ہجرت حبشہ، ایذا دہی کی انتہا،طرح طرح کی عقوبتیں
عمر ؓ کی حق پسندی سے بڑھی
اسلام کی شوکت
اسلام کی شوکت
عَلَی الاعلان اب ہونے لگی
تبلیغ کی خدمت
تبلیغ کی خدمت
قریش اب ہو چکے تھے درحقیقت
خُوں کے پیاسے
خُوں کے پیاسے
یہ باطل محو کرنا چاہتا
تھا حق کو دنیا سے
تھا حق کو دنیا سے
ستم ایجاد تھے لاکھوں
ستم ایجاد کرتے تھے
ستم ایجاد کرتے تھے
کوئی جلّاد کیا کرتا جو
یہ جلاد کرتے تھے
یہ جلاد کرتے تھے
زمین و آسماں جب دھوپ کی
گرمی سے تپتے تھے
گرمی سے تپتے تھے
غضب کی دل لگی تھی ریت
پر مسلم تڑپتے تھے
پر مسلم تڑپتے تھے
جھُلس کر سرخ ہو جاتی
تھی جب چھاتی چٹانوں کی
تھی جب چھاتی چٹانوں کی
ہم آغوشی ہُوا کرتی تھی
ان سے بے زبانوں کی
ان سے بے زبانوں کی
نِشان سجدۂ توحید تھا جن
کی جبینوں پر
کی جبینوں پر
دھرے رہتے تھے پہروں
سخت پتھر ان کے سینوں پر
سخت پتھر ان کے سینوں پر
جو ابراہیمؑ کے پوتوں کو
پھول اور باغ دیتے تھے
پھول اور باغ دیتے تھے
سلاخیں سُرخ کر کے لوگ
ان کو داغ دیتے تھے
ان کو داغ دیتے تھے
مثالِ نوح جو انسان کے بیڑے تراتے تھے
انھیں یہ لوگ پہروں آب
میں غوطے کھلاتے تھے
میں غوطے کھلاتے تھے
غلاموں تک نہ تھا محدود
یہ لطف و کرم ان کا
یہ لطف و کرم ان کا
کہ تھا ہر بندۂ توحید پر
ظلم و ستم ان کا
ظلم و ستم ان کا
ابوُبکرؓ و عُمرؓ عثماںؓ
130 علیؓ تک کو ستاتے تھے
130 علیؓ تک کو ستاتے تھے
ابُوذرؓ پر زبیرؓ و سعدؓ
پر سَو ظلم ڈھاتے تھے
پر سَو ظلم ڈھاتے تھے
وہ مصعبؓ عبدالرحمنؓ اور
جعفرؓ بن ابی طالب
جعفرؓ بن ابی طالب
وہ سب کے سب بہادر جو کہ
تھے یک جان و دو قالب
تھے یک جان و دو قالب
قیامت خیز ایذائیں غضب
کے رنج سہتے تھے
کے رنج سہتے تھے
تشدّد منع تھا اِس واسطے
خاموش رہتے تھے
خاموش رہتے تھے
وطن کی سرزمین پھرنے لگی
جب آسماں بن کر
جب آسماں بن کر
ہَوَا دم گھوٹنے کے واسطے
پھیلی دھُواں بن کر
پھیلی دھُواں بن کر
حقوقِ زندگی بھی چھِن گئے جب اہلِ وحدت سے
حَبَش کی سمت ہجرت کا ملا فرماں 131 نبوّت سے
مُسلمانوں کی اِ ک
تعداد نکلی بے وطن ہو کر
تعداد نکلی بے وطن ہو کر
حبش یعنی نجاشی کی حکومت 132 میں بنایا گھر
مگر اس امر کی جب اہلِ مکہ نے خبر پائی
تعاقُب کے لیے فوراً سفارت
ایک بھجوائی
ایک بھجوائی
مدبّر عَمرو ابن العاص 133 جوتھے اُن دنوں کافر
سفارت لے کے دربارِ نجاشی
میں ہُوئے حاضر
میں ہُوئے حاضر
نجاشی کے حضور آ کر جھُکے
ظُلم کے بانی
ظُلم کے بانی
تحائف اور نذریں پیش کر
کے عرض گزرانی
کے عرض گزرانی
کہ اے شاہِ حبش یہ سلطنت قائم رہے دائم
ہمارے شہر سے بھاگ آئے ہیں
کچھ قوم کے مجرم
کچھ قوم کے مجرم
حبش میں آ بسے ہیں ہر طرح
آزاد پھرتے ہیں
آزاد پھرتے ہیں
مبلِغ اک نئے مذہب کے ہیں
دلشاد پھرتے ہیں
دلشاد پھرتے ہیں
یہودی اور نصرانی مذاہب
سے بھی جلتے
سے بھی جلتے
نیا اِ ک دین قائم کر لیا
ہے جس پہ چلتے ہیں
ہے جس پہ چلتے ہیں
پکڑ کراس اس سفارت کے حوالے
کیجیے اُن کو
کیجیے اُن کو
اسی خاطر ہم آئے ہیں ہمیں
دے دیجیے اُن کو
دے دیجیے اُن کو
نجاشی کے مصاحب جو کہ
سب کے سب تھے نصرانی
سب کے سب تھے نصرانی
خلافِ اہلِ دیں
ہر شخص نے تائید کی ٹھانی
ہر شخص نے تائید کی ٹھانی
عمر ؓ کی حق پسندی سے بڑھی اسلام کی شوکت
Reviewed by WafaSoft
on
August 26, 2019
Rating:


No comments: