعدنا ربنا حقا فھل وجدتم ما وعد ربکم حقا۔
(سورۃ الاعراف: آیت۷۴)
تحقیق ہم نے اپنے رب کے وعدے کو بالکل درست پایا سو (اے کفار و مشرکین ) تم نے بھی اپنے رب کے وعدے کو سچا پایا؟
اس موقع پر سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہِ نبوت میں عرض کیا، حضورﷺ آپ ایسے جسموں سے خطاب فرمارہے ہیں، جن میں روح ہی نہیں۔ اس پر نبی اکرمﷺ نے صحابہ سے مخاطب ہوکر فرمایا:
والذی نفس محمد بیدہ ماانتم باسمع لما اقول منھم۔
(نزھۃ القاری شرح صحیح بخاری، کتاب المغازی )
اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد(ﷺ) کی جان ہے، میں ان (کفار و مشرکین) سے جو باتیں کررہا ہوں یہ تم سے بڑھ کر سننے پر قادر ہیں۔
بخاری شریف کی اس حدیثِ مبارکہ سے توکفار اور مشرکین کی بعد ازموت برزخی زندگی میں میسر قوتِ سماعت نہ صرف عام زندہ انسانوں بلکہ صحابہ کرام کی قوتِ سماعت سے بھی بڑھ کر قرار دی گئی ہے۔ اسی لیے نبی کریمﷺ نے قبرستان کے قریب سے گزرنے والے ہر شخص کو یہ تعلیم دی کہ وہ نہ صرف اہلِ قبور کو حرفِ ندا ’’یا‘‘ کے ذریعے مخاطب کرے بلکہ ان کو سلام بھی پیش کرے۔
(ص۱۵۔۱۶)
نعت کی تعریف کے ضمن میں مقالہ نگار لکھتے ہیں:
نعت، کمالات نبویﷺ کی تفسیر ہے۔ یہ محض حضورﷺ کی منظوم توصیف کا نام ہی نہیں بلکہ حضورنبی کریمﷺ کے حقیقی کمالات کی ایسی پیش کش کا نام ہے جس سے ایمان میں تازگی اور بالیدگی اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب مداح کا دل رسول اللہﷺ کی محبت کے حقیقی جذبات سے سرشار ہوتا ہے۔(ص۲۰)
مذکورہ بالا تعریف کے بعد مقالہ نگار نے نعت کے لغوی و اصطلاحی مفہوم کے بیان میں مختلف اہل علم کی آراء پیش کرنے کے بعدلکھاہے کہ ہر وہ تحریر یا بات جو حضورﷺ کی محبت میں آپ کے متعلق کہی جائے نعت ہے۔(ص۲۳)
اردو میں نعت گوئی کے حوالے سے لکھتے ہیں:
اردو نعت گوئی کو ہم عربی اور اس سے بھی زیادہ فارسی سے الگ کرکے قیاس بھی نہیں کرسکتے۔ عربی کا جائزہ لیا جائے تو قرآن پاک سب سے بڑا حوالہ ہمارے سامنے آتا ہے۔(ص۲۴)
مقالہ نگار نے نہایت اختصار سے کام لیتے ہوئے عربی اور فارسی میں نعت کے آغاز و ارتقاء پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ (دیکھیے: ص ۲۴۔۲۴) اس کے بعد لکھتے ہیں:
(اردو میں) نعت گوئی کے دورِ جدید کا آغاز صحیح معنوں میں ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد ہوا۔ جب ملتِ اسلامیہ میں فکری انقلاب کی لے تیزتر ہوگئی تو نعت میں نیا طرزِ احساس، اجتماعی شعور پیدا کرنے والوں میں جدید اردو شاعری کے امام، مولانا الطاف حسین حالی (۱۸۳۷۔۱۹۱۴ء)، مولانا شبلی نعمانی (۱۸۵۷ء۔ ۱۹۱۴ء)، نظم طباطبائی (۱۸۵۳ء۔ ۱۹۳۳ء )، مولانا ظفر علی خان (۱۸۷۰ء۔ ۱۹۵۶ء) اور علامہ اقبال (۱۸۷۷ء۔ ۱۹۳۸ء) کے نام سرِ فہرست ہیں۔(ص۳۶)
استغاثہ و استمداد کی روایت کے حوالے سے لکھتے ہیں:
اردو نعت میں استغاثہ وا ستمداد کی روایت بھی دوسری اصناف اور موضوعاتِ نعت کی طرح عربی سے فارسی اور فارسی سے اردو میں آئی۔ اردو نعت میں استغاثہ واستمداد کی روایت کے گہرے اثرات ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد سامنے آئے ہیں جس میں انفرادیت کے ساتھ ساتھ آشوبِ ملت کو بھی بیان کیا گیا ہے۔(ص۴۱)
اس کے بعد مقالہ نگار نے ان شعرا کے کلام کا نمونہ پیش کیا ہے جن میں آشوبِ ذات کے ساتھ ساتھ آشوب ملت کا بھی تذکرہ ہے۔شعراء کی ایک طویل فہرست ہے۔ تاہم چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
اے خاصۂ خاصان رسل وقتِ دعا ہے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی
ہاں ایک دعا تیری کہ مقبولِ خدا ہے
(الطاف حسین حالیؔ)
لیجو خدا کے واسطے اس دن مری خبر
عصیاں کا جب کھلے اخبار یارسول
دونوں جہاں میں مجھ کو وسیلہ ہے آپ کا
کیا غم ہے گرچہ ہوں میں بہت خار یا رسول
(حاجی امداد اللہ مہاجر مکی)
ہم بھلے ہیں یا برے، تیرے ہی آخر ہیں غلام
ہم کو ہم چشموں میں اے آقا! نہ ہونے دے ذلیل
اے شفیع المذنبین، اے رحمۃ للعالمین!
انت کہفی، انت ھادی، انت لی نعم الوکیل
(مولانا ظفر علی خان)
میں بھی سرکارِ دوعالم کا قصیدہ لکھوں
مجھ کو بھی چادرِ سرکار عطا ہوجائے
کب اس دھوپ کے صحرا کے مصائب جھیلوں
آپ کا سایۂ دیوار عطا ہوجائے
(منیرقصوری)
لے بھی اب اپنی رحمت کی پناہوں میں اسے
امت بیمار کو دار الشفا درکار ہے
(مظفروارثی)
مدت سے بجھ رہے ہیں فلسطین کے چراغ
اذن نمود اب نئی تابانیوں کو دے
(پروفیسر کرم حیدری)
ہر گھڑی پیش ہے غمِ تازہ
زندگی کیا ہے غم کا لاوا ہے
اک تری چشمِ التفات آقا
سب کے دکھ درد کا مداوا ہے
(حافظ لدھیانوی)
مدد آقاکہ سب اقوامِ عالم ہیں بضد اس پر
مٹادیں نام دنیا سے ہمارا یارسول اللہ
(حیرت الہ آبادی)
اے روحِ تخلیق! اے شاہِ لولاک
ہوجائے پرنور کشکولِ ادراک
تیرے سوالی، تیرے طلب گار
کیا قلب محزوں کیا چشمِ نم ناک
آباد، آزاد، یہ خطۂ پاک
(حفیظ تائب)
نظر اے رحمتِ عالم! کرم اے رہبرِ ہستی
زمانہ دستِ وحشت ہے گریباں در گریباں ہے
(عاصیؔ کرنالی)
اے آقا اے سب کے آقا، ا رض و سما ہیں زخمی زخمی
ان زخموں پہ مرہم مرہم، صلی اللہ علیہ وسلم
(شورش کاشمیری)
المدد اے شہِ مکی، مدنی العربی
ہر طرف حشر کے آثار نظر آتے ہیں
(انعام گوالیاری)
مقالہ نگار نے اس بات کا اعتراف کیاہے کہ بہت سے شعرائے کرام کا تذکرہ نہ ہوسکا جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے کلام تک رسائی نہ ہوسکی یا بعض کا نعتیہ کلام دست یاب نہیں۔ پھر بھی یہ کوشش کی گئی ہے کہ رسائل اور تذکروں میں کوئی ایک شعر بھی مل سکے تو اسے شامل کرلیا جائے۔
(ص۱۷۶)
مقالہ کے آخر میں بعض غیرمطبوعہ اشعار بھی شامل مقالہ ہیں جس میں استغاثہ و استمداد کا رنگ نمایاں ہے۔ علاہ ازیں اہلِ علم کے چند خطوط کا عکس اور نعت سے متعلق کچھ سوالات اور معروف حمد و نعت گو شاعر طاہر سلطانی کے جوابات بھی شامل ہیں۔یہ غیرمطبوعہ عمدہ مقالہ ’’نعت ریسرچ سینٹر‘‘ کی زینت ہے۔ یقینا اس کی اشاعت نعتیہ ادب میں ایک اہم اضافہ ہوگی۔
{٭}

اردو نعت میں استغاثہ و استمداد کی روایت اردو نعت میں استغاثہ و استمداد کی روایت Reviewed by WafaSoft on September 17, 2019 Rating: 5

No comments:

Comments

Powered by Blogger.